خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 4؍فروری 2005ء

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خالص توحید کے قیام کے لئے دنیا میں مبعوث فرمایا تھا۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے آقا ومطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خدائے واحد کی عبادت اور اس کے نام کی غیرت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ سے محبت،اس کی وحدانیت کے لئے غیرت اور توحید خالص کے قیام کے لئے غیرمعمولی تڑپ کے واقعات کا روح پرور تذکرہ
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
4؍فروری 2005ء بمطابق4؍تبلیغ 1384ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خالص توحید کے قیام کے لئے دنیا میں مبعوث فرمایا تھا۔ اور بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے ایسے انتظامات فرما دئیے کہ آپؐ کے دل کو صاف، پاک اور مصفّٰی بنا دیا۔ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اندر اپنی محبت اور شرک سے نفرت کا بیج بو دیا۔ بلکہ پیدائش سے پہلے ہی آپؐ کی والدہ کو اُس نور کی خبر دے دی جس نے تمام دنیا میں پھیلنا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ رؤیا جو حضرت آمنہ نے دیکھا تھا، کس طرح سچ ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی مکمل شریعت آپؐ پراپنے وقت پر نازل ہوئی۔ اور وہ نور دنیامیں ہر طرف پھیلا۔خدائے واحد کی محبت کا ایک جوش تھا جس نے آپؐ کی راتوں کی نیند اور دن کا چین و سکون چھین لیا تھا۔ اگر کوئی تڑپ تھی تو صرف ایک کہ کس طرح دنیا ایک خدا کی عبادت کرنے لگ جائے، اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے لگ جائے۔ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے آپؐ کو تکلیفیں بھی برداشت کرنا پڑیں، سختیاں بھی جھیلنی پڑیں۔ لیکن یہ سختیاں، یہ تکلیفیں آپؐ کو ایک خدا کی عبادت اور خدائے واحد کا پیغام پہنچانے سے نہ روک سکیں۔ یہ خدائے واحد کے عبادت گزار بنانے کا کام جو آپؐ کے سپرد خداتعالیٰ نے کیا تھا وہ آپؐ پر اللہ تعالیٰ کے احکامات اترنے کے بعد تو آپؐ نے انجام دینا ہی تھا لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا آپؐ کا دل بچپن سے ہی شرک سے پاک اور ایک خدا کے آگے جھکنے والا بن چکا تھا۔ خدا نے خود بچپن سے ہی اس دل کو اپنے لئے خالص کر لیا تھا۔ اگر کبھی بچپن میں اپنے بڑوں کے کسی دباؤ کے تحت، اس زمانہ کے کسی مشرکانہ تہوار میں جانا پڑا تو خداتعالیٰ نے خود ہی اس سے روکنے کے سامان پیدا فرما دئیے، خود ہی آپؐ کی حفاظت کے سامان پیدا فرما دئیے۔
اس بارہ میں ایک سیرت کی کتاب میں ایک واقعہ بھی درج ہے۔ حضرت ام ایمن بیان کرتی ہیں کہ’’ بوانہ‘‘، وہ بت خانہ ہے جہاں قریش حاضری دیتے تھے اور اس کی بہت تعظیم کرتے تھے اس پر قربانیاں چڑھاتے تھے، وہاں سر منڈواتے تھے اور ہر سال ایک دن کا رات تک اعتکاف کرتے تھے۔ حضرت ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ وہاں حاضری دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاضری کے لئے ساتھ جانے کو کہتے (جب آپ بچے تھے) مگر آپ انکار کر دیتے۔حضرت ام ایمنؓ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا ابو طالب اور آپؐ کی پھوپھیاں ایک دفعہ آپ پر سخت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں آپ ہمارے معبودوں سے اجتناب کرتے ہیں اس کی وجہ سے آپؐ کے بارے میں ہمیں ڈر رہتا ہے۔ اور کہنے لگیں اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) تو کیا چاہتا ہے؟ تو کیوں اپنی قوم کے ساتھ حاضری کے لئے نہیں جاتا، اور ان کے لئے کیوں اکٹھا نہیں ہوتا۔ ان کے بار بار کہنے کے نتیجہ میں آپؐ ایک بار چلے گئے لیکن جیسا کہ اللہ نے چاہا آپؐ وہاں سے سخت گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں لوٹ آئے۔ تو ان عزیزوں رشتہ داروں نے پوچھا کہ کیا ہوا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ شیطان مجھے چھوئے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اللہ عزو جل تجھے ہرگز شیطانی خیالات میں مبتلا نہیں کرے گا اس حال میں کہ تجھ میں نیک عادات پائی جاتی ہیں۔ تو نے کیا دیکھا ہے، خوف کی کیا وجہ ہوئی ہے؟ آپؐ نے فرمایا جونہی میں کسی بت کے قریب جانے لگتا تو ایک سفید رنگ کا طویل القامت شخص میرے لئے متماثل ہوتا اور کہتا کہ اے محمد! پیچھے رہ، اس کو مت چھو۔ ام ایمنؓ کہتی ہیں پھر انہوں نے بھی کبھی حاضری کے لئے نہیں کہا۔ یہاں تک کہ آپؐ کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔(سیرت الحلبیہ جلد اول باب ما حفظہ اللہ تعالیٰ بہ فی صغرہ من امہ الجاہلیۃ)۔ تو یہ تھے وہ انتظامات جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس پاک اور خالص دل کی حفاظت کرتا تھا۔
پھر آپ ؐ کی جوانی کا زمانہ دیکھیں کس طرح ایک غار میں جا کر ایک خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔ آپؐ غار حرا میں کئی دن گزارتے۔ علیحدگی میں اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتے، اس کی عبادت کرتے۔ یہ دیکھ کر آپؐ کے ہم قوم بھی کہنے لگ گئے کہ محمدؐ تو اپنے رب کا عاشق ہو گیا ہے۔
اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذات کے عاشق زار اور دیوانہ ہوئے او رپھروہ پایا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہیں ملا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ

عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلٰی رَبِّہٖ

یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے‘‘۔
پھر جوانی میں ہی بتوں سے نفرت کی ایک اور مثال دیکھیں۔ جب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو طالب کے ساتھ سفر شام کے دوران بحیرہ راہب سے ملے تو اس نے کہا کہ اے صاحبزادے! میں تم سے لات و عزٰی کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم مجھے اس بات کاجواب دو۔ بحیرہ نے ان بتوں کا واسطہ دے کر اس وجہ سے پوچھا کیونکہ قریش سے بات پوچھنے کا یہی طریق تھا۔ (لات و عزٰی ان کے بڑے بت تھے) اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے ان بتوں کا واسطہ دے کر سوال نہ کرو کیونکہ مجھے ان دونوں سے شدید نفرت ہے۔ اس کے بعد بحیرہ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید گفتگو خدا کا واسطہ دے کر کی۔(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام المعروف،سیرت ابن ھشام، قصہ بحیری صفحہ 145)
پھر ایک اور روایت جس سے آپؐ کی بتوں سے نفرت اور صرف اور صرف خداتعالیٰ کا بندہ رہنے کا اظہار ہوتا ہے یوں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول سے قبل آپؐ کی زید بن عمرو سے ملاقات ہوئی، نبی کریمؐ کے سامنے کھانا پیش کیا گیا، آپؐ نے اس میں سے کھانے سے انکار کر دیا۔ پھر زید نے کہا کہ مَیں اس میں سے کھانے والا نہیں جو تم بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو اور میں نہیں کھاتا سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام پڑھا گیا ہو‘‘۔(بخاری کتاب المناقب باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل)۔ آپؐ نے کھانے سے انکار کر دیا تھا اور یہ فرمایا کہ مَیں اس میں سے کھانے والا نہیں جو تم بتوں کے نام پر کرتے ہو۔ تو یہ تھا وہ دل جس میں سوائے اللہ تعالیٰ کی محبت کے اور کوئی دوسری محبت نہیں تھی۔
پھر زمانہ نبوت شروع ہوا تو ایک دنیا نے دَنٰی فَتَدَلّٰی کا نظارہ دیکھا، بشرطیکہ آنکھ دیکھنے کی ہو۔ ہر دن جو طلوع ہوتا تھا، چڑھتا تھا وہ دو محبت کرنے والوں یعنی خداتعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہونے کے نشان دکھاتا تھا۔ چنانچہ آپؐ کے چچا نے جب کفار کے خوف سے آپؐ کو اللہ تعالیٰ کے پیغام کے اظہار سے روکنے کی کوشش کی تو اس عاشق صادق نے کیا خوبصورت جواب دیا، اس کا ذکر یوں ملتا ہے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں :’’اور ان کے علاوہ اور بھی بہت لوگ وہاں تھے، یہ سب لوگ ابوطالب کے پاس آئے اور کہا کہ اے ابو طالب! یا تو تم اپنے بھتیجے(یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کو منع کرو کہ وہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہے اور ہمارے باپ دادا کو جاہل اور گمراہ نہ بتائے۔ ورنہ ہمیں اجازت دو کہ ہم خود اسے سمجھ لیں کیونکہ اس کی مخالفت میں تم بھی ہمارے شریک ہو یعنی تم بھی ہماری طرح ابھی مسلمان نہیں ہوئے۔ پس تم ہمارے اور اس کے درمیان میں دخل نہ دینا۔ ابو طالب نے لوگوں کو نہایت شائستگی کے ساتھ جواب دے کر اور خوش کرکے رخصت کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُسی طرح اپنے دین کا اعلان کرتے رہے، باوجود کہنے کے بھی۔ قریش کی حضورؐ سے آتش عداوت (جو عداوت اور دشمنی کی آگ تھی) وہ ہر وقت لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ دوبارہ وہ ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے اے ابوطالب! تم ایک شریف اور عمر رسیدہ شخص ہو اور ہم تم کوذی عزت خیال کرتے ہیں۔ ہم نے تم سے درخواست کی کہ تم اپنے بھتیجے کو منع کرو، تم نے منع نہ کیا۔قسم ہے خدا کی، ہم ان باتوں پر صبر نہیں کر سکتے کہ ہمارے بتوں اور بزرگوں کو سخت باتیں کہی جائیں۔ یا تو تم اس بات کو دُور کرو ورنہ ہم تم سے کہے دیتے ہیں کہ دونوں فریقوں میں سے ایک فریق ضرور ہلاک ہو گا۔ یہ کہہ کر وہ چلے آئے۔ ابو طالب کو اپنی قوم کی عداوت اور علیحدگی نہایت شاق گزری اور انہیں وجوہات سے مجبوراً وہ نہ آپؐ پر ایمان لا سکے اور نہ آپؐ کی مدد سے ہاتھ اٹھا سکے۔ نہ اِدھر رہے نہ اُدھر رہے۔ تو ابن اسحاق کہتے ہیں :’’ جب قریش نے ابو طالب سے یہ شکایت کی، ابو طالب نے حضور کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اے میرے بھتیجے! تمہاری قوم نے میرے پاس آ کر تمہاری شکایتوں کا دفتر کھولا، پس میں سمجھتا ہوں تم اپنی اور میری جان ہلاک کرنے کی بات نہ کرو اور ایسے کام کی مجھ کو تکلیف نہ دو جس کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ راوی کہتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم)نے یہ خیال کیا کہ اب میرا چچا میری مدد نہیں کر سکتا اور ان کو جواب دیا کہ اے میرے چچا! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں طرف چاند بھی لا کر رکھ دیں تب بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہاں تک کہ خدا اس کو پورا کر دے یا خود مَیں اس میں ہلاک ہو جاؤں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو نکل آئے، ابو طالب نے آپؐ کو آواز دی اورکہا کہ اے بھتیجے ادھر آؤ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے کہا، دیکھو جو تمہارا جی چاہے کرو، مَیں ہرگز تم کو نہیں چھوڑوں گا اور سب سے سمجھ لوں گا۔ (سیرت ابن ھشام۔ جلد اول صفحہ 169۔ مکتبہ دارالعلوم طباعت اول)
اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو الہاما ً بھی اس طرح بتایا۔
آپؑ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’ جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں، پلید ہیں، شَرُّ الْبَرِیَّّہ ہیں، سُفَہَاء ہیں اور ذریّت شیطان ہیں۔ اور ان کے معبود وَقُوْدُالنَّارِ اور حَصَبُ جَہَنّم ہیں تو ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔ توُ نے ان کے عقلمندوں کوسفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شرالبریہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہَیْزُمِ جَہَنّم اور وَقُوْدُالنَّار رکھا‘‘۔ یعنی آگ کا ایندھن۔’’ اور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذریت شیطان اور پلید ٹھہرایا۔مَیں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آ جا ورنہ مَیں قوم کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا کہ اے چچا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ ہے اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں۔اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو مَیں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں۔ میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے۔ مَیں موت کے ڈر سے اظہا ر حق سے رک نہیں سکتا۔ اور اے چچا ! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا احساس ہے تو تو مجھے پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جا۔ بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں، مَیں احکام الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا۔ مجھے اپنے مولا کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ بخدا اگر میں اس راہ مَیں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بارزندہ ہو کر ہمیشہ اس راہ میں مرتا رہوں۔ یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرے پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رِقّت نمایاں ہو رہی تھی۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ مَیں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا۔ توُ اور ہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے۔ جا اپنے کام میں لگا رہ، جب تک میں زندہ ہوں، جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا‘‘۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ:’’ یہ مضمون ابو طالب کے قصے کا اگرچہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے جو خداتعالیٰ نے اس عاجز کے دل پر نازل کی۔ صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لئے اس عاجز کی طرف سے ہے‘‘۔(ازالہ اوھام۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ 111-110)
تو یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہونے کا مقام۔ آج دنیادار اعتراض کرتے ہیں کہ آپؐ نعوذ باللہ دنیاوی حشمت چاہتے تھے جس کے لئے یہ سب کچھ آپؐ نے کیا۔ بلکہ اس وقت سے ہی یہ اعتراض چلا آ رہا ہے، آپؐ کی بعثت کے وقت سے ہی۔ پھر صرف یہی نہیں کہ سخت اور سست کہا اور دھمکیاں دیں کہ آپؐ اس کام سے باز آجائیں بلکہ عملاً بھی آپؐ کو تکلیفیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کے بے شمار واقعات ہیں لیکن اس کے باوجود خداتعالیٰ کی محبت کو کفار آپؐ کے دل سے کم نہ کر سکے۔
اسی طرح ایک واقعہ روایات میں یوں آتا ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ ایک روز مَیں موجود تھا کہ قریش کے سب بڑے بڑے لوگ حجر اسود کے پاس خانہ کعبہ میں اکٹھے ہوئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنے لگے اور کہتے تھے کہ جیسا ہم نے اس شخص پر صبر کیا ہے ایسا کسی پر نہیں کیا۔ یہ ہمارے دین اور بزرگوں کو بُرا کہتاہے۔ ہم نے اس پر بڑا صبر کیا ہے۔ یہ لوگ ایسی ہی باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپؐ طواف میں مشغول ہوئے اور جب آپؐ طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرتے تو کفار آپؐ پر آوازیں کستے۔ چنانچہ تین بار ایسا ہوا اور اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے دکھ اور ملال ظاہر ہو رہا تھا۔ تیسری مرتبہ آوازہ کسنے پر آپؐ کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: اے گروہ قریش! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، مَیں تم جیسوں کی ہلاکت کی خبر لے کر آیا ہوں۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلام کا ایسا اثر ہوا کہ قریش سکتہ کی حالت میں ہو گئے اور جو شخص ان میں زیادہ بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہا تھا وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نرمی سے باتیں کرنے لگا اور کہنے لگا کہ آپ تشریف لے جائیں۔ چنانچہ آپؐ تشریف لے گئے۔ پھر دوسرے روز یہ لوگ اکٹھے ہوئے اور ہر طرف سے آپؐ پر یہ کہتے ہوئے حملہ کر دیا کہ تم ہی ہمارے بتوں میں عیب نکالتے ہو اور ہمارے دین کو برا کہتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں یہی کہتا ہوں۔ عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ مَیں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے حضورؐ کی چادر مبارک پکڑ لی۔ ابو بکرؓ یہ دیکھ کر روتے ہوئے کھڑے ہوئے اور قریش سے کہنے لگے کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔ تب قریش آپؐ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ راوی بیان کرتے ہیں آپؐ کے ساتھ قریش کی بدسلوکی کا یہ وہ واقعہ ہے جو مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام المعروف سیرت ابن ھشام ذکر ما لقی رسول اللہ صفحہ218-217)
اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بڑے بڑے خطرناک واقعات ہیں۔ بڑے بڑے خوفناک منصوبے آپ ؐ کو اور آپؐ کے ماننے والوں کو ختم کرنے کے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے جس نے آدم کی پیدائش کے ساتھ ہی آپؐ کی پیدائش کا فیصلہ کر لیا تھا، جس نے اپنے اس پیارے محبوب کے ذریعے اپنا پیغام دنیا تک پہنچانا تھا، جس نے اپنے وعدوں کے مطابق آپؐ کی حفاظت کرنی تھی وہ ہمیشہ مشکل وقت میں آپؐ کی مدد کے لئے فرشتے نازل کرتا رہا جو آپ کی حفاظت کا انتظام کرتے تھے۔
چنانچہ ایک واقعہ روایات میں یوں آتا ہے کہ:’’ سرداران قریش کے ساتھ گفتگو کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو ابو جہل نے کہا اے قریش! تم نے دیکھا کہ محمدؐ نے ہماری کوئی بات نہیں مانی اور تمہارے بزرگوں اور مذہب کو برا کہنے سے با زنہ آیا۔ پس مَیں خدا سے عہد کرتا ہوں کہ میں کل ایک بہت بھاری پتھر لے کر بیٹھوں گا اور جس وقت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) سجدہ کریں گے مَیں اس کے سر پر مار دوں گا۔ تم مجھ کو اپنی پناہ میں لے لینا۔ پھر بنی عبد مناف یعنی حضورؐ کے رشتہ داروں سے جو ہو سکتا ہے وہ کریں۔ قریش نے کہا خدا کی قسم ہے تمہیں پناہ میں لے لیں گے جو کچھ تم سے ہو سکے وہ کر گزرو۔ پھر جب صبح ہوئی تو ابو جہل ایک پتھر لا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے انتظار میں بیٹھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صبح کو اپنے دستور کے موافق مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ چونکہ ان دنوں میں قبلہ بیت مقدس تھا اس لحاظ سے آپؐ حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان میں نماز میں مشغول ہوئے۔ قریش اپنی اپنی جگہ لیٹے ہوئے ابو جہل کے کارنامے کے منتظر تھے۔ چنانچہ جس وقت آپؐ نے سجدہ کیا، ابوجہل وہ پتھر لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مارنے کے لئے چلا۔ یہاں تک کہ جب آپؐ کے نزدیک پہنچا تو پھر وہاں سے پیچھے کو ہٹا۔ یہاں تک کہ پتھر اس کے ہاتھ سے گر گیا اور وہ نہایت بدحواس اور خوف کی حالت میں اپنی قوم کے پاس آیا۔ لوگ بھی اس کی طرف دوڑے اور کہا اے ابو الحکم کیا ہوا؟ کہنے لگا کہ جب مَیں پتھر لے کر ان کی طرف گیا تاکہ اس کام کو پورا کروں جو رات کو تم سے کہا۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت قوی ہیکل اور خوفناک اونٹ منہ پھاڑ کر میری طرف حملہ آور ہے اور چاہتا ہے کہ مجھے کھا جائے۔ مَیں فوراً ہی پیچھے ہٹ گیا ورنہ جان بچانا ہی مشکل تھا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام المعروف سیرت ابن ھشام صفحہ 222)
تو دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی حفاظت کا انتظام فرمایا۔ لیکن جس کا دل پتھر ہوجائے وہ عارضی طو رپر تو نشان دیکھ کر خوفزدہ ہوتا ہے لیکن ایمان کے نور کا چھینٹا اس پر نہیں پڑتا۔ یہی حال ابو جہل کا ہوا۔ پھر جب عاشق کو معشوق سے علیحدہ کرنے کے لئے تمام تر سختیوں کے حربے بھی کار گر نہ ہوئے توپھر ان لوگوں کو خیال آیا کہ دنیاوی لالچ ہی دے کر دیکھیں۔
براہ راست بھی اس بارے میں گفتگو کرکے دیکھیں۔ لیکن ان عقل کے اندھوں کو کیا پتہ تھا کہ جو خداتعالیٰ کے عشق میں گرفتار ہو اور پھر مقام بھی وہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہے اُس کو ان دنیاوی لالچوں سے کیا غرض۔ چنانچہ یہ لالچ دینے کا واقعہ تاریخ میں یوں درج ہے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب اسلام قریش میں روزبروز ترقی کرنے لگا، حالانکہ قریش سے جہاں تک ممکن تھا وہ لوگوں کو اسلام لانے سے باز رکھتے تھے اور طرح طرح سے ان کو ایذاء اور تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ بعض کو گھروں میں قید کر دیتے تھے۔
ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہر قبیلہ کے سرداران قریش حضورؐ سے گفتگو کرنے کے واسطے جمع ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔ عتبہ، شیبہ، ابو سفیان،نضربن حارث، ابوالبختری …… ابوجہل بن ہشام، عبداللہ بن ابی امیۃ، عاص بن وائل، امیہ بن خلف وغیرہ یہ سب لوگ غروب آفتاب کے بعد کعبہ کے پیچھے اکٹھے ہوئے اور ایک نے دوسرے کو کہا کہ کسی کو بھیج کرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گفتگو کے لئے بلواؤ اور اس قدر بحث کرو کہ وہ عاجز آجائیں۔ پھر انہوں نے ایک شخص کو حضورؐ کے پاس بھیجا۔ آپؐ نے یہ پیغام سن کر سمجھا کہ شاید ان کا سیدھے رستے پر آنے کا ارادہ ہے۔ کیونکہ آپؐ کو ان کے اسلام قبول کرنے کی شدید تمنا تھی۔ چنانچہ آپؐ جلدی سے اس مجلس میں تشریف لائے۔ سب نے متفقہ طور پر آپؐ سے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)ہم نے آپؐ کو گفتگو کرنے کے لئے بلایا ہے کیونکہ قسم ہے خدا کی ہم عرب میں سے کسی شخص کو ایسا نہیں جانتے کہ جس نے اپنی قوم کو ایسی مشکل میں مبتلا کیا ہو جیسا کہ آپؐ نے مبتلا کیا ہے۔ آپؐ ہمارے باپ دادا کو برا کہتے ہیں، آپؐ ہمارے معبودوں کو گالیاں دیتے ہیں، ہماری جماعت کے ٹکڑے کر دئیے ہیں، کوئی خرابی ایسی نہیں ہے جو آپ نے ہم میں اٹھا نہ رکھی ہو۔ اگر تمہارا مقصد مال کو جمع کرنا ہے تو ہم اپنے مال اس قدر آپ کی نذر کرتے ہیں کہ آپ ساری قوم میں امیر کبیر ہو جائیں گے۔ اور اگر آپ سردار بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو سردار بنا دیتے ہیں۔ اگر بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بادشاہ بنا دیں گے اور یہ جو آپ کے پاس کوئی جن یا آسیب آتا ہے تو ہم اس کے علاج میں اپنے تمام مال آپ پر خرچ کرنے کو تیار ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس قدرباتیں تم نے کی ہیں ان میں سے ایک بھی مجھ میں نہیں ہے۔ نہ مَیں مال چاہتا ہوں ،نہ شرف چاہتا ہوں، نہ سلطنت چاہتا ہوں۔ مجھ کو تو خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اپنی کتاب مجھ پر نازل فرمائی ہے اور حکم فرمایا ہے کہ میں تمہارے لئے بشیر و نذیر ہو جاؤں۔ خوشخبریاں بھی دوں اور ڈراؤں بھی۔ پس مَیں نے تم کو اپنے خدا کے پیغام پہنچا دئیے۔ اگر تم اس کو قبول کرو تو اس میں تمہارا اپنا فائدہ ہے۔ اور اگر تم قبول نہ کرو تو تم اس وقت تک صبر کرو،مَیں بھی صبر کئے ہوئے ہوں، جب تک کہ خدا مجھ میں اور تم میں فیصلہ نہ فرمائے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، المعروف سیرت ابن ھشام صفحہ 221-220)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا اور کامل یقین تھا کہ آپ خداتعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ اور خداتعالیٰ کا آخری فیصلہ یقینا آپؐ کو پتہ تھا کہ میرے حق میں ہونا ہے۔ تو فرمایا کہ اے کافرو! تم اپنی ڈھٹائی کی وجہ سے اپنے جھوٹے دین سے ہٹ نہیں سکتے

یٰٓاَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ

کی سورۃ میں ساری بات آ گئی تو مَیں جو خدا کا نبی ہوں، اس خدا کا پیغام پہنچانے سے کیسے باز آ جاؤں جس کا خدا نے مجھے حکم دیا ہے۔مَیں اس خدا کی عبادت سے کیسے با زآ جاؤں جو ہر روز ایک نیا نشان اپنی قدرت کا مجھے دکھاتا ہے۔ جو تمہارے مقابلے میں خود میری حفاظت کے لئے کھڑا ہے۔ تم بے شک میری مخالفت کرتے رہو،مجھے تکلیفیں دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو، لیکن یاد رکھو کہ غالب مَیں نے ہی آنا ہے۔ تمہیں یہی جواب ہے جوفی الحال خدا نے مجھے سکھایا ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو،مَیں اپنے دین پر قائم رہوں گا۔

لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ۔

لیکن یاد رکھو یہ مقدر ہے، اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کر لیا ہے،میرے خدا نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ جو حاضر کا بھی علم رکھتا ہے،جو غائب کا بھی علم رکھتا ہے، آئندہ کا بھی علم رکھتا ہے، جو اپنے پیار کا مجھ پہ اظہار کرتا رہتا ہے اُس خدا کی تقدیر اب یہ ہے کہ خدائے واحد کے دین نے ہی غالب آنا ہے اور تم نے ختم ہونا ہے۔ تو یہ جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کرنے والے اور اپنے پیارے کے منہ سے کہلوایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ کی ذات سے جو عشق تھا اور اس کی وحدانیت دنیا میں قائم کرنے کی جو تڑپ تھی اور جو آپؐ نے اس کے لئے کوشش کی اس کا تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر کبھی کسی سے بھی اس ذات کے بارے میں، اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اعلیٰ اور اچھے کلمات آپؐ نے سنے تو ہمیشہ اس کی تعریف کی۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کی ہے وہ لبید کا یہ مصرعہ ہے کہ’ سنو اللہ کے سوا یقینا ہر چیز باطل اور مٹ جانے والی ہے‘۔ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب ایام الجاہلیۃ)
پھر اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے نام کی غیرت آپؐ میں کس قدر تھی کہ نقصان برداشت کر لینا گوارا تھا لیکن یہ گوارا نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، جب انتہائی کمزور حالت تھی۔ اور بدر سے پہلے ایک مقام پر ایک شخص حاضر ہوا اور شجاعت اور بہادری میں اس کی بہت شہرت تھی۔ صحابہؓ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔اس نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کی کہ مَیں اس شرط پر آپ کے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے آیا ہوں کہ مال غنیمت سے مجھے بھی حصہ دیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاتے ہو۔ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا پھر تم جا سکتے ہو۔ میں کسی مشرک سے مدد نہیں لینا چاہتا۔ کچھ دیر بعد اس نے حاضر ہو کر پھر یہی درخواست کی۔ تو آپ نے وہی جواب دیا، وہ تیسری دفعہ آیا اور عرض کیا کہ مجھے بھی لشکر میں شریک کر لیں۔ آپؐ نے پھر پوچھا کہ اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہو۔ اس دفعہ اس نے ہاں میں جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے، ہمارے ساتھ چلو۔ (مسلم کتاب الجہاد باب کراھۃ الاستعانۃ)۔اگر کوئی دنیادار ہوتا تو کہتا کہ مدد مل رہی ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ لیکن آپؐ کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ کسی مشرک سے اللہ تعالیٰ کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں مدد لی جائے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے والد کی قسم کھا رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پکار کر فرمایا کہ سنو اللہ تمہیں اپنے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے۔ جسے قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔ (بخاری کتاب الادب باب من لم یرا کفار من قال متأولا اوجاھلا)۔ اوّل توبعض لوگوں کو ذرا ذرا سی بات پر اللہ کی قسم کھانے کی عادت ہوتی ہے۔ عام رواج پڑ گیا ہے۔ یہ اس طرح قسمیں کھانی بھی نہیں چاہئیں۔ بعض حالات میں بعض مجبوریوں کے تحت قسم کھانی پڑتی ہے تو اس وقت کھائی جائے اور یہ ذہن میں ہو کہ اللہ تعالیٰ کومَیں اس میں گواہ بنا رہا ہوں۔ آپؐ کو یہ کسی بھی صورت میں برداشت نہیں تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس کے قریب کوئی انجانے میں بھی آ سکے۔ پھر اگر کہیں سے ہلکا سا شائبہ بھی ہوتا کہ بعض عمل شرک کی طرف لے جانے والے ہیں آپؐ اس کو سختی سے رد فرمایا کرتے تھے۔ قبروں پر دعا کے لئے جانے کی تو آپؐ نے اجازت دی لیکن یہ برداشت نہیں تھا کہ وہاں دئیے وغیرہ جلائے جائیں۔بعض لوگ دئیے جلاتے ہیں موم بتیاں جلاتے ہیں۔ تو ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے قبروں کی زیارت کرنے والوں پر لعنت کی ہے جنہوں نے ان قبور کو غیراللہ کی عبادت اور دئیے جلانے کی جگہ بنایا ہوا ہے۔ (ترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما جاء فی کراھیۃ ان یتخذ علی القبر مسجدا)
آج دیکھیں ہمارے ملکوں میں مسلمان کہلانے والے بھی یہ حرکتیں کر رہے ہیں۔ وہ بزرگ جو خود تو توحید کے قیام میں کوشش کرتے رہے لیکن ان کے نام پر شرک ہوتا ہے۔ ان سے منتیں مانگی جاتی ہیں، ان سے خواہشات پوری کرنے کی فریاد کی جاتی ہے، چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں او ریہ واقعات ہیں اور ہوتے ہیں۔ ایک عورت نے بتایا کہ اس کی کوئی عورت واقف تھی۔ اس کے پاس ایک بیٹا تھا۔ وہ کہتی یہ بیٹا مجھے داتا صاحب نے دیا ہے۔ مَیں نے کہا خدا کا خوف کرو(کہنے لگی) کہ نہیں پہلے مَیں اللہ تعالیٰ سے مانگتی رہی نمازوں میں دعائیں کرتی رہی مجھے بیٹا نہیں پیدا ہوا۔ جب مَیں نے داتا دربار میں حاضری دی تو مجھے بیٹا مل گیا۔ تو اللہ تعالیٰ کی بجائے داتا صاحب ان کے سب کچھ تھے۔ کوئی خدا کا خوف نہیں ہے اور برصغیر میں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مسلمان کہلا کر اس شرک میں بہت سارے لوگ مبتلا ہو رہے ہیں۔ اللہ کے رسول نے ایسے لوگوں پر لعنت ڈالی ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت امّ سلمیٰ نے حبشہ کے ایک گرجے کا ذکر کیا جو ماریہ کے نام سے موسوم تھا اور اس میں انہوں نے تصاویر رکھی ہوئی تھیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ قوم ہے کہ جب ان میں کوئی نیک بندہ یا آدمی فوت ہو جاتا ہے تو یہ لوگ اس کی قبر پر مساجد بنا لیتے ہیں اور ان میں بت بنا لیتے ہیں۔ یہ لوگ خدا کے ہاں بدترین مخلوق ہیں۔(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ فی البیعۃ)
ایک جگہ یوں بھی ذکر آیا ہے کہ آپؐ کی بیماری کی حالت میں یہ بات کہی گئی تھی۔ تو یہ سن کر آپ جوش سے اٹھ بیٹھے اور آپؐ نے فرمایا برا ہو ایسے لوگوں کا جو یہ کرتے ہیں۔ آپ کا اپنا تو یہ حال تھا کہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثْنًا کہ اے اللہ میری قبر کو بت پرستی کی جگہ نہ بنا۔
جو شخص ساری عمر میں ہر وقت، ہر لمحہ خداتعالیٰ کی محبت میں سرشار رہا، توحید کے قیام کی کوشش کرتا رہا، جس کے پاؤں ساری ساری رات عبادت کرتے ہوئے متورم ہو جایا کرتے تھے، سوج جایا کرتے تھے۔ جس کی خواہش تھی تو صرف ایک کہ دنیا کا ہر شخص خدائے واحد کی عبادت کرنے والا بن جائے وہ بھلا کس طرح برداشت کر سکتا تھا کہ اس کی قبر شرک کی جگہ بنے۔ اور آج تک اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول کرتے ہوئے اس بابرکت قبر کو شرک سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ لیکن مسلمانوں پر حیرت ہوتی ہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے کہ دوسرے پیروں فقیروں کی قبروں پر جا کر شرک کرتے ہیں اور شرک کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’پس میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐہے۔ (ہزاروں ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اورتمام اولین و آخرین پر فضلیت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 119-118)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ قرآن کریم کو پڑھ کر دیکھ لو۔ اور تو اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہو سکتا ہے۔ پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضور کے شامل حال ہمیشہ عبودیت رہی۔ اور بار بار

اِنَّمَآاَنَابَشَرٌ مِّثْلُکُمْ

ہی فرماتے رہے یہاں تک کہ کلمہ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزو لازم قرار دیا۔ جس کے بدوں (یعنی جس کے بغیر) مسلمان مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ سوچو اور پھر سوچو۔ پس جس حال میں ہادی اکمل کی طرز زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقام قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا تو اور کسی کا ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 74)
پس یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقام جس کو قائم کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے آپؐ پیدا ہوئے تھے۔ ایک اعلیٰ انسان اورعبد رحمن کا مقام جو کسی کو ملا وہ سب سے اعلیٰ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا۔ اور بندے کی پہچان اپنی ذات کی پہچان اور خداتعالیٰ کی ذات کی پہچان کرانے کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے۔ توحید کے قیام کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے۔ اور ساری زندگی اسی میں آپؐ نے گزاری۔ اور یہی آپ کی خواہش تھی کہ دنیا کا ہر فرد ہر شخص اس توحید پر قائم ہو جائے۔اور اس زمانے میں بھی آپؐ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی پہچان اس تعلیم کی رو سے ہمیں کروائی۔پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خدائے واحد کی عبادت اور اس کے نام کی غیرت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تبھی ہم حقیقت میں

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ

کا کلمہ پڑھنے والے کہلا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ میں بورکینا فاسو کے مربی سلسلہ مکرم شکیل احمد صدیقی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا)
یہ دو افسوسناک اعلان ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ہمارے ایک مبلغ جو بورکینا فاسو مغربی افریقہ میں مبلغ تھے۔ مختصر سی بیماری کے بعد پرسوں بالکل نوجوانی کی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔ یہ جوہمارے یہاں مبارک صدیقی صاحب ہیں ان کے چھوٹے بھائی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے۔ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان میں بڑی ہی اطاعت کا جذبہ تھا۔ بورکینا فاسو کے مربیان کی طرف سے جو افسوس کا، تعزیت کا خط آیا ہے۔ اس میں جو انہوں نے خوبیاں لکھی ہیں وہ حقیقت میں وہ تمام باتیں ہیں جن میں مَیں کہہ سکتا ہوں کوئی مبالغہ نہیں تھا۔ بہت محنتی تھے، بڑی غیرت رکھنے والے تھے، اللہ کے نام کی غیرت رکھنے والے تھے، بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والے تھے اور بے نفس آدمی تھے۔ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے۔ یہ لکھتے ہیں کہ جب بھی اجتماع وغیرہ یا جلسہ ہوتا تو شکیل صاحب اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہوتے کہ نہانے دھونے کھانے وغیرہ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ اور جب میں دورے پر گیا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ یہ مستقل خدمت پہ تھے،باقی بھی تھے لیکن ان کی اہلیہ ان دنوں میں بہت بیمار ہو گئیں اور ہسپتال میں داخل تھیں، اس کے باوجود جو ان کے ذمے کام تھے وہ پوری طرح کرتے رہے۔ ہسپتال بھی دوڑ کے جاتے تھے پھر آ کے کام کرتے تھے۔ اور پھر دوسرے کو یہ احساس نہیں دلواتے تھے کہ مجھے مجبوریاں ہیں اور پھر بھی میرے سے کام کروایا جا رہا ہے بلکہ خوشی سے یہ کام کر رہے تھے باوجود یہ کہنے کے کہ آپ زیادہ اہلیہ کی فکر کریں۔ کھانے پینے کی ان کو کوئی فکر نہیں ہوتی تھی اور ہر وقت ہنستے مسکراتے رہتے۔ لیکن امیر صاحب نے ایک بات لکھی ہے اور یقینا صحیح ہو گی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ ہروقت ہنسنے والا شخص تھا لیکن کہتے ہیں مَیں نے ان کو روتے بھی دیکھا کہ جب یہ ذکر ہوتا تھا کہ بیعتوں کا ٹارگٹ پورا کرنا ہے، بیعتیں نہیں ہوئیں۔ یا وہ ٹارگٹ حاصل نہیں ہوا جتنا ان کا خیال تھا کہ ہونا چاہئے اور مجھے رپورٹ بھجوانی ہے۔ اس وقت وہ رویا کرتے تھے کہ کس طرح اپنی ایسی رپورٹ بھجواؤں۔ اور دعا کے لئے درخواست کیا کرتے تھے۔ اور حقیقتاً انہوں نے حق ادا کیا ہے۔ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو امانتوں کا بھی حق ادا کرتے ہیں اور اپنے عہدوں کا بھی حق ادا کرتے ہیں اور اس لحاظ سے میدان عمل میں ان کی وفات ایک شہید کی موت ہی ہے، جو کبھی مرا نہیں کرتے۔ اس وقت بھی بیماری سے چند گھنٹے پہلے، آخری رات،وہ کہتے ہیں کہ سارے مربیان،مبلغین بیٹھے ہوئے تھے، تبلیغ کرنے کا کوئی پروگرام بن رہا تھا تو اس میں بھی پوری طرح بڑھ بڑھ کے حصہ لے رہے تھے، تجاویز پیش کر رہے تھے۔ تو دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹے۔ ان کو اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ دے اور ان کی ایک چھوٹی بچی اور اہلیہ کو صبر دے۔ ان کے والدین زندہ ہیں ان کو صبر کی توفیق دے۔
اسی طرح ہمارے ایک بڑے پرانے، لندن میں جب سے خلیفہ وقت آئے ہیں اس وقت سے یہاں کی تاریخ میں پیر محمد عالم صاحب کا بھی نام کافی جانا جاتا ہے۔ ان کی بھی کل وفات ہوگئی۔

اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ کی پیدائش 1919ء کی تھی اور 1979ء میں انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کوپیش کیا تھا۔ پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں رہے۔ پھر یہاں آگئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوب خدمت کی توفیق پائی۔ کیونکہ قریب رہتے تھے، صبح سب سے پہلے آنے والوں میں سے تھے اور جس طرح ان کی عادت تھی، اگر دور بھی ہوتے تو یقینا وہ سب سے پہلے دفتر آنے والوں میں شمار ہوتے۔ اور بڑی محنت سے کام کرتے رہے اور پھر جب تک ان کی صحت اجازت دیتی رہی پورا وقت لگاتے تھے اور اس کے بعد بھی اب تک، چند دن پہلے تک انہوں نے دفتر میں اپنے پورے کام کو نبھایا ہے۔ اور انگریزی سیکشن کی ڈاک کا کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے، مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی اہلیہ اور بچوں کو صبر کی توفیق دے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں