خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 18؍جون2004ء

آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں
علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے اور اس سے خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے
اپنی علمی وروحانی پیاس کو بجھانے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کی تاکیدی نصیحت
واقفین نو زبانیں سیکھنے کی طرف خصوصی توجہ دیں ۔ واقفین نو کی رہنمائی کے لئے اس شعبہ کے عہدیداران کے لئے اہم تفصیلی ہدایات
احمدی خواتین بھی اپنے علم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ بچوں کو وقت دینے کی طرف توجہ دیں
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
18؍ جون2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ۔ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُہٗ۔ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (سورۃ طہٰ آیت 115)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے۔ پس اللہ سچا بادشاہ ہے، بہت رفیع الشان ہے، پس قرآن کے پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر پیشتر اس کے کہ اس کی وحی تجھ پر مکمل کر دی جائے۔ اور یہ کہا کر کہ اے میرے رب مجھے علم میں بڑھا دے۔
اصل جو دعا اس میں سکھائی گئی ہے وہ ہے

رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا-

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعا سکھا کر مومنوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے یہ دعا صرف برائے دعا ہی نہیں کہ منہ سے کہہ دیا کہ اے اللہ میرے علم میں اضافہ کر اور یہ کہنے سے علم میں اضافے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ بلکہ یہ توجہ ہے مومنوں کو کہ ہر وقت علم حاصل کرنے کی تلاش میں بھی رہو، علم حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے رہو۔ طالب علم ہو تو محنت سے پڑھائی کرو اور پھر دعا کرو تو اللہ تعالیٰ حقائق اشیاء کے راستے بھی کھول دے گا۔ علم میں اضافہ بھی کر دے گا اور پھر صرف یہ طالب علموں تک ہی بس نہیں ہے بلکہ بڑی عمر کے لوگ بھی یہ دعا کرتے ہیں- اور اس دعا کے ساتھ اس کوشش میں بھی لگے رہیں کہ علم میں اضافہ ہو اور اس کی طرف قدم بھی بڑھائیں- تو یہ ہرطبقے کے سب عمروں کے لوگوں کے لئے یہی دعا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ

اُطْلبُواالْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدِ

یعنی چھوٹی عمر سے لے کے، بچپنے سے لے کے آخری عمر تک جب تک قبر میں پہنچ جائے انسان علم حاصل کرتا رہے۔ تو یہ اہمیت ہے اسلام میں علم کی۔ پھر اس کی اہمیت کا اس سے بھی اندازہ لگا لیں کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم یا دعا پر سب سے زیادہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا۔ اور آپؐ عمل کرتے تھے، اللہ تعالیٰ تو خود آپؐ کو علم سکھانے والا تھااور قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب بھی آپ پر نازل فرمائی جس میں کائنات کے سربستہ اور چھپے ہوئے رازوں پر روشنی ڈالی جس کو اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی شاید سمجھ بھی نہ سکتا ہو۔ پھر گزشتہ تاریخ کا علم دیا، آئندہ کی پیش خبریوں سے اطلاع دی لیکن پھر بھی یہ دعا سکھائی کہ یہ دعا کرتے رہیں کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا- بہرحال ہر انسان کی استعداد کے مطابق علم سیکھنے کا دائرہ ہے اور اس دعا کی قبولیت کا دائرہ ہے۔ وہ راز جو آج سے پندرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے بتائے آج تحقیق کے بعد دنیا کے علم میں آ رہے ہیں- یہ باتیں جو آج انسان کے علم میں آ رہی ہیں اس محنت اور شوق اور تحقیق اور لگن کی وجہ سے آ رہی ہیں جو انسان نے کی۔
آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں، زیادہ سے زیادہ کوشش کریں- کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی قرآن کریم کے علوم و معارف دئیے گئے ہیں- اور آپؑ کے ماننے والوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں انہیں علم و معرفت اور دلائل عطا کروں گا۔ تو اس کے لئے کوشش اور علم حاصل کرنے کا شوق او ر دعا کہ اے میرے اللہ! اے میرے رب! میرے علم کو بڑھا، بہت ضروری ہے۔ گھر بیٹھے یہ سب علوم و معارف نہیں مل جائیں گے۔ اور پھر اس کے لئے کوئی عمر کی شرط بھی نہیں ہے۔ تو سب سے پہلے تو قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کے لئے، دینی علم حاصل کرنے کے لئے ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو بے بہا خزانے مہیا فرمائے ہیں ان کو دیکھنا ہو گا۔ ان کی طرف رجوع کریں، ان کو پڑھیں کیونکہ آپؑ نے ہمیں ہماری سوچوں کے لئے راستے دکھا دئیے ہیں- ان پر چل کرہم دینی علم میں اور قرآن کے علم میں ترقی کر سکتے ہیں اور پھر اسی قرآنی علم سے دنیاوی علم اور تحقیق کے بھی راستے کھل جاتے ہیں-اس لئے جماعت کے اندر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کا شوق اور اس سے فائدہ اٹھانے کا شوق نوجوانوں میں بھی اپنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہونا چاہئے۔ بلکہ جو تحقیق کرنے والے ہیں، بہت سارے طالب علم مختلف موضوعات پر ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں، وہ جب اپنے دنیاوی علم کو اس دینی علم اور قرآن کریم کے علم کے ساتھ ملائیں گے تو نئے راستے بھی متعین ہوں گے، ان کو مختلف نہج پر کام کرنے کے مواقع بھی میسر آئیں گے جو اُن کے دنیادار پروفیسر ان کو شاید نہ سکھا سکیں- اسی طرح جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بڑی عمر کے لوگوں کو بھی یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ عمر بڑی ہو گئی اب ہم علم حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھیں اس بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں یہ سوچ کر نہ بیٹھ جائیں کہ اب ہمیں کس طرح علم حاصل ہو سکتا ہے۔ اب ہم کس طرح اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں-
حضرت مصلح موعودؓ نے تو لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا جو سکھائی گئی، جب یہ آیت اتری آپؐ کی عمر پچپن، چھپّن سال تھی۔ تو کہتے ہیں کہ یہ اس لئے ہے کہ مومنوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ ہمارے لئے بھی ہے۔ کسی بھی عمر میں علم حاصل کرنے سے غافل نہیں ہونا چاہئے اور مایوس نہیں ہونا چاہئے پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ:’’ دنیا میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچپن سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے، جوانی عمل کا زمانہ ہوتا ہے اور بڑھاپا عقل کا زمانہ ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کی رو سے ایک حقیقی مومن ان ساری چیزوں کو اپنے اندر جمع کر لیتا ہے۔ اس کا بڑھاپا اسے قوت عمل، اور علم کی تحصیل سے محروم نہیں کرتا۔ اس کی جوانی اس کی سوچ کو ناکارہ نہیں کر دیتی بلکہ جس طرح بچپن میں جب وہ ذرا بھی بولنے کے قابل ہوتا ہے ہر بات کو سن کر اس پر فوراً جرح شروع کر دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ فلاں بات کیوں ہے اور کس لئے ہے اور اس میں علم سیکھنے کی خواہش انتہا درجہ کی موجودہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا بڑھاپا بھی علوم سیکھنے میں لگا رہتا ہے۔ اور وہ کبھی بھی اپنے آپ کو علم کی تحصیل سے مستغنی نہیں سمجھتا۔ اس کی موٹی مثال ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات میں ملتی ہے، آپ کو پچپن، چھپّن سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ الہاماً فرماتا ہے کہ

قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا-

یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے ساتھ ہمارا سلوک ایسا ہی ہے جیسے ماں کا اپنے بچے کے ساتھ ہوتاہے۔ اس لئے بڑی عمر میں جہاں دوسرے لوگ بیکار ہو جاتے ہیں اور زائد علوم اور معارف حاصل کرنے کی خواہش ان کے دلوں سے مٹ جاتی ہے اور ان کو یہ کہنے کی عادت ہو جاتی ہے کہ ایسا ہوا ہی کرتا ہے، تجھے ہماری ہدایت یہ ہے کہ ہمیشہ خداتعالیٰ سے دعا کرتا رہ کہ خدا یا میرا علم اوربڑھا، میرا علم اور بڑھا۔ پس مومن اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں بھی علم سیکھنے سے غافل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں وہ ایک لذت اور سرور محسوس کرتا ہے اس کے مقابل میں جب انسان پر ایسادور آ جاتا ہے جب وہ سمجھتا ہے میں نے جوکچھ سیکھنا تھا سیکھ لیا ہے اگر میں کسی امر کے متعلق سوال کروں گا تو لوگ کہیں گے کیسا جاہل ہے اسے ابھی تک فلاں بات کا بھی پتہ نہیں تو وہ علم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ دیکھ لو حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑی عمر کے آدمی تھے مگرپھر بھی کہتے ہیں

رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَو تٰی-…

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ابراہیم! توُ تو پچاس ساٹھ سال کا ہو چکا ہے اور اب یہ بچوں کی سی باتیں چھوڑ دے۔ بلکہ اس نے بتایا کہ ارواح کس طرح زندہ ہوا کرتی ہیں- پس ہر عمر میں علم سیکھنے کی تڑپ اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ الٰہی میرا علم بڑھا۔ کیونکہ جب تک انسانی قلب میں علوم حاصل کرنے کی ہر وقت پیاس نہ ہو اس وقت تک وہ کبھی ترقی حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد نمبر ۵ صفحہ۶۹۔ ۴۷۱)
بعض لوگ کہتے ہیں حافظہ بڑی عمر میں کمزور ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے ہمارے ایک استاد ہوتے تھے، انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد قرآن کریم حفظ کیا اور ربوہ میں سائیکل کے ہینڈل پر قرآن کریم رکھا ہوتا تھا اور چلتے ہوئے پڑھتے رہتے تھے۔ لیکن آج کل ربوہ میں رکشے اتنے ہو گئے ہیں اب اس طرح نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پھر بزرگ ہسپتال پہنچے ہوں گے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے بارے میں مختلف پیرائے میں جو ہمیں فرمایا وہ احادیث پیش کرتا ہوں ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم حاصل کرے۔ اب مسلمانوں میں جو علم حاصل کرنے کی نسبت ہے وہ دوسروں کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے۔ اور حکم ہمیں سب سے زیادہ ہے۔
پھر ایک روایت میں ہے، ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان علم حاصل کرے پھر اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے۔ ( سنن ابن ماجہ کتاب الایمان باب ثواب معلم الناس الخیر)۔ تو یہ علم حاصل کرنے کی اہمیت ہے۔ اور پھر اس کو سکھانے کی کہ یہ ایک صدقہ ہے اور صدقہ بھی ایسا ہے جو صدقہ جاریہ ہے کہ دوسروں کو علم سکھاؤ تو تمہاری طرف سے ایک جاری صدقہ شروع ہو جاتا ہے اسی لئے اساتذہ کی عزت کا بھی اتنا حکم ہے کہ اگر ایک لفظ بھی کسی سے سیکھو تو اس کی عزت کرو۔ اساتذہ کا بڑا معزز پیشہ ہے۔ لیکن پاکستان وغیرہ میں اس کو بھی صرف آمدنی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے اور یہ پیشہ بھی بدنام ہو رہاہے۔ ٹھیک ہے جائز طور پر ایک ملازم یہ پیشہ اختیار کرتا ہے اس کو تنخواہ ملتی ہے، کمانا چاہئے یا پھر ٹیوشن بھی لی جا سکتی ہے لیکن وہاں آج کل ہوتا یہ ہے کہ سکولوں میں پڑھانے کی طرف توجہ نہیں دیتے، اور طالب علم کو کہہ دیا کہ تم میرے گھر آنا اور ٹیوشن پڑھو اور پھر ٹیوشن بھی اتنی لیتے ہیں کہ جو بعضوں کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔ امیر آدمی سے تو چلو لے لی لیکن بیچارے غریبوں کو بھی نہیں بخشتے اور اگر ٹیوشن نہ پڑھیں تو امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں وہ پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ ا گر امتحان میں پاس ہونا ہے تو ٹیوشن پڑھو اور پھر بیچارے بعض لوگ( ایسے طالب علم یا ان کے والدین) اسی ٹیوشن کی وجہ سے مقروض ہو جاتے ہیں احمدی اساتذہ کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے اپنا ایک نمونہ دکھانا چاہئے اور جو علم اور فیض انہوں نے حاصل کیا ہے اس کو دوسروں تک پہنچانے میں کنجوسی اور بخل سے کام نہیں لینا چاہئے۔
پھر ایک روایت میں ہے حضرت مسروقؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس ہم آئے۔ آپ نے فرمایا اے لوگو! اگر کسی کو علم کی بات معلوم ہو تو بتا دینی چاہئے۔ اور جسے علم کی کوئی بات معلوم نہ ہو تو سوال ہونے پر وہ جواب دے کہ

اَللّٰہُ اَعْلَمْ۔

یعنی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ (کیونکہ یہ بھی علم کی بات ہے۔ کہ انسان جس بات کو نہیں جانتا اس کے متعلق کہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے) اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے (یہ اسی کا حصہ ہے) اے رسول! تو کہہ میں اس کا کوئی بدلہ نہیں مانگتا اور نہ ہی میں تکلّف سے کام لینے والا ہوں- (بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ ص باب قولہ وماانامن المتکلفین)
اس روایت میں جو پہلا حصہ ہے، اس میں اساتذہ کے لئے یہ سبق ہے کہ سکولوں میں ٹیوشن پر زیادہ توجہ ہے اور پڑھانے کی طرف کم۔ دوسرے یہ کہ بعض دفعہ تیاری کے بغیر پڑھانے چلے جاتے ہیں اور اگر کوئی نئی چیز پڑھانی پڑ جائے تو پھر ان کو کافی دقّت کا سامنا ہو رہا ہوتا ہے اور جو کچھ غلط سلط آتا ہے پڑھا دیتے ہیں- اور اس طرح پھر طلبا کی بھی ایک طرح کی غلط قسم کی رہنمائی ہو جاتی ہے۔ فرمایا کہ یہی بہتر طریقہ ہے کہ اگر علم نہیں تو کہہ دو کہ مجھے علم نہیں ہے۔ آج میری تیاری نہیں ہے میں نہیں پڑھا سکتا۔ علم سکھانے والے کے لئے بھی ایمانداری کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اپنی انا کی خاطر نہ بیٹھ جائے بلکہ اگر علم نہیں ہے تو بتا دے کہ علم نہیں ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرو، علم حاصل کرنے کے لئے وقار اور سکینت کو اپناؤ۔ اور جس سے علم سیکھو اس کی تعظیم تکریم اور ادب سے پیش آؤ۔ (الترغیب والترھیب جلد نمبر ۱ صفحہ ۷۸۔ باب الترغیب فی اکرام العلماء واجلا لھم وتوقیرھم بحوالہ الطبرانی فی الاوسط)
تو اس میں طلبہ کے لئے نصیحت ہے کہ اپنے استاد کی عزت کرو، ایک وقار ہونا چاہئے۔ آج کل مختلف ممالک میں طلبہ کی ہڑتالیں ہوتی ہیں توڑ پھوڑ ہوتی ہے، مطالبے منوانے کے لئے گلیوں میں نکل آتے ہیں، مطالبہ یونیورسٹی یا کالج کا ہوتا ہے اور توڑ پھوڑ سڑکوں پہ سٹریٹ لائٹس کی یا حکومت کی پراپرٹی کی یا عوام کی جائیدادوں کی ہو رہی ہوتی ہے، دکانوں کو آگیں لگ رہی ہوتی ہیں- تو یہ انتہائی غلط اور گھٹیا قسم کے طریقے ہیں- اسلام کی تعلیم تو یہ نہیں ہے، طالبعلم علم حاصل کرتا ہے اس کے اندر تو ایک وقار پیدا ہونا چاہئے۔ اور ادب اور احترام پیدا ہونا چاہئے اساتذہ کے لئے بھی، اپنے بڑوں کے لئے بھی، نہ کہ بدتمیزی کا رویہ اپنایا جائے۔ پھر بعض دفعہ ہمارے احمدی اساتذہ کو سامنا کرنا پڑتا ہے یہ تو خیر میں ضمناً ذکر کر رہا ہوں کہ غیر احمدی طلبہ نے خود پڑھائی نہیں کی ہوتی فیل ہو جاتے ہیں اگر ان کا احمدی ٹیچر ہے یا احمدی استاد ہے توفوراً اس کے خلاف وہاں ہڑتالیں شروع ہو جاتی ہیں- اس لحاظ سے بھی پاکستان میں بعض اساتذہ بڑی مشکل میں ہوتے ہیں- اللہ تعالیٰ بھی ایسے طلباء کو عقل دے اور احمدی طلباء کو بھی چاہئے کہ ایسی سٹرائکس (Strikes)میں جو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہوتی ہیں- کبھی حصہ نہ لیں اور اپنے وقار کا خیال رکھیں- احمدی طالب علم کی اپنی ایک انفرادیت ہونی چاہئے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے اور دیکھا کہ مسجد میں دو حلقے بنے ہوئے ہیں- کچھ لوگ تلاوت قرآن کریم اور دعائیں کر رہے ہیں اور کچھ لوگ پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہیں- اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دونوں گروہ نیک کام میں مصروف ہیں- یہ قرآن پڑھ رہاہے اور دعائیں مانگ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں دے اور چاہے تو نہ دے۔ یعنی ان کی دعائیں قبول کرے یا نہ کرے اور دوسرا گروہ پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہے۔ فرمایا: خداتعالیٰ نے مجھے معلم اور استاد بنا کر بھیجا ہے اس لئے آپ پڑھنے پڑھانے والوں میں جا کے بیٹھ گئے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الایمان باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم )
تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے والوں کو یہ مقام دیا ہے۔ لیکن یہاں یہ بھی واضح ہو کہ جو پڑھنے پڑھانے والے تھے وہ بھی تقویٰ پر قائم رہنے والے تھے اور ایمان لانے والوں کا گروہ ہی تھا۔ آپؐ کی گہری نظر نے یہ دیکھ لیا کہ پڑھنے پڑھانے والے بھی نیکیوں پر قائم رہنے والے ہیں، تقویٰ پر چلنے والے ہیں اور تقویٰ کے ساتھ پھر غور فکر اور تدبر سے علم سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے آپؐ ان میں بیٹھ گئے۔
ایک اور جگہ روایت ہے کہ اصل میں علم وہی ہے جس کے ساتھ تقویٰ ہو۔ تو اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ کبھی کسی قسم کا علم بھی تقویٰ سے دور لے جانے والا نہ ہو۔ علم وہی ہے جو تقویٰ کے قریب ترین ہو اور تقویٰ کی طرف لے جانے والا ہو، خداتعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہو۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ صحیح اور حقیقی فقیہہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونے دیتا اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا جواز بھی مہیا نہیں کرتا اور نہ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بے خوف بناتا ہے۔ قرآن کریم سے ان کی توجہ ہٹا کر کسی اورکی طرف انہیں راغب کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یاد رکھو علم کے بغیر عبادت میں کوئی بھلائی نہیں اور سمجھ کے بغیر علم کا دعویٰ درست نہیں- (اگر سمجھ نہیں آتی صرف رٹّا لگا لیا تو وہ علم، علم نہیں ہے)، اور تدبر اور غور و فکر کے بغیرمحض قرا ء ت کا کچھ فائدہ نہیں-(سنن الدارمی۔ المقدمہ باب من قال العلم الخشیۃ وتقوی اللہ)
تو فرمایا کہ ایسا علم جو عمل سے خالی ہے ایسے علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ علم تو انسان کو انسانیت کے اعلیٰ معیار سکھانے کے لئے حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر پھر علم حاصل کرنے کے باوجود وحشی کا وحشی رہنا ہے تو ایسے علم کا اسے کیا فائدہ۔ جیسا آج کل کے علماء دعویٰ کرتے ہیں اور پھر ان کی حرکتیں ایسی ہیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس سے خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآء (فاطر:۲۹)۔

اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوئی تو یاد رکھو کہ وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۹۵۔ جدید ایڈیشن)
پھر ایک روایت حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ہے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو خوب چرو۔ صحابہؓ نے عرض کی کہ حضوریہ ریاض الجنۃ(یعنی جنت کے باغ) کیا چیز ہیں تو آپؐ نے فرمایا کہ مجالس علمی۔ یعنی مجالس میں بیٹھ کر زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرو۔ (الترغیب الترھیب۔ باب الترغیب فی مجالسۃ العلماء جلد نمبر ۱ صفحہ ۷۶۔ بحوالہ الطبرانی الکبیر)
تو اس کے لئے پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں اجتماعوں اور جلسوں کے وقت، جب اجتماعات یا جلسوں پہ آتے ہیں تو وہاں ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اور صرف یہی مقصد ہونا چاہئے کہ ہم نے یہاں سے اپنی علمی اور روحانی پیاس بجھانی ہے۔ اور ان جلسوں کا جو مقصد ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اگر جلسوں پہ آ کے پھر دنیاوی مجلسیں لگا کر بیٹھنا ہے اور ان سے پورا استفادہ نہیں کرنا تو پھر ان جلسوں پہ آنے کا فائدہ کیا ہے؟ یہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آج کل کے زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کو بھی پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے یہ بھی قرآن کریم کی ایک تشریح و تفسیر ہے جو ہمیں آپؑ کی کتب سے ملتی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ دین تو چاہتا ہے مصاحبت ہو پھر مصاحبت سے گریز ہو تو دینداری کے حصول کی امید کیوں رکھتا ہے؟ ہم نے بار ہا اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ وہ بار بار یہاں آکر رہیں اور فائدہ اٹھائیں مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔ لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں- مگر اس کی پروا کچھ نہیں کرتے۔ یاد رکھو! قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے۔ ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے جاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے مکرکرنا مومن کاکام نہیں ہے۔ جب موت کا وقت آ گیا پھر ساعت آگے پیچھے نہ ہو گی۔ وہ لوگ جو اس سلسلے کی قدر نہیں کرتے اور انہیں کوئی عظمت اس کی معلوم نہیں ان کو جانے دو۔ مگر ان سب سے بڑھ کر بدقسمت اور اپنی جان پر ظلم کرنے والا تو وہ ہے جس نے اس سلسلے کو شناخت کیا اور اس میں شامل ہونے کی فکر کی لیکن اس نے کچھ قدر نہ کی۔ وہ لوگ جو یہاں آ کر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور ان باتوں سے جو خداتعالیٰ ہر روز اپنے سلسلے کی تائید میں ظاہر کرتا ہے نہیں سنتے اور دیکھتے، وہ اپنی جگہ پر کیسے ہی متقی اور پرہیز گار ہوں مگرمَیں یہی کہوں گا کہ جیساچاہئے انہوں نے قدر نہیں کی۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تکمیل علمی کے بعد تکمیل عملی کی ضرورت ہے۔ پس تکمیل عملی بدوں تکمیل علمی کے محال ہے( یعنی جو عمل ہے علم حاصل کئے بغیر بہت مشکل ہے) اور جب تک یہاں آ کر نہیں رہتے تکمیل علمی مشکل ہے‘‘۔ پھر فرمایا’’ بارہا خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہ دے سکے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟یہی کہ وہ لوگ یہاں نہیں آتے اور ان باتوں کو نہیں سنتے جوخدا تعالیٰ اپنے سلسلے کی تائید میں علمی طور پر ظاہر کر رہا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۲۵۔ جدید ایڈیشن)
تو وہ باتیں کتابوں کی صورت میں بھی اکٹھی ہو رہی تھیں پھر ملفوظات کی صورت میں بھی اکٹھی ہو چکی ہیں، اس طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ کتب ضرور پڑھنی چاہئیں- اور انہیں کتب سے آپ کو دلائل میسر آ جاتے ہیں لوگوں کے اعتراضوں کے جواب دینے کے اور یہی آج کل طریقہ ہے آپ کی مجلسوں سے فیضیاب ہونے کا، آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا۔ کہ پہلے بھی میں کہتا رہا ہوں کہ آپؑ کی کتب پڑھنے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ اور اس سے ہمیں مخالفین کے اعتراضوں کے جواب بھی ملیں گے اور قرآن کریم کے علوم کی بھی معرفت ہمیں حاصل ہو گی۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان کامل دنیا میں نہیں گزرالیکن آپؐ کو بھی
رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کی دعا کی تعلیم ہوئی تھی۔ پھر اور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کرکے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے۔ جوں جوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اسے معلوم ہوتا جاوے گا کہ ابھی بہت سی باتیں حل طلب باقی ہیں- بعض امو رکو وہ ابتدائی نگاہ میں … بالکل بے ہودہ سمجھتے تھے لیکن آخر وہی امور صداقت کی صورت میں ان کو نظر آئے،۔ اس لئے کس قدر ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کو بدلنے کے لئے ساتھ علم کو بڑھانے کے لئے ہربات کی تکمیل کی جاوے۔ تم نے بہت ہی بے ہودہ باتوں کو چھوڑ کر اس سلسلے کو قبول کیا ہے۔ اگر تم اس کی بابت پورا علم اور بصیرت حاصل نہیں کرو گے تو اس سے تمہیں کیا فائدہ ہو۔ تمہارے یقین اور معرفت میں قوت کیونکر پیدا ہو گی۔ ذرا ذرا سی بات پر شکوک و شبہات پیدا ہوں گے اور آخر قدم کو ڈگمگا جانے کا خطرہ ہے۔ دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں- ایک تووہ جو اسلام قبول کرکے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں- شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے۔ نہیں، صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کر دے انہوں نے حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔ کوئی امر ان کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ۱۴۱۔ ۱۴۲۔ جدید ایڈیشن)
ایک روایت میں حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم علم اس غرض سے حاصل نہ کرو کہ اس کے ذریعہ دوسرے علماء کے مقابلے میں فخر کر سکو۔ نہ اس لئے حاصل کرو کہ جہلا میں اپنی بڑائی اور اکڑ دکھاسکو۔ اور جھگڑے کی طرح ڈال سکو۔ اور نہ اس علم کی بنا پر اپنی شہرت اور نام و نمود کے لئے مجلسیں جماؤ۔ جو شخص ایسا کرے گا یا ایسا سوچے گا اس کے لئے آگ ہی آگ ہے یعنی اسے مصائب و بلیات ( بلائیں )اور رسوائی کا سامنا کرنا ہو گا۔ (سنن ابن ماجہ باب الانتقاع بالعلم)
تو آج کل (عموماً مسلمانوں میں ) ہمارے جو علماء ہیں ان کا یہی حال ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھے رہتے ہیں- ذرا سی بات لے کے اپنی علمیت کا رعب ڈالنے کی زیادہ کوشش ہوتی ہے۔ اور جس کا کسی بھی قسم کا فائدہ نہیں ہو رہا ہوتا۔ نہ کوئی علمی نہ روحانی، صرف الجھانے کے لئے لوگوں میں ضد اور انا بھی بن جاتی ہے اور اپنا علم ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ مجھے اس کا علم ہے، تمہیں نہیں ہے۔ تو احمدیوں کو صرف اس لئے علم حاصل کرنا چاہئے کہ اپنی انا مقصد نہ ہو یا علم کا رعب ڈالنا مقصد نہ ہو بلکہ اس علم کے نور کو پھیلانا اور اس سے فائدہ اٹھانا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حاصل کرنا مقصد ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ واقعہ ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ جب آپؑ نے ایک عالم سے صرف اس لئے بحث نہیں کی تھی کہ اس کے نقطہ نظر کو آپؑ ٹھیک سمجھتے تھے تو جو لوگ آپؑ کو بحث کے لئے لے گئے تھے انہوں نے بہت کچھ کہا بھی لیکن پھر بھی آپؑ کو جس بات سے اصولی اختلاف تھا و ہ آپؑ نے نہ کیا۔ تو آپؑ کے اس فعل سے اللہ تعالیٰ نے بھی خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں- تو بندوں سے کچھ لینے کے لئے علم کا اظہار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا پیش نظر رہنی چاہئے۔ اور جو علم سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق کی بھی خدمت ہو سکے۔
ایک روایت میں حضرت ابو درداءؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص علم کی تلاش میں نکلے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتاہے۔ اور فرشتے طالب علم کے کام پر خوش ہو کر اپنے پر اس کے آگے بچھاتے ہیں اور عالم کے لئے زمین و آسمان میں رہنے والے بخشش مانگتے ہیں- یہاں تک کہ پانی کی مچھلیاں بھی اس کے حق میں دعا کرتی ہیں- اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چاند کی دوسرے ستاروں پر۔ اور علماء انبیاء کے وارث ہیں- انبیاء روپیہ پیسہ ورثہ میں نہیں چھوڑ جاتے بلکہ ان کا ورثہ علم و عرفان ہے جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ بہت بڑا نصیب اور خیر کثیر حاصل کرتا ہے۔ (ترمذی کتاب العلم با ب فضل الفقہ)
تو علم کی یہ اہمیت ہے، علم حاصل کرنے کے لئے یہاں بھی مغرب میں لوگ آتے ہیں- بڑی دور دور سے پڑھنے کے لئے ایشیئنزملکوں سے۔ اگر ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رضا بھی مقصود ہو تو اللہ تعالیٰ ان کے حصول تعلیم کو بھی آسان کر دیتاہے، ان کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنی آسانیاں پیدا کر دیتا ہے کہ اس دنیا میں بھی ان کے لئے جنت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور احمدی طالب علم خاص طور پر یہاں جو آ رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہا، ان کاصرف اور صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہئے کہ انہوں نے تعلیم حاصل کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے ماتحت چلتے ہوئے تعلیم حاصل کرنی ہے۔ یہاں کی رونقیں اور دوسرے شوق ان کو اس مقصد کے حصول سے ہٹانے والے نہ ہو جائیں- یہ نیت ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانا ہے اور اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا ہے۔ اور اگر کوئی حصہ ٔ تعلیم اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے تو پھر اس کو بھی دنیا پہ واضح کرنا ہے گہرائی میں جا کے بھی علم حاصل کرنا چاہئے۔
پھر ایک روایت ہے حضرت زیدؓبن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سریانی زبان سیکھنے کا حکم فرمایا اور ایک روایت میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایاکہ یہودیوں کی خط و کتابت کی زبان سیکھو کیونکہ مجھے یہودیوں پر اعتبار نہیں کہ وہ میری طرف سے کیا لکھتے ہیں اور کیا کہتے ہیں- زید کہتے ہیں کہ پندرہ دن ہی گزرے تھے کہ میں نے سریانی میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا۔ اس کے بعد جب بھی حضور علیہ السلام کو یہود کی طرف کچھ لکھنا ہوتا تو مجھ سے لکھواتے اور جب ان کی طرف سے کوئی خط آتا تو میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناتا تھا۔ (تزمذی ابواب الادب باب ما جاء فی تعلیم السریانیۃ)
اس ضمن میں میں واقفین نو سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ واقفین نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں- وہ انگریزی، عربی، اردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں، (میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے) کہ جماعت کی کتب اور لٹریچر وغیرہ کا ترجمہ کرنے کے قابل ہو سکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں-
مجھے یاد ہے گھانا کے نارتھ میں کیتھولک چرچ تھا، چھوٹی سی جگہ پہ (میں بھی وہاں رہا ہوں ) تو پادری یہاں انگلستان کا رہنے والا تھا وہ ہفتے میں چار پانچ دن موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جنگل میں جایا کرتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم وہاں کیا کرنے جاتے ہو۔ اس نے بتایا کہ ایک قبیلہ ہے، ان کی باقیوں سے زبان ذرا مختلف ہے اور ان کی آبادی صرف دس پندرہ ہزار ہے اور وہ صرف اس لئے وہاں جاتا ہے کہ ان کی وہ زبان سیکھے اور پھر اس میں بائبل کا ترجمہ کرے۔ تو ہمارے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر واقفین نو بچے جو تیار ہو رہے ہیں، توجہ ہونی چاہئے تاکہ خاص طور پر ہر زبان کے ماہرین کی ایک ٹیم تیار ہو جائے۔ بہت سے بچے ایسے ہیں جو اب یونیورسٹی لیول تک پہنچ چکے ہیں، وہ خود بھی اس طرف توجہ کریں جیسا کہ میں نے کہا اور جو ملکی شعبہ واقفین نو کا ہے وہ بھی ایسے بچوں کی لسٹیں بنائیں اور پھر ہر سال یہ فہرستیں تازہ ہوتی رہیں کیونکہ ہر سال اس میں نئے بچے شامل ہوتے چلے جائیں گے۔ ایک عمر کو پہنچنے والے ہوں گے۔ اور صر ف اسی شعبے میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں عموماً جو ہمیں موٹے موٹے شعبے جن میں ہمیں فوراً واقفین زندگی کی ضرورت ہے وہ ہیں مبلغین، پھر ڈاکٹر ہیں، پھر ٹیچرہیں، پھر اب کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کی بھی ضرورت پڑ رہی ہے۔ پھر وکیل ہیں، پھر انجینئر ہیں، زبانوں کے ماہرین کا میں نے پہلے کہہ دیا ہے پھر ان کے آگے مختلف شعبہ جات بن جاتے ہیں، پھر اس کے علاوہ کچھ اور شعبے ہیں- تو جو تو مبلغ بن رہے ہیں ان کا تو پتہ چل جاتا ہے کہ جامعہ میں جانا ہے اور جامعہ میں جانا چاہتے ہیں اس لئے فکر نہیں ہوتی پتہ لگ جائے گا لیکن جو دوسرے شعبوں میں یا پیشوں میں جا رہے ہوں ان میں سے اکثر کا پتہ ہی نہیں لگتا۔ اب دوروں کے دوران مختلف جگہوں پر میں نے پوچھا ہے تو ابھی تک یا تو بچوں نے ذہن ہی نہیں بنایا ہو ا 17-16 سال کی عمر کو پہنچ کے بھی، یا پھر کسی ایسے شعبے کا نام لیتے ہیں جس کی فوری طور پر جماعت کو شاید ضرورت بھی نہیں ہے۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ میں نے پائلٹ بننا ہے۔ پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں تو کھیلوں سے دلچسپی ہے، کرکٹر بننا ہے یا فٹ بال کا پلیئر(Player) بننا ہے۔ یہ توپیشے واقفین نو کے لئے نہیں ہیں- صرف اس لئے کہ بچوں کی صحیح طرح کونسلنگ (Councling)ہی نہیں ہو رہی ان کی رہنمائی نہیں ہو رہی، اور اس وجہ سے ان کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ان کا مستقبل کیا ہے۔ تو ماں باپ بھی صرف وقف کرکے بیٹھ نہ جائیں بلکہ بچوں کو مستقل سمجھاتے رہیں- میں یہی مختلف جگہوں پر ماں باپ کو کہتا رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو سمجھاتے رہیں کہ تم وقف نو ہو ہم نے تم کو وقف کیا ہے تم نے جماعت کی خدمت کرنی ہے، اور جماعت کا ایک مفید حصہ بننا ہے اس لئے کوئی ایسا پیشہ اختیار کرو جس سے تم جماعت کا مفید وجود بن سکو۔ پھر ایسے بچے بھی ملے ہیں کہ بڑی عمر کے ہونے کے باوجود ان کو یہ نہیں پتہ کہ وہ واقف نو ہیں اور وقف نو ہوتی کیا چیز ہے۔ ماں باپ کہتے ہیں کہ وقف نو میں ہیں- پھر بعض یہ کہتے ہیں کہ ماں باپ نے وقف کیا ہے لیکن ہم کچھ اور کرنا چاہتے ہیں تو جب ایسی فہرستیں تیار ہوں گی سامنے آ رہی ہوں گی، ہر ملک میں جب تیار ہو رہی ہوگی تو ہمیں پتہ لگ جائے گا کہ کتنے ایسے ہیں جو بڑے ہوکر جھڑ رہے ہیں اور کتنے ایسے ہیں اور کس ملک میں ایسے ہیں جہاں سے ہمیں مبلغ ملیں گے اور کتنے ایسے ہیں جن میں سے ہمیں ڈاکٹر ملیں گے، کتنے انجینئر ملیں گے یا ٹیچر ملیں گے وغیرہ` پھر جو ڈاکٹر بنتے ہیں ان کی ڈاکٹری کے شعبے میں بھی دلچسپیاں ہر ایک کی الگ ہوتی ہیں تو اس دلچسپی کے مطابق بھی ان کی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے بھی ملکوں کو مرکز سے پوچھنا ہو گا تاکہ ضرورت کے مطابق ان کو بتایا جائے۔ بعض دفعہ ہوتا ہے کہ کسی نے ڈاکٹر بننا ہے۔ صرف ایک شعبے میں دلچسپی نہیں ہوتی، دو تین میں ہوتی ہے تو ضرورت کے مطابق رہنمائی کی جا سکتی ہے کہ فلاں شعبے میں جانا ہے` تو اب تو اس عمر کو دوسری تیسری کھیپ پہنچ چکی ہے شاید چوتھی بھی پہنچ رہی ہو جہاں مستقبل کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ تو اس لئے ہر سال باقاعدہ اس کے مطابق نئے سرے سے فہرستیں بنتی رہنی چاہئیں، نئے جو شامل ہونے والے ہیں ان کو شامل کیا جانا چاہئے، جو جھڑنے والے ہیں ان کو علیحدہ کیا جانا چاہئے۔ اس لحاظ سے اب شعبہ وقف نو کو کام کرنا ہوگا۔
پھر جو پڑھ رہے ہیں ان کے بارے میں بھی علم ہونا چاہئے کہ ان میں درمیانے درجے کے کتنے ہیں اور یہ کیا کیا پیشے اختیار کر سکتے ہیں، ان کو کیا کام دئیے جا سکتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا اس کام کو اب بڑے وسیع پیمانے پر دنیا میں ہر جگہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور واقفین نو کے شعبے کو میں کہوں گا کہ یہ فہرستیں کم از کم ایسے بچے جو پندرہ سال سے اوپر کے ہیں ان کی تیار کر لیں اور تین چار مہینے میں اس طرز پر فہرست تیار ہونی چاہئے۔ کیونکہ میرے خیال میں میں نے جو جائزہ لیا ہے جو رپورٹ کے اصل حقائق ہیں، زمینی حقائق جیسے کہتے ہیں وہ ذرا مختلف ہیں اس لئے ہمیں حقیقت پسندی کی طرف آنا ہو گا۔
کچھ شعبہ جات تو میں نے گنوا دئیے ہیں تو یہ ہی نہ سمجھیں کہ ان کے علاوہ کوئی شعبہ اختیار نہیں کیا جا سکتا یا ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ بعض ایسے بچے ہوتے ہیں جو بڑے ٹیلینٹڈ (Talented)ہوتے ہیں، غیر معمولی ذہین ہوتے ہیں ریسرچ کے میدان میں نکلتے ہیں جس میں سائنس کے مضامین بھی آتے ہیں، تاریخ کے مضامین بھی ہیں یا اور مختلف ہیں تو ایسے بچوں کو بھی ہمیں گائیڈ کرنا ہو گا وہی بات ہے جو میں نے کہی کہ ہر ملک میں کونسلنگ یا رہنمائی وغیرہ کے شعبہ کو فعال کرنا ہو گا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے تو اس کمال کے لئے کوشش بھی کرنی ہوگی۔ پھر انشاء اللہ تعالی، اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ہوں گے۔ بہرحال بچوں کی رہنمائی ضروری ہے چند ایک ایسے ہوتے ہیں جو اپنے شوق کی وجہ سے اپنے راستے کا تعین کر لیتے ہیں، عموماً ایک بہت بڑی اکثریت کو گائیڈ کرنا ہو گا اور جیسا کہ میں نے کہا گہرائی میں جا کر سارا جائزہ لینا ہو گا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ میں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں- وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بدظن اور گمراہ کر دیتی ہے۔ اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں کہ گویا عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضاد چیزیں ہیں- چونکہ خود فلسفے کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علوم جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں- ان کی روح فلسفے سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۳۔ جدید ایڈیشن)
تو ہم نے واقفین نو بچوں کو پڑھا کے نئے نئے علوم سکھا کے پھر دنیا کے منہ دلائل سے بند کرنے ہیں- اور اس تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اصل قرآن کا علم اور معرفت دی ہے، اللہ کرے کہ واقفین نو کی یہ جدید فوج اور علوم جدیدہ سے لیس فوج جلد تیار ہو جائے۔ پھر واقفین نو بچوں کی تربیت کے لئے خصوصاً اور تمام احمدی بچوں کی تربیت کے لئے بھی عموماً ہماری خواتین کو بھی اپنے علم میں اضافے کی ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی وقت دینے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اجلاسوں میں اجتماعوں میں، جلسوں میں آ کر جو سیکھا جاتا ہے وہیں چھوڑ کر چلے نہ جایا کریں، یہ تو بالکل جہالت کی بات ہو گی کہ جو کچھ سیکھا ہے وہ وہیں چھوڑ دیا جائے۔ تو عورتیں اس طرف بہت توجہ دیں اور اپنے بچوں کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دیں- کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ جن واقفین نو یا عمومی طور پر بچوں کی مائیں بچوں کی طرف توجہ دیتی ہیں اور خود بھی کچھ دینی علم رکھتی ہیں ان کے بچوں کے جواب اور وقف نو کے بارے میں دلچسپی بھی بالکل مختلف انداز میں ہوتے ہیں اس لئے مائیں اپنے علم کو بھی بڑھائیں او رپھر اس علم سے اپنے بچوں کو بھی فائدہ پہنچائیں- لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ باپوں کی ذمہ داریاں ختم ہو گئی ہیں یا اب باپ اس سے بالکل فارغ ہو گئے ہیں یہ خاوندوں کی اور مردوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ ایک تو وہ اپنے عملی نمونے سے تقویٰ اور علم کا ماحول پیدا کریں پھر عورتوں اور بچوں کی دینی تعلیم کی طرف خود بھی توجہ دیں- کیونکہ اگر مردوں کا اپنا ماحول نہیں ہے، گھروں میں وہ پاکیزہ ماحول نہیں ہے، تقویٰ پر چلنے کا ماحول نہیں- تو اس کا اثر بہرحال عورتوں پر بھی ہو گا اور بچوں پر بھی ہو گا۔ اگر مرد چاہیں تو پھر عورتوں میں چاہے وہ بڑی عمر کی بھی ہو جائیں تعلیم کی طرف شوق پیدا کر سکتے ہیں کچھ نہ کچھ رغبت دلا سکتے ہیں- کم از کم اتنا ہو سکتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں اس لئے جماعت کے ہر طبقے کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مرد بھی عورتیں بھی۔ کیونکہ مردوں کی دلچسپی سے ہی پھر عورتوں کی دلچسپی بھی بڑھے گی اوراگر عورتوں کی ہر قسم کی تعلیم کے بارے میں دلچسپی ہو گی تو پھر بچوں میں بھی دلچسپی بڑھے گی۔ ان کوبھی احساس پیدا ہو گا کہ ہم کچھ مختلف ہیں دوسرے لوگوں سے۔ ہمارے کچھ مقاصد ہیں جو اعلیٰ مقاصد ہیں- اور اگر یہ سب کچھ پیدا ہو گا تو تبھی ہم دنیا کی اصلاح کرنے کے دعوے میں سچے ثابت ہو سکتے ہیں- ورنہ دنیا کی اصلاح کیا کرنی ہے۔ اگر ہم خود توجہ نہیں کریں گے توہماری اپنی اولادیں بھی ہماری دینی تعلیم سے عاری ہوتی چلی جائیں گی۔ کیونکہ تجربہ میں یہ بات آ چکی ہے کہ کئی ایسے احمدی خاندان جن کی آگے نسلیں احمدیت سے ہٹ گئیں صرف اسی وجہ سے کہ ان کی عورتیں دینی تعلیم سے بالکل لاعلم تھیں- اور جب مرد فوت ہو گئے تو آہستہ آہستہ وہ خاندان یا ان کی اولادیں پرے ہٹتے چلے گئے کیونکہ عورتوں کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تھا، تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہو گی تاکہ ہم اپنی اگلی نسل کو بچا سکیں-
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طور پر دین کا علم پیدا کرنے اور اگلی نسلوں میں قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں