خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 31؍دسمبر 2004ء

دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں، جماعتی عہدیدار بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنے رویّوں میں ایک تبدیلی پیدا کریں۔ لوگوں سے پیار اور محبت کا سلوک کیا کریں۔ خلیفۂ وقت نے آپ پر اعتماد کیا ہے اور آپ پر اعتماد کرتے ہوئے اس پیاری جماعت کو آپ کی نگرانی میں دیا ہے۔
افراد جماعت بھی عہدیداران کے ساتھ ادب و احترام اور کامل اطاعت وفرمانبرداری کا تعلق قائم کریں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت احمدیہ نے ہمیشہ قائم رہنا ہے اور وفا قائم کرنے والے اس میں ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے۔
دعاؤں کے ساتھ ہر سطح پر اخلاص ووفا کے نمونے دکھاتے ہوئے اُس اسلامی تعلیم پر عمل کرتے چلے جائیں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتائی ہے۔
(عہدیداروں کے انتخاب،عہدیداران اور افراد جماعت کے حقوق و فرائض سے متعلق قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے حوالہ سے گرانقدر نصائح)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
31؍دسمبر 2004ء بمقام مسجد بیت السلام۔ پیرس۔ فرانس

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْاالْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ۔ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ۔ اِنَّ اللہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا- (سورۃ النساء آیت 59:)

یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت جماعت میں جاری فرمایا اور اس نظام خلافت کے گرد جماعت کا محلہ کی سطح یا کسی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر شہری اور ملکی سطح تک کا نظام گھومتا ہے۔ یعنی کسی چھوٹی سے چھوٹی جماعت کے صدر سے لے کر ملکی امیر تک کا بلا واسطہ یا بالواسطہ خلیفہ وقت سے رابطہ ہوتا ہے۔ پھر ہر شخص انفرادی طور پربھی رابطہ کر سکتا ہے۔ ہر فرد جماعت خلیفۂ وقت سے رابطہ رکھتا ہے۔ لیکن اگر کسی جماعتی عہدیدار سے کوئی شکوہ ہو یا شکایت ہو اور خلیفہ وقت تک پہنچانی ہو تو ہر ایک کے انفرادی رابطے کے باوجود اس کو یہ شکایت امیر کے ذریعے ہی پہنچانی چاہئے اور امیر ملک کا کام ہے کہ چاہے اس کے خلاف ہی شکایت ہو وہ اسے آگے پہنچائے اور اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہے تو وضاحت کر دے تاکہ مزید خط وکتابت میں وقت ضائع نہ ہو۔ لیکن شکایت کرنے والے کا بھی کام ہے کہ اپنی کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی عہدیدار کے خلاف شکایت کرتے ہوئے اسے جماعتی رنگ نہ دے۔ تقویٰ سے کام لینا چاہئے۔ بعض دفعہ بعض کم علم یا جن میں دنیا کی مادیت نے اپنا اثر ڈالا ہوتا ہے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جماعت کے وقار اور روایات کے خلاف ہوتی ہیں اس لئے ایسے کمزوروں یا کم علم رکھنے والوں کو سمجھانے کے لئے مَیں یہ بتا رہا ہوں کہ ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔
عہدیداروں کا چناؤ آپ انتخاب کے ذریعے سے کرتے ہیں- عموماً اسی طرح ہوتا ہے، سوائے اس کے کہ بعض خاص حالات میں بعض جگہ نامزدگی کر دی جائے اور یہ جو نامزدگی ہے یہ بھی مرکز یا خلیفۂ وقت کی منظوری سے ہوتی ہے۔ تو بہرحال جب یہ انتخاب اکثریت کی خواہش کے مطابق ہو جاتا ہے تو پھرجس نے منتخب عہدیدار کو ووٹ نہیں بھی دیا اس کا بھی کام ہے کہ مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ عہدیدار کے ساتھ رہے۔ پھر تمام جماعت اگر اس طرح رہے گی تو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بن کے رہے گی، بنیان مرصوص کی طرح بن کے رہے گی۔ یہ تمام باتیں میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ خدانخواستہ کہیں سے کوئی بغاوت کی بوآ رہی ہے یا کہیں کوئی مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ بعض دنیا دار جیسا کہ میں نے کہا اپنی کم علمی یا بے وقوفی یا دنیاداری کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں- اور بعض دفعہ جماعت میں نئے شامل ہونے والے ایسی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں- اوراس کے علاوہ یہ نومبائعین کی اپنی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو نظام جماعت کے بارے میں، عہدیداروں کی ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا جائے۔ کیونکہ نئے آنے والوں کے ذہنوں میں سوال اٹھتے رہتے ہیں-
بہرحال الٰہی وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں یہ نظام،نظام خلافت کے ساتھ قائم رہنا ہے اور اب یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے۔ کوئی مخالف یا کوئی دشمن اب اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا انشاءاللہ۔ لیکن ہمیں اپنے ذہنوں میں بعض باتیں تازہ رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً ان باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہئے۔ تاکہ جو پرانے احمدی ہیں ان کے ذہنوں میں بھی یہ باتیں تازہ رہیں اور اس کے ساتھ ہی نومبائعین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں- اور کبھی کسی کے ذہن میں کسی قسم کی بے چینی پیدا نہ ہو۔
سب سے پہلے تو ہم قرآن کریم سے رہنمائی لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا فرمایا ہے یا کیا فرماتا ہے کہ اپنے عہدیداروں کا چناؤ کس طرح کرو۔ جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یقینا بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے یقینا اللہ بہت سننے والا اورگہری نظر رکھنے والا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ عہدیدار چننے والوں کو فرمایا کہ عہدے اُن کو دو، اُن لوگوں کو منتخب کرو جو اس کے اہل ہوں- اس قابل ہوں کہ جس کام کے لئے انہیں منتخب کر رہے ہو وہ اس کو کر سکیں، وقت دے سکیں- یہ نہیں کہ چونکہ تمہارے تعلقات ہیں، اس لئے ضرور اس عہدے کے لئے اسی کو منتخب کرنا ہے یا ضرور اسی کو اس عہدے کے لئے ووٹ دینا ہے۔ اس میں ایک بہت بڑی ذمہ داری چناؤ کرنے والوں پر، منتخب کرنے والوں پر ڈالی گئی ہے۔ اس لئے جو ووٹ دینے کے جماعتی قواعد کے تحت حقدار ہیں، ہرممبر تو ووٹ نہیں دیتا۔ جو بھی ووٹ دینے کا حقدار ہے ان کو ہمیشہ دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہئے کہ جو بہتر ہو اس کو ووٹ دے سکے۔
یہاں ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ بعض دفعہ بعض افراد پر کسی وجہ سے پابندی لگی ہوتی ہے کہ وہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس لئے اس بارے میں ضد نہیں کرنی چاہئے کہ کیونکہ ہمارے نزدیک فلاں شخص ہی اس کام کے لئے موزوں تھا یا موزوں ہے اس لئے اسی کو ہم نے ووٹ دینا تھا اور اس کی اجازت دی جائے ورنہ ہم انتخاب میں شامل نہیں ہوتے۔ یہ غلط طریق ہے۔ اطاعت کا تقاضا یہ ہے اور نظام جماعت کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کوئی فیصلہ ہو گیا ہے کہ کسی شخص کو حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے تو پھر اس بارے میں اصرار نہیں کرنا چاہئے۔
یہاں ضمناً یہ بتا دوں، آپ لوگ پریشان ہو رہے ہوں گے۔ بعض لوگ دنیا میں بھی اندازے لگانے شروع کر دیتے ہیں کیونکہ یہ خطبہ فرانس میں دیا جا رہا ہے اس لئے شاید یہاں کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے۔ تو واضح کر دوں کہ یہاں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی مخلص جماعت ہے اور یورپ میں میرے علم کے مطابق یہ واحد جماعت ہے جس میں پاکستانی اور غیر پاکستانی کی نسبت شاید 40:60کی ہو گی اور جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں دوسرے شامل ہو رہے ہیں بعید نہیں کہ چند سالوں میں پاکستانی تھوڑے رہ جائیں اور غیر پاکستانی اور دوسری قوموں کے لوگ زیادہ ہو جائیں- اور جو بھی اس وقت تک احمدی ہوئے ہیں- غیر ملکیوں میں سے (غیر ملکیوں سے مراد ہے کہ فرانس میں بھی دوسرے ملکوں کے لوگ احمدی ہوئے ہیں) یہ لوگ صرف نام کے احمدی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری طرح نظام جماعت کا حصہ ہیں اور جلسہ سالانہ پر بھی بڑی ذمہ داری کے ساتھ بڑے شوق کے ساتھ اپنی ڈیوٹیاں دی ہیں- جماعتی ترقی کے لئے انتہائی جذبات رکھنے والے لوگ ہیں- اللہ تعالیٰ ان کو ایمان اور اخلاص میں اور بھی بڑھاتا چلا جائے۔ تو بہرحال مَیں یہ بتا رہا تھا کہ فرانس میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی۔ کسی اور مغربی ملک کے ایک شہر میں ایسے بعض سوال اٹھے تھے۔ اور ترقی کرنے والی قومیں کیونکہ اپنی کمزوریوں سے آنکھیں بند نہیں کر لیا کرتیں اس لئے مَیں نے آج اس مضمون کو لیا ہے تاکہ کمزوروں کی اصلاح بھی ہو جائے اور نومبائعین کی تربیت بھی ہو جائے اور ساتھ ہی ان کمزور لوگوں کے لئے جماعت کے لوگ دعا بھی کر سکیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمانوں میں مضبوطی عطا فرمائے۔ تو بہرحال مَیں یہ بتا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام احباب جماعت پر جن کو حسب قواعد چناؤ کا انتخابات میں حق دیا گیا ہے یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ سوچ سمجھ کر اہل کو منتخب کرو۔
اور یہ بھی ذہن میں رہے، منتخب کرنے والوں کے اور جو منتخب ہو رہے ہیں ان کے بھی، بعض دفعہ لمبا عرصہ کر کے بعض ذہنوں میں باتیں آ جاتی ہیں کہ کوئی عہدہ جماعت میں کسی کا پیدائشی حق نہیں ہے، کوئی مستقل حق نہیں ہے۔ اس لئے جو خدمت کا موقع ملتا ہے وہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کا فضل ہو تو اللہ تعالیٰ خود ہی خدمت کا موقع دے دیتا ہے۔ خود کبھی خواہش نہیں کرنی۔ اس لئے اشارۃً بھی کبھی کسی قسم کا یہ اظہار نہیں ہونا چاہئے کہ مجھے عہدیدار بناؤ۔ نہ کسی کے دوست یا عزیز کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی شخص کے حق میں ہلکا سا بھی اشارۃً یاکنایۃً اظہار کرے کہ اس کو ووٹ دیا جائے۔ اگر نظام جماعت کو پتہ چل جاتا ہے تو پھر جس کے حق میں پہلے پراپیگنڈہ کیا گیا ہے اس کو بھی اور جو پراپیگنڈہ کرنے والا ہے یا جس نے کوئی بات کسی کے لئے کہی ہو انتخابات سے پہلے، اس کو بھی انتخابات میں شامل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس حق سے محروم کیا جا سکتا ہے اور کر بھی دیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ جو جماعت کے انتخاب ہیں ان کو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے خدمت گزاروں کی ٹیم چننے والا تصور کر کے انتخاب کرنا چاہئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے منتخب عہدیداران کی ذمہ داری بھی لگائی ہے کہ تمہیں جب منتخب کر لیا جائے تو پھر اس کو قومی امانت سمجھو۔ اس امانت کا حق ادا کرو۔ اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھاؤ۔ اپنے وقت میں سے بھی اس ذمہ داری کے لئے وقت دو۔ جماعتی ترقی کے لئے نئے نئے راستے تلاش کرو۔ اور تمہارے فیصلے انصاف اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہونے چاہئیں- کبھی تمہاری ذاتی انا، رشتہ داریوں یا دوستیوں کا پاس انصاف سے دور لے جانے والا نہ ہو۔ کبھی کسی عہدیدار کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ فلاں شخص نے مجھے ووٹ نہیں دیا تھا۔ یا فلاں کانام میرے مقابلے کے لئے پیش ہوا تھا اس لئے مجھے کبھی موقع ملا، کبھی کسی معاملے میں تواس کو بھی تنگ کروں گا۔ یہ مومنانہ شان نہیں ہے بلکہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے۔
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی ہے یہ ایسی نصیحت ہے کہ تم دونوں، ووٹ دے کر منتخب کرنے والو اور عہدیدارو دونوں، کے لئے بڑی اعلیٰ نصیحت ہے کہ ووٹ دینے والا سوچ سمجھ کر ووٹ دے اور جو شخص منتخب ہو جائے وہ بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہر عہدیدار کو چاہے وہ جماعتی عہدیدار ہوں یا ذیلی تنظیموں کے عہدیدار ہوں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا افراد جماعت کو بھی اور عہدیداران کو بھی یہ توجہ دلائی ہے کہ اس کے بعد بھی دعاؤں میں لگے رہو۔ ہر عہدیدار انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ سے دعا مانگے کہ وہ اسے ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر فرد جماعت یہ دعا کرے کہ جو عہدیدار منتخب ہوئے ہیں وہ ہمیشہ اس امانت کے ادا کرنے کے حق کو اس کے مطابق ادا کرتے رہیں- اور کبھی کوئی مشکل نہ آئے، کبھی کوئی ابتلاء نہ آئے جو عہدیدار اور افراد جماعت کے لئے کسی بھی قسم کی ٹھوکر کا باعث بنے۔ اگر اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے کہ یہ عہدیدار جو انہوں نے منتخب کیا ہے وہ پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہا تواللہ تعالیٰ خود ہی ایسے انتظامات فرمائے کہ اسے بدل دے تاکہ کبھی نظام جماعت پر بھی کوئی حرف نہ آئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس طرح دونوں مل کر دعاکرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیک نیت سے کی گئی دعاؤں کو سنے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کے لئے اور دین کی خدمت کرنے والوں پر بڑی گہر ی نظر ہوتی ہے۔ وہ بڑی گہری نظر رکھتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے، وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔ وہ اس درد کی وجہ سے جو تمہارے دل میں ہے ہمیشہ بہتری کے سامان پیدا فرماتا رہے گا اور ہمیشہ تمہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر قسم کی ٹھوکر سے بچائے۔
اب میں ذرا وضاحت سے عہدیداران کا احباب جماعت سے کس قسم کا رویہ یا سلوک ہونا چاہئے اس کے بارے میں کچھ بتاؤں گا۔ اور پھر احباب جماعت، افراد جماعت عہدیداروں سے کیسا رویہ رکھیں- عہدیداروں کو تو ایک اصولی ہدایت قرآن نے دے دی ہے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے ہیں- اگر کوئی غور کرے اور سوچے کہ انصاف کے کیا کیا تقاضے ہیں تو اس کے بعد کچھ بات رہ نہیں جاتی۔ لیکن ہر کوئی اس طرح گہری نظر سے سوچتا نہیں- اس طرح سوچا جائے جس طرح ایک تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والا سوچتا ہے تو پھر تو اس کی یہ سوچ کر ہی روح فنا ہو جاتی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں- لیکن نصیحت کیونکہ فائدہ دیتی ہے جیسا کہ میں نے کہا باتوں سے اور جگالی کرتے رہنے سے یا ددہانی ہوتی رہتی ہے۔ بعض باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ مزید ذرا وضاحت کھول کر کر دی جائے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ عہدیدار اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ حکم فرمایا ہے کہ

وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران:135)

یعنی غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوں-تو اس کے سب سے زیادہ مخاطب عہدیداروں کو اپنے آپ کو سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ ان کی جماعت میں جو پوزیشن ہے جو ان کا نمونہ جماعت کے سامنے ہونا چاہئے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو عاجز بنائیں- اگر اصلاح کی خاطر کبھی غصے کا اظہار کرنے کی ضرورت پیش بھی آ جائے تو علیحدگی میں جس کی اصلاح کرنی مقصود ہو،جس کا سمجھانا مقصود ہواس کو سمجھا دینا چاہئے۔ تمام لوگوں کے سامنے کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہئے اور ہر وقت چڑ چڑے پن کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ یا کسی بھی قسم کے تکبر کامظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ اصلاح کبھی چڑنے سے نہیں ہوتی بلکہ مستقل مزاجی سے دردرکھتے ہوئے اور دعا کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جانے سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔ اور ایک آدھ دفعہ کی جو غلطی ہے، اگر کوئی عادی نہیں ہے تو اصلاح کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ عفو سے کام لیا جائے۔ معاف کر دیا جائے، درگزر کر دیا جائے۔
اس لئے یہاں بھی (مراد فرانس میں) اور دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں، جماعتی عہدیدار بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنے رویوں میں ایک تبدیلی پیدا کریں- لوگوں سے پیار اور محبت کا سلوک کیا کریں- خاص طور پر بعض جگہ لجنہ کی طرف سے شکایات زیادہ ہوتی ہیں اور ان میں بھی خاص طور پر بچیوں یا نوجوان بچیوں اورنئے آنے والیوں جنہوں نے نظام کو پوری طرح سمجھا نہیں ہوتا، ان کے لئے تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس لئے ان کے لئے بہت خیال رکھنا چاہئے۔ کیونکہ تربیت کرنے کی جیسی آپ چھاپ لگا دیں گے بچوں پر بھی اور نئے آنے والوں پر بھی۔ آئندہ نمونہ بھی ویسے ہی نکلیں گے، آئندہ عہدیدار بھی ویسے ہی بنیں گے۔ تو خلاصہ یہ کہ غصے کو دبانا ہے اور عفو سے کام لینا ہے درگزر سے کام لینا ہے۔ لیکن یہ نرمی بھی اس حد تک نہ ہو کہ جماعت میں بگاڑ پیدا ہو جائے۔ ایسی صورت میں بہرحال اصلاح کی کوشش بھی کرنی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جو عادی نہیں ہیں ان کو تو معاف کر کے بھی اصلاح ہو سکتی ہے لیکن اگر جماعت میں فتنے کا خطرہ ہو تو پھر معافی کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ اور پھر یہ ہے کہ اگر ایسی بات ہو تو نہ صرف مقامی طور پر اس کی اصلاح کرنی ہے بلکہ اس کی مرکز کو بھی اصلاح کرنی چاہئے۔ لیکن سختی ایسی نہ ہو، جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ جن کی اصلاح نرمی سے ہو سکتی ہے کہ وہ نوجوان اور نئے آنے والے دین سے ہی متنفر ہو جائیں-
پھر عہدیداروں میں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر اپنے خلاف ہی شکایت ہو تو سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ ہمیشہ سچی بات کہنے سننے کرنے کی عادت ڈالیں- چاہے جتنا بھی کوئی عزیز یا قریبی دوست ہو اگر اس کی صحیح شکایت پہنچتی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ اگر یہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ معذرت کر دیں کہ فلاں وجہ سے مَیں اس کام سے معذرت چاہتا ہوں- کیونکہ کسی ایک شخص کا کسی خدمت سے محروم ہونا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ پوری جماعت میں یا جماعت کے ایک حصے میں بے چینی پیدا کی جائے۔ یاد رکھیں جو عہد ہ بھی ملا ہے چاہے وہ جماعتی عہدہ ہو یا ذیلی تنظیموں کا عہدہ ہو اس کو ایک فضل الٰہی سمجھیں- پہلے بھی بتا آیا ہوں اس کو اپنا حق نہ سمجھیں- یہ خدمت کا موقع ملا ہے تو حکم یہی ہے کہ جو لیڈر بنایا گیا ہے وہ قوم کا خادم بن کر خدمت کرے۔ صرف منہ سے کہنے کی حد تک نہیں- چار آدمی کھڑے ہوں تو کہہ دیا جی میں تو خادم ہوں بلکہ عملاً ہربات سے ہر فعل سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ یہ واقعی خدمت کرنے والے ہیں اور اگر اس نظریے سے بات نہیں کہہ رہے تو یقیناپوچھے جائیں گے۔ جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کو پوری طرح ادانہ کرنے کی وجہ سے یقینا جواب طلبی ہوگی۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت معقل بن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی اور اپنے فرائض کی ادائیگی اور ان کی خیرخواہی میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت حرام کر دے گا۔ اور اسے بہشت نصیب نہیں کرے گا۔ (مسلم کتاب الایمان۔ باب استحقاق الوالی الغاش لرعیۃ النار)
اب دیکھیں اس انذار کے بعد کون ہے جو بڑ ھ بڑھ کر اختیارات کو حاصل کرنے کی خواہش کرے یا عہدے کو حاصل کرنے کی خواہش کرے۔ یہ تو ایسا خوف کا مقام ہے کہ اگر صحیح فہم اور ادراک ہو تو انسان ایک کونے میں لگ کے بیٹھ جائے۔ پس عہدیدار اس فضل الٰہی کی قدر کریں اور اپنی ذمہ داریاں اداکریں- اپنی ذمہ د اریوں کو نبھائیں- اللہ تعالیٰ کا غضب لینے کی بجائے اس کی محبت حاصل کرنے والے بنیں-
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو سعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور اس کے زیادہ قریب انصاف پسند حاکم ہوگا اور سخت ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہوگا۔ (ترمذی ابواب الاحکام باب فی الامام العادل)
پس سب کو چاہئے کہ انصاف کے تقاضے پور ے کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے محبوب بنیں-ا وراللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے لئے وہ طریقے اختیارکریں جواللہ تعالیٰ کے رسول نے بتائے ہیں-
ایک روایت میں آتا ہے ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ عمروؓ بن مرہ نے حضرت معاویہؓ سے کہا کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو امام حاجتمندوں، ناداروں غریبوں کے لئے اپنا دروازہ بند رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات وغیرہ کے لئے آسمان کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ حضور علیہ السلام کے اس ارشا د کو سننے کے بعدحضرت معاویہ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ لوگوں کی ضروریات اور مشکلات کامداوا کیا کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے۔ (ترمذی کتاب الاحکام باب فی امام الرعیۃ)
پس لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کریں، اپنے بھائیوں سے، بہنوں سے اس لئے پیار اور محبت کا سلوک کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اس کا محبوب بننا ہے۔ اور یاد رکھیں امرا ء بھی، صدران بھی اور عہدیداران بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیدارا ن بھی کہ وہ خلیفۂ وقت کے مقرر کردہ انتظامی نظام کا ایک حصہ ہیں اور اس لحاظ سے خلیفۂ وقت کے نمائندے ہیں- اس لئے ان کی سوچ اپنے کاموں کو اپنے فرائض کو انجام دینے کے لئے اسی طرح چلنی چاہئے جس طرح خلیفۂ وقت کی۔ اور انہیں ہدایات پر عمل ہونا چاہئے جو مرکزی طور پر دی جاتی ہیں- اگر اس طرح نہیں کرتے تو پھر اپنے عہدے کا حق ادانہیں کر رہے۔ جو اس کے انصاف کے تقاضے ہیں وہ پورے نہیں کر رہے۔
پھر عہدے کی خواہش کرنا ہے پہلے بھی مَیں نے کہا کہ یہ ایک ایسی بات ہے جو جماعت میں بڑی معیوب سمجھی جاتی ہے اور ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جو اس بارے میں کوشش کرتا ہے۔ اس بارے میں ایک حدیث میں اس طرح آتاہے کہ حضرت عبدالرحمن بن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اے عبدالرحمن ! تو امارت اور حکومت نہ مانگ۔ اگر تجھے بغیر مانگے یہ عہدہ ملے تو اس ذمہ داری کے بارے میں تیری مدد کی جائے گی‘۔ یعنی خواہش نہ ہو اور پھر عہدہ مل جائے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے اور اپنے بندے کی مدد کرتا ہے۔ ’ اور اگر تیرے مانگنے پر تجھے یہ عہدہ دیا گیا ہے تو توُ پھر اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہوگا‘۔ ذرا سی بھی غلطی ہو گی تو پکڑ بہت زیادہ ہوگی۔ ’ اور جب تو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے متعلق قسم کھائے اور پھر اس قسم سے برعکس تجھے بہتر بات نظر آئے تو وہ بہتر بات کر اور اپنی قسم کو توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کر دے‘۔ (بخاری کتاب الاحکام)۔ یہی ہے کہ عہدیداران کو بھی بعض دفعہ قسم تو نہیں کھاتے لیکن بعض ضد یں ہوتی ہیں کہ یہ کام اس طرح نہیں ہونا چاہئے تو اگر جماعت کے مفاد میں ہو تو پھر تمہاری ضدیں یا تمہاری قسمیں زیادہ اہم نہیں ہیں- ان کو ختم کر و۔ یہ جماعت کے مفاد میں حائل نہیں ہونی چاہئیں بلکہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اس طرح کام ہونا چاہئے جس طرح جماعت کے حق میں بہترین ہو۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو۔ اور اچھی خبر ہی دیا کرو اور لوگوں کوبِدکا یا نہ کرو۔ (صحیح البخاری کتاب العلم۔ باب ما کان النبیؐ یتخولھم بالموعظۃ والعلم کی لا ینفروا)
تو اصولی قواعد بھی اس لئے ہیں کہ صحیح سمت میں چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں پر چلتے ہوئے لوگوں کے لئے بہتری اور آسانی پیدا کی جائے۔ تمہاری ضدیں، تمہاری قسمیں،تمہاری انائیں کبھی بھی کسی بات میں حائل نہ ہوں جس سے لوگ تنگ ہوں- اگر کوئی قاعدہ بن بھی گیا ہے یا کوئی فیصلہ ہو بھی گیا ہے اگر اس سے لوگ تنگ ہو رہے ہیں تو بدلا جا سکتا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ لوگ ہمیشہ تمہارے پاس خوشی کی خبروں اورمحبت اور پیارکے پیغاموں کے لئے اکٹھے ہوا کریں- نہ کہ تنگ ہونے کے لئے دور بھاگتے چلے جائیں-
پھر دنیا میں ہر جگہ جماعتی عہدیداروں کی ایک یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مبلغین یا جتنے واقفین زندگی ہیں ان کا ادب اور احترام اپنے دل میں بھی پیدا کیا جائے اور لوگوں کے دلوں میں بھی۔ ان کی عزت کرنا اور کروانا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا، حسب گنجائش اور توفیق ان کے لئے سہولتیں مہیا کرنا،یہ جماعت کا اور عہدیداران کا کام ہے تاکہ ان کے کام میں یکسوئی رہے۔ وہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے کر سکیں- وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے فرائض کی ادائیگی کرسکیں- اگر مربیان کو عزت کا مقام نہیں دیں گے تو آئندہ نسلوں میں پھر آپ کو واقفین زندگی اورمربیان تلاش کرنے بھی مشکل ہو جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی جاری کردہ واقفین نو کی تحریک کے تحت بہت سے واقفین نو بچے وقف کے میدان میں آ رہے ہیں- لیکن جتنا جائز ہ مَیں نے لیا ہے میرے خیال میں جتنے مبلغین کی ضرورت ہے اتنے اس میدان میں نہیں آ رہے دوسری فیلڈز (Fields)میں جا رہے ہیں-بہرحال جب مربی کو مقام دیا جائے گا، گھروں میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جائے گا، ان کی خدمات کو سراہاجائے گا تو یقینا ان ذکروں سے گھر میں بچوں میں بھی شوق پیدا ہوگا کہ ہم وقف کر کے مربی بنیں- تو اس لحاظ سے بھی عہدیداران کو خیال کرنا چاہئے۔ چھوٹے موٹے اختلافات کو ایشو (Issue) نہیں بنا لینا چاہئے جس سے دونوں طرف بے چینی پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
لیکن واقفین زندگی اور مربیان سے بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ دنیا چاہے آپ کے مقام کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن اللہ کی راہ میں قربانی کا جو آپ نے عہد کیا ہے اور پھر اس کو نیک نیتی سے خدا کی خاطر نبھا رہے ہیں تو دنیا کے لوگوں کی ذرا بھی پرواہ نہ کریں- چاہے اپنوں کے چرکے ہوں یا غیروں کے چرکے ہوں جو بھی لگتے ہیں ان پر خدا کے آگے جھکیں- آپ جماعتی نظام میں تعلیم و تربیت کے لئے،دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے، خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں- یہ آپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ خلیفہ وقت نے بہت سی ایسی باتوں پر آپ پر انحصار کیا ہوتا ہے جن پر بعض فیصلے ہوتے ہیں- اس لئے اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہر دنیاوی اونچ نیچ کو دل سے نکال دیں اور یکسوئی سے وہ کام سر انجام دیں جو آپ کے سپرد کئے گئے ہیں- اگر خدا تعالیٰ کی خاطر یہ چرکے برداشت کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کی سہولت کیلئے سامان بھی پیدا فرماتا رہے گا۔ ذہنی کوفت کو دورکرنے کے لئے سامان بھی فرماتا رہے گا۔ مربیان کے گھروں میں بھی عہدیداروں کے رویوں کے متعلق بچوں کے سامنے کبھی باتیں نہیں ہونی چاہئیں- اپنی بیویوں کو بھی سمجھائیں کہ واقف زندگی کی بیوی بھی وقف زندگی کی طرح ہی ہوتی ہے یا ہونی چاہئے یا یہ سوچ رکھنی چاہئے۔ اس لئے ہر بات صبر اور حوصلے سے برداشت کرنی ہے۔ اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑانا ہے، ا س کے حضور جھکنا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ضر ور اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے گا۔
اب عہدیداروں کو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ لوگوں کے لئے پیار اور محبت کے پر پھیلائیں- خلیفہ وقت نے آپ پر اعتماد کیا ہے۔ اور آپ پر اعتماد کرتے ہوئے اس پیاری جماعت کو آپ کی نگرانی میں دیا ہے۔ ان کا خیال رکھیں- ہر ایک احمدی کو یہ احساس ہو کہ ہم محفوظ پروں کے نیچے ہیں- ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملیں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو۔ بعض عہدیدار مَیں نے دیکھا ہے بڑی سخت شکل بنا کر دفتر میں بیٹھے ہوتے ہیں یا ملتے ہیں- ان کو ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ پر عمل کرنا چاہئے جس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے مَیں نے اسلام قبول کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ملاقات سے منع نہیں فرمایااور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے تھے۔ (بخاری کتاب الأدب باب التبسم والضحک)۔ تو کوئی پابندی نہیں تھی جب بھی ملتے مسکرا کر ملتے۔
بعض عہدیداروں کے متعلق شکوہ ہے کہ لوگ کسی کام کے لئے عہدیداروں کے پاس اپنے کام کا حرج کر کے جاتے ہیں تو بعض عہدیدار امراء، بعض دفعہ مہینہ مہینہ نہیں ملتے۔ ہو سکتا ہے اس میں کچھ مبالغہ بھی ہو کیونکہ شکایت کرنے والے بعض دفعہ مبالغہ بھی کر جاتے ہیں لیکن دنوں بھی کسی سے کیوں چکر لگوائے جائیں- اس لئے امراء کو چاہئے کہ وقت مقرر کریں کہ اس وقت دفتر ضرور حاضر ہو ں گے اور پھر اس وقت میں لوگوں کی ضروریات پوری کریں- بعض امراء یہ کرتے ہیں کہ اپنے نمائندے بٹھا دیتے ہیں اور ان نمائندوں کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ فلاں فیصلہ بھی کرنا ہے۔ اب اگر اس فیصلے کے لئے جانا پڑے تو پھر ان کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ امراء خود جائیں یا پھر اپنے نمائندے کو پورے اختیار دیں کہ جو تم نے کرنا ہے کرو۔ سیاہ و سفید کے مالک ہو۔ پھر امیر بننے کی ضرورت ہی نہیں ہے پھر تو اسی کو امیر بنا دینا چاہئے۔ پھر مسکراتے ہوئے اور خوش دلی سے ملیں-جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کا معیار بڑا اونچا ہے۔ ہر احمدی،اگر امیر مسکرا کر ملتا ہے تو اس کی مسکراہٹ پر ہی خوش ہو جاتا ہے، چاہے کام ہو یا نہ ہو۔
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا۔ معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کی نیکی ہو۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ باب استحباب طلاقۃ الوجہ عنداللقاء)۔ تو مسکرا کر ملنا اور بھائی کے جذبات کا خیال رکھنا بھی نیکی ہے۔ تو نیکیوں کا پلڑا تو جتنا بھی بھاری کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ اس لئے عہدیداران کو، امراء کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔
اب مَیں افراد جماعت کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا نظام جماعت میں کیا کردار ہونا چاہئے۔ پہلی بات یاد رکھیں کہ جتنے زیادہ افراد جماعت کے معیار اعلیٰ ہوں گے اتنے زیادہ عہدیداران کے معیار بھی اعلیٰ ہوں گے۔ پس ہر کوئی اپنے آپ کو دیکھے اور ان معیاروں کو اونچا کرنے کی کوشش کرے اور اپنے فرائض یعنی ایک فرد جماعت کے عہدیدار کے لئے کہ اطاعت کرنی ہے اس کے بھی اعلیٰ نمونے دکھائیں- یہ نمونے جب آپ دکھا رہے ہوں گے تو اپنی نسلوں کو بھی بچا رہے ہوں گے۔ انہی نمونوں کو دیکھتے ہوئے آپ کی اگلی نسل نے بھی چلنا ہے اور انہیں نمونوں پر جو نسلیں قائم ہوں گی وہ آئندہ جب عہدیدار بنیں گی تو وہ وہی نمونے دکھا رہی ہوں گی جو اعلیٰ اخلاق کے نمونے ہوتے ہیں-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ جس نے حاکم وقت کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی، اور جو حاکم وقت کا نا فرمان ہے وہ میرا نافرمان ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیرمعصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ)۔ امیرکی اور نظام جماعت کی اطاعت کے بارے میں یہ حکم ہے۔ لوگ تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم خلیفہ کی اطاعت سے باہر نہیں ہیں، مکمل طور پر اطاعت میں ہیں،ہر حکم ماننے کو تیار ہیں- لیکن فلاں عہدیدار یا فلاں امیر میں فلاں فلاں نقص ہے اس کی اطاعت ہم نہیں کر سکتے۔ تو خلیفہ وقت کی اطاعت اسی صورت میں ہے جب نظام کے ہر عہدیدار کی اطاعت ہے۔ اور تب ہی اللہ کے رسول کی اور اللہ کی اطاعت ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تنگدستی اور خوشحالی،خوشی اور ناخوشی، حق تلفی اور ترجیحی سلوک غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سننا اوراس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ) فرمایا کہ جو حالات بھی ہوں تمہاری حق تلفی بھی ہو رہی ہو، تمہارے سے زیادتی بھی ہو رہی ہو تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہ بھی ہواور دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک ہو رہا ہو، تب بھی تم نے کہنا ماننا ہے۔ سامنے لڑائی جھگڑے کے لئے کھڑے نہیں ہو جانا۔ کسی بات سے انکار نہیں کر دینا۔ بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ اطاعت کرو۔ یہ بہرحال نظام جماعت میں بھی حق ہے کہ اگر کوئی غلط بات دیکھیں تو خلیفہ وقت کو اطلاع کر دیں اور پھر خاموش ہو جائیں، پیچھے نہیں پڑ جانا کہ کیا ہوا، کیا نہیں ہوا۔ اطلاع کر دی، بس ٹھیک ہے۔
حضرت عبادہؓ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت کے وقت عہد لیا کہ تنگی ہو یا آسائش، خوشی ہو یا ناخوشی، ہر حال میں آپؐ کی بات سنیں گے اور اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے۔ نیز ہم ان لوگوں سے جو کام کے اہل اور صاحب اقتدار ہیں، مقابلہ نہیں کریں گے سوائے اس کے کہ ہم کھلا کھلا کفر دیکھیں اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی برہان آ جائے کہ حکام غلطی پر ہیں- نیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے بارے میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے اور حق بات کہیں گے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء)۔ تو مطلب یہی ہے کہ اطاعت کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ حق بات کہنی ہے۔ سوائے شریعت کے واضح حکم کی کوئی خلاف ورزی کر رہا ہو تو پھر اطاعت نہ کریں جس طرح حکومت پاکستان نے احمدیوں پر پابندی لگا دی ہے کہ نمازیں نہیں پڑھنیں- تو یہ تو ہمارا ایک حق ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کرنا۔ اور شریعت کے قانون پہ تو کوئی قانون بالا نہیں ہے اس لئے احمدی نمازیں پڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر ملکی قانون کی ہر طرح پابندی کی جاتی ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے، ’حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو‘۔ یہ جو دو الفاظ ہیں ان کو اپنا شعار بناؤ، یہی تمہارا طریق ہونا چاہئے۔ ’ خواہ ایک حبشی غلام کو ہی کیوں نہ تمہارا افسر مقرر کر دیا جائے‘۔ کسی کو حقیر اور کمزور سمجھتے ہو اگر وہ بھی تمہارا امام ہے تو اطاعت کرو۔ (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی اپنے امیر میں کوئی بظاہر ناگوار یا کوئی بری بات دیکھے تو وہ صبر کرے اور کیونکہ جو شخص تھوڑا سا بھی جما عت سے الگ ہو جاتا ہے اور تعلق توڑ لیتا ہے وہ جہالت کی موت مرتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن وتحذیر الدعاۃالی الکفر)۔ توصبر سے مراد یہ ہے کہ امیر کی بری بات دیکھ کے یہ نہیں کہ پورے نظام کے خلاف ہو جاؤ۔ نظام سے وابستہ رہو اور وہ بات آگے پہنچا دو اور اس کے بعد صبر کرو۔ جماعت سے تعلق نہیں ٹوٹنا چاہئے۔ اگر تمہارا جماعت سے تعلق ٹوٹتا ہے تو یہ جہالت کی موت ہے۔ تو جن لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم برداشت نہیں کر سکتے اس لئے ہم ایک طرف ہو گئے نمازوں اور جمعوں پہ بھی بعض نے آنا چھوڑ دیا تو فرمایا کہ یہ ایسی حرکتیں ہیں، یہ جہالت کی حرکتیں ہیں- اکّادکّا کوئی واقعات ہوتے ہیں- اللہ کے فضل سے عموماً ایسا جماعت میں نہیں ہوتا۔ یہ جہالت کی حرکتیں جو ہیں ان سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔ تمہارا کام یہ ہے کہ صبر کرو اور دعا کرو۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں بھی کہا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری یہ نیک نیتی سے کی گئی دعاؤں کو قبول میں کروں گا۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عوفؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں- تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں- تمہارے بد ترین سردار وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں- تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں- راوی کہتا ہے کہ اس پر ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم ایسے سرداروں کو ان سے جنگ کر کے ہٹا کیوں نہ دیں- آپؐ نے فرمایا نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے ہیں اس وقت تک کوئی ایسی بات نہیں کرنی۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ با ب وجوب الانکار علی الامراء فیما یخالف الشرع)۔ یعنی دینی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ تو آنحضرتؐ نے یہ حکم واضح طور پر دے دیا کہ اگر کوئی اس قسم کے بھی لوگ ہوں جو اتنا تنگ کر دیں کہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے لگ جاؤ تب بھی ان سے بغاوت نہیں کرنی۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی جماعت کی یہ صورتحال ہو۔ لیکن یہ ایک انتہائی مثال ہے ایسی صورتحال ہو بھی جائے جیسا کہ بتایا گیا ہے تب بھی تم نے فرمانبرداری دکھانی ہے۔ دعا کرتے رہیں اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے جماعت اور نظام جماعت کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے۔ اگرافراد جماعت بھی اور عہدیداربھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر، جماعتی وقار کی خاطر ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر اپنے خاص فضلوں کی بارش برساتا رہے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جومیرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا۔
پس آج یہ ہر احمدی کاکام ہے کہ خدا کی عظمت اور جلال کو قائم کرے اور اللہ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے پیار ومحبت شفقت اور فرمانبرداری کے نمونے دکھائے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت میں جگہ پائے۔ اللہ تعالیٰ اس کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جماعت کی جب ترقی ہوتی ہے تو حاسدوں کے حسد بھی بڑھ جاتے ہیں- وہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف حیلوں، بہانوں سے جماعت میں بے چینی پیدا ہو، ہمدرد بن کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں- حالانکہ یہ لوگ مخالفین کے آلہ کار بنے ہوئے ہوتے ہیں-، بعض دفعہ کسی عہدیدار کے متعلق کوئی بات کر کے بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بعض دفعہ فرد جماعت کے دل میں کسی عہدیدار کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں- بعض دفعہ مرکزی عہدیداران کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں- اور بعض دفعہ مجھے ایسے خط لکھ دیں گے اور عموماً ایسے خط بغیر نام اور پتے کے ہوتے ہیں کہ گویا جماعت میں اخلاص و وفا کے نمونے نہیں رہے، نعوذ باللہ تمام عہدیدار بھی اور اکثریت جماعت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے دور ہٹ گئی ہے۔ یہ سب ان کے دلوں کی خواہش ہوتی ہے۔ ایک صاحب نے مجھے لکھا اور ایسا بھیانک نقشہ کھینچا کہ گویا اب جماعت نام کی رہ گئی ہے، عمل ختم ہو گئے ہیں، کوئی چیز باقی نہیں رہی، اخلا ص ختم ہو گیا ہے۔ اور پھر لکھتے ہیں اور آپ ہی اس کا جواب بھی دے دیا کہ مجھے پتہ ہے آپ یہی جواب دیں گے جو حضرت علیؓ نے دیا تھا کہ پہلے خلفاء کے ماننے والے میرے جیسے لوگ تھے اور مجھے ماننے والے تم جیسے لوگ ہو۔ لیکن سن لیں میرا جواب یہ نہیں ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت احمدیہ نے ہمیشہ قائم رہنا ہے اور وفا قائم کرنے والے اس میں ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے۔ میرا جواب یہ ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں لاکھوں، کروڑوں ایسے ہیں جو حضرت علیؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اخلاص ووفا کے نمونے قائم کرنا جانتے ہیں- نظام جماعت اور نظام خلافت کے لئے قربانیاں کرنا جانتے ہیں- یہ خوف دلانا ہے توکسی دنیا دار کو دلاؤ۔ مَیں تو روزانہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید ونصرت کے نظارے دیکھتا ہوں- لوگوں کے اخلاص و وفا کے نظارے دیکھتا ہوں- مجھے تو یہ باتیں ڈرانے والی نہیں- اور انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے ہیں وہ انہیں پورا ہوتا ہمیں دکھا بھی رہا ہے اور ہمیشہ دکھاتا بھی رہے گا اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری نسلوں کو بھی دکھاتا رہے۔
جماعت کو مَیں یہ کہتا ہوں کہ دعاؤں کے ساتھ ہر سطح پر اخلاص و وفا کے نمونے دکھاتے ہوئے اس اسلامی تعلیم پر عمل کرتے چلے جائیں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتائی ہے۔ عاجزی اور وفا دکھاتے ہوئے اگر آپ چلتے رہیں گے تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جماعت سے چمٹے رہیں تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اُن لوگوں کو خطرہ ہے جو ٹھوکر کھا کر شیطان کے بہکاوے میں آ کر جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں- اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو یا جماعت کے ساتھ چمٹے رہنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں- اُن کی دنیا و آخرت دونوں سنوری ہوئی ہیں اور انشاء اللہ سنوری رہیں گی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں- آپؑ اپنی جماعت سے کیا امید رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کے مطابق سب کو چلنے کی توفیق دے۔
فرمایا کہ:’’میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ … تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو۔ اور نیک دل، اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو‘‘۔
پھر فرمایا کہ: ’’اگر کوئی جہالت سے پیش آوے توسلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنا وے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو۔ سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے۔ کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے۔ اور یقینا وہ بد بختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔ سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ۔ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا‘‘۔ (تبلیغ رسالت جلد ہفتم)
تو یہ جو مجھے نصیحتیں کرنے والے ہیں ان کو سو چنا چاہئے کہ وہ جماعت میں نہیں رہ سکتے۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی۔
اللہ تعالیٰ ہر ایک کوا س تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیشہ جماعت کے ساتھ چمٹا رہ کر نظام جماعت کی اطاعت کر کے دوسروں کے حقوق کا خیال رکھ کر ان فضلوں کے وارث بنیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے۔ اللہ سب کو توفیق دے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں