خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 19؍ نومبر 2004ء

ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ کسی کے عیب اور غلطیاں تلاش کرنا تو دور کی بات ہے اگر کوئی کسی کی غلطی غیر ارادی طور پر بھی علم میں آجائے تو اس کی ستّاری کرے۔
اگر کسی سے ہمدردی ہے تو دعا اور ذاتی طور پر سمجھا کر اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کرے
(دوسروں کے عیوب اور کمزوریوں کی پردہ پوشی سے متعلق احادیث نبویہ اورارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے تاکیدی نصائح )
(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
19؍نومبر 2004ء بمطابق19؍نبوت 1383 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن ۔لندن)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اسلام نے ہمیں (مسلمانوں کو) آپس میں گھل مل کر رہنے اورایک دوسرے کے ساتھ معاشرے میں اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرو، آپس میں محبت اور پیار سے رہو، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو اور انسان سے کیونکہ غلطیاں اور کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں، اس لئے اپنے ساتھیوں، اپنے بھائیوں، اپنے ہمسایوں یا اپنے ماحول کے لوگوں کے لئے ان کی غلطیاں تلاش کرنے کے لئے ہر وقت ٹوہ میں نہ لگے رہو، تجسس میں نہ لگے رہو کہ کسی طرح میں کسی کی غلطی پکڑوں اور پھر اس کو لے کر آگے چلوں- یہ بڑی لغو اور بیہودہ حرکت ہے۔ یہ غلطیاں پکڑنے والے یا پکڑنے کا شوق رکھنے والے لوگ عموماً یا تو کوئی غلطی پکڑ کر جس کی غلطی پکڑی ہو اس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے کوئی کام لینے کوشش کرتے ہیں، کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں انفرادی طور سے لے کر ملکوں کی سطح تک یہ حرکتیں کی جاتی ہیں- اس کے لئے بڑے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں- اور اس طرح بعض لوگوں کو ان کے اپنے ملکوں کے خلاف بھی استعمال کر لیا جاتا ہے،جب ملکی سطح پر یہ کام ہو رہے ہوں-
پھر انفرادی طور پر برادریوں میں بعض لوگوں کو ایک دوسرے کی کمزوریاں تلاش کرنے کی عادت ہوتی ہے تاکہ ان کی بدنامی کی جائے۔ بعض ظالم تو اس طرح بعضوں کی کمزوریاں تلاش کرکے یا نہ بھی کمزوری ہو تو باتیں پھیلا کر بچیوں کے رشتے تڑوانے سے بھی دریغ نہیں کرتے، اس سے بھی باز نہیں آتے۔ دوسرے فریق کو جا کر بعض دفعہ جہاں رشتے کی بات چل رہی ہو اس طرح غلط بات کہہ دیتے ہیں کہ اگلا پھر فکر میں پڑ جاتا ہے کہ میں رشتہ کروں بھی کہ نہ۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح لڑکی والوں کو تکلیف میں ڈالا جائے۔ بعض لوگ صرف عادتاً زبان کا مزہ لینے کے لئے ہنسی ٹھٹھے کے رنگ میں کسی کی کمزوری کو لے کر اچھالتے ہیں- اور آج کل کے معاشرے میں یہ تکلیف دہ صورتحال کچھ زیادہ ابھرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ شاید اس لئے کہ آپس کے رابطے آسان ہو گئے ہیں- تو بہرحال کوئی خاص فائدہ اٹھانے کے لئے یا کسی کو بدنام کرنے کے لئے یا زبان کا مزہ لینے کے لئے دوسروں کی کمزوریوں اور غلطیوں کو اچھا لا جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ ایسا موقع پیدا کیا جاتا ہے کہ کوئی غلطی کسی سے کروائی جائے اور پھر اس کو پکڑ کر فائدہ اٹھایا جائے۔ تو ان حالات میں جیسا کہ میں نے کہا صرف اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ کہتا ہے کہ ان بیہودگیوں اور ان لغویات سے بچو، اور اس زمانے میں، آج کل حقیقی اسلام کا نمونہ دکھانے والا اگر کوئی ہے یا ہونا چاہئے تو وہ احمدی ہے۔ اس لئے ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ کسی کے عیب اور غلطیاں تلاش کرنا تو دور کی بات ہے اگر کوئی کسی کی غلطی غیرارادی طور پر بھی علم میں آ جائے تو اس کی ستّاری کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ہر ایک کی ایک عزت نفس ہوتی ہے۔ اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ دوسرے اگر کوئی برائی ہے، حقیقت میں کوئی ہے تو اس کے اظہار سے ایک تو اس کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہوں گے دوسرے دوسروں کو بھی اس برائی کا احساس مٹ جاتا ہے، جب آہستہ آہستہ برائیوں کا ذکر ہونا شروع ہو جائے۔ اور آہستہ آہستہ معاشرے کے اور لوگ بھی اس برائی میں ملوث ہو جاتے ہیں- اس لئے ہمیں واضح حکم ہے کہ جو باتیں معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی ہوں یا بگاڑ پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہوں، ان کی تشہیر نہیں کرنی، ان کو پھیلانا نہیں ہے۔ دعا کرو اور ان برائیوں سے ایک طرف ہو جاؤ۔ اور اگر کسی سے ہمدردی ہے تو دعا اور ذاتی طور پر سمجھا کر اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہی سب سے بڑا علاج ہے۔ سوائے اس کے کہ ایسی صورت ہو کہ جس میں جماعتی خبر ہو یا جماعت کے خلاف کوئی بات سنیں،جماعتی نقصان کا احتمال ہو اور کوئی ایسی بات پتہ لگے جیسا کہ میں نے کہا، جس سے جماعتی نقصان ہونے کا خدشہ ہو تو پھر متعلقہ عہدیداروں کو، یا مجھ تک یہ بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ ادھر ادھر باتیں کرنے کا پھر بھی کوئی حق نہیں اور کوئی ضرورت نہیں- اس سے برائی پھیلتی ہے۔ اگر مثلاً اس غلطی کرنے والے شخص کی اصلاح کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی یا جھوٹ بول کر غلط بیانی کرکے وقتی طور پر اس نے اپنی جان بچا لی تو دوسرے بھی جن کی طبیعت میں کمزوری ہے وہ بھی بعض دفعہ ایسی باتیں کر جائیں گے، اپنی کمزوریاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے۔ کیونکہ ان کے ذہنوں میں بھی یہ ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی غلطی پکڑ کے اس عہدیدار نے یا اس شخص نے کیا کر لیا جو ہمارے خلاف ہو جائے گا۔ اس شخص کا کیا بگڑ گیا ہے۔ زبان کا مزہ لینے کے لئے بعض باتیں کر لو بعد میں دیکھی جائے گی۔ اس قسم کی باتیں برائیاں پھیلاتی ہیں، حجاب اٹھ جاتے ہیں-
تو بہرحال یہ تو ایسے لوگوں کی سوچ کا قصور ہے، تقویٰ کی کمی ہے لیکن جس شخص کو نظام کے خلاف کوئی بات پتہ چلے،اس کا بہرحال یہ فرض بنتا ہے کہ ایسی بات صرف نظام جماعت کو ہی بتائے اور ادھر ادھر نہ کرے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ سننے والے کو کوئی غلطی لگ جاتی ہے۔ بعض دفعہ بات کرنے والا باوجود جماعتی اخلاص کے وقتی جوش میں کوئی ایسی بات کہہ جاتا ہے جس پر بعد میں اسے بھی شرمندگی ہوتی ہے اور ایک دفعہ بات سن کے آگے پھیلا دینا مزید شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ بعض دفعہ صحیح الفاظ کسی نے ادا نہیں کئے ہوتے تو اس وجہ سے اس بات کی بہت زیادہ بھیانک شکل نظر آنے لگ جاتی ہے۔ تو بہرحال کوئی بھی ایسی کمزوری ہو یا تو اس کو علیحدگی میں سمجھا دیا جائے یا جماعتی عہدیدار کو بتا دیا جائے کہ اس طرح کی بات میں نے سنی ہے آپ تحقیق کر لیں- لیکن کسی کی، کسی قسم کی بات کو کبھی بھی پھیلانا نہیں چاہئے جس سے کسی کی عزت پر حرف آتا ہو۔ ہو سکتا ہے کسی وقت یہی غلطی آپ سے بھی ہو جائے اور پھر اس طرح چرچا ہونے لگے، بدنامی ہو تو کتنی تکلیف پہنچتی ہے۔ ہر ایک کو اس سوچ کے ساتھ اگلے کی بات کرنی چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے اور مسلمانوں نے جس خدا کو مانا ہے وہ رحیم، کریم، حلیم، توّاب اور غفّار ہے۔ جو شخص سچی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ لیکن دنیا میں خواہ حقیقی بھائی بھی ہو یا کوئی اور قریبی عزیز اور رشتہ دار ہو وہ جب ایک مرتبہ قصور دیکھ لیتا ہے پھر وہ اس سے خواہ باز بھی آ جاوے مگر اسے عیبی ہی سمجھتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کیسا کریم ہے کہ انسان ہزاروں عیب کرکے بھی رجوع کرتا ہے تو بخش دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے بجز پیغمبروں کے (جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں) جو چشم پوشی سے اس قدر کام لے بلکہ عام طور پر تو یہ حالت ہے جو سعدی نے کہا ہے ‘’خدا داند بپوشد و ھمسایہ نداند وبخروشد’‘ کہ خداتعالیٰ تو جانتے ہوئے بھی پردہ پوشی کرتا ہے لیکن ہمسایہ تھوڑا علم ہونے کے باوجود اس کی مشہوری کرتاہے۔
فرمایا:’’پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم الشان صفت ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ اگر وہ مواخذہ پر آئے تو سب کو تباہ کر دے۔ لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 137,138 جدید ایڈیشن)
تو دیکھیں کس طرح آپؑ نے دوسروں کی ستّاری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرنے والا ہے، اور اس رحم کی صفت کی وجہ سے اپنے بندوں کو بخش دیتا ہے۔ بہت دیالو ہے، بہت دینے والا ہے۔ حلیم ہے، توبہ قبول کرتا ہے اس لئے بندے کو کیا پتہ کہ کس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کرنا ہے۔ سعدی کا قول آپؑ نے بتایا ہے،جیسا کہ میں نے بتایا، کہ اللہ تعالیٰ تو بعض نقائص کا علم ہونے کے باوجود بندے کی پردہ پوشی کرتا ہے اور ہمسایہ جس کو شاید پوری بات کا علم نہ ہو کوئی ایک پوائنٹ لے کے، کوئی ایک بات لے کے، کوئی ایک فقرہ لے کے بعض دفعہ کوئی لفظ لے کر ہی کسی کو بدنام کرنے کے لئے وہ شورمچاتے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اس لئے ہر ایک کو استغفار کرتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ حساب لینے لگے تو فرمایا کہ شاید سب یہیں پکڑے جائیں لیکن اس کا رحم اور کرم ہے جو ہم سب ابھی تک بچے ہوئے ہیں-
ایک حدیث میں آتا ہے۔ کہ آنحضرت ﷺ نے راز اور سرگوشی کے انداز میں فرمایا کہ:’’تم میں سے کوئی اپنے رب کے قریب ہو گا۔ یہاں تک کہ وہ اپنا سایۂ رحمت اس پر ڈالے گا، پھر فرمائے گا تو نے فلاں فلاں کام کیا تھا! وہ کہے گا ہاں میرے رب! پھر کہے گا فلاں فلاں کام بھی کیا تھا؟ وہ اقرار کرے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میں نے اس دنیا میں تیری کمزوریوں کی پردہ پوشی کی آج قیامت کے دن بھی پردہ پوشی کرتا ہوں اور انہیں معاف کرتا ہوں’‘۔ (بخاری کتاب الادب باب ستر المومن علی نفسہٖ)
یہ پچھلی حدیث کی وضاحت ہی ہے۔
پھر ایک اور روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے یکا و تنہا چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی حاجات پوری کرتا جاتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مصائب میں سے ایک مصیبت کم کر دے گا اور جو کسی مسلمان کی ستاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ستاری فرمائے گا‘‘۔ (ریاض الصالحین۔ باب فی قضاء حوائج المسلمین)
تو دیکھیں یہ اللہ تعالیٰ کی ستاری ہی ہے جس سے گناہ بخشے جاتے ہیں- ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ جب تک اپنے بھائی کی مدد کرنے کے لئے کوشاں رہے گا، کوشش بھی کرتا رہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا چلا جائے گا۔ اس سے ملتی جلتی ایک اور روایت بھی ہے لیکن اس میں ایک انذار بھی ہے، ڈرایا بھی گیا ہے پردہ پوشی نہ کرنے والے کو۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:’’جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کے کسی عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے عیب کو ڈھانپ دے گا اور ستاری فرمائے گا۔ اور جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ دری کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے عیب اور ننگ کو اس طرح ظاہر کرے گا کہ اس کے گھر میں اس کو رسوا کر دے گا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الحدود باب الستر علی لمومن دفع الحدود …)
پس دیکھیں کس قدر انذار ہے۔ کمزوریاں تو سب میں ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ جب ننگ ظاہر کرکے رسوا کرنے لگے تو پھر آدمی کی کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی۔ کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہوتی۔ اس لئے ہمیشہ دوسروں کے عیب دیکھنے کی بجائے ہر ایک کو اپنے پر نظر رکھنی چاہئے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’کوئی بندہ کسی بندے کی اس دنیا میں پردہ پوشی نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (صحیح مسلم۔ کتاب البر و الصلۃ وا لاداب باب بشارۃ من ستر اللہ لہٗ)
یعنی پردہ پوشی کو اللہ تعالیٰ بغیر اجر کے نہیں چھوڑے گا۔ اور قیامت کے دن اس کا اجر دے گا۔
برائی کے اظہار سے برائی پھیلنے کا اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینے کا خطرہ ہوتا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا۔ اس لئے برائی کا اظہار بھی نہیں کرنا چاہئے۔ اس سے برائی پھیلتی ہے۔ اور یہ تجربے میں بات آئی ہے کہ دیکھا دیکھی بہت سی برائیاں پھیلتی ہیں- اور اسی بارے میں آنحضرت ﷺ نے ہمیں بڑی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ:’’اگر تو لوگوں کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا تو انہیں بگاڑ دے گا، یا ان میں بگاڑ کی راہ پیدا کر دے گا‘‘۔ (سنن ابی داود۔ کتاب الادب باب ما فی النھی عن التجسس)
کمزوریوں کے پیچھے پڑکے پھر ان کو اچھالنے کا، لوگوں پہ ظاہر کرنے کا، پھیلانے کامقصد ہوتا ہے یا کوئی بھی برائی جب اس کو پھیلا یا جائے تو بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے جو تجسس کرکے دوسروں کے عیب تلاش کرتے ہیں یا ان کے عیبوں اور کمزوریوں کو پھیلاتے ہیں، سمجھایا گیا ہے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ اس طرح تم شاید کوئی اصلاحی کام کر رہے ہو بلکہ بگاڑ پیدا کر رہے ہو۔ دنیا میں مختلف قسم کی طبیعتیں ہوتی ہیں- بعض دفعہ اپنے خلاف بات سن کر رد عمل کے طور پربھی،ایسے لوگ جن کی برائیوں کا اظہار باہر ہو جائے اور زیادہ ڈھیٹ ہو کر وہ برائی کرنا شروع کر دیتے ہیں، کہ اب تو پتہ لگ ہی گیا ہے۔ جو ایک حجاب تھا وہ تو ختم ہو گیا۔ تو اس سے اصلاح کا پہلو بالکل ہی ختم ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ دوسرے اگر کسی کا یہ عیب اور کمزوری اس میں بعض عہدیداروں کو بھی محتاط رہنا چاہئے، بعض دفعہ بات کر جاتے ہیں- کسی عہدیدار یا اس کے کسی قریبی کی طرف سے یا اس کے حوالے سے کسی کی بات باہر نکلے تو نظام کے خلاف بھی رد عمل ظاہر ہو جاتا ہے۔ فرمایا پھر اس کا ذمہ دار پردہ دری کرنے والا ہے۔ وہ شخص ہے جس نے یہ باتیں باہر نکالیں- اور پردہ دری کا انذا ر تو آپ پہلی حدیث میں سن ہی چکے ہیں-
ایک برائی کو ظاہر کرنے سے اس کی اہمیت نہیں رہتی اور آہستہ آہستہ اگر وہ مستقلاً برائیاں ظاہر ہونی شروع ہو جائیں تو معاشرے میں پھر برائیوں کی اہمیت نہیں رہتی اور یہ تجربے سے ثابت ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حجاب ختم ہو جائے تو پھر برائی کا احساس ہی باقی نہیں رہتا۔ مثلاً یہی دیکھ لیں کہ آجکل جو فلمیں اور ڈرامے ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں- اور جب سے ایسے ڈرامے آنے لگے ہیں جس میں قتل و غارت ہو، اغوا ہو، نشہ اور ڈرگز کی باتیں ہو رہی ہوں اس وقت سے یہ برائیاں زیادہ پھیل گئی ہیں- اور ٹی وی وغیرہ نے، میڈیا نے اس کو پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اپنی طرف سے اصلاحی ڈرامے بناتے ہیں کہ آخر میں نتیجہ نکالیں گے کہ دیکھو مجرم پکڑے گئے۔ لیکن اس میں پتہ نہیں آخر میں اصلاح کی کسی کو سمجھ آتی ہے کہ نہیں لیکن برائی ضرور پھیل جاتی ہے۔ بچوں کے خیالات ٹی وی ڈرامے دیکھ دیکھ کے ہی بگڑتے ہیں- اور جب بڑے ہوتے ہیں اور نوجوانی میں قدم رکھتے ہیں تو غریب ملکوں میں ضرورت کے لئے اور امیر ملکوں میں تفریح کے لئے وہ حرکتیں شروع ہو جاتی ہیں- پھر یہ دیکھ لیں یہاں اس مغربی معاشرے میں آزادی کے نام پر بہت سی بے حیائیاں اور برائیاں پیدا ہو رہی ہیں- آپ ﷺ نے جو یہ فرمایا تھا کہ ان برائیوں کے اظہار سے تم اور بگاڑ پیدا کرو گے تو آجکل اگر جائزہ لیں، جیسا کہ میں نے کہا، ان برائیوں کے اظہار کی وجہ سے ہی یہ برائیاں پیدا ہو رہی ہیں- اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو بھی ان برائیوں سے محفوظ رکھے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:’’یقینا اللہ تعالیٰ حیا اور ستر کو پسند فرماتا ہے‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ 224)
یہ دیکھیں یہ بھی پہلی حدیث سے ملتی ہے کہ اگر آج یہ بے حیائیاں پھیلی ہوئی ہیں- میڈیا جو بے حیائیاں پھیلا رہا ہے، حیا اور ستر قائم ہو جائے تو آدھے سے زیادہ برائیاں بگاڑ اور خاندانوں کے مسائل اور جرائم ختم ہو جائیں گے اور معاشرے کے گند اور برائیاں ختم ہو جائیں گی۔ کیونکہ اخباروں اور ٹی وی نے حیا کا احساس مٹا دیا ہے۔ پارکوں میں سرعام بیہودگیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور یہ سب کچھ حیا کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ مغرب میں تو حیا اور ستر کے معیار بالکل بدل ہی گئے ہیں- پس ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے دوسروں کے عیب تلاش کرنے کی بجائے ہمیں اپنے لئے اور اپنی اولادوں کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے محفوظ رکھے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بہت فضیلت والی آیت یہ ہے (آپؐ نے مااصابکم والی آیت پڑھی) کہ جو بھی تمہیں مصیبت پہنچتی ہے یہ تمہارے اپنے کئے کی سزا ہے۔ اور اللہ بہت سے قصوروں کو تو معاف ہی کر دیتا ہے اور درگزر فرماتا ہے۔ اور مااصابکم کی تفسیر یہ بیان فرمائی کہ سزا اور دوسری دنیاوی مصیبتیں ہیں جو انسان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کرم اس بات سے مانع ہے کہ آخرت میں دوبارہ وہ ان غلطیوں پر گرفت فرمائے۔ اور جن غلطیوں کو اس نے دنیا میں معاف فرما دیا ہے اور کوئی گرفت نہیں فرمائی۔ اس کا حلم اس میں مانع ہو گا کہ عفو اور درگزر کے بعد پھر گرفت فرمائے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 85)
ان حدیثوں سے اللہ تعالیٰ کا بندے سے عفو اور مغفرت کے سلوک کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لئے بندے کا بھی حق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی پردہ دری کرتا پھرے۔ بلکہ دوسروں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے اور اپنے لئے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ستاری کا سلوک ہی کرتا رہے۔
اور اس کے لئے آنحضرت ﷺ نے ہمیں دعا بھی سکھائی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اے اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا طلبگار ہوں- مولیٰ میں تجھ سے دین و دنیا، مال اور گھر بار میں عفو اور عافیت کا خواستگار ہوں- اے اللہ! میری کمزوریاں ڈھانپ دے اور مجھے میرے خوفوں سے امن دے۔ اے اللہ! آگے پیچھے، دائیں بائیں اور اوپر سے خود میری حفاظت فرما۔ اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں نیچے سے کسی مخفی مصیبت کا شکار ہوں’‘۔ (ابوداؤد۔ کتاب الادب)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس سلسلے میں کیا مثال تھی اور کیا دل کا حال تھا وہ میں پیش کرتا ہوں- آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’قتل کے مقدمہ میں ہمارے ایک مخالف گواہ کی وقعت کو عدالت میں کم کرنے کی نیت سے‘‘ جو اس کا زور تھا اس کو توڑنے کی نیت سے ’’ہمارے وکیل نے چاہا کہ اس کی ماں کا نام دریافت کرے مگر میں نے اسے روکا اور کہا کہ ایسا سوال نہ کرو جس کا جواب وہ مطلق دے ہی نہ سکے اور ایسا داغ ہرگز نہ لگاؤ جس سے اسے مفر نہ ہو۔ حالانکہ ا ن ہی لوگوں نے مجھ پر جھوٹے الزام لگائے۔ جھوٹا مقدمہ بنایا۔ افتراء باندھے اور قتل اورقید میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ میری عزت پر کیا کیا حملے کر چکے ہوئے تھے۔ اب بتلاؤ کہ میرے پر کون سا خوف ایسا طاری تھا کہ میں نے اپنے وکیل کو ایسا سوال کرنے سے روک دیا۔ صرف بات یہ تھی کہ میں اس بات پر قائم ہوں کہ کسی پر ایسا حملہ نہ ہو کہ واقعی طور پر اس کے دل کو صدمہ دے اور اسے کوئی راہ مفر کی نہ ہو‘‘۔ یعنی کوئی اور اس کے لئے بچنے کا رستہ نہ ہو۔ جب یہ آپ نے فرمایا تو وہاں بیٹھے ہوئے کسی شخص نے عرض کیا کہ ’’حضور! میرا دل تو اب بھی خفا ہوتا ہے‘‘۔ یعنی مجھے اچھا نہیں لگا کہ یہ سوال کیوں نہیں کیا۔ یہ سوال اس کو نیچا کرنے کے لئے ہونا چاہئے تھا۔ تو آپؑ نے فرمایا کہ’’میرے دل نے گوارا نہ کیا‘‘۔ اس نے لگتا ہے بہت ہی زیادہ غصے میں تھا پھر کہا کہ یہ سوال ضرور ہونا چاہئے تھا۔ تو آپؑ نے فرمایا’’خدا نے دل ہی ایسا بنایا ہے تو بتلاؤ میں کیا کروں’‘۔ (ملفوظات جلد سو م صفحہ 59جدید ایڈیشن)
اور ایسا ہی دل آپؑ جماعت کے ہر فرد کا بنانا چاہتے تھے۔ اور یہی آپؑ نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ جو اسلام کی صحیح تصویر ہے۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ’’میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص عہد دوستی باندھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں- ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو تو ہم بلاخوف لومۃ لائم لوگوں کی ملامت کے بغیر کسی خوف کے بغیراسے اٹھا کر لے آئیں گے‘‘۔ فرمایا عہد دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے اس کو آسانی سے ضائع نہیں کر دینا چاہئے اور دوستوں کی طرف سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آئے اس پر اغماض اور تحمل کا طریق اختیار کرنا چاہئے‘‘۔ (چشم پوشی کرنی چاہئے، درگزر کرنی چاہئے)۔ (سیرۃ طیّبہ۔ صفحہ 56)
حضرت مولوی شیر علی صاحب نے یہ بھی آگے فرمایا انہوں نے اپنی روایت میں لکھا ہے کہ آگے یہ بھی آپؑ نے فرمایا تھا کہ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کریں گے اور جب وہ ہوش میں آنے لگے تو اس کے پاس سے اٹھ کر چلے جائیں گے تاکہ وہ ہمیں دیکھ کر شرمندہ نہ ہو۔ اور آپ نے جماعت کو یہ نصیحت کی ہے کہ جماعت کے فرد بھی ایک خاندان کی طرح ہیں- تمہارے بھائی ہیں، آپس میں بھائی بن کر رہو اور ایک دوسرے کے عیبوں کو چھپاؤ۔ (سیرۃ طیّبہ۔ صفحہ 56)
ایک بار حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں کسی کی کمزوریوں کا کسی نے ذکر کیا۔ آپؑ نے سنا تو اس شخص کو مخاطب ہو کر فرمایا عیبش گفتہ ای،ہنرش نیز بگو یعنی اس کے نقائص اور کمزوریاں تو گنوائی ہیں اس کی خوبیوں کا بھی ذکر کیا ہوتا ہے۔ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب۔ صفحہ 57)
خوبیاں بیان کرنے سے نیکیاں پھیلتی ہیں- کسی نے مالی قربانی کی، کسی نے اور کسی قسم کی قربانی کی، ان قربانیوں کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو دوسروں میں بھی جوش پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر برائیاں ہی معاشرے میں ذکر کی جاتی رہیں تو پھر برائیاں ہی پھیلتی ہیں- جیسا کہ میں نے بتایا ہے پھر وہ معیار ختم ہو جاتے ہیں- حجاب ختم ہو جاتے ہیں- دوسرے یہ کہ کسی کی برائیاں بیان کرکے اس کے لئے شرمندگی یا غصے کے سامان کر رہے ہوتے ہیں- اگر خوبیاں بیان کی جائیں تو اس سے بھی بچت ہو جاتی ہے۔ معاشرہ مزید بگاڑ سے بچ جاتا ہے اور پھر یہ دوسروں کی برائیاں بیان کرکے انسان خود بھی گناہگار بن رہا ہوتا ہے اگر صرف لوگوں کی اچھائیاں اور خوبیاں ہی بیان کی جائیں تو اس سے بھی اپنے آپ کو محفوظ کر لیتا ہے۔ تو ایک پردہ پوشی اور کئی نیکیوں کو جنم دیتی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اصل میں انسان کی خداتعالیٰ پردہ پوشی کرتا ہے کیونکہ وہ ستار ہے اور بہت سے لوگوں کو خداتعالیٰ کی ستاری نے ہی نیک بنا رکھا ہے ورنہ اگر خدا تعالیٰ ستاری نہ فرمائے تو پتہ لگ جاوے کہ انسان میں کیا کیا گندپوشیدہ ہیں-
پھر فرمایا کہ’’انسان کے ایمان کا بھی کمال یہی ہے کہ تخلق باخلاق اللہ کرے۔ یعنی جو اخلاق فاضلہ خدا میں ہیں اور صفات ہیں ان کی حتی المقدور اتباع کرے اور اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرے۔ مثلاً خداتعالیٰ میں عفو ہے انسان بھی عفو کرے، رحم ہے، حلم ہے، کرم ہے، انسان بھی رحم کرے،حلم کرے لوگوں سے کرم کرے۔ خداتعالیٰ ستار ہے، انسان کو بھی ستاری کی شان سے حصہ لینا چاہئے۔ اور اپنے بھائیوں کے عیوب اور معاصی کی پردہ پوشی کرنی چاہئے‘‘۔
عیبوں اور گناہوں اور غلطیوں کی پردہ پوشی کرنی چاہئے’’بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کسی کی بدی یا نقص دیکھتے ہیں، جب تک اس کی اچھی طرح سے تشہیر نہ کر لیں ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ فرمایا حدیث میں آیا ہے کہ جو اپنے بھائی کے عیب چھپاتا ہے خداتعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرتا ہے انسان کو چاہئے کہ شوخ نہ ہو، بے حیائی نہ کرے، مخلوق سے بدسلوکی نہ کرے، محبت اور نیکی سے پیش آوے‘‘۔ (ملفوظات جلد5صفحہ608,609 جدید ایڈیشن)
پھر آپؑ نے فرمایا،یہ شروع زمانہ کی ’’بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے بعض کمزور ہیں جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے بعض میں کچھ طاقت آ گئی ہے۔ پس چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔ اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کر ے اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضا و قدر کا معاملہ سمجھے۔ جب خداتعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سردست جوش نہ دکھلایا جاوے۔ ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے۔ قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتا ہے۔ بلکہ لکھا ہے

اَلْقُطْبُ قَدْ یَزْنِیْ

کہ قطب سے بھی زنا ہو جاتا ہے۔ بہت سے چور اور زانی آخر کار قطب اور ابدال بن گئے۔ جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے۔ کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے پوری کوشش کرتا ہے۔ ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ۔ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو۔ بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْ بِالْصَّبْرِ وََتَوَاصَوْا بِا لْمَرْحَمَۃِ (البلد :18) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں- مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعابھی کی جاوے۔ دعا میں بڑی تاثیر ہے۔ اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو‘‘۔ سعدی کا قول لکھا ہے کہ

خدا داندبپو شد و ھمسایہ نداندوخرو شد

کہ خداتعالیٰ تو جان کر پردہ پوشی کرتا ہے مگر ہمسایہ کو علم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے۔ خداتعالیٰ کا نام ستّار ہے۔ تمہیں چاہئے کہ

تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہِ

بنو۔ ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آگیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے’‘آپؑ نے واقعہ بیان فرمایا ‘’شیخ سعدی کے دو شاگرد تھے۔ ایک ان میں سے حقائق اور معارف بیان کیا کرتا تھا‘‘۔ زیادہ لائق تھا، اس کو زیادہ سمجھ آتی تھی اور دوسرے کو اتنی سمجھ نہیں تھی، تو وہ’’دوسرا جلا بھنا کرتا تھا۔ آخر پہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسد کرتا ہے۔ شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا‘‘۔ وہ حسد کرکے دوزخ میں چلا گیا’’اور تو نے غیبت کی‘‘۔ وہ حسد کرکے دوزخ میں جا رہا ہے اور تم غیبت کرکے دوزخ میں جا رہے ہو۔ ’’غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتاجب تک رحم، دعا، ستّاری اور مرحمہ آپس میں نہ ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 60. 61جدید ایڈیشن)
پھر آپؑ نے فرمایا:’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں- لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کرکے دور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں- کون سا ایسا عیب ہے جوکہ دور نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 60جدید ایدیشن)
پس یہ حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی جماعت کی دیکھنا چاہتے ہیں- اور یہ حالت ہے جو ہم نے اپنے اندر پیدا کرنی ہے انشاء اللہ۔ باوجود اس کے کہ جماعت بعض قربانی کے معیاروں میں خداتعالیٰ کے فضل سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ وفا اور اخلاص میں بھی بہت زیادہ ہے الحمدللہ۔ لیکن بعض چھوٹی چھوٹی برائیاں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ دوسرے کی کمزوریوں کو لے کر اس کی تشہیر کرنا اور دوسروں کو بتانا۔ تو ان چیزوں کی طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ جب نبی کے زمانے سے دوری ہوتی جاتی ہے اور پھر نبی سے براہ راست تربیت پانے والے بھی آہستہ آہستہ کم ہوتے جاتے ہیں- اور اب تو سارے ہی چلے گئے ہیں پھر ان تربیت یافتہ صحابہ سے فیض پانے والوں کی بھی کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور پھر جماعت میں نئے آنے والوں کا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو دعا اور استغفار کے ساتھ ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت پڑ جاتی ہے۔ پس ان باتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ دین کے ہر حکم کو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو حکم سمجھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا چاہئے اور اس کواپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں