خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 30؍جولائی2004ء

جلسوں پر آنے والے صرف میلے کی صورت میں اکٹھے ہوجانے کا تصور لے کر نہ آئیں ۔ جلسہ کی تقاریر کو پورے غور اور توجہ کے ساتھ سنیں
(جلسہ سالانہ کے اغراض ومقاصد کا تذکرہ اورشرکاء کے لئے اہم ہدایات)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
30؍جولائی2004ء بمقام اسلام آباد۔ (ٹلفورڈ،یو۔ کے)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ انگلستان کا 38واں جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ آپ سب لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ تین دن گزارنے کے لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں- اللہ کرے کہ آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اُن مقاصد کو حاصل کرنے والے ہوں جو ان جلسوں کے ہیں- آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’تمام مخلصین، داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو۔ اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے۔ اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔
پھرجلسے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’ قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسے کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین، اگر خداتعالیٰ چاہے، بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویہّ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو سکیں ‘‘۔ (آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ 351)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگ جو میری بیعت میں شامل ہو، صرف زبانی دعوے کی حد تک نہ رہو۔ اب تمہیں اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ اور وہ کیا باتیں ہیں جو تمہارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہوں، فرمایا کہ وہ باتیں یہ ہیں اور اگر تم یہ باتیں اپنے اندر پیدا کر لو تو میں سمجھوں گا کہ تم نے مجھے حقیقت میں پہچان لیا اور جس مقصد کے لئے تم نے بیعت کی تھی اس کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔
پہلی بات تو یہ یاد رکھو کہ میری بیعت میں داخل ہو کر تمہارے اندر سے، تمہارے دل میں سے دنیا کی محبت نکل جانی چاہئے۔ اگر یہ نہ نکال سکو تو تمہارا بیعت کرنے کا مقصد پورا نہیں ہو۔ ا اگر دنیا کے کاروبار تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکتے ہیں- تمہاری ملازمتیں، تمہاری تجارتیں حقوق اللہ کی ادائیگی میں روک ہیں- تمہارے کاروبار، تمہاری انائیں، تمہاری دنیاوی عزتیں، شہرتیں، تمہارے پر جو اللہ کی مخلوق کے حقوق ہیں ان کی راہ میں روک بن رہی ہیں تو پھر تمہارا میری جماعت میں شامل ہونے کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔
پھر اللہ تعالیٰ کی محبت،حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایک اہم تبدیلی جو تمہیں اپنے اندر پیدا کرنی ہو گی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے، آپؐ سے محبت دنیا کی تمام محبتوں سے بڑھ کر ہونی چاہئے کیونکہ اب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے تمام راستے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا ہونے سے ہی ملیں گے، آپؐ کے پیچھے چلنے سے ہی ملیں گے، آپؐ کے احکام پر عمل کرنے سے ہی ملیں گے، آپؐ کی سنت پر عمل کرنے سے ہی ملیں گے۔ اس لئے اس محبت کو اپنے پر غالب کرو کیونکہ فرمایا کہ میں تو خود اس محبوبؐ کا عاشق ہوں- یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تم میری بیعت میں شامل ہونے والے شمار ہو اور پھر میرے پیارےؐ سے تمہیں محبت نہ ہو، وہ محبت نہ ہو جو مجھے ہے یا جس طرح مجھے ہے۔ پھر فرمایا کہ دنیا کی اس چکا چوند سے تمہیں کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ تمہارے یہ مقاصد ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لئے اللہ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو۔ اللہ کی مخلوق کے حقوق ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ادائیگی میں اس قدر کھوئے جاؤ کہ تمہیں یہ احساس ہو کہ یہ سب کچھ تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت میں کر رہے ہو۔ جب یہ حالت ہو گی تو تم ان لوگوں کی طرح کف افسوس نہیں مل رہے ہو گے جو بستر مرگ،موت کے بستر پر بڑی بیچارگی اور پریشانی سے یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ کاش ہم نے بھی زندگی میں کوئی نیک کام کیا ہوتا، اللہ تعالیٰ کی عبادت،خالص اس کی عبادت کرتے ہوئے کی ہوتی۔
بہت سے لوگ بیعت کرنے کے بعد اپنے کاروبار زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں اور کاروبار زندگی میں مصروف ہونا بھی منع نہیں بلکہ ضروری ہے کہ انسان اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنے کے سامان پیدا کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ہی تمام کام کرنے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے کے لئے بھی کوشش کرنی ہے تاکہ، جیسا کہ پہلے ذکر کر آیا ہوں، بیعت کے مقاصد بھی حاصل ہوں-
تو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے، ٹریننگ کے لئے سال میں تین دن جماعت کے افراد اکٹھے ہوتے ہیں اور سوائے کسی اشد مجبوری کے تمام احمدی اس میں شامل ہونے کی کوشش کریں- یہی آپؑ کا منشا تھا۔ کیونکہ ٹریننگ بھی بہت ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر تو تربیت پر زوال آنا شروع ہو جاتا ہے، تربیت کم ہونی شروع ہو جاتی ہے، کمی آنی شروع ہو جاتی ہے دیکھ لیں دنیا میں بھی اپنے ماحول میں نظر ڈالیں تو ہر فیلڈ میں ترقی کے لئے کوئی نہ کوئی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، ٹریننگ لینے کے بعد پھر بھی ریفریشر کورسز بھی ہو رہے ہوتے ہیں، سیمینارز وغیرہ بھی ہو رہے ہوتے ہیں تاکہ جو علم حاصل کیا ہے اسے مضبوط کیا جائے، مزید اضافہ کیا جائے۔ ٹریننگ کے لئے کمپنیاں بھی اپنے ملازمین کو دوسری جگہوں پہ بھجواتی ہیں- ملک کی فوجیں سال میں ایک دفعہ عارضی جنگ کے ماحول پیدا کرکے اپنے جوانوں کی ٹریننگ کرتی ہیں- یہ اصول ہر جگہ چلتا ہے تو دین کے معاملے میں بھی چلنا چاہئے۔ اس لئے اپنی دینی حالت کو سنوارنے کے لئے جلسوں پر ضرور آئیں اس سے روحانیت میں بھی اضافہ ہو گا اور دوسرے متفرق فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للِّہ ربّانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہئے۔ اور اس جلسے میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں- اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہو گی۔ اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے۔ اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہو گا کہ ہریک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے۔ اور رُوشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا۔ اور جو بھائی اس عرصے میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اِس جلسے میں اُس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی۔ اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ عزت جلّ شانہٗ کوشش کی جائے گی۔ اور اس روحانی جلسے میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے‘‘۔ (آسمانی فیصلہ،روحانی خزائن جلد نمبر4 صفحہ351-352 )
پس تمہاری ٹریننگ کے لئے، تمہارے علم میں اضافے کے لئے اور جو جانتے ہیں یا جن کو یہ خیال ہے کہ ان کو پہلے ہی کافی علم ہے ان کے بھی علم کو تازہ کرنے کے لئے ایسے طرز پر یہ ٹریننگ کو رس ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے عرفان کے بارے میں تمہارے اضافے کا باعث بنے گا،اس کے رسول اور اس کی کتاب کی حکمت کی باتوں کے بارے میں تمہیں معرفت حاصل ہو گی بہت سے نئے زاویوں کا تمہیں پتہ چل جائے گا کیونکہ ہر شخص ہر بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
حضرت مسیح موعودؑ یہ معرفت کی باتیں خود ہی بیان کر دیا کرتے تھے اور اُس زمانے میں حقائق بھی پتہ چلتے رہتے تھے لیکن اب بھی جو ارشادات آپ نے بیان فرمائے انہیں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے،انہیں کو سمجھتے ہوئے، انہیں تفسیروں پر عمل کرتے ہوئے ماشاء اللہ علماء بڑی تیاری کرکے جہاں جہاں بھی دنیا میں جلسے ہوتے ہیں اپنی تقاریر کرتے ہیں، خطابات کرتے ہیں اور یہ باتیں بتاتے ہیں- تو آج بھی ان جلسوں کی اس اہمیت کو سامنے رکھنا چاہئے۔ وہی اہمیت آج بھی ہے اور تقاریر جب ہو رہی ہوں تو ان کے دوران تقاریر کو خاموشی سے سننا چاہئے۔ پھر آپؑ نے فرمایا کہ شامل ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کی بھی توفیق ملتی ہے۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں آج بھی شاملین جلسہ کے لئے برکت کا باعث ہیں کیونکہ آپؑ نے اپنے ماننے والوں کے لئے جو نیکیوں پر قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐکی سچی محبت دل میں رکھتے ہیں، قیامت تک کے لئے دعائیں کی ہیں- پھر یہاں آ کر ایک دوسرے کی دعاؤں سے بھی حصہ لیتے ہیں- ضمنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں- ایک دوسرے کی پہچان ہو جاتی ہے، حالات کا پتہ لگ جاتا ہے۔ اب تو دنیا یوں اکٹھی ہو گئی ہے، فاصلے اتنے کم ہو گئے ہیں کہ تمام دنیا کے لوگ کم از کم نمائندگی کی صورت میں یہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں جس سے ایک دوسرے کے حالات کا پتہ چلتا ہے، ان کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ پھر آپس میں اس طرح گھلنے ملنے سے، اکٹھے ہونے سے محبت و اخوت بھی قائم ہوتی ہے۔ آپس میں تعلق اور پیار بھی بڑھتا ہے اور بعض دفعہ حقیقی رشتہ داریاں بھی قائم ہو جاتی ہیں کیونکہ بہت سے تعلق پیدا ہوتے ہیں- رشتہ ناطے کے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں- اور اس سے جماعت میں جو مضبوطی پیدا ہونی چاہئے وہ پیدا ہوتی ہے اور اجنبیت بھی دور ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے لئے بغض و کینے کم ہوتے ہیں اور جب ایسی باتوں کا،آپس میں لوگوں کی رنجشوں کا پتہ لگتا ہے تو ان کے لئے پھر دعائیں کرنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ اور پھر جو دوران سال وفات پا گئے ہیں ان کی مغفرت کے لئے بھی دعا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی باتوں کے سنانے کا شغل رہے گا۔ لیکن جلسوں پر آنے والے صرف میلے کی صورت میں اکٹھے ہو جانے کا تصور لے کر نہ یہاں آئیں- جب یہاں آئیں تو غور سے ساری کارروائی کو سننا چاہئے۔ اگر اس بارے میں سستی کرتے ہیں تو پھر تو یہاں آ کر بیٹھنا اور تقریریں سننا کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا۔ اس لئے باہر سے آنے والے بھی جو خرچ کرکے آئے ہیں اور یہاں کے رہنے والے بھی جلسے کی تقریروں کے دوران پورا پورا خیال رکھیں اور بڑے غور اور دلجمعی سے جلسے کی کارروائی کو سنیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے۔ پورے غور اور فکر کے ساتھ سنوکیونکہ یہ معاملہ ایمان کا ہے۔ اس میں سستی،غفلت اور عدم توجہ بہت برے نتائج پیدا کرتی ہے۔ جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کرکے کچھ بیان کیا جائے تو غور سے اس کو نہیں سنتے، ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجے کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں اور دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں- پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑے غور سے سنو۔ کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتاوہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا‘‘۔ (الحکم ۱۰؍مارچ ۱۹۰۲ء)
دیکھیں کس قدر ناراضگی کا اظہار فرمایا ان لوگوں کے لئے جو جلسہ پر آ کرپھر جلسہ کی کارروائی کو توجہ سے نہیں سنتے۔ تو ایسے لوگوں کی حالت ایسی ہے کہ باوجود کان اور دل رکھنے کے نہ سننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں- اللہ رحم کرے اور ہر احمدی کو اس سے بچائے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ سب صاحبان متوجہ ہو کر سنیں- مَیں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل و قال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آ کر اس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کر رہا ہے۔ الفاظ میں کیسا زور ہے۔ میں اس بات پر راضی نہیں ہوتا۔ مَیں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا یہی اقتضا ہے‘‘۔ یہی تقاضا کرتی ہے کہ ’’جو کام ہو اللہ کے لئے ہو۔ جو بات ہو خدا کے واسطے ہو۔ …… مسلمانوں میں ادبار اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے‘‘۔ یعنی کمزوریاں اور گراوٹ جو آئی ہے اس کی یہی وجہ ہے، ورنہ اس قدر کانفرنسیں اور انجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لسّان اور لیکچرار اپنے لیکچر پڑھتے اورتقریریں کرتے شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں- وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ قوم دن بدن ترقی کی بجائے تنزل ہی کی طرف جاتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ:’’ بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 266-265ٰجدید ایڈیشن)
بعض دفعہ لوگ جلسے کے دوران باہر آجاتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ فلاں مقرر کا جو انداز ہے، جس طرح وہ بیان کر رہا ہے میں تو اس طرح نہیں سن سکتا اس لئے باہر آ گیا ہوں- یہ بھی ایک طرح کا تکبر ہے۔ اور چاہے کوئی مقرر دھواں دار تقریر کرتا ہے یا نہیں، چاہے وہ اپنے الفاظ اور آواز کے جادو سے آپ کے جذبات کو ابھارتا ہے یا نہیں،تقریریں سنیں اور ان میں علمی اور روحانی نکتے تلاش کریں اور پھر ان سے فائدہ اٹھائیں- فرمایا کہ جو صرف آواز اور الفاظ کے جادو سے متأثر ہونے والے ہوتے ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتے کیونکہ وقتی اثر ہوتا ہے اور مجلس سے اٹھ کر جاؤ تو اثر ختم ہو گیا۔ اور یہی بات ایک احمدی میں نہیں ہونی چاہئے۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ:’’ اس جلسہ سے مدّعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خداتعالیٰ کاخوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں ‘‘۔
پھر فرمایا کہ:’’ یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ نخواہ التزام اس کا لازم ہے۔ بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے ورنہ غیر اس کے ہیچ ‘‘۔ یعنی اس کی اصل نیت جو ہے وہ روحانی عزت کو بڑھانے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی ہے رسول کی محبت حاصل کرنے کی ہے۔ ورنہ تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور فرمایا کہ’’ جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجربہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد کہ اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے ایک معصیت اور طریق ضلالت اور بدعت شنیعہ ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں ‘‘۔ صرف اس لئے اکٹھا نہیں کرتا کہ نظر آئے کہ لوگوں کا کتنا مجمع اکٹھا ہو گیا ہے۔ ’’بلکہ وہ علت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاح خلق اللہ ہے‘‘۔ وہ مقصد جس کے لئے یہ وجہ پیدا کی گئی ہے وہ اللہ کی مخلوق کی اصلاح ہے۔ ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سویا رہوں ‘‘۔ یعنی میری حالت پر افسوس ہے کہ میں امن سے سویا رہوں- ’’اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں- اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں- بلکہ مجھے چاہئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے۔ اگر میرا بھائی ساد ہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہئے کہ میں اس سے کوئی ٹھٹھا کروں یا
چیں برجبیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں- کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو، جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے‘‘جب تک وہ اپنے آپ کو ہر ایک سے ذلیل نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہو جائیں- خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے۔ اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے‘‘۔ (شہادت القرآن۔ روحانی خزائن جلد نمبر6صفحہ396-394)
یہاں پر آپؑ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جلسہ پر شامل ہو کر جلسہ کی تقریروں کو سن کر پھر بھی اگر اس طرف توجہ نہیں ہوتی تو جلسوں پر آنا بے فائدہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ اس بات کا کوئی فائدہ نہیں کہ جلسہ پر آئیں وقتی جوش پیدا ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اور جلسہ ختم ہوتے ہی باہر جائیں تو جذبات پر اتنا سا بھی کنٹرول نہ رہے کہ دوسرے کی کوئی بات ہی برداشت کر سکیں- اگر یہ حالت ہی رکھنی ہے تو بہتر ہے کہ پھر جلسے پر نہ آئیں- یہاں کئی واقعات ایسے ہو جاتے ہیں جن کو اپنے آپ پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا۔ صحیح طور پر نہ خود جلسہ سنتے ہیں اور نہ ہی دوسرے کو سننے دیتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر پھر سر پٹول بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ تو ایسے لوگ پھر وہی لوگ ہیں جیسے کہ حضرت اقدس
مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ کان رکھتے ہیں اور سنتے نہیں اور دل رکھتے ہیں اور سمجھتے نہیں- ذرا غور کریں یہ کون لوگ ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ ان لوگوں کی نشانی بتائی ہے جو انبیاء کا انکار کرنے والے ہیں- جب اس طرح کے رویّے اختیار کرنے ہیں تو پھر جب نظام جماعت ایکشن لیتا ہے پھر یہ شکایت ہوتی ہے کہ کارکنان نے ہمارے ساتھ بدتمیزی کی ہے اور ہمیں یہ کہا اور وہ کہا۔ یہ ٹھیک ہے میں نے کارکنان کو بھی بڑی دفعہ یہ سمجھایا ہے کہ براہ راست ان کو کچھ نہیں کہنا،ایسے لوگوں کو جو اپنے عمل سے خود کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نظام کو کچھ نہیں سمجھتے،جلسے کے تقدس کو کچھ نہیں سمجھتے تو پھر ان کا ایک ہی علاج ہے کہ اس تکبر کی وجہ سے ان کو پولیس میں دے دیاجائے۔ گزشتہ سال بھی ایسے ایک دوواقعات ہوئے تھے۔ تو اگر اس سال بھی کوئی اس نیت سے آیا ہے کہ بجائے اس کے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت و اخوت پیدا کرے،یہ نیت ہے کہ فساد پیدا کرے تو پھر جلسے پر نہ آنا ہی بہتر ہے اور اگر آئے ہوئے ہیں تو بہتر ہے کہ چلے جائیں تاکہ نظام جماعت کے ایکشن پر پھر شکوہ نہ ہو۔ گزشتہ جمعہ میں میں نے کارکنان کو اور یہاں کے رہنے والوں کو جو لندن یا اسلام آباد کے ماحول میں رہ رہے ہیں، یہ کہا تھا کہ مہمان نوازی کے بھی حق ادا کریں-لیکن آنے والے مہمانوں کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ وہ ڈیوٹی پر مامور کارکنوں کو ابتلاء میں نہ ڈالیں اور جو نظام ہے اس سے پورا پورا تعاون کریں- اس لئے جہاں خدمت کرنے والے کارکنان مہمانوں کی خدمت کے لئے پوری محنت سے خدمت انجام دے رہے ہیں وہاں مہمانوں کا بھی فرض ہے کہ مہمان ہونے کا حق بھی ادا کریں اور جس مقصد کے لئے آئے ہیں اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں- حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو پاک تبدیلیاں ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کریں-
آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’نیکی کو محض اس لئے کرنا چاہئے کہ خداتعالیٰ خوش ہو اور اس کی رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کی تعمیل ہو۔ قطع نظر اس کے کہ اس پر ثواب ہو یا نہ ہو۔ ایمان تب ہی کامل ہوتا ہے جب کہ یہ وسوسہ اور وہم درمیان سے اٹھ جاوے اگرچہ یہ سچ ہے کہ خداتعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَایُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِیْن- مگر نیکی کرنے والے کو اجر مدنظر نہیں رکھنا چاہئے۔ دیکھو اگر کوئی مہمان یہاں محض اس لئے آتا ہے کہ وہاں آرام ملے گا، ٹھنڈے شربت ملیں گے یا تکلف کے کھانے ملیں گے تو وہ گویا ان اشیاء کے لئے آتا ہے۔ حالانکہ خود میزبان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ کرے اور اس کو آرام پہنچاوے اور وہ پہنچاتا ہے۔ لیکن مہمان کا خود ایسا خیال کرنا اس کے لئے نقصان کا موجب ہے‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ543)
پس جو مہمان آ رہے ہیں اس نیک مقصد کے لئے آئیں اور اگر کوئی سہولت میسر آ جائے اور آرام سے یہ دن کٹ جائیں توخداتعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے یہ سامان مہیا فرما دئیے۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بغیر اجر کے کسی نیکی کو جانے نہیں دیتا تو آپ کے یہاں آنے کے مقصد کو ضائع نہیں کرے گا اوربے شمار فضل اور رحمتیں نازل ہوں گی۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔ ایک دعا ہے جو آنے والے مہمانوں کو پڑھتے رہنا چاہئے۔ حضرت خولہؓ بنت حکیم بیان کرتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص کسی مکان میں رہائش اختیار کرتے وقت یا کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے وقت یہ دعا مانگے کہ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّمَا خَلَقَ یعنی میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اور اس شر سے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے پناہ چاہتا ہوں- تو اس شخص کو یہاں کی رہائش ترک کرنے یا اس جگہ سے کوچ کرنے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔ (مسلم کتاب الذکرباب التعوذ من سوء القضاء ودرک الشقاء وشرہ)
یہ دعائیں پڑھتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر آنے والے کو ہر شر سے بچائے اور نیک اثرات لے کر یہاں سے جائیں اور نیک اثرات چھوڑ کر جائیں-
جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جلسے پر آنے والے مہمانوں کو یہ مقصد پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آپس میں محبت و اخوت پیدا ہو تو اس بات میں جو تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہے اس کا بھی اس روایت سے اظہار ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ کون سا اسلام سب سے بہتر ہے۔ فرمایا ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ اور ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے، سلام کہو۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام)۔ تو جب اس طرح سلام کا رواج ہو گا تو آپس میں محبت بڑھے گی۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ جب آپ ایک دوسرے کو سلام کر رہے ہوں گے، ہر طرف سلام سلام کی آوازیں آ رہی ہوں گی تو یہ جلسہ محبت کے سفیروں کا جلسہ بن جائے گاکیونکہ محض للہ یہ سب عمل ہو رہاہو گا تو اللہ کی پیار کی خاص نظر بھی آپ پرپڑ رہی ہوگی۔ اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر عورتیں بھی، بچے بھی، مرد بھی سلام کو بہت رواج دیں- کیونکہ اس سے ایک تو محبت بھی آپس میں بڑھے گی اور پھر اسلام کا صحیح نمونہ بھی پیش ہو رہاہو گا جو غیروں کو بھی نظر آ رہا ہو گا۔
اب بعض متفرق باتیں جو جلسہ کے تعلق میں ہیں میں کہنا چاہتا ہوں جو مہمانوں، میزبانوں، ڈیوٹی والوں ہر ایک کے لئے ہیں-
پہلی بات تو یہ ہے کہ مسجد میں اور مسجد کے ماحول میں اس کے آداب اور تقدس کا خیال رکھیں- مسجد فضل میں جب یہاں سے جائیں گے وہاں بھی کافی رش ہوتا ہے۔
٭ جلسہ کے دنوں میں یہ مارکی بھی مسجد کا ہی متبادل ہے بلکہ یہ پورا علاقہ یعنی جلسہ گاہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق وہی نظارے نظر آنے چاہئیں جو ایک ایسے پاکیزہ مقدس ماحول میں ہونے چاہئیں- جہاں صرف اللہ اور اس کے رسول کی باتیں ہو رہی ہوں، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی باتیں ہو رہی ہوں-
٭ جلسہ کے ایام ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھتے ہوئے گزاریں اور التزام کے ساتھ بڑی باقاعدگی کے ساتھ توجہ کے ساتھ نماز باجماعت کی پابندی کریں-
٭ نمازوں اور جلسے کی کارروائی کے دوران بچوں کی خاموشی کا بھی انتظام ہونا چاہئے۔ ڈیوٹی والے بھی اس چیز کا خاص خیال رکھیں اور مائیں اور باپ بھی اس کا بہت خاص خیال رکھیں اور ڈیوٹی والوں سے اس سلسلے میں تعاون کریں- جو جگہیں بچوں کے لئے بنائی گئی ہیں وہاں جا کے چھوٹے بچوں کو بٹھائیں تاکہ باقی جلسہ سننے والے ڈسٹرب نہ ہوں-
٭ جلسہ کے دوران اگر کسی غیر از جماعت مہمان کی تقریر آپ سنیں، اس میں سے آپ کو کوئی بات پسند آئے اور اس کو خراج تحسین دینا چاہتے ہوں تو اس کے لئے تالیاں بجانے کی بجائے جو ہماری روایات ہیں اللہ اکبر کا نعرہ لگانا۔ ماشاء اللہ وغیرہ کہنا ایسے کلمات ہی کہنے چاہئیں کیونکہ تالیاں بجانا ہمارا شعار نہیں ہے۔ ہماری اپنی بھی کچھ روایات ہیں اور ان کا خیال رکھنا چاہئے۔ یہاں پر بھی اور دنیا میں جہاں جہاں جلسے ہوتے ہیں انہیں روایات کا خیال رکھنا چاہئے۔
نعروں کے ضمن میں یاد رکھیں کہ ہر کوئی اپنی مرضی سے نعرے نہ لگائے بلکہ انتظامیہ نے اس کے لئے پروگرام بنایا ہوا ہے، نعرے لگانا کچھ لوگوں کے سپرد کیا ہوا ہے۔ وہی جب نعرے لگانے کی ضرورت محسوس کریں گے تو نعرے لگا دیں گے۔ لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو اگر نعرے نہ لگ رہے ہوں تو تقریر کے دوران نیند آ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے پھر نعروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بے وجہ نعرے لگاتے جائیں تو نظم یا تقریر جو ہو رہی ہوتی ہے بعض دفعہ اس کا مزا نہیں رہتا۔ ایسے لوگ جن کو نیند آ رہی ہو خاموشی سے ساتھ والا ان کو ٹھوکا مار کر جگا دیا کرے۔
انگلستان کے احمدیوں کو، بہت سارے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں شامل ہو چکے ہیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خواہش تو تھی کہ ہر کوئی شامل ہو،تو خاص طور پر ذوق شوق سے جلسے میں شامل ہونا چاہئے۔ جو ابھی تک نہیں آئے وہ بھی کوشش کریں کہ کم از کم کل صبح جلسے کا سیشن شروع ہونے سے پہلے پہلے آ جائیں کیونکہ بغیر کسی جائز عذر کے جلسے سے غیر حاضر نہیں رہنا چاہئے۔ بعض دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ صرف دو دن یا آخری دن ہی آ جاتے ہیں- ان کو کوئی مجبوری نہیں ہوتی کیونکہ ہفتہ اتوار تقریباً ہر ایک کافارغ ہوتا ہے۔ اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ جائیں گے آخری دن کچھ ملاقاتیں ہو جائیں گی کچھ لوگوں سے مل لیں گے۔ ٹھیک ہے آپ نے ایک مقصد تو پورا کر لیا لیکن صرف یہی مقصد ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی محبت پیدا کرنا سب سے بڑا مقصد ہے۔
یہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تقاریر کو باقاعدہ سنا کریں جس حد تک ممکن ہو سننا چاہئے اور اس میں ڈیوٹی والے کارکنان بھی، اگر ان کی اس وقت ڈیوٹی نہیں ہے ان کو تقاریر سننے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
ان ایام میں پورے التزام سے نمازوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیں- لنگر خانے یا جہاں جہاں بھی ڈیوٹیاں ہیں وہاں بھی کارکنان کی باقاعدہ نمازوں کی ادائیگی کا انتظام ہونا چاہئے۔ اور ان کے افسران کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں-
نمازوں کے دوران جو آپ مارکی کے اندر نمازیں پڑھنے کے لئے آتے ہیں تو نماز شروع ہونے سے پہلے ہی آ کے بیٹھ جایا کریں- کیونکہ یہاں لکڑی کے فرش ہیں گو اس کے اوپر پتلا سا قالین تو بچھا ہواہے لیکن چلنے سے اس قدر آواز اور شور آتا ہے کہ جب نماز شروع ہو جائے تو پھر نماز خراب ہو رہی ہوتی ہے۔ دوسروں تک جو نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں آواز ہی نہیں پہنچتی۔ کل بھی مغرب کی نماز کے وقت شور کا تسلسل تھا جو دوسری رکعت تک رہا۔ اس لئے نماز میں پہلے آ کر بیٹھا کریں-
٭ بعض لوگوں کو موبائل فون بڑے اہم ہوتے ہیں (اس وقت بھی شاید کسی کا فون بج رہا ہے) اگر اتنے اہم فون آنے کا خیال ہو تو پھر وہ فون رکھیں جو اچھی قسم ہیں جن کی آواز کم کی جاسکتی ہے۔ جیب میں رکھیں اس کی وائبریشن (Vibration)سے آپ کو احساس ہو جائے کہ فون آیا ہے اور باہر جا کر سن لیں- کم از کم لوگوں کو نمازوں کے دوران جلسوں کے دوران اور تقریر وں کے دوران ڈسٹرب نہ کیا کریں-
٭ جلسے کے دوران بازار بند رہنے چاہئیں اور آنے والے مہمان بھی سن لیں اور یہاں رہنے والے بھی سن لیں، ڈیوٹیاں دینے والے بھی سن لیں- پہلے کہا جاتا تھا کہ اگر مجبوری ہو تو چند ضرورت کی چیزیں مہیا ہو سکتی ہیں وہ دکانیں کھلی رہیں گی اور انتظامیہ جائزہ لیتی تھی کہ کون کون سی دکانیں کھلی رہیں یا نہ کھلی رہیں- لیکن کل بازار کا خود میں نے جو جائزہ لیا ہے اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کوئی دکان کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جلسے کے دوران تمام دکانیں بند رہیں گی اور دکاندار جنہوں نے سٹال لگائے ہوئے ہیں وہ سب جلسہ کی کارروائی سنیں اور کوئی گاہک بھی ادھر نہیں جائے گا کسی قسم کی خرید و فروخت نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ اگر ایمرجینسی میں کسی چیز کی ضرورت ہو توجو نظام ہے جلسہ سالانہ کا اس کے تحت وہ چیزیں مہیا ہو جاتی ہیں- اس لئے کسی قسم کی دکانیں کھولنے کی ضرورت نہیں-
٭ فضول گفتگو سے اجتناب کریں- آپس کی گفتگو میں دھیما پن اور وقار قائم رکھیں- سخت گفتگو،تلخ گفتگو سے پرہیز کرنا چاہئے۔ کیونکہ محبت اور بھائی چارے کی فضا بھی اسی طرح پیدا ہو گی۔ بات چیت میں بھی ایک دوسرے کا خیال رکھیں-
٭ بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوجوانوں میں توُ توُ مَیں مَیں شروع ہو جاتی ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہئے پرہیز کرنا چاہئے، بچنا چاہئے۔
٭ ٹولیوں میں بعض دفعہ بیٹھے ہوتے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں، باتیں کر رہے ہوتے ہیں- یہ بھی اچھی عادت نہیں ہے۔ بعض دفعہ بہت سے غیرملکی بھی یہاں آئے ہوئے ہیں ان لوگوں کی مختلف زبانیں ہیں- زبانیں نہیں سمجھتے جب آپ بات کر رہے ہوں اور کوئی قریب سے گزرنے والا بعض دفعہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ شاید میرے پہ کوئی تبصرہ ہو رہا ہے یا مجھ پر ہنسا جا رہا ہے۔ تو ماحول کو خوشگوارکھنے کے لئے ان چیزوں سے بھی بچنا چاہئے۔
٭ اسلام آباد کے ماحول میں بھی جو اسلام آباد میں سڑکیں آتی ہیں وہ بہت چھوٹی سڑکیں ہیں- یہاں بھی شورشر ابے یا ہارن وغیرہ یا ہر قسم کی ایسی حرکت سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ یہاں کے لوگوں کو بعض دفعہ اعتراض پیدا ہوتا ہے۔ کل بھی کسی نے مجھے بتایا کہ یہاں اخبار میں خبر تھی کہ لوگوں کو اعتراض پیدا ہو رہا ہے کہ شور ہوتا ہے اس لئے اس ماحول کا لحاظ کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا یہاں شور شرابہ نہیں ہونا چاہئے۔
٭گاڑیاں پارک کرتے ہوئے بھی خیال رکھیں کہ گھروں کے سامنے یا ممنوعہ جگہوں پر پارک نہ ہوں- ٹریفک کے قواعد کا بھی خیال رکھیں- جلسہ گاہ میں بھی جو پارکنگ کا شعبہ ہے منتظمین سے پورا تعاون کریں اور جہاں جہاں وہ کہتے ہیں وہیں گاڑیاں کھڑی کریں-
٭ ڈرائیونگ کے دوران ملکی قانون کی پوری پابندی کریں کیونکہ یورپ میں بعض جگہوں پر بعض سڑکوں پہ Speed Limit (حد رفتار) کوئی نہیں ہے یا سپیڈ لمٹ یہاں سے زیادہ ہے۔ یہاں کی سپیڈ لمٹ میں اور وہاں کی سپیڈ لمٹ میں فرق ہے۔ اس کا یورپ جرمنی وغیرہ سے آنے والے خاص طور پر خیال رکھیں-
٭ ویزے کی میعاد ختم ہونے سے پہلے پہلے آپ نے اپنی اپنی جگہوں پر اپنے ملکوں میں واپس چلے جانا ہے۔ جن کو خاص طور پر جلسے کا ویزا ملا ہے ان کو تو اس بات کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے۔ اگر یہ پابندی نہیں کریں گے تو پھر جماعتی نظام بھی حرکت میں آ جاتا ہے۔
٭صفائی کے لئے خاص طور پر جہاں اتنا رش ہو، جگہ چھوٹی ہو اور تھوڑی جگہ پر عارضی انتظام کیا گیا ہو بہت ساری مشکلات پیش آ تی ہیں- تو ہر کوئی یہ کوشش کرے کہ ٹائلٹ وغیرہ کی صفائی کا خاص طور پر خیال رکھیں- اگر کوئی کارکن نہیں بھی ہے اور کوئی جاتا ہے تو خود صفائی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ آخر ایک دوسرے کی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوا کرتا۔ آپس میں بھائی بھائی ہوں تو ایسے کام کر لینے چاہئیں- یہ نہیں ہے کہ کارکن آئے گا تب ہی صفائی ہو گی اور اس کی شکایت میں کروں گا اور انتظامیہ اس سے پوچھے گی تب ہی صفائی ہو گی۔ بلکہ چھوٹی موٹی اگر صفائی کی ضرورت ہو تو کر لینی چاہئے۔ کیونکہ صفائی کے بارے میں آتا ہے کہ یہ نصف ایمان ہے۔
خواتین بھی گھومنے پھرنے میں احتیاط اور پردے کی رعایت رکھیں- لیکن بعض دفعہ غیر خواتین بھی آئی ہوتی ہیں وہ تو ویسی پابندی نہیں کر رہی ہوتیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ جلسے پر آئی ہوئی ساری خواتین احمدی ہیں لیکن بعض غیر احمدی بھی ہوتی ہیں غیر از جماعت ہوتی ہیں تو وہ پابندی نہیں کر رہی ہوتیں- اس لئے انتظامیہ یہ خیال رکھے کہ عورتوں اور مردوں کے رش کے وقت راستے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں-
چھوٹے بچوں میں بھی ان دنوں میں خاص طور پر جماعتی روایات کا خیال رکھتے ہوئے ٹوپی پہننے کی عادت ڈالیں- ایسے بچے جو نمازیں پڑھنے کی عمر کے ہیں- اور اس طرح ایسی بچیاں جو اس عمر کی ہیں ان کو سر پر چھوٹا سا دوپٹہ بھی لے دینا چاہئے بجائے اس کے کہ یہاں کے لباس پہن کر پھریں-
بعض دفعہ شکایت آ جاتی ہے گو یہ بہت معمولی ہے ایک آدھ کیس ایسا ہوتا ہو گا کہ بعض لفٹ دینے والے مہمانوں سے پیسے کا مطالبہ کرتے ہیں- یہ نہیں ہونا چاہئے۔ تو مہمانوں کی عزت و اکرام اور خدمت کے بارے میں میں پہلے ہی کہہ چکاہوں اس کو خاص اہمیت دیں- محبت خلوص ایثار اور قربانی کے جذبے کے تحت ان کی خدمت کریں-یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں ان کے ساتھ نرم لہجہ اور خوشدلی سے بات کریں- یہ تفصیلی ہدایت تو پہلے میں دے چکا ہوں-
جو مہمان آ رہے ہیں وہ بھی یہ خیال رکھیں کہ نظم و ضبط کا خاص خیال رکھیں اور منتظمین جلسہ سے پورا پورا تعاون کریں- ان کی ہر طرح سے اطاعت کریں-
بعض مائیں اپنے بچوں کی بڑی غیرت رکھتی ہیں کوئی ڈیوٹی والا اگر کسی کو کچھ کہہ دے تو لڑنے مارنے پہ آمادہ ہو جاتی ہیں وہ بھی سن لیں کہ اگر وہ تعاون نہیں کر سکتیں اور اتنی غیرت ہے تو پھر جلسے کے وقت اس دوران اس مارکی میں نہ آئیں-
کھانا کھاتے وقت بھی بعض باتیں دیکھنے میں آتی ہیں- بعض دفعہ ضیاع ہو جاتا ہے۔ اب اس دفعہ انہوں نے کچھ انتظام بدلا ہے۔ کیونکہ پہلے ہی پیکنگ کرکے دے رہے ہیں اور میں نے دیکھا ہے اتنی مقدار ہے کہ امیدہے ضائع نہیں ہو گی عموماً ایک آدمی اتنا کھا ہی لیتا ہے لیکن بعض کو بعض چیزیں نہ کھانے کی عادت ہوتی ہے۔ یہاں اگر آلو نہیں بھی پسند تب بھی مجبوراً کھا لیں اور ضائع نہ کریں کیونکہ پھر یہاں ڈمپ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔
٭ بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں ایک دوسرے پر مذاق میں ہو رہی ہوتی ہیں وہ بھی بعض دفعہ بڑی لڑائیوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ان سے بھی پرہیز کریں، اجتناب کریں- اور زبان کی نرمی بڑی ضروری ہے۔ اور دونوں مہمان بھی اور میزبان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ نرم زبان کا استعمال ہو اور کسی بھی قسم کی سختی دونوں طرف سے نہیں ہونی چاہئے۔ اور پیار سے، محبت سے ایک دوسرے سے ان دنوں پیش آئیں بلکہ ہمیشہ پیش آئیں اور خاص طور پر دعاؤں میں یہ دن گزاریں جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں- اور جلسے کی جو خاص برکات ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں-
بعض دفعہ جہاں کھانا کھایا جاتا ہے وہاں لوگ اپنی پلیٹیں چھوڑ جاتے ہیں یا انہوں نے جو پیک بنائے ہیں وہ چھوڑ جاتے ہیں تو ان کو اٹھا کے جہاں ڈسٹ بن بنائے گئے ہیں وہاں پھینکیں-
حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے میں یہ پہلے بیان کر چکا ہوں کہ یہ جماعتی جلسہ ہے اس کو میلہ نہ سمجھیں کیونکہ آپس میں ملاقاتیں وغیرہ یا فیشن کا اظہار تو یہاں مقصود نہیں ہے۔ عورتیں اکٹھی ہوں تو باتیں شروع کر دیتی ہیں اور پھر ختم نہیں ہوتیں- ان کو بھی احتیاط کرنی چاہئے اور انتظامیہ اس کا خاص طور پر خیال رکھے اور نگرانی کرے۔
اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
بعض باہر سے آنے والے یہاں شاپنگ کرنے کے لئے قرض لینے کی کوشش کرتے ہیں- یہ بات قناعت کی صفت کو گدلا کر رہی ہوتی ہے۔ قناعت کی صفت میں ایساا ظہار ہو رہا ہوتا ہے جو لوگوں کو اچھا نہیں لگتا۔ تو اس سے بچنا چاہئے۔ اتنا ہی خرچ کریں جتنی توفیق ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ شاپنگ کرنے کے لئے جتنی ضرورت ہے رقم آپ کے پاس ہے اتنی شاپنگ کریں،عزیزوں رشتہ داروں سے قرض نہ لیں- یہ بڑا غلط طریقہ ہے۔ جلسہ سننے کی غرض سے آتے ہیں تو جلسہ سننا چاہئے اور جو روحانی مائدہ یہاں تقسیم ہو رہاہے اس سے ہر ایک کو اپنی جھولیاں بھرنی چاہئیں-
گو کہ یہی کہا جاتا ہے کہ مہمان نوازی تین دن کی ہوتی ہے لیکن بعض لوگ دور سے آرہے ہوتے ہیں خرچ کرکے آ رہے ہوتے ہیں اور پھر یہ خیال ہوتا ہے کہ دوبارہ موقع مل سکے یانہ مل سکے تو زیادہ ٹھہرنا چاہتے ہیں- اگر اپنے قریبی عزیزوں رشتہ داروں کے ہاں ٹھہر جائیں تو ان کو خوشی سے ٹھہرا لینے میں حرج نہیں ہے۔ او ربعض طبیعتیں بڑی حساس ہوتی ہیں ایسے مہمانوں کو مذاقاً بھی احساس نہیں دلانا چاہئے جو مالی لحاظ سے ذرا کم ہوں یا قریبی عزیز ہوں کہ تین دن ہو گئے اور مہمان نوازی ختم ہو گئی۔ اس طرح اس سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں-
حفاظتی طور پر بھی خاص نگرانی کاخیال رکھنا چاہئے اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں- یہ ہر ایک کا فرض ہے۔ اجنبی آدمی یا کوئی ایسا شخص آپ دیکھیں جس پر شک ہو تو متعلقہ شعبہ کو اطلاع دیں لیکن خود کسی سے اس طرح نہ پیش آئیں جس سے کسی قسم کا چھیڑ چھاڑ کا خطرہ پیدا ہو اور آگے لڑائی جھگڑے کا خطرہ پیدا ہو۔ لیکن اگر اطلاع کا وقت نہیں ہے پھر اس کا بہترین حل یہی ہے کہ آپ اس شخص کے آپ ساتھ ساتھ ہو جائیں، اس کے قریب رہیں- تو ہر شخص اس طرح سیکیورٹی کی نظر سے دیکھتا رہے تو بہت سارا مسئلہ تو اسی طرح حل ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ بعض خبروں کی بنا پہ، گزشتہ سالوں میں آتی رہی ہیں، انتظامیہ بعض دفعہ چیکنگ سخت کرتی ہے۔ تو اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو چیکنگ سخت ہو رہی ہو تو مکمل تعاون کرنا چاہئے خاص طور پر عورتوں کو وہ عام طور پر جلدی بے صبری ہو جاتی ہیں- اس لئے ہماری حفاظت کے نقطۂ نظر سے ہی یہ سب کچھ ہو رہا ہوتاہے۔ اس لئے تعاون ہر ایک کا فرض ہے۔
پھر یہ کہ جو آپ کو کارڈ دئے گئے ہیں وہ اپنے پا س رکھیں اوراگر کسی کا کارڈ گم ہوگیا ہو تو متعلقہ شعبہ کو اطلاع کریں تاکہ ان کو بھی پتہ لگ جائے کون سا کارڈ گم ہوا ہے کس کا گم ہوا ہے تاکہ اگر کسی اور نے ایسا لگایا ہو وہ بھی پتہ لگ جائے اور آپ کو بھی کارڈ میسر آ جائے۔
قیمتی اشیاء اپنی نقدی یا پیسے وغیرہ کی حفاظت بھی آپ پر فرض ہے کہ خود کریں-کیونکہ یہاں بہت سے لوگ آئے ہوئے ہیں اور کھلی جگہیں ہیں ٹینٹ میں اجتماعی قیام گاہیں ہیں تو بعد میں شکایات نہیں ہونی چاہئیں- اس لئے آپ خود اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہیں-
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جو اس جلسہ کے لئے دعائیں ہیں وہ حاصل کرنے والے ہوں اور ان مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے آپؑ نے جلسوں کا اجراء فرمایا تھا اور ان دنوں میں ہمیں دعاؤں کی بھی توفیق ملے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی بھی توفیق ملے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں