خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 27؍ اگست 2004ء

برکت ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت اور اس کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہی ہے
جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بد نام کرتا ہے
(اطاعت نظام اور وحدت کے متعلق قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں تاکیدی نصائح)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
27؍ اگست 2004ء بمقام ’’بیت الرشید‘‘ ہمبرگ (جرمنی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوااللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْء فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ۔ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا- (سورۃ النساء آیت60:)

اس کا ترجمہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکاّم کی بھی، اور اگر تم کسی معاملے میں اُوْلُوالْاَمْر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو۔ اگر فی الحقیقت تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریقہ ہے اور اپنے انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔
کسی بھی قوم یا جماعت کی ترقی کا معیار اور ترقی کی رفتار اس قوم یا جماعت کے معیار اطاعت پر ہوتی ہے۔ جب بھی اطاعت میں کمی آئے گی ترقی کی رفتار میں کمی آئے گی۔ اور الٰہی جماعتوں کی نہ صرف ترقی کی رفتار میں کمی آتی ہے بلکہ روحانیت کے معیار کے حصول میں بھی کمی آتی ہے۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار دفعہ اطاعت کا مضمون کھولا ہے۔ اور مختلف پیرایوں میں مومنین کو یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ کی اطاعت اس وقت ہو گی جب رسول کی اطاعت ہو گی۔ کہیں مومنوں کو یہ بتایا کہ بخشش کا یہ معیار ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور تمام احکامات پر عمل کریں تو پھر مغفرت ہو گی۔ پھر فرمایا کہ تقویٰ کے معیار بھی اس وقت قائم ہوں گے بلکہ تم تقویٰ پر قدم مارنے والے اس وقت شمار ہوگے جب اطاعت گزار بھی ہو گے۔ اور جب تم اپنی اطاعت کے معیار بلند کر لو گے تو فرمایا تم ہماری جنتوں کے وارث ٹھہرو گے۔ تو اس طرح اور بھی بہت سے احکام ہیں جو مومنوں کو اطاعت کے سلسلہ میں دئیے گئے ہیں-
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی خداتعالیٰ نے اطاعت کے مضمون کو ہی بیان فرمایاہے، یہ فرمانے کے بعد کہ اے مومنو! اے وہ لوگو! جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہم اللہ پر بھی ایمان لائے اور اس کے رسول پر بھی ایمان لائے ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پیروی کرو۔ اور پھر ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ تمہارے جوعہدیدار ہیں، تمہارے جو امیر ہیں تمہارا جو بنایا ہوا نظام ہے، جو نظام تمہیں دیا گیا ہے اس کی بھی اطاعت کرو۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول کی طرف معاملہ لوٹانے کا حکم ہے۔ یعنی یہ کہ اگر اختلاف ہو تو قرآن اور حدیث کی طرف جاؤ۔ وہاں سے دیکھو کہ کیا حکم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اختلاف کی صورت میں ہر کوئی، جس کو علم نہ بھی ہو اپنے مطابق خود ہی تشریح و تفسیر کرنے لگ جائے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہی ہے کہ جب آپس میں لوگوں کے اختلاف ہو جاتے ہیں تو کیونکہ تمام معاملات، ہدایات اور احکامات کی تشریح اور تفسیر کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا،بعض ایسے احکامات ہیں جو تفسیر طلب ہوتے ہیں اور ہر ایک کو اس کا علم نہیں ہوتا اس لئے قرآن و حدیث کے حوالے لینے کے لئے جو اس کا علم رکھنے والے ہیں ان سے بھی پوچھنا پڑے گا، ان کی طرف بھی جانا پڑے گا۔ اسلام کے ظلمت کے زمانے میں بھی، جو ہزار سال تاریکی کا دور گزرا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ مفسرین او رمجددین پیدا فرماتا رہا جو دین کا علم رکھتے تھے اور وہ اپنے اپنے علاقے میں رہنمائی فرماتے رہے۔ لیکن اس زمانے میں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے حَکَمْ اور عَدَلْ بنا کر بھیجا ہے اس دور میں تو قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا صحیح فہم اور ادراک صرف اور صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہی ہے۔ اب آپؑ جو بھی تفسیر و تشریح کسی بھی حکم کی فرمائیں گے وہی صحیح تفسیر و تشریح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے براہ راست آپؑ کو سکھایا ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے زمانے میں پیدا فرمایا اور بہت سے ہمارے مسائل حل کر دئیے جن کے لئے پہلے لوگ لڑتے رہے۔ اور

فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ

کے حکم پر عمل کرنے کے لئے آسانی پیدا فرما دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان معارف اور ان مسائل کو سمجھنے کا بے انتہا خزانہ ہمیں عطا فرما دیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق ایک ایسا نظام بھی ہم میں جاری فرما دیا کہ ہر مسئلے کے حل کے لئے،ہمیں اللہ اور رسول کے حکموں کو سمجھنے کے لئے آسانیاں پیدا ہو گئیں- پس ہم اس بات پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پر اور یوم آخرت پر ایمان میں اور بھی مضبوط کر دیا۔ اور اس طرح ہمارے معاملات کے انجام کو بھی بہتر کر دیا اور ہمیں بھی اپنے اس حَکَمْ اور عَدَلْ کی پیروی کرنے پر بہتر انجام کی خبر دے دی۔ پس ہم سب پر فرض بنتا ہے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قدرت ثانیہ کے اس جاری نظام کی بھی مکمل اطاعت کریں اور اپنی اطاعت کے معیاروں کو بلند کرتے چلے جائیں- لیکن یاد رکھیں کہ اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور صبر بھی دکھانا پڑتا ہے۔ پھر دنیاوی لحاظ سے بھی جو حاکم ہے اس کی دنیاوی معاملات میں اطاعت ضروری ہے۔ کسی بھی حکومت نے اپنے معاملات چلانے کے لئے جو ملکی قانون بنائے ہوئے ہیں ان کی پابندی ضروری ہے۔ آپ اس ملک میں رہ رہے ہیں یہاں کے قوانین کی پابندی ضروری ہے بشرطیکہ قوانین مذہب سے کھیلنے والے نہ ہوں، اس سے براہ راست ٹکر لینے والے نہ ہوں جیسا کہ پاکستا ن میں ہے۔ احمدیوں کے لئے بعض قوانین بنے ہوئے ہیں تو صرف اُن قوانین کی وہاں بھی پابندی ضروری ہے جو حکومت نے اپنا نظام چلانے کے لئے بنائے ہیں- جو مذہب کا معاملہ ہے وہ دل کا معاملہ ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ قانون آپ کو کہے کہ نماز نہ پڑھو اور آپ نماز ہی پڑھنا چھوڑ دیں- تو بہرحال جو بھی نظام ہو، دنیاوی حکومتی نظام ہو یا جماعتی نظام یا مذہبی نظام اُن کی اطاعت ضروری ہے۔ سوائے جو قانون، جیسا کہ میں نے کہا،براہ راست اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے ٹکراتے ہوں- تودینی لحاظ سے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا دوسرے مسلمانوں کو فکر ہو تو ہو احمدی مسلمان کو کوئی فکر نہیں کیونکہ ہم نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اپنا بندھن جوڑ کر اپنے آپ کو اس فکر سے آزاد کر لیا ہے کہ کیا ہم خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق عمل کرتے ہیں- اور جن امور کی وضاحت ضروری تھی کہ کون کون سے امور شریعت میں وضاحت طلب ہیں ان کی بھی ہمیں حضرت مسیح موعودؑ سے وضاحت مل گئی کیونکہ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک لائن بتا دی، تمام امور کی وضاحت کر دی کہ اس طرح اعمال بجا لاؤ تو یہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اختلافی معاملات کے حل کے لئے جب لو گ علماء، مفسرین یا فقہاء سے رجوع کرتے رہے تو ہر ایک نے اپنے علم، عقل اور ذوق کے مطابق ان امور کی تشریح کی۔ اپنے اپنے زمانے میں ہر ایک نے اپنے اپنے حلقے میں اپنی طرف سے نیک نیتی سے یہ تمام امور بتائے۔ مگر آہستہ آہستہ جن امور میں مفسرین اور فقہاء کا اختلاف تھا ان کے اپنے اپنے گروہ بنتے گئے اور یوں فرقے بندی ہو کر مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے اور لڑئی جھگڑے بھی ہوتے رہے اور اس تفرقہ بازی نے مسلمانوں کو پھاڑ دیا۔ لیکن اب اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خداتعالیٰ کی طرف سے ہدایت پا کر ہمارے لئے صحیح اور غلط کی تعیین کر دی ہے۔ پس احمدی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کریں تبھی وہ جماعت کی برکات سے فیضیاب ہو سکتے ہیں اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور صبر بھی دکھانا پڑتا ہے۔ کسی کے ایمان کے اعلیٰ معیار کا تو تبھی پتہ چلتا ہے جب اس پر کوئی امتحان کا وقت آئے اور وہ صبر دکھاتے ہوئے اور قربانی کرتے ہوئے اس میں سے گزر جائے۔ اس کی انا اس کے راستے میں روک نہ بنے۔ اس کا مالی نقصان اس کے راستے میں روک نہ بنے۔ اس کی اولاد اس کے اطاعت کے جذبے کو کم کرنے والی نہ ہو۔ جب یہ معیار حاصل کر لو گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ انفرادی طور پر تمہارے ایمانوں میں ترقی ہو گی اور جماعتی طور پر بھی مضبوط ہوتے چلے جاؤ گے۔ بعض لوگ ذاتی جھگڑوں میں نظام جماعت کے فیصلوں کا پاس نہیں کرتے یا ان فیصلوں پر عملدرآمد کے طریقوں سے اختلاف کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے چلے جاتے ہیں اور اپنا نقصان کر رہے ہوتے ہیں-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَاَطِیْعُوْا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا۔ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (الانفال:47)

یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل بن جاؤ گے۔ اور تمہارا رعب جاتا رہے گا۔ اور صبر سے کام لو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمیں بتا دیا کہ یاد رکھو تمہارے ایک ہونے کے لئے، تمہیں اکٹھے باندھ کر رکھنے کے لئے بنیادی چیز اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ اس لئے اس پر قائم رہو، آپس میں نہ جھگڑو۔ اور یہ حکم بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے حکموں میں سے ایک ہے کہ مسلمان آپس میں لڑیں نہیں- لیکن آجکل دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے۔ ایک فرقے نے دوسرے فرقے کا گریبان پکڑا ہوا ہے۔ ایک تنظیم دوسری تنظیم کے خلاف گالم گلوچ کر رہی ہے۔ تو پیشگوئی فرما دی تھی کہ اس طرح کرنے سے تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا۔ چنانچہ آجکل دیکھ لیں اس کے عین مطابق نتیجہ نکل رہا ہے۔ باوجود مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے اور بے تحاشہ تیل کا پیسہ ہونے کے رعب کوئی نہیں دوسرے اپنی مرضی کے مطابق ان ممالک کو بھی چلاتے ہیں- اگر یہ لوگ صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے بارے میں بے صبری کا مظاہرہ نہ کرتے اور بدظنی کا مظاہرہ نہ کرتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔ بہرحال ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان لیا، ہمارا کام ہے کہ یہ نمونہ اپنے سامنے رکھیں اور جو اللہ اور اس کے رسول نے احکامات دئیے ہیں اور اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو ہمیں بتایا ہے اس کی مکمل اطاعت کریں، ان کے مطابق عمل کریں- آپس میں محبت پیار سے رہیں، لڑائی جھگڑے نہ کریں- جو معاملات بھی اٹھتے ہیں ان پر صبر کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت میں شامل رہنے کی وجہ سے جو رعب خداتعالیٰ نے قائم کیا ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ ورنہ انفرادی طو رپر تو کسی کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تواللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا۔ یہ وعدہ دیا ہوا ہے کہ نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ۔ کہ آپ کے رعب کے قائم رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ خود ہی مدد کے سامان پیدا فرماتا رہے گا،خود ہی مدد کرے گا۔ پس جو لوگ جماعت میں شامل رہیں گے، جماعت کے نظام کی اطاعت کریں گے ان کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے چمٹے رہنے کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ رعب قائم رہے گا۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اطاعت میں ہی برکت ہے اور اطاعت میں ہی کامیابی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُوْلُوالْاَمْر سے نہیں جھگڑیں گے۔ اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے۔ اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ (مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃالامراء)
تو پہلی بات تو یہی کہ جب بیعت کر لی تو پھر جو کچھ بھی احکام ہوں گے تو ہم کامل اطاعت کریں گے۔ یہ نہیں کہ جب ہماری مرضی کے فیصلے ہو رہے ہوں تو ہم مانیں گے، ہمارے جیسا اطاعت گزار کوئی نہیں ہو گا۔ اور اگر کوئی فیصلہ ہماری مرضی کے خلاف ہو گیا ہے جس سے ہم پر تنگی وارد ہوئی تو اطاعت سے باہر نکل جائیں، نظام جماعت کے خلاف بولنا شروع کر دیں- نہیں، بلکہ جو بھی صورت ہو فرمایا کہ تنگی ہو یا آسانی ہو ہم نظام جماعت کے فیصلوں کی مکمل اطاعت کریں گے اور نظام سے ہی چمٹے رہیں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی طاعت در معروف پر ہی بیعت لی ہے اور اب تک یہ سلسلہ شرائط میں بیعت کے ساتھ چل رہا ہے۔ اس لئے یہ خیال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ عہد بیعت تھا اب نہیں، یا اب اگر اس کو توڑیں گے تو گناہ کوئی نہیں ہو گا یہ خیال ذہن سے نکال دیں- کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی یہ سلسلہ قائم ہوا ہے اور اس لئے یہ اسی کا تسلسل ہے۔ اور پھر ویسے بھی ایک حدیث میں آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی۔ اور جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خداتعالیٰ کی نافرمانی کی۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ،باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ)
تو یہ وہی سلسلہ چل رہا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ چاہے خوشی پہنچے یا غم پہنچے جو بھی امیر ہے اس سے جھگڑنا نہیں- اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہے اور اگلی بات یہ کہ حق پر قائم رہیں گے۔ اس کا کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ہم حق پر ہیں اس لئے ہم یہ فیصلہ نہیں مانتے۔ بلکہ فرمایا تمہیں ہمیشہ اس بات کا خیال رہے کہ تم نے سچی بات کہنی ہے۔ دنیا کی کوئی سختی کوئی دباؤ، کوئی لالچ تمہیں حق اور سچ کہنے سے نہ روکے۔ اور پھر یہ بھی کہ جب تمہارا کوئی معاملہ آئے تم نے سچی بات کہنی ہے، سچی گواہی دینی ہے اور جھوٹ بول کر نظام سے یا دوسرے فریق سے جھگڑنے کی کوشش نہیں کرنی۔ اور نہ کبھی یہ خیال آئے کہ ہم نے اگر نظام کی بات مان لی، اپنے بھائی بندوں سے صلح و صفائی کر لی، سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کر لیا تو دنیا کیا کہے گی۔
ہمیشہ یاد رکھو کہ تمہارا مطمح نظر، تمہارا مقصد حیات صرف اور صرف خداتعالیٰ کی رضا ہونا چاہئے۔ اور یہی کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے نظام کے جو احکامات و قواعد اور فیصلے ہیں ان کی پابندی کرنی ہے اور اس بارے میں اپنی اطاعت میں بالکل فرق نہیں آنے دینا۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے حاکم سے ناپسندیدہ بات دیکھے وہ صبر کرے کیونکہ جو نظام سے بالشت بھر جدا ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ (صیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن وتحذیرالدعاۃ الی الکفر)
بعض لوگ، لوگوں میں بیٹھ کر کہہ دیتے ہیں کہ نظام نے یہ فیصلہ کیا فلاں کے حق میں اور میرے خلاف۔ لیکن میں نے صبر کیا لیکن فیصلہ بہرحال غلط تھا۔ میں نے مان تو لیا لیکن فیصلہ غلط تھا۔ تو اس طرح لوگوں میں بیٹھ کر گھما پھرا کر یہ باتیں کرنا بھی صبر نہیں ہے۔ صبر یہ ہے کہ خاموش ہو جاتے اور اپنی فریاد اللہ تعالیٰ کے آگے کرتے۔ ہو سکتا ہے جہاں بیٹھ کر باتیں کی گئی ہوں وہاں ایسی طبیعت کے مالک لوگ بیٹھے ہوں جو یہ باتیں آگے لوگوں میں پھیلا کر بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح نظام کے بارے میں غلط تأثر پیدا ہو۔ اور اس سے بعض دفعہ فتنے کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور پھر جولوگ اس فتنے میں ملوث ہو جاتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ پھر وہ جاہلیت کی موت مرتے ہیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں- آپؑ فرماتے ہیں :
’’کیا اطاعت ایک سہل امر ہے جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلے کو بدنام کرتا ہے۔ حکم ایک نہیں ہوتابلکہ حکم تو بہت ہیں- جس طرح بہشت کے کئی دروازے ہیں کہ کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اور کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے، اسی طرح دوزخ کے کئی دروازے ہیں- ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو دوزخ کا بند کرو اور دوسرا کھلا رکھو’‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 411 جدید ایڈیشن)
لوگ منہ سے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم اطاعت گزار ہیں سلسلے کا ہر حکم سر آنکھوں پر۔ لیکن جب موقع آئے، جب اپنی ذات کے حقوق چھوڑنے پڑیں، تب پتہ لگتا ہے کہ اطاعت ہے یا نہیں ہے۔ اس لئے آپؑ نے فرمایا کہ اطاعت اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ہر حکم کو بجا لانا اور ہر معاملے میں اطاعت اصل مقصد ہے اور فرمایا کہ جو مکمل طور پر حکم کی اطاعت نہیں کرتا وہ سلسلے کو بدنام کرتا ہے۔ اللہ کے حقوق ادا نہ کرکے بھی بدنامی کا باعث بنتے ہو اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرکے بھی بدنامی کا باعث بنتے ہو اور جس طرح جنت میں جانے کے کئی دروازے ہیں نیکیاں کرکے جنت میں داخل ہوتے ہواسی طرح دوزخ کے بھی کئی دروازے ہیں- یہ نہ ہو کہ پوری اطاعت نہ کرکے کوئی دروازہ کھلا رکھو اور دوزخ میں داخل ہو جاؤ۔ اس لئے کامل وفا کے ساتھ اطاعت گزار بندے بنے رہو اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگنی چاہئے اس کا فضل ہو تو انسان ان باتوں سے بچ سکتا ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’اطاعت پوری ہو تو ہدایت پوری ہوتی ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب سن لینا چاہئے اور خداتعالیٰ سے توفیق طلب کرنی چاہئے کہ ہم سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 284 جدید ایڈیشن)
تو فرمایا کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں اس کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ پوری طرح ایمان لایا اور ہدایت پائی جس میں اطاعت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہو، ایک ذرہ بھی وہ اطاعت سے باہر نہ ہو۔ اور فرمایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ملتا ہے اس لئے اس سے توفیق طلب کرتے رہنا چاہئے کہ خداتعالیٰ ہمیں ہر ایسی حرکت سے بچائے جس سے ہماری اطاعت پر کوئی حرف آتا ہو۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہیں جس نے ہمیں انتہائی باریکی میں جا کر ان امور کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے ہم اللہ اور اس کے رسول کے اطاعت گزار کہلا سکیں-
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو برا نہ کہتے پھرو بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو خدا اس کو بدل دے گا یا اسی کو نیک کر دے گا۔ جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بدعملیوں کے سبب آتی ہے ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے۔ مومن کے لئے خداتعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے۔ میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ 246 زیر آیت سورۃ النساء :60)
فرمایا کہ چاہے حاکم ہو یا امیر ہو یا کوئی عہدیدار ہو کوئی افسر ہو اگر تم پاک ہو اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہو اور دعائیں کرتے ہو پھر یا تو اللہ تعالیٰ اس حاکم کو، اس افسر کو، اس عہدیدار کو، اس امیر کو بدل دے گا یا پھر نیک کر دے گا اس کی طبیعت میں تبدیلی پیدا کر دے گا۔ فرمایا کہ بعض دفعہ ابتلاء جو آتے ہیں یہ اپنی ہی بد عملیوں کی وجہ سے آتے ہیں- اپنی ہی کچھ حرکتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ابتلاء میں ڈال دیتا ہے۔ اس لئے خود بھی استغفار کرتے رہنا چاہئے۔ نیکیوں پر قائم ہونے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور اللہ اور رسول دونوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ میری امت کو ضلالت اور گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔

مَنْ شَذَّ شُذَّ اِلَی النَّارِ۔

جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ گویا آگ میں پھینکا گیا۔ (ترمذی کتاب الفتن باب فی لزوم الجماعۃ)
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ایک ہزار سال کے تاریک زمانے کا دور گزر گیا جس میں عملاً مسلمان اکثریت دین کو بھلا بیٹھی تھی۔ پھر اپنے وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور آپ نے ایک جماعت قائم فرمائی جس نے دنیا کی رہنمائی کا کام اپنے ذمہ لیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے جو لوگ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہو گئے وہ گمراہی اور ضلالت پھیلانے کے لئے تو اکٹھے نہیں ہوئے بلکہ دنیا کو خدائے واحد کی پہچان کروانے کے لئے جمع ہوئے ہیں- اس لئے اس جماعت کے اندر بھی وہی رہ سکتے ہیں جو کامل وفا اور اطاعت کے نمونے دکھانے والے بھی ہوں- اور جب ایسے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ پس ہر ایک جو وفا اور اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم نہیں کرتا وہ خود اپنا نقصان کر رہا ہے۔
اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ برکت ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت اور اس کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہی ہے۔ اس لئے اگر کبھی کسی کے خلاف غلط فیصلہ ہو جاتا ہے، تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ، صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے، بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ ہر ایک کی اپنی سمجھ ہے۔ قضاء نے اگر کوئی فیصلہ کیا ہے اور ایک فریق کے مطابق وہ صحیح نہیں ہے پھر بھی اس پر عمل درآمد کروانا چاہئے اور دعا کریں کہ قاضیوں کو اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کی توفیق دے۔ قاضیوں کو بھی غلطی لگ سکتی ہے لیکن ہر حالت میں اطاعت مقدم ہے۔ بعض لوگ اتنے جذباتی ہوتے ہیں کہ بعض فیصلوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے منسوب ہونے سے ہی انکار ی ہو جاتے ہیں- تو یہ بدنصیبی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ، اپنے آپ کو آگ میں ڈال رہے ہوتے ہیں- دنیا کے چند سکّوں کے عوض اپنا ایمان ضائع کر رہے ہوتے ہیں- جماعت میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شامل ہوئے ہیں، کسی عہدیدار کی جماعت میں تو شامل نہیں ہوئے کہ اس کی غلطی کی وجہ سے اپنا ایمان ہی ختم کر لیں- بہرحال عہدیداروں کو بھی احتیاط کرنی چاہئے اور کسی کمزور ایمان والے کے لئے ٹھوکر کا باعث نہیں بننا چاہئے۔
حدیث میں آیا ہے کہ عہدیدار بھی پوچھے جائیں گے اگر صحیح طرح سے وہ اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر رہے۔ حدیث میں تو ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے جن کے سپرد کام ہوں اور وہ پوری ذمہ داری سے کام نہیں کر رہے ان کے لئے جنت حرام کر دیتا ہے۔ تو عہدیداران کے لئے تو یہ بہت بڑا انذار ہے تو جب خداتعالیٰ خود ہی حساب لے رہا ہے تو پھر متأثر ہ فریق کو کیا فکر ہے۔ آپ نیکی پر قائم رہیں تو دنیاوی نقصان بھی خداتعالیٰ پورا فرما دے گا۔
ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح بکریوں کا دشمن بھیڑیا ہے اور اپنے ریوڑ سے الگ ہو جانے والی بکریوں کو بآسانی شکار کر لیتا ہے اسی طرح شیطان انسان کا بھیڑیا ہے۔ اگر جماعت بن کر نہ رہیں یہ ان کو الگ الگ نہایت آسانی سے شکار کر لیتا ہے۔ فرمایا اے لوگو! پگڈنڈیوں پر مت چلنا بلکہ تمہارے لئے ضروری ہے کہ جماعت اور عامۃ المسلمین کے ساتھ رہو۔ تو یہاں فرمایا کہ شیطان سے بچ کر رہنے کا ایک ہی طریق ہے کہ جماعت سے وابستہ ہو جاؤ اور اس زمانے میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی ہے جو الٰہی جماعت ہے جو دنیا میں خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خداتعالیٰ کا پیغام پہنچا رہی ہے۔ اور اگر کوئی اور جماعت، جماعت کہلاتی بھی ہے تو ان کے اور بھی بہت سارے سیاسی مقاصد ہیں- پس اس عافیت کے حصار کے اندر آگئے ہیں تو پھر اس کے اندر مضبوطی سے قائم رہیں اور اطاعت کرتے رہیں- ورنہ جیسا کہ فرمایا کہ بھیڑیے ایک ایک کرکے سب کو کھا جائیں گے اور کھا بھی رہے ہیں- ہمارے سامنے روز نظارے نظر آ رہے ہیں- یہاں ایک اور مسئلہ بھی حل ہو رہا ہے کہ جماعت میں شامل لوگ ہی عامۃ المسلمین ہیں یعنی تعداد کے لحاظ سے زیادتی عامۃ المسلمین نہیں کہلاتی۔ پس آپ ہی وہ خوش قسمت ہیں جو جماعت میں شامل ہیں اور عامۃ المسلمین کہلانے کے مستحق ہیں تو اس لئے اپنے آپ کو بھی اگر بچانا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تو مکمل صبر اوروفا سے اطاعت گزار رہیں-
ایک روایت میں آتا ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جنت کے وسط میں اپنا گھر بنانا چاہتا ہو اسے جماعت سے چمٹے رہنا چاہئے اس لئے کہ شیطان ایک آدمی کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ دو ہو جائیں تو وہ دُور ہو جاتا ہے یعنی شیطان پھر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دلوں میں پھاڑ پیدا کیا جائے۔ پس جماعت میں ہی برکت ہے اور نظام جماعت کی اطاعت میں ہی برکت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو یہ معیار قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس ضمن میں ایک اور بات بھی کہنی چاہتا ہوں کہ شیطان کیونکہ ہر وقت اس فکر میں ہو تا ہے کہ کسی طرح دلوں میں کدورتیں پیدا کرے، دوریاں پیدا کرے، رنجشیں پیدا کرے۔ اس لئے بعض دفعہ اچھے بھلے سوچ سمجھ رکھنے والے شخص کو بھی غلط راستے پر چلا رہا ہوتا ہے۔ اس کو بھی پتہ نہیں لگ رہا ہوتا کہ کب شیطان کے پنجے میں آگیا۔
یہاں جرمنی میں 100 مساجد کی تعمیر کا معاملہ ہے۔ کچھ کو شکوہ ہے کہ بعض بڑی بڑی عمارات خریدی گئی ہیں اگر وہ نہ خریدی جاتیں تو اور چھوٹی چھوٹی کئی مساجد بن سکتی تھیں- پھر یہ کہ جو بنی بنائی عمارات خریدی گئی ہیں وہ 100 مساجد کے زمرے میں نہیں ہیں- بعض لوگ خط لکھتے رہتے ہیں کہ ہم آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں یہاں یوں ہو رہا ہے اور یوں ہورہا ہے۔ ایک تو ان سب لکھنے والوں کی اطلاع کے لئے مَیں بتا دوں کہ گزشتہ سال یا اس سے بہت پہلے میں اس کا جائزہ لے چکا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ کون کون سی عمارات خریدی گئی ہیں اور کن کن کو 100 مساجد کے زمرے میں شامل کرنا ہے یا نہیں کرنا۔ اس لئے آپ بے فکر رہیں-
پھر ایک دفعہ خط لکھ دیا تو ٹھیک ہے۔ آپ نے یہ صحیح سمجھا اس کا حق ادا کردیا، مجھ تک پہنچا دیا۔ دوبارہ دوبارہ لکھنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ یہ تو پھر ضد بن جاتی ہے۔ مجھے خط لکھ دیا میں نے آپ کو ایک عمومی سا جواب دے دیا۔ خط آپ کو پہنچ گیا، جزاک اللّٰہ۔ یہی کافی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک کو تفصیل بتائی جائے کیونکہ یہ جو باربار زور دے کر لکھنا ہے جس میں بعض اوقات عہدیدار بھی شامل ہوتے ہیں، یہ غلط ہے۔
جب میں نے خرید کردہ عمارات کو بھی 100 مساجد کے زمرے میں شامل کرلیا ہے تو پھر آپ لوگ اور مزید کیا کہنا چاہتے ہیں- میں سمجھتا ہوں وہ اس پیسے سے خریدی گئی ہیں، وہ مساجد میں شمار ہیں- پھر خط لکھتے وقت جو متعلقہ عہدیداران ہیں ان کے متعلق بڑے سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں- مساجد کی خرید کی انتظامیہ کے بارے میں بھی سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، یہ طریق غلط ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے اطاعت سے باہر نکلنے والی بات ہے، بے صبری کا مظاہرہ ہے۔ اس لئے اس سے بچیں- آپ لوگوں کا کام ہے کہ 100 مساجد بنانے کا جو منصوبہ دیا گیا ہے اس پر لگے رہیں، اس پر عمل کریں- دعا سے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے رہیں،انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ اب کام میں کچھ تیزی بھی پیدا ہوئی ہے۔ انشاء اللہ یہ مساجد مکمل بھی ہو جائیں گی اور جب بننا شروع ہو گئی ہیں تو دیکھا دیکھی رفتار میں بھی تیزی آرہی ہے۔ بہتوں کو بڑی تیزی سے خیال آرہا ہے کہ ہمیں اپنے علاقے میں مسجد بنانی چاہئے اورکوشش بھی کر رہے ہیں- اللہ تعالیٰ مزید برکت ڈالے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بعض کام چاہے وہ نیکی اور خدمت خلق کے کام ہی ہوں اگر نظام جماعت سے ٹکر لے کر کئے جارہے ہیں تو نظام جماعت اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں کرتا۔ نہ ہی خلیفہ وقت سے یہ امید رکھنی چاہئے کہ وہ نظام سے ہٹ کر چلنے والے کاموں پر خوشنودی کا اظہار کرے گا۔ نظام کی حفاظت تو خلیفہ کا سب سے پہلا فرض ہے۔ کیونکہ دو متوازی نظام چلا کر تو کامیابیاں نہیں ہوا کرتیں- مثلاً بعض شرائط پوری کئے بغیر یہاں اس ملک میں عام طور پر ہومیو پیتھی کی پریکٹس کی اجازت نہیں ہے اس لئے جماعت بحیثیت جماعت اس کام میں ہاتھ نہیں ڈال رہی۔ اور اگر کوئی یہ کام کرنا چاہتا ہے یا کررہا ہے اور خدمت خلق کے جذبے سے کررہاہے تو کرے۔ لیکن جماعت اس میں کبھی ملوث نہیں ہوگی۔ اگر کسی کے خدمت خلق کے کام پر مَیں اس کو تعریفی خط لکھ دیتا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کو کوئی جماعتی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور وہ امیر جماعت کو بھی پس پشت ڈال دے اور اس سے بھی ٹکر لینی شروع کردے۔ مجھے یہاں فی الحال نام لینے کی ضرورت نہیں ہے، جو ہیں وہ خود سمجھتے ہیں اس لئے اپنی اصلاح کرلیں-
دوسرے ہیومینیٹی فرسٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ اور اس کی مرکزی انتظامیہ لندن میں ہے۔ لندن سے باقاعدہ مینیج(Manage) کیا جاتا ہے۔ افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرکزی ادارہ ہے مختلف ممالک نے اس میں بہت کام کیا ہے۔ جرمنی کے علاوہ۔ جرمنی میں یہ اس طرح فعّال نہیں ہے۔ فعّال اس لئے نہیں ہے کہ بعض معاملات میں انہوں نے زیادہ آزاد ہونے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے میں یہاں امیر صاحب کو اس کا نگران اعلیٰ بناتا ہوں اور وہ اب اپنی نگرانی میں اس کو ری آرگنائز(Re-organize) کریں اور چیئرمین اور تین ممبران کمیٹی بنائیں اور پھر جس طرح باقی ممالک میں انسانیت کی خدمت کررہے ہیں یہ بھی کریں، لیکن مرکزی ہدایت کے مطابق۔ کیونکہ مرکزی رپورٹ کے مطابق بھی یہاں کی ہیومینیٹی فرسٹ کی انتظامیہ کا تعاون اچھا نہیں تھا۔ بار بار توجہ دلانے پر اب بہتری آئی ہے لیکن مکمل نہیں- تو یہ بھی اطاعت کی کمی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خلیفہ وقت سے براہ راست رابطہ ہو جائے تو باقی نظام سے جو مرضی سلوک کرو کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ غلط تأثر ہے۔ ذہنوں سے نکال دیں- اگر کوئی دقّت اور مشکل ہو کسی انتظام کو چلانے میں تو آپ خلیفۂ وقت کو بھی خط لکھ سکتے ہیں- لیکن بہر حال متعلقہ امیر کو اس کی کاپی جانی چاہئے۔ لیکن براہ راست کسی قسم کا خود قدم اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو کامل فرمانبرداروں میں سے رکھے اور اطاعت کے معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو۔ اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ جب سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔ مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے۔ بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی‘‘بغیر اس کے اطاعت نہیں ہوسکتی۔ ‘’اور ہوائے نفس ہی‘‘یعنی نفس کی خواہشات’’ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے مؤحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی۔ یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم، قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملّیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے۔ اور اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں- مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں’‘۔ یعنی یہ سب جو کمیاں اور تنزل ہیں یہی مسلمانوں میں گراوٹ پیدا ہونے کے اسباب ہیں اور یہی جو اندرونی اختلافات اور تنازعات ہیں انہیں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہواہے۔ بجائے ترقی کرنے کے وہ نیچے گرتے چلے گئے۔ ‘’پس اگر اختلاف رائے کوچھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے پھرجس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتاہے۔ اس میں یہی تو سر ہے‘‘ یہی راز ہے۔ ‘’اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔ پیغمبر خدا ﷺ کے زمانے میں صحابہؓ بڑے بڑے اہل الرائے تھے۔ خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرامؓ خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بار گراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی۔ مگر رسول کریم ﷺ کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپؐ نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو ان کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا‘‘۔
پھر فرماتے ہیں :’’اگر ان میں یہ اطاعت تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتا اور پھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے۔ میرے نزدیک شیعہ سنیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے یہی کافی دلیل ہے کہ صحابہ کرامؓ میں باہم پھوٹ، ہاں باہم کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پر دلالت کرتی رہی ہیں کہ وہ باہم ایک تھے اور کچھ بھی کسی سے عداوت نہ تھی۔ ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہہ نکلی تھیں- یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کرلیا۔ …… آپؐ (پیغمبر خدا ﷺ) کی شکل وصورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نورچڑھا ہوا تھا اور جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی۔ اس میں ایک ہی کشش اور قوت تھی کہ وہ بے اختیار دلوں کو کھینچے لیتے تھے اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت رسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کر ان کی طرف چلا آتا تھا۔ غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے تیار ہورہی ہے اُسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے تیار کی تھی۔ اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے۔ اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو، اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہو تو ویسی ہو، باہم محبت و اخوت ہو تو ویسی ہو۔ غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ 246 تا248 زیرآیت سورۃ النساء :60)
پس جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا پہلوں سے ملنے کے لئے صحابہ کی طرح اطاعت کا نمونہ بھی دکھانا ہوگا۔ اور جیسا کہ پہلے بھی آپ سن آئے ہیں- اطاعت کے لئے صبر اور قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے اس لئے اپنے اندر یہ خصوصیات بھی پیدا کریں- اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب اطاعت و فرمانبرداری کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے والے ہوں-
اب میں تمام کارکنان جنہوں نے جلسے کی ڈیوٹیاں دی تھیں ان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں- پہلے تو خیال تھا کہ یہ سارے Live سن لیں گے۔ خطبہ شاید Live نہیں جارہا۔ عموماً تمام کارکنان نے اور تمام کارکنات نے مہمانوں کے ساتھ پیار اور محبت کا رویہ رکھا اور ان کی خوب خدمت کی ہے۔ انتظامات کے بارے میں بھی عموماً جن سے بھی میں نے پوچھا ہے لوگوں نے تعریف ہی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے۔ یہ بھی ان کارکنان اور کارکنات کی فرمانبرداری اور اطاعت کا عملی نمونہ ہی تھا کہ جو ہدایات ان کو دی گئیں ان پر انہوں نے پوری طرح عملدر آمد کیا۔ اور یہی ایک جماعت کا حسن ہے جو صرف اور صرف جماعت احمدیہ میں نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو یہ نیکیاں بڑھاتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
گزشتہ جلسے کی آخری تقریر میں مَیں نے جلسے کی حاضری خواتین کے پنڈال میں جب گیا ہوں وہاں بتائی تھی۔ اب امیر صاحب نے بتایا ہے کہ مختلف ممالک کے لوگوں کی وہاں حاضری نہیں بتائی گئی تھی۔ اس میں کل حاضری تو 28 ہزار تھی اور جن ملکوں نے حصہ لیا وہ جرمنی سمیت 30 ہیں- (میرا خیال ہے یہی بنتا ہے) جن ملکوں نے حصہ لیا 29 اور جن قوموں نے حصہ لیا وہ 30 تھے۔ شاید جرمنی کو انہوں نے شامل نہیں کیا۔ بہر حال 29 ملکوں کی نمائندگی تھی۔
اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے اور سب کو جلسے کی برکات سے بھی فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک ہفتے کے بعد بھول نہ جائیں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں