خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 29؍اکتوبر 2004ء

رمضان کا درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے
اعتکاف کے مسائل اور لیلۃ القدر کی حقیقت اور عظمت واہمیت سے متعلق احادیث نبوی اور ارشادات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حوالہ سے پرمعارف مضمون کا بیان
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
29؍ اکتوبر2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن۔ لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کا تقریباً نصف گزر چکا ہے۔ اگلی جمعرات سے انشاء اللہ تعالیٰ آخری عشرہ شروع ہوجائے گا۔ اور اس آخری عشرے میں عموماً مساجد کی رونق زیادہ ہو جاتی ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں، ہم ایک ترقی کرنے والی قوم ہیں ہماری خوشیاں اسی وقت دائمی خوشیاں کہلا سکتی ہیں، یا ہمیں اسی وقت کسی نیکی کو دیکھ کر دلی خوشی پہنچ سکتی ہے جب یہ نیکی دائمی ہو، ہمیشہ رہنے والی ہو۔ جو جوش و خروش آج کل نظر آتا ہے یہ ہمیشہ نظر آنے لگ جائے۔ تو بہرحال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ اگلے جمعہ سے انشاء اللہ تعالیٰ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو جائے گا، بلکہ جمعرات سے ہی۔ اور اس میں عموماً مساجد میں گہما گہمی اور رونق اور حاضری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اور اس کی کئی وجوہات بھی ہیں- ایک تو یہ کہ آخری عشرے میں ہر ایک کو خیال ہوتا ہے کہ آخری عشرہ ہے دعائیں کرکے فائدہ اٹھا لو اور اس لئے بھی کہ اس آخری عشرے میں آنحضرت ﷺ نے لیلۃ القدر کی خوشخبری دی ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے، اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے عموماً لوگ کیونکہ رمضان میں ہر ایک اٹھ رہا ہوتا ہے ان دنوں میں خاص طور پر روزہ کے لئے تو اٹھتے ہیں، ساتھ تہجد کے لئے اٹھتے ہیں- نوافل کی ادائیگی بھی کرتے ہیں- اور پھر اسی برکت کی وجہ سے مسجدوں کا رخ بھی کرتے ہیں- پھر ان دنوں میں بڑی مساجد میں رونق بڑھنے کی ایک وجہ اس آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھنا بھی ہوتاہے۔ غرض رمضان میں عموماً مسجدں میں کم نظر آنے والے جو لوگ ہیں، جمعوں پہ آنے والے یا عیدوں پہ آنے والے،ان میں سے بھی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو بڑے ذوق شوق سے ان دنوں میں مسجد میں آرہے ہوتے ہیں- لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مومنوں کی جماعت کی نیکیوں میں بڑھنے کی دوڑ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش عارضی نہیں ہونی چاہئے۔ ان نیکیوں کو اور ان کوششوں کو اب انشاء اللہ تعالیٰ سب کو جاری رکھنے کی کوشش اور دعا کرنی چاہئے۔ جن کو اس رمضان میں یہ نیکیاں کرنے کی توفیق ملی۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ’’رمضان کے مہینہ کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے او رآخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے‘‘۔ (صحیح ابن خزیمۃ کتاب الصیام باب فضل شہر رمضان)
رحمت حاصل کرنے کے پہلے دس دن بھی گزر گئے اور دوسرا عشرہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا عشرہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں اپنی طرف بڑھنے والوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹتا ہے۔ اس لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی اس مغفرت کی چادر میں ان دنوں میں لپٹے۔ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت ہوئی ہے، ہمیں موقع ملا ہے کہ اس سال پھر رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھا سکیں- اور یہ اسی کا فضل اور اسی کی رحمت ہے اور اسی کا انعام ہے کہ ہم اب دوسرے عشرے سے گزر رہے ہیں- اس میں جتنی زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے اس کے آگے جھک کر، اس سے بخشش مانگتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی کوشش کریں گے، اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں گے، اُتنی زیادہ اس کی مغفرت ہمیں اپنی لپیٹ میں لیتی چلی جائے گی۔ اُتنے زیادہ اس کی رحمت کے دروازے ہم پر وا ہوتے چلے جائیں گے، ہم پر کھلتے چلے جائیں گے۔ جتنے زیادہ ہم نیکیوں پر قائم ہوتے چلے جائیں گے، اتناہی زیادہ ہمیں نیکیوں پر قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرماتا چلا جائے گا۔ اور جتنی زیادہ ہمیں نیکیوں پر قائم ہونے کی طاقت پیدا ہوتی چلی جائے گی اور پھر جب اس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہوئے اس کی مغفرت طلب کرتے ہوئے آخری عشرے میں ہم داخل ہوں گے تو فرمایا یہ تمہیں آگ سے نجات دلانے کا باعث بن جائے گا۔ تم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو جاؤ گے۔ اور اس وجہ سے آئندہ نیکیوں میں ترقی کرنے والے ہو جاؤگے اور بدیوں کو ترک کرنے والے ہو جاؤ گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نیک نیتی سے استغفار کرنی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں- ایک وجہ سے استغفار کو توبہ پر تقدم حاصل ہے۔’‘یعنی استغفار توبہ سے بڑھ کر رہے’’کیونکہ استغفار مدد اورقوت ہے جوخدا سے حاصل کی جاتی ہے۔ اور توبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔ عادت اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خداتعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا۔ او رنیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی۔ جس کا نام تُوْبُوْا اِلَیْہِ ہے اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے۔ غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمداد چاہے۔ سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا کیا کر سکے گا۔ توبہ کی توفیق استغفار کے بعدملتی ہے۔ اگر استغفار نہ ہو تو یقینا یاد رکھو کہ توبہ کی قوت مر جاتی ہے۔ پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھرتوبہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہو گا

یُمَتِّعُکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی (ھود:3)‘‘

یعنی ایک مدت تک تمہیں اللہ تعالیٰ بہترین سامان معیشت عطا کرتا رہے گا۔ ‘’سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پا لو گے۔ ہر ایک حس کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارجِ ترقی کو حاصل کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ (68-69
تو یہ ہے استغفار کی اصل حقیقت جو ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سمجھائی۔ پس حدیث میں جو آیا ہے کہ درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے، یہ مغفرت تبھی ہو گی جب اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں گے۔ اور جب ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت مل گئی، بخشش کے سامان ہونے شروع ہو گئے، وہ راضی ہو گیا تو وہ مرتبے بھی مل جائیں گے، اللہ تعالیٰ کا قرب بھی ہر ایک کو اس کی استعدادوں کے مطابق مل جائے گا۔ کیونکہ ہر ایک میں کوئی چیز پانے کی، کوئی چیز حاصل کرنے کی ایک طاقت ہوتی ہے تو ہر ایک کو اس کے مطابق ہی ترقی ملتی ہے اور استغفار کرنے سے وہ ترقی مل جاتی ہے۔ بہرحال اس کے لئے ہر ایک کو کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ مومنوں کی عبادات میں تیزی رمضان کے آخری عشرے میں لیلۃ القدر پانے کے لئے بھی آتی ہے۔ اور جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے، آخری عشرہ جہنم سے نجات کا بھی باعث بنتا ہے۔ اس لئے بھی عبادات کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر ان کے حصول کے لئے ہر کوئی اپنی اپنی طاقتوں اور استعدادوں کے مطابق کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔
لیلۃ القدر کا مضمون ایک بڑا گہرا اور وسیع مضمون ہے۔ اس کے بارے میں بھی کچھ وضاحت کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے کیونکہ آخری عشرے میں اعتکاف بھی بیٹھا جاتا ہے، اس لئے اعتکاف کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں- اعتکاف کے ضمن میں کچھ باتیں اس کے مسائل کے بارے میں اور کچھ باتیں انتظامی لحاظ سے ہیں- کچھ بیٹھنے والوں کے لئے ہیں اور کچھ دوسرے لوگوں کے لئے ہیں جن کا ہر احمدی کو خیال رکھنا چاہئے۔
پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ اعتکاف رمضان کی ایک نفلی عبادت ہے۔ اس لئے جگہ کی مناسبت سے، اس کی گنجائش کے مطابق جو مرکزی مساجد ہیں ان میں یا جو بھی اپنے شہر کی مسجد ہو اس میں بھی حالات کے مطابق اعتکاف بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کا زور ہو تا ہے کہ ہم نے ضرور اعتکاف بیٹھنا ہے اور فلاں مسجد میں ہی ضرور بیٹھنا ہے۔ مثلاً ربوہ میں مسجد مبارک میں یا مسجد اقصیٰ میں بیٹھنا ہے یا یہاں مسجد فضل میں بیٹھنا ہے یا مسجد بیت الفتوح میں بیٹھنا ہے۔ اور پھر اس کے لئے زور بھی دیا جاتا ہے، خط پہ خط لکھے جاتے ہیں اور سفارش کرنے کی درخواستیں کی جاتی ہیں- تو یہ طریق غلط ہے۔ دعا کی قبولیت تو
اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو کہیں بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تو نہیں فرمایا کہ جو اعتکاف بیٹھیں گے ان کو لیلۃ القدر حاصل ہو گی اور باقیوں کو نہیں ہوگی۔ کسی خاص جگہ سے تو مخصوص نہیں ہے ہاں بعض جگہوں کی ایک اہمیت ہے اور ان کے قرب کی وجہ سے بعض دفعہ جذبات میں خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سوچ بہرحال غلط ہے کہ ہم نے فلاں جگہ ضرور بیٹھنا ہے۔ بعض دفعہ لوگوں کو صرف یہ خیال ہوتا ہے کہ پچھلے سال فلاں بیٹھا تھا اس لئے اس سال ہمیں باری دی جائے۔ یا اس سال ہم نے ضرور بیٹھنا ہے۔ یہ دیکھا دیکھی والی بات ہو جاتی ہے۔ نیکیوں میں بڑھنے والی بات نہیں رہتی۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ’’رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، ایک رمضان میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد آپ اپنے خیمہ میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہؓ نے اعتکاف بیٹھنے کی اجازت مانگی تو آپؐ نے ان کو اجازت دے دی۔ انہوں نے بھی اعتکاف کے لئے خیمہ لگا لیا حضرت حفصہؓ نے حضرت عائشہؓ کے اعتکاف کرنے کا سنا تو انہوں نے بھی اعتکاف کے لئے خیمہ لگا لیا۔ حضرت ز ینبؓ نے یہ خبر سنی تو انہوں نے بھی اعتکاف کے لئے خیمہ لگا لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اگلی صبح دیکھا تو چار خیمے لگے ہوئے تھے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ اس پر آپؐ کو امہات المومنین کا حال بتایا گیا (کہ ہر ایک نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی خیمہ لگا لیا ہے، اس لحاظ سے کہ آنحضرت ﷺ کا قرب حاصل ہو جائے گا) اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ ان کو ایسا کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا ہے۔ کیا نیکی نے؟ ان خیموں کو اٹھالو مَیں ان کو نہ دیکھوں- چنانچہ وہ خیمے اکھاڑ دئیے گئے، پھر آنحضور ﷺ نے اس رمضان میں اعتکاف نہ کیا۔ اپنا خیمہ بھی اٹھا لیا۔ البتہ(اس سال) آپ نے(روایت کے مطابق) آخری عشرہ شوال میں اعتکاف کیا۔ (بخاری کتاب الاعتکاف۔ باب اعتکاف فی شوال)
یہ دیکھا دیکھی والی نیکیاں بدعات بن جاتی ہیں- آپؐ برداشت نہ کر سکتے تھے کہ بدعات پھیلیں- نیکیوں کی خواہش تو دل سے پھوٹنی چاہئے۔ اس کا اظہار اس طرح ہو کہ لگے کہ نیکی کی خواہش دل سے نکل رہی ہے۔ یہ نہ ہو کہ لگ رہا ہو دیکھا دیکھی سب کام ہو رہے ہیں- امّہات المومنین بھی یقینا نیکی کی وجہ سے ہی اعتکاف بیٹھی ہوں گی کہ آنحضرت ﷺ کے قرب میں ان برکات سے ہم بھی حصہ لے لیں جو ان دنوں میں ہونی ہیں- لیکن آپ ﷺ کو یہ برداشت نہ تھا کہ کسی نیکی سے دکھاوے کا ذرا سا بھی اظہار ہوتا ہو۔ ،ذرا سا بھی شبہ ہوتا ہو۔ چنانچہ آپؐ نے سب کے خیمے اکھڑوا دئیے۔
پھر آپؐ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اعتکاف کس طرح بیٹھنا چاہئے، بیٹھنے والوں اور دوسروں کے لئے کیا کیا پابندیاں ہیں روایت میں آتا ہے کہ ’’آپؐ نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا، آپؐ کے لئے کھجور کی خشک شاخوں کا حجرہ بنایا گیا، ایک دن آپؐ نے باہر جھانکتے ہوئے فرمایا، نمازی اپنے رب سے راز و نیاز میں مگن ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سنانے کے لئے قراء ت بالجہر نہ کرو۔’‘ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 67۔ مطبوعہ بیروت)
یعنی مسجد میں اور بھی لوگ اعتکاف بیٹھے ہوں گے اس لئے فرمایا معتکف اپنے اللہ سے راز و نیا زکر رہا ہوتاہے، دعائیں کر رہا ہوتا ہے۔ قرآن شریف بھی اگر تم نماز میں پڑھ رہے ہو یا ویسے تلاوت کر رہے ہو تو اونچی آواز میں نہ کرو تاکہ دوسرے ڈسٹرب نہ ہوں- ہلکی آواز میں تلاوت کرنی چاہئے۔ سوائے اس کے کہ اب مثلاً جماعتی نظام کے تحت بعض مساجد میں خاص وقت کے لئے درسوں کا انتظام ہوتا ہے۔ وہ ایک جماعتی نظام کے تحت ہے اس کے علاوہ ہر ایک معتکف کو نہیں چاہئے کہ اونچی آواز میں تلاوت بھی کرے یا نماز ہی پڑھے۔ کیونکہ اس طرح دوسرے ڈسٹرب ہوتے ہیں- تو یہ ہیں احتیاطیں جو آنحضرت ﷺ نے فرمائیں- کہاں یہ احتیاطیں اور کہاں اب یہ حال ہے کہ بعض دفعہ پہلے ربوہ میں بھی ہوتا تھا لیکن دوسرے شہروں میں ابھی بھی باہر ہوتا ہے۔ شاید یہاں بھی یہی صورت حال ہو۔ معتکف کے لئے بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے۔ کہ وہ اپنی عبادت میں مصروف ہوتا ہے پردہ کے لئے ایک چادر ہی ٹانگی ہوتی ہے نا۔ پردہ کے پیچھے سے ایک ہاتھ اندر داخل ہوتا ہے جس میں مٹھائی اور ساتھ پرچی ہوتی ہے کہ میرے لئے دعا کرو یا نمازی سجدے میں پڑا ہوا ہے اوپر سے پردہ خالی ہوتا ہے تو اوپر سے کاغذ آکر اس کے اوپر گر جاتا ہے (ساتھ نام ہوتا ہے) کہ میرے لئے دعا کرو۔ یا ایک پراسرار آواز پردے کے پیچھے سے آتی ہے آہستہ سے کہ مَیں فلاں ہوں میرے لئے دعا کرو۔ یہ سب غلط طریقے ہیں-
پھر شام کو افطاریوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ افطاریاں بڑی بڑی آتی ہیں ٹرے لگ کے، بھر کے، جو معتکف تو کھا نہیں سکتا لیکن مسجد میں ایک شور بھی پڑ جاتا ہے اور گند بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ اور پھر جو لو گ افطاریاں بھیج رہے ہوتے ہیں- بعض بڑے فخر سے بتاتے بھی ہیں کہ آج مَیں نے افطاری کا انتظام کیا ہوا تھا، کیسی تھی؟ کیا تھا؟ یا دوسروں کو بتا رہے ہیں کہ یہ کچھ تھا۔ میری افطاری بڑی پسند کی گئی۔ پھر اگلے دن دوسرا شخص اس سے بڑھ کر افطاری کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو یہ سب فخرومباہات کے زمرے میں چیزیں آتی ہیں- بجائے اس کے کہ خدمت کی جائے یہ دکھاوے کی چیزیں بن جاتی ہیں- اس لئے یا تو اعتکاف بیٹھنے والا، اپنے گھر سے سحری اور افطاری منگوائے یا جماعتی نظام کے تحت مہیا ہو۔ ناموں کے ساتھ ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ افطاریاں آنی غلط طریق کار ہے۔ یہ کہیں بھی جماعت کی مساجد میں نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس سے آگے اور بدعتیں بھی پھیلتی چلی جائیں گی۔ ربوہ میں بھی دارالضیافت سے، جو مرکزی مساجد میں بیٹھے ہوتے ہیں ان کے لئے اور میرا خیال ہے دوسری جگہوں پہ بھی۔ (اگر نہیں ہے تو جانی چاہئیں) افطاری وسحری وہیں سے تیار ہو کر جاتی ہے اور سارے ایک جگہ بیٹھ کے کھا لیتے ہیں-
پھر بعض لوگ اعتکاف بیٹھ کر بھی کچھ وقت کے لئے دنیاداری کے کام کر لیتے ہیں- مثلاً بیٹے کو کہہ دیا، یا اپنے کام کرنے والے کارندے کو کہہ دیا کہ کام کی رپورٹ فلاں وقت مجھ کو دے جایا کرو۔ کاروباری مشورے لینے ہوں تو فلاں وقت آ جایا کرو کاروباری مشورے دیا کروں گا۔ یہ طریق بھی غلط ہے۔ سوائے اشد مجبوری کے یہ کام نہیں ہونا چاہئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس بارے میں سوال ہوا کہ آدمی جب اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار سے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں ؟۔ آپؑ نے فرمایا کہ سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لئے اور حوائج ضروریہ کے واسطے باہر جا سکتاہے۔ فرمایا کہ سخت ضرورت کے تحت۔ یہ نہیں ہے کہ جیسا میں نے پہلے کہا کہ روزانہ کوئی وقت مقرر کر لیا، فلاں وقت آ جایا کرو اور بیٹھ کر کاروباری باتیں ہو جایا کریں گی۔ اگر اتفاق سے کوئی ایسی صورت پیش آ گئی ہے کسی سرکاری کاغذ پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا کسی ضروری معاہدے پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا اور کوئی ضروری کاغذ ہے، ایسے کام تو ہو سکتے ہیں- لیکن ہر وقت،روزانہ نہیں-(بدر21؍فروری 1907ء صفحہ5)
یہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بیمار کی عیادت کے لئے جا سکتے ہیں-بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نہیں نکلنا چاہئے۔ یہ بھی عین آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے مطابق ہے۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ’’رسول اللہ ﷺ بیمار پرسی کے لئے جاتے اور آپؐ اعتکاف میں ہوتے۔ پس آپؐ قیام کئے بغیر اس کا حال پوچھتے۔’‘(ابو دا ؤد۔ کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض)
پھر اسی طرح ابن عیسیٰ کی ایک ایسی ہی روایت ہے۔ توتیمار داری جائز ہے لیکن کھڑے کھڑے گئے اور آ گئے۔ یہ نہیں کہ وہاں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنا شروع کر دیا یا باتیں بھی شروع ہو گئیں- اور یہ بھی اس صورت میں ہے (وہاں مدینے میں بڑے قریب قریب گھر بھی تھے) کہ قریب گھر ہوں اور کسی خاص بیمار کو آپ نے پوچھنا ہو، اگر ہر بیمار کے لئے اور ہر قریبی کے لئے، بہت سارے تعلق والے ہوتے ہیں آپ جانے لگ جائیں تو پھر مشکل ہو جائے گا اور یہاں فاصلے بھی دور ہیں، مثلاً جائیں تو آنے جانے میں ہمیں دو گھنٹے لگ جائیں- اور اگر ٹریفک میں پھنس جائیں تو اور زیادہ دیر لگ جائے گی۔ یہ قریب کے گھروں میں پیدل جہاں تک جا سکیں اس کی اجازت ہے،ویسے بھی جانے کے لئے جو جماعتی نظام ہے وہاں سے اجازت لینی ضروری ہے۔ یہ مَیں باتیں اس لئے کر رہا ہوں کہ بعض لوگ اس قسم کے سوال بھیجتے ہیں-
ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں تھے۔ میں ان کی ملاقات کو رات کے وقت گئی۔ اور میں نے آپؐ سے باتیں کیں جب میں اٹھی اور لوٹی تو آپؐ بھی میرے ساتھ اٹھے۔ حضرت صفیہؓ کا گھر ان دنوں اسامہ بن زیدؓ کے مکانوں میں تھا۔ راستے میں انصاری راہ میں ملے۔ انہوں نے جب آپ کو دیکھا تو تیز تیز چلنے لگے۔ آپؐ نے (ان انصاریوں کو) فرمایا کہ اپنی چال سے چلو۔ یہ صفیہ بنت حُییّ ہے۔ ان دونوں نے یہ سن کر کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ ! ہمارا ہرگز ایسا گمان آپ کے بارے میں نہیں ہو سکتا۔ آپ نے فرمایا: نہیں، شیطان خون کی طرح آدمی کی ہر رگ میں حرکت کرتا ہے۔ مجھے خوف ہوا کہیں شیطان تمہارے دل میں بری بات نہ ڈال دے۔‘‘ (ابو داؤد کتاب الصیام باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ)
تو ایک تو آپ نے اس میں شیطانی وسوسے کو دور کرنے کی کوشش فرمائی۔ بتا دیا کہ یہ حضرت صفیہ ہیں،ازواج مطہرات میں سے ہیں- دوسرے یہ کہ اعتکاف کی حالت میں مسجد سے باہر کچھ دور تک چلے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ اگر مسجد میں حوائج ضروریہ کا انتظام نہیں ہے، غسل خانوں وغیرہ کی سہولت نہیں ہے تو اگر گھر قریب ہے تو وہاں بھی جایا جا سکتا ہے۔ آج کل تو ہر مسجد کے ساتھ انتظام موجود ہے اس لئے کوئی ایسی دقّت نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ وقت کے لئے مسجدکے صحن میں یا باہر ٹہلنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھے تھے، خواجہ کمال دین صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب ان دنوں میں اعتکاف بیٹھے تھے تو آپؑ نے ان کو فرمایا کہ: ‘’اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اور بالکل کہیں آئے جائے ہی نہ (مسجد کی) چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جا کر آپ بیٹھ سکتے ہیں- کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے۔’‘ وہاں تو ہیٹنگ (Heating) کا سسٹم نہیں ہوتا تھا۔ سردیوں میں لوگ دھوپ میں بیٹھتے ہیں، پتہ ہے ہر ایک کو ’’اور ضروری بات کر سکتے ہیں- ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے۔’‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 588,587۔ جدید ایڈیشن)
تو مومن بن کے رہیں تو کوئی ایسا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
حضرت عائشہؓ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف فرماتے تو آپ سر میرے قریب کر دیتے تو میں آپ کو کنگھی کر دیتی اور آپؐ گھر صرف حوائج ضروریہ کے لئے آتے۔’‘ (ابو داؤد کتاب الصیام۔ باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ)
تو بعض لوگ اتنے سخت ہوتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ اعتکاف میں اگر عورت کا، بیوی کا ہاتھ بھی لگ جائے تو پتہ نہیں کتنا بڑا گناہ ہو جائے گا۔ اور دوسرے یہ کہ حالت ایسی بنا لی جائے، ایسا بگڑا ہوا حلیہ ہو کہ چہرے پر جب تک سنجیدگی طار ی نہ ہو، حالت بھی بُری نہ ہو اس وقت تک لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ دوسروں کو پتہ نہیں لگ سکتا کہ یہ آدمی عبادت کر رہا ہے۔ تو یہ غلط طریق کار ہے۔ تو یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اعتکاف میں اپنی حالت بھی سنوار کے رکھنی چاہئے اور تیار ہو کے رہنا چاہئے۔ اور دوسرے یہ کہ بیوی یا کسی محرم رشتے دارسے اگر آپ سر پر تیل لگوا لیتے ہیں یا کنگھی کروا لیتے ہیں اس وقت جب وہ مسجد میں آیا ہو تو کوئی ایسی بات نہیں ہے۔
رمضان کے آخری عشرے میں آنحضرت ﷺ کی عبادتوں کے کیا نظارے ہوتے تھے۔ آپؐ کی تو عام دنوں کی عبادتیں بھی ایسی ہوتی تھیں کہ خیال آتا ہے کہ اس میں اور زیادہ کیا اضافہ ہوتا ہو گا۔ لیکن آپؐ رمضان کے آخری عشرے میں اس میں بھی انتہاکر دیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ جب رمضان میں سے ایک عشرہ باقی رہ جاتا تو آنحضور ﷺ کمر کس لیتے اور اپنے اہل سے ان دنوں میں بالکل علیحدہ ہو جاتے اور مسجد میں چلے جاتے اور چوبیس گھنٹے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ تو یہ آخری عشرہ چند دن تک ہمارے پر بھی اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آنے والا ہے انشاء اللہ۔ ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ان دنوں میں اپنی عبادتوں کو مزید سجائیں اور ان کو ترقی دیں- استغفار اور عبادات کی طرف توجہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں- اس آخر ی عشرے میں جو لیلۃ القدر آتی ہے اس کو پانے والے ہوں اور یہ عہد کریں کہ جن عبادتوں کی عادت ان دنوں میں ہمیں پڑ گئی ہے اس کو ہم ہمیشہ قائم رکھنے والے ہوں گے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ’’جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے اور جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر کی رات قیام کیا اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔’‘(بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر۔ باب فضل لیلۃ القدر)
اب یہاں دیکھیں روزے رکھنا، اور لیلۃ القدر کی رات کا قیام یعنی لیلۃ القدروالی رات میں عبادت۔ ان دونوں کے ساتھ شرط ہے کہ ایک تو ایمان کی حالت میں ہو اور مومن ہو اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے ہو۔ مومن وہ ہے جو ایمان کی تمام شرائط پوری کرتا ہے۔ صرف زبان کا اقرار نہیں ہے۔ اب شرائط کیا ہیں ؟۔ قرآن کریم میں متعدد شرائط کا ذکرہے۔ سب سے بڑی بات اللہ پر ایمان ہے۔ مومن تو وہی ہے جو اللہ پر ایمان لائے۔ اس کی مثال دے دیتے ہیں- یہی فرمایا کہ

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ …… (الانفال:3)

یعنی مومن تو صرف وہی ہیں جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں- تو جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو گا وہ کبھی دوسرے کا حق مارنے کا سوچے گا بھی نہیں- وہ کبھی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سوچے گا بھی نہیں- کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے معاشرے میں ہر ایک سے بناکے سنوار کے رکھو۔ ہمسایہ سے حسن سلوک کرو، اپنے وعدے پورے کرو، دوسروں کے لئے قربانی دو، اور اس طرح کے بے شمار حکم ہیں- تو جب یہ چیزیں ہوں گی تبھی ایمان کی حالت ہو گی اور تبھی اللہ تعالیٰ کا خوف بھی دل میں ہو گا۔ یا اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے یہ سب کام ہو رہے ہوں گے۔ تو عبادتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اپنا محاسبہ کرنے، صبح شام یہ جائزہ لینے کہ مَیں نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا ہے یا نہیں، اور تقویٰ سے رات بسر کی ہے یا نہیں، جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ جب ایسی حالت ہو گی تو فرمایا کہ ایسے لوگوں کے روزے بھی قبول ہوں گے اور لیلۃ القدر کی برکتیں بھی حاصل ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ یہ لوگ ہیں جو اجر عظیم حاصل کرنے والے ہیں- پھر ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ پتہ لگے کہ’’لیلۃ القدر‘‘ کی راتیں ہیں کون سی؟ کون سی وہ راتیں ہیں جب ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے حصہ پا سکتے ہیں-
ایک روایت میں آتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ (بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر۔ باب تحری لیلۃ القدر فی ا لوتر من العشر الاواخر)۔ یعنی تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں وغیرہ راتوں میں تلاش کرو۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے متعدد صحابہ کرام کو رؤیا میں رمضان کی آخری سات راتوں میں لیلۃ القدر دکھائی گئی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ میں دیکھتا ہوں تمہاری خوابوں میں رمضان کی آخری سات راتوں میں لیلۃ القدر کے ہونے میں موافقت پائی جاتی ہے۔ یعنی ان سب میں تقریباً یہی بات نظر آ رہی ہے پس تم میں سے جو بھی اس کو تلاش کرنا چاہے وہ اسے رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرے‘‘۔ (بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر۔ باب فضل لیلۃ القدر) تو بہرحال آخری عشرہ یا سات راتیں مختلف روایتوں میں آیا ہے۔
پھر ایک روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک بار میں نے عرض کی۔ اے اللہ کے نبی اگر مجھے لیلۃ القدر میسر آ جائے تو میں کیا دعا مانگوں- آپؐ نے فرمایا لیلۃ القدر نصیب ہونے پر یہ دعا کرنا کہ

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔

یعنی اے اللہ تو بہت زیادہ درگزر کرنے والا ہے اور درگز کو پسند کرتا ہے۔ پس مجھ سے درگزر فرما۔’‘ (مسند احمد بن حنبل۔ باقی مسند الانصار)
تو یہ دعا آنحضرت ﷺ نے سکھائی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اور دعائیں نہیں کرنی چاہئیں- وہ بھی کریں لیکن اگر اس حدیث کو اوپر جو میں نے پہلے حدیث بیان کی ہے اس کے ساتھ ملائیں تو مزید بات کھلتی ہے کہ ایمان اور محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر ملے تو گناہ بخشے گئے۔ اب جب ایک مومن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگتا ہے کہ اے خدا! اس سارے رمضان میں اپنے گناہوں اور زیادتیوں کا میں جائزہ لیتا رہا ہوں اور اب میں عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کوشش کروں گا کہ یہ غلطیاں اور زیادتیاں مجھ سے نہ ہوں- تُو معاف کرنے والا ہے۔ تو درگزر کو، معاف کرنے کو، بخشش کو پسند کرتا ہے،میرے گناہ بخش اور میری زیادتیوں سے درگزر فرما۔
تو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ استغفار اور گناہوں سے معافی جو ہے توبہ قبول ہونے میں مدد گار ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے انسان پھر ایسا نیکیوں پر قائم ہونے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کی مدد فرماتا ہے۔ تو وہ لوگ جو اس طرح دعا مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کے معیار بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں-تبھی تو عفو اور درگزر کا واسطہ دے کے اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں- اللہ تعالیٰ اس کی نیک نیتی سے مانگی ہوئی دعاؤں کو اپنے وعدوں کے مطابق قبول بھی کرتا ہے۔ اسے نیکیوں میں بڑھاتا بھی ہے۔ تو یہ ساری چیزیں جو عفو، درگزر ہے یا معاف کرنا ہے، استغفار ہے، یہ کوئی چھوٹی دعا نہیں ہے، بہت بڑی دعا ہے۔ اگر آدمی اپنا پورا محاسبہ کرتے ہوئے مانگے تو، بہت ساری برائیوں کو چھوڑے گا تو اللہ کے پاس بھی جائے گا تاکہ بخشش کے سامان پیدا ہوں- اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس احساس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر اس سے عفو اور بخشش کے طلبگار ہوں-
پھر جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور ہمیں یہ علم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا ہے لیلۃ القدر کے صرف اتنے ہی معنے نہیں ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں چند راتوں میں سے ایک رات آ گئی اور اس میں دعائیں کر لی جائیں اور بس۔ بلکہ اس کے اور بھی بہت وسیع معنے ہیں-
آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ایک لیلۃ القدر تو وہ ہے جو پچھلے حصہ ٔ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو مَیں اس کو قبول کروں لیکن ایک معنے اس کے اور ہیں جس سے بدقسمتی سے علماء مخالف اور منکرہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کو ایسی رات میں اتارا ہے کہ تاریک و تار تھی اور وہ ایک مستعد مصلح کی خواہاں تھی۔ خداتعالیٰ نے انسان کوعبادت کے لئے پیدا کیا ہے جبکہ اس نے فرمایا

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ (الذاریات: 57)۔

پھر جب انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ تاریکی ہی میں پڑا رہے۔ ایسے زمانے میں بالطبع اس کی ذات جوش مارتی ہے کہ کوئی مصلح پیدا ہو پس

اِنَّآاَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ (القدر:2)

اس زمانۂ ضرورت بعثت آنحضرتﷺ کی ایک اور دلیل ہے‘‘۔ (الحکم جلد10 نمبر 27مورخہ 31؍ جولائی 1906ء صفحہ 4)
فرمایا کہ لیلۃ القدر یہی نہیں ہے جو آخری عشرہ رمضان میں ایک رات آتی ہے۔ بلکہ اس کے اور بھی معنے ہیں اور وہ یہ کہ جب زمانہ دنیاداری کے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے اور شرک انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ بہت سے لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسی حالت میں اپنی مخلوق کو اس گند سے نکالنے کے لئے کسی مصلح نبی، یا رسول کو بھیجتا ہے۔ اور یہ جو برائیوں میں ڈوبنے کا زمانہ ہے یہ بھی فرمایا کہ تاریک رات کی طرح ہی ہے تو فرمایا کہ وہ بھی ایک تاریک زمانہ تھا جب شرک عام تھا لوگ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے تھے اس وقت پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا اور دنیا کو اس کی تاریکی اور اندھیرے سے نکالنے کے لئے اپنی پاک کتاب قرآن کریم آنحضرت ﷺ پر نازل فرمائی۔ جو آخری شرعی کتاب ہے۔
آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک اور تاریک زمانہ آنا تھا۔ ایک ہزار سال کا عرصہ جس کے بارے میں جو نیک مفکّر مسلمان تھے کہ اسلام کا نام ہی باقی رہ گیا ہے اور کوئی عمل باقی نہیں رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی سنت اور وعدوں کے مطابق جس کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی حضرت مسیح موعودؑ کا ظہور ہونا تھا اور ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپؑ کو ماننے کی توفیق بھی دی۔ تو جب ہم نے مان لیا تو اب جماعت احمدیہ ہی اس وقت دنیا میں وہ واحدجماعت ہے جس نے مسیح موعودؑ کی جماعت ہونے کی حیثیت سے دنیا سے تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اب جماعت احمدیہ ہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کام پر مامور کیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: نائب رسول اللہ ﷺ کے نزول کے وقت جو لیلۃ القدر مقرر کی گئی ہے وہ در حقیقت اس لیلۃ القدر کی ایک شاخ ہے۔ یا یوں کہو کہ اس کا ایک ظل ہے جو آنحضرت ﷺ کو ملی ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس لیلۃ القدر کی نہایت درجہ کی شان بلند کی ہے۔ جیسا کہ اس کے حق میں یہ آیت کریمہ ہے کہ

فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ (الدخان:4)

یعنی اس لیلۃ القدر کے زمانے میں جو قیامت تک ممتد ہے ہر ایک حکمت اور معرفت کی باتیں دنیا میں شائع کر دی جائیں گی۔ اور انواع و اقسام کے علوم غریبہ اور فنون نادرہ و صنعات عجیبہ صفحہ ٔعالم میں پھیلا دئیے جائیں گے‘‘۔ نئی نئی ترقیات جوہوں گی اور علم ہوں گے، نئی نئی صنعتیں پیدا ہوں گی، نئی نئی چیزیں پیدا ہوں گی۔ یہ سب اس زمانے میں پھیلا دئیے جائیں گے۔ ‘’اور انسانی قویٰ میں ان کی موافق استعدادوں اور مختلف قسم کے امکان بسطت علم اور عقل کے جو کچھ لیاقتیں مخفی ہیں یا جہاں تک وہ ترقی کر سکتے ہیں سب کچھ بمنصۂ ظہور لایا جائے گا‘‘۔ تو جہاں تک انسانی قوتیں ہیں فرمایا ہر ایک مخفی چیزیں ظاہر ہو جائیں گی۔ پھر فرماتے ہیں ’’لیکن یہ سب کچھ ان دنوں میں پرزور تحریکوں سے ہوتا رہے گا کہ جب کوئی نائب رسول اللہ ﷺ دنیا میں پیدا ہو گا اور درحقیقت اسی آیت کو سورۃ الزلزال میں مفصل طور پر بیان کیا گیاہے۔ کیونکہ سورۃ الزلزال سے پہلے سورۃ القدر نازل کرکے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ خداتعالیٰ کا کلام لیلۃ القدر میں ہی نازل ہوتا ہے اور اس کا نبی لیلۃ القدر میں ہی اس دنیا میں نزول فرماتا ہے۔ اور لیلۃ القدر میں ہی وہ فرشتے اترتے ہیں جن کے ذریعہ سے دنیا میں نیکی کی طرف تحریکیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ ضلالت کی پر ظلمت رات سے شروع کرکے طلوع صبح صداقت تک اس کام میں لگے رہتے ہیں کہ مستعد دلوں کو سچائی کی طرف کھینچتے رہیں’‘۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 160-159)
چنانچہ دیکھ لیں کہ اب اس زمانے میں، حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں یہ ساری چیزیں ظاہر ہو رہی ہیں- جس طرح میں نے بتایا ہے۔ اور نئی نئی حیرت انگیز قسم کی ایجادات بھی ہو رہی ہیں- جن کا حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت سے پہلے تصور بھی نہیں تھا۔ اور پھر ان میں ترقی بھی روز بروز ہو رہی ہے۔
1904ء میں آج سے 100سال پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی الہام ہوا تھا آپؑ فرماتے ہیں کہ ایک نظارہ دکھایا گیا کہ کوئی امر پیش کیا گیا ہے (کوئی معاملہ پیش کیا گیاہے) پھر الہام ہوا

’’اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ ُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ لِلْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ‘‘۔

یعنی ہم نے اسے لیلۃ القدر میں اتارا ہے ہم نے اسے مسیح موعود کے لئے اتارا ہے۔ تو جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا ہے ہو سکتا ہے یہ الہام شاید ایجادات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہو۔ جو حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کی تائید میں ہو رہی ہیں- لیکن یہ بات ہمیں اس طرف بھی توجہ دلا رہی ہے کہ اپنی دعاؤں پر بہت زور دیں اور یہ تاریکی کو دور کرنے کا کام جو حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل ہو کر ہم نے اب اپنے اوپر لے لیا ہے اس کو احسن طریق پر ادا کر سکیں- اس روشنی کے آنے کے باوجود دنیا تاریکی کی طرف دوڑ رہی ہے۔ ان کو سمجھائیں، ان کو بتائیں کہ اب بھی وقت ہے بچنے کی کوشش کرو اور بچو ورنہ تباہی کے گڑھے میں گر جاؤ گے۔ دعا بھی کریں اور بہت دعا کریں اور خاص طور پر مسلم امہ کے لئے، تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور سمجھ دے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آج ہم پر عائد ہوتی ہے۔ پس ان دنوں میں اس دعا کا بھی حق ادا کرنے کی کوشش کریں- اور کچھ سجدے امت مسلمہ اور جماعت کے لئے وقف کر دیں-
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کا ایک اقتباس ہے بڑا زبردست قسم کا، میرے نزدیک۔ فرماتے ہیں کہ:’’پھر میں کہتا ہوں کہ ایک اور لیلۃ القدر اسلام نے بیان کی ہے اور وہ، وہ لیلۃالقدر ہے کہ جو برکتوں کے لحاظ سے اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ رمضان کی لیلۃ القدر کی برکتیں بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں- یہ لیلۃ القدر وہ ہے جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔

اِنَّ اللہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُجَدِّدُلَھَا دِیْنَہَا۔

یہ لیلۃ القدر اس مجدد کے زمانے میں جو صدی کے سر پر آتا ہے آتی ہے۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور لیلۃ القدر ہے جو 1300سال کے بعد آئی اور وہ حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ ہے۔ یہ لیلۃ القدر ان تیرہ سولیلۃ القدروں سے جو رمضان میں آئیں اور ان گیارہ لیلۃ القدروں سے جو مجددوں کے زمانے کی صورت میں ہر صدی کے سر پر نمودار ہوئیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ پس وہ زمانہ جس میں حضرت مسیح موعودؑ مبعوث ہوئے سب سے بڑی لیلۃ القدر ہے۔ نادان ہیں وہ جو حضرت مسیح موعودؑ کے مقابلہ میں غزالی اور بخاری اور رازی کو پیش کرتے ہیں’‘ (جو ائمہ ہیں)’’وہ آپؑ کی شان سے ناواقف ہیں- کیونکہ آپؑ وہ امام ہیں جو نہ صرف کسی ایک مجدد سے بلکہ ان تمام مجددوں سے جو 1300سال میں گزرے بڑھ کر ہیں- اسی لئے آپ کی لیلۃ القدر اور وں کی لیلۃ القدروں سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ اس کی لیلۃ القدر کا زمانہ نبوت والی لیلۃ القدر کے زمانے سے شروع ہوتا ہے اور یہ آنحضرت ﷺ کے بعد دوسری لیلۃ القدر ہے ……۔ پس لیلۃ القدر کیا ہے؟۔ ایک نبی کا زمانہ ہے اور ایک نبی کی بعثت کا وقت ہے۔ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا کا قرب حاصل کرو‘‘۔ یہاں سے غورسے سنیں ’’اس لیلۃ القدر میں خدا کے فرستادہ ایک بیج بو جاتے ہیں جو بعد میں نشوونما پاتا اور بڑھتا ہے یہی وہ رات ہوتی ہے جس کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے

تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ-

کہا جاتا ہے قرآن میں حضرت عیسیٰؑ کو روح کہا گیا ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ روح کلام اللہ کو بھی کہا گیا ہے اور مجدد کو بھی کیونکہ وہ کلام الٰہی کا حامل ہوتا ہے۔ پس وہ مجدد جو روح کہلاتا ہے تمہاری ہدایت کے لئے کھڑا کیا گیاہے۔ اور یہ زمانہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں فرشتوں کا بھی نزول ہوا ہے۔ اور یہ رات امن اور سلامتی کی رات ہے جس میں ملائکہ کا نزول صبح تک ہوتا رہتا ہے۔ پس اب چونکہ صبح ہونے کو ہے اور طلوع آفتاب نزدیک ہے اور وہ دن چڑھنے والا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں حکومت دی جائے،تم لوگوں پر حاکم بنائے جاؤ۔ لوگ تمہارے محکوم ہوں- تم لوگوں کے حقوق ادا کرو اور وہ تم سے ان حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کریں- تم اس وقت حاکم ہو گے،مظلوم نہ ہو گے لیکن وہ برکات جو تم کو اس وقت ملتی ہیں نہ ملیں گی‘‘ محکوم ہونے سے جو برکات مل رہی ہیں حاکم بننے کے بعد نہیں ملیں گی’’کیونکہ وہ دن ہو گا جو اختلافوں اور اجتہادوں سے بھرا ہوا ہو گا’‘۔ اسی طرح شاید دوبارہ فساد پیدا ہونے لگ جائے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی طریقے ہے کہ ’’پس فجر ہونے سے پہلے ہوشیار ہو جاؤ۔ کیونکہ فجر ہونے والی ہے۔ تم اس وقت سے فائدہ اٹھا لو اور اپنی روحانی اصلاح کر لو۔ خداتعالیٰ تمہیں (اس کی)توفیق دے‘‘۔ آمین (خطبات محمود جلد8 صفحہ 388-387)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں