خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 22؍اپریل 2005ء

جب اللہ تعالیٰ سے تعلق شدید ہو توپھرشجاعت بھی آ جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا ایک خُلق بہادری اور شجاعت بھی ہوتاہے۔ آنحضرت ﷺ میں یہ وصف تمام انسانوں سے بلکہ تمام نبیوں سے بھی بڑھ کر تھا۔
(احادیث نبویہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جرأت و بہادری اور شجاعت کے مختلف واقعات کا تذکرہ)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 22؍اپریل 2005ء (22؍شہادت 1384ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح۔مورڈن،لندن۔

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ۔ وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا (سورۃ الاحزاب آیت 40:)

اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا ایک خُلق بہادری اور جرأت بھی ہوتا ہے۔ اور یہ خداتعالیٰ پر یقین اور توکّل کی وجہ سے مزید ابھرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کام ان کے سپرد کئے ہوتے ہیں وہ اس وقت تک انجام نہیں دئیے جا سکتے جب تک جرأت اور بہادری کا وصف ان میں موجود نہ ہو۔ دوسرے اوصاف کی طرح یہ وصف بھی انبیاء میں اپنے زمانے کے لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں، ان میں تو یہ وصف تمام انسانوں سے بلکہ تمام نبیوں سے بھی بڑھ کر تھا۔ جس کی مثالیں نہ اُس زمانے میں ملتی تھیں، نہ آئندہ زمانوں میں مل سکتی ہیں۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر جرأت کا مظاہرہ کیا ہے تاریخ میں کسی لیڈر کی ایسی مثال نظر نہیں آتی بلکہ سوواں، ہزارواں حصہ بھی نظر نہیں آتی۔انتہائی مشکل حالات میں بھی قوم کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے، اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے،ان کو صبر اور استقامت اور جرأت اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی تلقین نہ کی ہو۔ اور خود آپؐ کا عمل یہ تھا کہ اگر تنہا بھی رہ گئے اور دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں تب بھی کبھی کسی قسم کے خوف کا اظہار نہیں کیا۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اللہ کے پیغام پہنچایا کرتے تھے اور اس سے ڈرتے رہتے تھے اور اللہ کے سواکسی اور سے نہیں ڈرتے تھے اور اللہ حساب لینے کے لحاظ سے بہت کافی ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے بھی گزر چکی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑھ کر اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے تھے۔ آپؐ کا عمل اور صحابہؓ کی گواہیاں اس بات پر شاہد ہیں کہ خدائے واحد کا پیغام پہنچانے میں جس جرأت کا مظاہرہ آپؐ نے کیا وہ بے مثال ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں یہ جرأت اور اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ کرنا۔
آپؐ میں اس وقت بھی یہ وصف تھا جب آپؐ پر ابھی اللہ تعالیٰ کی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔آپؐ کے اُس زمانے کے معمولات کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک روایت میں اس طرح کیا ہے۔ آپؓ بیان کرتی ہیں کہ شروع شروع میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوا تو وہ رؤیائے صالحہ کی شکل میں ہوتا تھا یعنی خوابیں وغیرہ آیا کرتی تھیں۔ کہتی ہیں کہ آپ رات کے وقت (یہ پہلی وحی سے پہلے کا واقعہ ہے) جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا تھا۔ پھر آپ کو خلوت اچھی لگنے لگی توآپؐ غار حرا میں بالکل اکیلے، کئی کئی راتیں خداتعالیٰ کی عبادت میں گزارتے۔ اور جتنے دن آپؐ وہاں قیام کرتے آپؐ اپنا زادِراہ ساتھ لے جاتے اور جب یہ ختم ہو جاتا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس تشریف لاتے اور کھانے پینے کا مزید سامان ساتھ لے کر دوبارہ غار حرا میں چلے جاتے اور عبادتوں میں مشغول ہو جاتے۔ یہاں تک کہ آپؐ پر وحی نازل ہوئی اور آپؐ کے پاس حق آ گیا۔(بخاری کتاب الوحی۔کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ)
تو اس میں جہاں آپؐ کی خداتعالیٰ سے محبت اور عبادتوں کا پتہ چلتا ہے وہاں آپ ؐ کی اس جرأت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپؐ بغیر کسی خوف اور ڈر کے کئی کئی راتیں غار میں اور جنگل میں، جہاں کئی قسم کے خطرات ہوتے ہیں،گزارا کرتے تھے۔
اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُنس اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اور اہل دنیا سے ایک نفرت اور کراہت پیدا ہو جاتی ہے۔ بالطبع تنہائی اور خلوت پسند آتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی حالت تھی۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپؐ اس قدر فنا ہو چکے تھے کہ آپؐ اس تنہائی میں ہی پوری لذّت اور ذوق پاتے تھے۔ ایسی جگہ میں جہاں کوئی آرام کا اور راحت کا سامان نہ تھا اور جہاں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہو، آپؐ وہاں کئی کئی راتیں تنہا گزارتے تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کیسے بہادر اور شجاع تھے۔ جب اللہ تعالیٰ سے تعلق شدید ہو تو پھر شجاعت بھی آ جاتی ہے اس لئے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا۔ اہل دنیا بزدل ہوتے ہیں۔ان میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ317جدید ایڈیشن)
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وحی نازل ہونے کے بعد مختلف اوقات میں آپؐ نے کس قدر بہادری اور جرأت کے مظاہرے کئے۔ مکّہ کی تیرہ سالہ زندگی میں یعنی دعویٰ نبوت کے بعد آپؐ کو ہر طرح سے ڈرایادھمکایا گیا اور آپؐ کے بزرگوں اور پناہ دینے والوں کی پناہیں آپؐ سے ہٹانے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن اس جرأت و شجاعت کے پیکر نے ان کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کی۔ اس مکّی زندگی میں آپؐ پر ظلم اور زیادتیوں کے واقعات کی روایات جو ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر کرتا ہوں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ نے کس بہادری اور جرأت اور بغیر کسی پریشانی اور گھبراہٹ کے اظہار کے ان سب چیزوں کا مقابلہ کیا۔ آپ ؐکو فکر رہتی تھی تو اپنے ماننے والوں کی۔ یہ فکر ہوتی تھی کہ ان پر ظلم نہ ہوں۔ روایتوں کو پڑھتے ہوئے بعض دفعہ ذہن کے رجحان کے مطابق ایک آدھ پہلو سیرت کا سامنے آتا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو بعض ایسی روایتیں ہیں جن میں ایک ایک حدیث میں آپؐ کی سیرت اورخُلق کے کئی پہلو نظر آتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مکّہ میں تھے تو نہایت جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے دھڑک خانہ کعبہ کا طواف اور وہاں اپنے طریق پر عبادت کیا کرتے تھے۔ قریش مکّہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خانہ کعبہ میں اس طرح عبادت کرتے ہوئے دیکھتے تھے تو بہت غصے میں آجایا کرتے تھے کہ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہتے ہیں او رپھر ہمارے سامنے ہی بغیر کسی جھجک کے اپنے طریق پر اپنی عبادتیں بھی کر رہے ہیں، طواف بھی کر رہے ہیں۔
چنانچہ ایک دفعہ ایسے ہی ایک موقع پر قریش کا رویہ کیا تھااس کا ذکر عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ نے کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک روز میں خانہ کعبہ کے قریب موجود تھا تو قریش کے سب بڑے بڑے لوگ حجرا سود کے پاس خانہ کعبہ میں اکٹھے ہوئے اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنے لگے کہ یہ بتوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور ہم نے بڑا صبرکر لیا اور اب صبر کی انتہاہو گئی ہے۔تو کہتے ہیں کہ یہ لوگ باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپؐ طواف میں مشغول ہو گئے۔ جب آپؐ طواف کرتے ہوئے ان لوگوں کے پاس سے گزرتے تو کفار آپؐ پر آوازے کستے تھے، بیہودہ باتیں آپؐ کے متعلق کرتے تھے۔ چنانچہ تین بار ایسا ہوا۔کہتے ہیں کہ مَیں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر دکھ محسوس کیا او ر تیسری دفعہ آوازے کسنے پر آپؐ کھڑے ہوگئے اور آپؐ نے فرمایا کہ اے گروہ قریش! قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ مَیں تم جیسوں کی ہلاکت کی خبر لے کر آیا ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس بات کا قریش پر ایسا اثر ہوا کہ وہ سکتے کی حالت میں آگئے۔ اور جو شخص اُن میں سب سے زیادہ بڑھ بڑ ھ کر باتیں کرنے والا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی نرمی سے بات کرنے لگا اور کہنے لگا کہ آپ تشریف لے جائیں۔ (جو بھی معذرت کی) پھر آپؐ وہاں سے تشریف لے آئے۔ دوسرے روز پھر یہ لوگ اکٹھے ہوئے اور ہر طرف سے آپؐ کو گھیر لیا اور کہنے لگے کہ تم ہی ہو جو ہمارے بتوں میں عیب نکالتے ہو، ہمارے دین کو برا بھلا کہتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں مَیں کہتا ہوں۔ تو دیکھیں کس جرأت سے آپؐ اکیلے، تن تنہا ظالموں اور جابروں کے گروہ کے بیچ میں چلے جایا کرتے تھے۔ قطعاً اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ یہ ظالم اور انسانیت سے عاری لوگ آپؐ کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ ان کو للکار کر کہا کہ تم جو آج بڑھ کر بڑھ کر مجھ سے باتیں کر رہے ہو،مجھ پر باتیں بنا رہے ہو، میرے خلاف غلیظ اور انسانیت سے گری ہوئی گندی زبان استعمال کر رہے ہو یا د رکھو کہ تم لوگوں کی ہلاکت میرے ہاتھوں سے ہونی ہے۔
اب جس کو ذرا سا بھی دنیا کا خوف ہو، وہ ایسی بات نہیں کر سکتا۔ وہ تو مصلحت کے تقاضوں کی وجہ سے خاموش ہو جائے گا کہ کہیں مجھ سے اَور زیادتی نہ کریں۔ لیکن خدا کا یہ شیر سب کو للکارتا ہے بغیرکسی کی پرواہ کے، بغیر کسی خوف کے، بغیر کسی ڈر کے، اور اس للکار میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رعب ہی ایسا دیا گیا ہے کہ باوجود مضبوط گروہ ہونے کے وہ سب اس بات پر خاموش ہو گئے جیسے جسم سے جان ہی نکل گئی ہو۔ او رپھر اس شرارت کرنے والے نے بڑی عاجزی دکھائی۔ بہرحال ان کی فطرت میں کیونکہ شرارت تو تھی، ان لوگوں کی فطرت میں گند تھا، اگلے دن پھر وہ لوگ اکٹھے ہوئے او راسی طرح اکٹھے بیٹھے لیکن اب دُور سے آوازے نہیں کسے۔ کیونکہ ایک دن پہلے جو واقعہ ہوا تھا کہ آپؐ کے کہنے پر سب سکتے میں آ گئے تھے، اس وقت اور بھی وہاں لوگ ہوں گے کسی نے کہا ہو گا کہ اس طرح تو ہماری عزت جاتی رہے گی، ہماری عزت خاک میں مل جائے گی اور آپؐ جس مقصد کو لے کے اٹھے ہیں اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تو اگلے روز ان سب نے دُور سے چر کے لگانے کی بجائے آپؐ کو گھیر لیا۔ اب کوئی راہ فرار نہیں ہے۔ سارے لوگ ارد گرد اکٹھے ہیں۔ پھر پوچھا جا رہا ہے کہ کیا تم ہمارے بتوں کو برا کہتے ہو اور اُن کی برائیاں بیان کرتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں بھی فرماتے ہیں، جبکہ ہر طرف سے گھرے ہوئے ہیں،کہ ہاں مَیں صحیح کہتا ہوں۔ کیونکہ یہ جو تمہارے بُت ہیں ان بیچاروں میں تو کوئی طاقت ہی نہیں ہے۔ یہ تو خود تمہارے ہاتھوں سے بنے ہوئے ہیں۔ تو دیکھیں آپؐ نے یہ جواب کس جرأت سے دیا اور اس بات کی کوئی بھی پرواہ نہیں کی کہ یہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ اور اگلے ہی لمحے اس بات پر انہوں نے آپؐ پر زیادتی بھی کی۔
چنانچہ راوی کہتے ہیں کہ مَیں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے حضور ؐ کی چادر مبارک پکڑ لی اور ابوبکرؓ بھی وہاں موجود تھے۔ وہ یہ حالت دیکھ کر روتے ہوئے کھڑے ہوئے اور قریش سے کہنے لگے کہ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے۔ تب قریش نے آپؐ کو چھوڑ دیا اور وہاں سے چلے گئے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ذکر ما لقی رسول اللہ من الاذی)
تو جس ارادے سے اگلے دن جمع ہوئے تھے۔ اس کوپورا بھی کرنا چاہا۔ ان کو پتہ تھا کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بتوں کے بارے میں سوال کریں گے تو آپؐ یقینا بیزاری کا اظہار کریں گے اور اس صورت میں ہم انہیں ماریں پیٹیں گے۔ چنانچہ اسی ارادے سے آپؐ کو پکڑ بھی لیا لیکن حضرت ابو بکرؓ کی حمایت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ شاید کچھ اور لوگ بھی ہوں جنہوں نے شرافت دکھائی ہو تو بہرحال ایسے حالات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی جرأت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔
پھرمکّہ میں بھی آپؐ کی جرأت کا وہ واقعہ دیکھیں جب سب سردار جمع ہو کر آپؐ کے چچا حضرت ابو طالب کے پاس آئے کہ اپنے بھتیجے کو روکو کہ اپنی تعلیم نہ پھیلائے ورنہ پھر ہم تمہارا بھی لحاظ نہیں کریں گے۔ اس پر چچا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھانے کے لئے بلایا تو آپؐ نے سمجھ لیا کہ اب میرے چچا بھی میری مدد نہیں کر سکتے۔ لیکن اس خیال نے آپؐ کی جرأت میں کمی نہیں کی بلکہ خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق اس سے یقین میں اور جرأت میں اور اضافہ ہوا۔ اور فرمایا کہ چچا! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تو پھر بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑوں گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو پورا کر دے یا میں خود ہلاک ہو جاؤں۔
پھر وہ واقعہ بھی اکثر سنا ہوا ہے۔ میں بھی پہلے بیان کر چکاہوں لیکن جب اس واقعہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جرأت او ر بہادری کی نظر سے دیکھیں تو ایک اور شان اس کی نظر آتی ہے۔ جب اونٹوں کا ایک تاجر ابو جہل کو اونٹ فروخت کرتا ہے اور اونٹوں پر قبضہ کر لینے کے بعد ابو جہل نے اس کی رقم ادا نہیں کی اور کئی بہانے بنا رہا ہے۔ غریب آدمی بیچارا چکر لگا لگا کر تھک گیا ہے۔ سرداران قریش کے پاس فریاد لے کر گیا کہ مجھ پر رحم کرو اور ابو الحکم سے میری رقم دلوا دو۔ وہ سردار جو خود بھی اس ظالمانہ معاشرے کا حصہ تھے جنہوں نے خود بھی یقینا کئی لوگوں کی رقمیں ماری ہوں گی اُس غریب الوطن کی مدد کرنے کی بجائے اس سے ٹھٹھا کرتے ہوئے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ اور کسی نیک نیتی سے نہیں دکھا رہے۔ بلکہ اس نیت سے کہ جب یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے گا تو آپؐ ابوجہل کے خوف کی وجہ سے یا اس کے سردار قریش ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ آپؐ کا شدید ترین مخالف ہے اس کے پا س جانے سے انکا ر کر دیں گے۔ لیکن جب وہ غریب آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو بغیر کسی تردّد کے یہ جرأت و شجاعت کا پیکر اس آدمی کے ساتھ چل پڑا اور ابو جہل کے گھر جا کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابو جہل گھر سے باہر آیا تو اُسے کہا کہ تم نے اس شخص کے پیسے دینے ہیں۔ ابو جہل نے کہا ہاں دینے ہیں اور ابھی لایا۔ وہ گھر کے اندر گیا اور اس کی رقم لا کرادا دی۔ تو یقینا اللہ تعالیٰ کی مدد آپؐ کے ساتھ تھی۔ اور اس کے نظارے بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح دکھائے کہ ابو جہل کو ایک خوفناک اونٹ نظر آیا۔پس آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین نے ہی یہ جرأت بھی دلائی تھی کہ ایسے خطرناک دشمن کے گھر بغیر کسی حفاظتی سامان کے چلے جائیں۔ اور یہ شجاعت بھی صرف اور صرف آپؐ کا ہی خاصہ تھی۔
پھر دیکھیں جب مکّہ سے ہجرت کی تو پہلی پناہ کی جگہ ایک قریب کی غار تھی۔ دشمن تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچ گیا۔ آپؐ اور حضرت ابو بکرؓ اندر بیٹھے ہوئے تھے اور دشمن اگر چاہتا تو آپؐ کو دیکھ سکتا تھا بلکہ اندر بیٹھے ہوؤں کا خیال تھا کہ ضرور دیکھ بھی لے گا غار بھی کوئی ایسی غار نہیں تھی جس کا منہ تنگ ہو اور اندر سے گہری ہو یا چھپ کے ایک کونے میں آدمی چلا جائے۔ حضرت ابو بکرؓ پریشان ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پریشانی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ ایک ہی بات ذہن میں ہے کہ اگر کوئی ڈریا خوف کسی چیز کا، کسی ذات کا ہونا چاہئے تو وہ خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ اور جب خداتعالیٰ کی خاطر کوئی کام ہو رہا ہے تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
غار میں بیٹھنے کے واقعہ کو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یوں بیان کرتے ہیں کہ مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا۔ میں نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو تعاقب کرنے والوں کے پاؤں دکھائی دئیے۔ اس پر مَیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی نظر نیچے کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا اے ابو بکر! ہم دو ہیں اور ہمارے ساتھ تیسرا خدا ہے۔ تو جہاں یہ واقعہ خداتعالیٰ کی ذات پر یقین کا اظہار کرتا ہے۔ وہاں آپؐ کی جرأت و شجاعت کا بھی اظہار ہو رہا ہے۔ آپؐ خاموشی سے اشارہ بھی کر سکتے تھے کہ خاموش رہو۔ باہر لوگ کھڑے ہیں بولو نہیں۔ لیکن خداتعالیٰ کی ذات پر یقین کی وجہ سے آپؐ میں جوجرأت تھی اس کی وجہ سے دشمن کے سر پر کھڑا ہونے کے باوجود اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ابو بکر فکر نہ کرو، خداہمارے ساتھ ہے۔ (بخاری کتاب المناقب با ب ہجرۃ النبی ﷺ واصحابہ الی المدینۃ)
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشان پا یہاں تک آ کر ختم ہو جا تا ہے۔ لیکن اُن میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کیسے ہوگا مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے۔ کبوتر نے انڈے دئیے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں۔ اور آپؐ بڑی صفائی سے اُن کو سن رہے ہیں۔ ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھتے آتے ہیں۔ لیکن آپؐ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپؐ اپنے رفیق صادق صدیقؓ کو فرماتے ہیں لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبۃ:40)۔ یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہرکرتے ہیں کہ آپؐ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں ‘‘۔یعنی یہ الفاظ بولے بغیر تو ادا نہیں ہو سکتے۔’’ اشارہ سے کام نہیں چلتا۔باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس امر کی پروا نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے۔ خداتعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے‘‘۔ فرمایاکہ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ ہی کافی ہے‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ251-250 جدید ایڈیشن)
پھر دشمن کے چلے جانے کے بعد اور یہ اطمینان ہو جانے کے بعد کہ اب غار سے نکل کر اگلا سفر شروع کیا جا سکتاہے۔ آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ غار سے نکلے اور جو بھی انتظام کیا تھا اس کے مطابق وہاں سواریاں پہنچ گئی تھیں۔ ان پر سوار ہوئے اور سفر شروع ہو گیا۔ لیکن کفار مکّہ نے آپؐ کے پکڑے جانے کے لئے 100اونٹ کا انعام مقرر کیا ہوا تھا۔ اور اس کے لالچ میں کئی لوگ آپؐ کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ ان میں ایک سراقہؓ بن مالک بھی تھے تو ان کا بیان ہے کہ مَیں گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر نزدیک ہو گیا کہ میں آپؐ کے قرآن پڑھنے کی آواز سن رہا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ آپؐ دائیں بائیں بالکل نہیں دیکھتے تھے ہاں حضرت ابو بکرؓ بار بار دیکھتے جاتے تھے۔ تو اس حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گھبراہٹ نہیں تھی بلکہ آرام سے کلام الٰہی کی تلاوت فرما رہے تھے۔ (بخاری کتاب المناقب الانصار باب معجزۃالنبی واصحابہ الی المدینۃ)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے حضرت ابو بکرؓ سے فرمایا کہ فکر کیوں کرتے ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین تھا۔آپؐ کو ہر وقت اور ہر موقع پر یہی یقین ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے ساتھ ہے جس کی وجہ سے خطرناک سے خطرناک موقعے پر بھی آپؐ کو کبھی گھبراہٹ نہیں ہوئی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امن پسند طبیعت لڑائیوں اور جنگوں کو نہیں چاہتی تھی۔ لیکن فطرتی جرأت اور بہادری کو بھی یہ گوارا نہیں تھا کہ دشمن سے اگر مقابلہ ہو جائے تو پھر بزدلی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اور آپؐ اپنے صحابہؓ کو بھی یہ نصیحت فرماتے تھے کہ اگر جنگ ٹھونسی جائے توپھر بزدلی نہیں دکھانی۔
چنانچہ اس بارے میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر دشمن سے مقابلے کے لئے اتنا انتظار فرمایا کہ یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ پھر آپؐ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو! دشمن سے لڑائی کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت طلب کرتے رہو۔ لیکن جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو صبرو استقامت دکھاؤ اور اس بات کا یقین کرو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کے بعد آپؐ نے دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتٰبَ وَمُجْرِیَ السَّحَابِ وَھَازِمَ الْاَحزَابِ اِھْزِمْھُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ اے اللہ!جو کتاب نازل کرنے والا ہے۔ بادلوں کو چلانے والا ہے اور دشمن گروہوں کو شکست دینے والا ہے تو ان لوگوں کو شکست دے اور ہمیں اپنی مدد سے ان پر غلبہ عطا فرما۔ (متفق علیہ)
اور جب دعاؤں کے ساتھ آپؐ دشمن کے حملوں کا جواب دیتے تھے تو پھر جرأت و بہادری کے وہ اعلیٰ جوہر آپؐ دکھا رہے ہوتے تھے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ صحابہؓ میں سے بڑے بڑے بہادر بھی آپ کی جرأت و بہادری کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے اور اس بات کی گواہی خود صحابہؓ دیتے ہیں۔
چنانچہ حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم جب شدید لڑائی شروع ہو جاتی تو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھال بنا کر لڑتے تھے۔ اور ہم میں سے بہادر وہی سمجھا جاتا تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ لڑتا تھا۔ (مسلم کتاب الجہاد باب فی غزوۃ حنین)
اصولی طورپر جب جنگ ہو رہی ہو تو خطرناک جگہ بھی وہی ہونی چاہئے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تھے کیونکہ دشمن کی تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ جب کسی قوم سے جنگ ہو تو یا مخالف قوم کے لیڈر کو قتل کر دیاجائے یا اس کو گرفتار کر لیا جائے تاکہ اس کی قوم کا حوصلہ پست ہو جائے اور فوجوں کا حوصلہ پست ہوجائے اور جنگ ختم ہو جائے۔ اس لئے دشمن کا سارا زور مرکز کی طرف ہوتا ہے اور خاص طور پر جب آمنے سامنے جنگ ہو رہی ہو،اور قوم کے لیڈر بھی اس میں موجود ہوں تو پھر انداز ہ کریں کہ کس طرح شدت کے ساتھ مخالف فوجیں اس مرکز میں پہنچنے کی کوشش کرتی ہوں گی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی فطرتی جرأت او ر بہادری کی وجہ سے دشمنوں کے سامنے بہت زیادہ آ جایا کرتے تھے اور پھر ایسے میں آپؐ کے جانثار صحابہؓ بھی کس طرح برداشت کرتے کہ آپؐ کو اکیلا چھوڑیں۔ صحابہ کے لئے بھی جنگ میں یہی سخت ترین مقام ہوتا تھا اور دشمن کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ مرکزی ٹارگٹ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے اس لئے صحابہ پر حملہ کرنے کی نسبت آپؐ پر حملہ کرنے کی زیادہ کوشش ہوتی تھی۔ لیکن دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا لیڈر بھی کسی قوم کو کیا ملاہو گا کہ جو آپؐ کے ارد گرد اکٹھے ہو رہے ہیں، جمع ہو رہے ہیں کہ دشمن کا حملہ سخت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے محفوظ رکھنا ہے۔ وہ یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے ڈھال ہوتے تھے۔ آپؐ بھی اس فکر سے جنگ میں دشمن کے حملوں کو ناکام کرتے تھے، اس فکر سے لڑ رہے ہوتے تھے کہ مَیں نے اپنے صحابہؓ کی حفاظت بھی کرنی ہے اور دشمن کے حملوں کو ناکام بھی کرنا ہے۔ تو یہ تھے جرأت و شجاعت و بہادری کے نمونے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے۔
پھر جنگ بدر کے موقع پر آپؐ کی جرأت و بہادری کا ایک واقعہ ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ مدینے سے روانہ ہوئے اور مشرکین سے پہلے بدر کے میدان میں پہنچ گئے۔ پھر مشرکین بھی پہنچ گئے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی آگے نہ بڑھے جب تک مَیں اس سے آگے نہ ہوں۔ یعنی میرے پیچھے رہنا اور دشمن سے مقابلے کے وقت مَیں ہی سب سے آگے ہوں گا۔ پھر جب مشرکین آگے بڑھ کر اسلامی فوج کے قریب آئے تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس جنت کو حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھو جس کی لمبائی ا ور چوڑائی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے۔ یعنی جب باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی تو پھر سب کو اجازت دی کہ اب اپنے اپنے ہنر دکھاؤ اور اب جنگ میں کود پڑو۔ اب بزدلی نہیں دکھانی۔ اور آپؐ بھی ان میں پیش پیش تھے۔ (صحیح مسلم)
پھر آپؐ کی جنگ کے بارے میں حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میدان جنگ خوب گرم ہو جاتا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد شدید لڑائی شروع ہو جاتی، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ زیادہ مرکز کی طرف حملہ ہوتا تھا۔ تو کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ؐ کی پناہ لیا کرتے تھے۔ ایسے مواقع پر تمام لوگوں کی نسبت آپؐ دشمن کے زیادہ قریب ہوا کرتے تھے۔ پھر آگے کہتے ہیں کہ بدر میں میں نے آپؐ کو دیکھا میں آپؐ کی پناہ لئے ہوئے تھا حالانکہ آپؐ کفار کے بالکل قریب پہنچے ہوئے تھے تو اس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ سخت جنگ کی۔ جنگ کی شدت میں جب اس طرح آمنے سامنے جنگ ہو رہی ہو تو پتہ نہیں لگتا کہ اپنوں میں کون اپنے ساتھ ہے۔ تو جب حضرت علیؓ نے دشمن کے وار سے بچ کر دیکھا ہوگا یا یہ دیکھا ہو گا کہ مجھے کس نے وار سے بچایا تو دیکھا آپؓ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے تو حضرت علیؓ کے متعلق مشہور ہے کہ جنگی حربوں کے ماہر تھے اور انتہائی نڈر انسان تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جرأت و بہادری کے بارے میں جو آپ بیان کر رہے ہیں تو آپ ان کی پناہ میں ہیں۔(الشفاء لقاضی عیاض فصل وأما الشجاعۃ صفحہ66)
پھر جنگ اُحد کا واقعہ دیکھیں جب بعد مشورہ آپ کی مرضی کے خلاف باہر جا کر دشمن سے مقابلے کا فیصلہ ہوا اور بعض صحابہؓ کو بعد میں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا اور اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے کی کوشش بھی کی۔ تو جو جواب آپؐ نے دیا وہ جہاں آپ کے توکّل کو ظاہر کرتا ہے وہاں آپؐ کی جرأت و شجاعت کا بھی اس میں خوب اظہار ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ بات نبی کی شان کے خلاف ہے کہ جب وہ ایک دفعہ ہتھیار باندھ لے پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلہ فرمانے سے پہلے اتار دے۔یعنی یا تو خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ہو یا پھر اب میدان جنگ میں ہی فیصلہ ہو گا۔ اب جنگ سے بچنے کے لئے میں یہ کام نہیں کروں گا یہ جرأت و مردانگی کے خلاف ہے۔ اور نبی بھی وہ نبی جو خاتم الانبیاء ہے وہ اب یہ بزدلی کا کام کس طرح کر سکتا ہے۔ اور پھر جب مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور دشمن نے مسلمانوں کو کچھ نقصان پہنچایا، مسلمان تتر بتر ہو گئے، اس وقت بھی آپؐ ایک مضبوط چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔
یہ بھی ایک عظیم واقعہ ہے۔ اس کا مختلف روایات میں ذکر آتا ہے۔ ایک جگہ یوں ذکر ملتا ہے کہ غزوہ احد میں بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریباً اکیلے ہی رہ جاتے تھے۔ کسی ایسے ہی موقعہ پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے مشرک بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ایک پتھر آپؐ کے چہرہ مبارک پر لگا جس سے آپؐ کا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ہونٹ بھی زخمی ہوا۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اور پتھر جو عبداللہ بن شہاب نے پھینکا تھا اس نے آپؐ کی پیشانی کو زخمی کیا۔اور تھوڑی دیر کے بعد تیسرا پتھر جو ابن قمئہ نے پھینکا تھا آپؐ کے رخسار مبارک پر لگا جس سے آپؐ کے خود کی دوکڑیاں آپ ؐ کے رخسار (کلوں) میں چبھ گئیں۔ (ابن ھشام ذکر غزوۃ احد جزء 3 وزرقانی بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحہ494)۔ آپ ؐ لہولہان ہو گئے تھے لیکن کوئی
پناہ گاہ تلاش نہیں کی کہ جہاں بیٹھ کر پٹی کروائیں اور خون صاف کریں یا آرام کریں۔ اور صرف اس لئے کہ آپؐ کی یہ جرأت دیکھ کر مسلمان بھی جمع ہوں اور دشمن کا مقابلہ کریں جیسا کہ مقابلہ کرنے کا حق ہے۔
پھر دیکھیں اسی زخمی حالت میں جب آپؐ لہولہان تھے، جنگ تقریباً ختم تھی کیونکہ اب کفار اپنے زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے اور مسلمان شہداء کے چہرے بگاڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔یہ اُس زمانے میں رواج تھا کہ ناک کان وغیرہ کاٹ لیتے تھے تو اس وقت جب جنگ ذرا ٹھنڈی ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ ایک محفوظ جگہ پر جانے لگے تو راستے میں ابی بن خلف نے آپؐ کو دیکھ لیا او رپہچان لیا اور آپؐ پر وار کرنے کے لئے آگے بڑھا۔ اس وقت آپؐ زخمی حالت میں تھے۔ لیکن اس وقت بھی آپؐ نے جرأت کا مظاہر ہ کیا۔
اس واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ جنگ اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہونے کے بعد جب صحابہؓ کے ساتھ ایک گھاٹی میں ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ دوسری روایت میں ہے کہ پہاڑی کی طرف جا رہے تھے تو بہرحال ابی بن خلف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر للکارتے ہوئے پکارا کہ اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم) اگر آج تم بچ گئے تو میری زندگی عبث ہے، فضول ہے صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی اس کی طرف بڑھے!۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے چھوڑ دو اور راستے سے ہٹ جاؤ۔ اسے میری طرف آنے دو۔جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نیزہ تھام لیا اور آگے بڑھ کر اس کی گردن پر ایک ہی وارکیا جس سے وہ چنگھاڑتا ہوا مڑا اور اپنے گھوڑے سے زمین پر گر گیا،قلا بازیاں کھانے لگا۔ (سیرت ابن ھشام، غزوہ احد، مقتل ابی بن خلف۔ مطبع مصطفی البابی الحلمی مصر 1936الجزء الثالث صفحہ89)
اس حالت میں جو کمزوری کی حالت تھی، خون بے تحاشا بہا ہوا تھا، زخمی تھے، مرہم پٹی بھی کوئی نہیں ہوئی تھی۔ آپؐ نے کسی صحابی کو آگے نہیں بڑھنے دیا بلکہ فرمایا کہ نہیں اس کا علاج میں نے ہی کرنا ہے۔کیونکہ مکّہ میں ایک دفعہ اس نے آپؐ کو چیلنج دیا تھا کہ آپؐ (نعوذ باللہ) میرے ہاتھ سے مریں گے۔ توآپؐ نے فرمایا تھا کہ نہیں بلکہ تم میرے ہاتھ سے مرو گے۔ وہ آدمی جو سواری پر بھی تھا، بظاہر ٹھیک بھی تھا، زخمی بھی نہیں تھا۔ آپؐ زخموں سے لہولہان تھے اور سواری پر ہونے کی وجہ سے وہ بہتر طور پر آپؐ پر حملہ کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود آپؐ نے اپنی جرأت اور شجاعت کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے صحابہؓ کو کہا کہ نہیں تم پرے ہٹ جاؤ۔اس کا مَیں علاج کروں گا۔ اور اسی نیزے کے زخم سے وہ بعد میں مکّہ کے راستے میں واپس جاتے ہوئے فوت بھی ہو گیا تھا۔
پھر جرأت اور شجاعت کی ایک اور اعلیٰ مثال ہے۔ غزوہ اُحد کے اگلے دن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ہمراہ مدینہ پہنچے تو آپؐ کو یہ اطلاع ملی کہ کفار مکّہ دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ بعض قریش ایک دوسرے کو یہ طعنے دے رہے تھے کہ نہ تو تم نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کو قتل کیا۔ (نعوذ باللہ)۔ اور نہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان کے مال و متاع پر قبضہ کیا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تعاقب کا فیصلہ کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کا تعاقب کریں گے اور اس تعاقب کے لئے میرے ساتھ صرف وہ صحابہؓ شامل ہوں گے جو گزشتہ روز غزوۂ اُحد میں شامل ہوئے تھے۔(الطبقات الکبریٰ لأبن سعد جلد دوم صفحہ 274 غزوہ رسول اللہ ﷺ حمراء الأسد)۔ ایسی حالت میں جب آپؐ خود بھی زخمی تھے اور صحابہ کی اکثریت بھی زخمی تھی بلکہ شاید تمام کے تمام زخمی تھے۔ آپؐ نے اپنے سے بڑے دشمن کے تعاقب کا فیصلہ کیا۔ اورصحابہؓ میں بھی یہ روح پھونکی کہ شجاعت دکھاؤ گے تو کامیابیاں حاصل کرو گے۔ آپ ؐ کا یہ جرأتمندانہ فیصلہ ایسا تھاکہ جس نے دشمن کو پریشان کر دیا اور وہ جو دوبارہ حملے کی سوچ رہا تھا جب اس نے دیکھا کہ ہمارا تعاقب کیا جا رہا ہے تو وہیں سے واپس مکّہ کی طرف مڑ گیا۔ یہ جنگی لحاظ سے جہاں اہم فیصلہ تھا وہاں آپؐ کی جرأت وشجاعت کا بھی اظہار کرتا ہے۔
پھر جنگ حنین میں آپؐ کی بہادری کی روایت ملتی ہے۔ ابو اسحاق سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص حضرت براءؓ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے جنگ حنین کے موقع پر دشمن کے مقابلے پر پیٹھ پھیرلی تھی؟۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ مَیں سب کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ضرور گواہی دوں گا کہ آپؐ نے دشمن کے شدید حملے کے وقت بھی پیٹھ نہیں پھیری تھی۔ پھر انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہوازن قبیلے کے خلاف جب مسلمانوں کا لشکر نکلا تو انہوں نے بہت ہلکے پھلکے ہتھیار پہنے ہوئے تھے یعنی ان کے پاس زرہیں وغیرہ اور بڑا اسلحہ نہیں تھا اور ان میں بہت سے ایسے تھے جو بالکل نہتّے تھے۔ لیکن اس کے مقابل پر ہوازن کے لوگ بڑے کہنہ مشق تیر انداز تھے۔ جب مسلمانوں کا لشکر ان کی طرف بڑھا تو انہوں نے اس لشکر پر تیروں کی ایسی بوچھاڑ کر دی جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر حملہ کرتی ہے۔ اس حملے کی تاب نہ لا کر مسلمان بکھر گئے۔ لیکن اُن کا ایک گرو ہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا۔ حضورؐ ایک خچر پر سوار تھے جسے آپؐ کے چچا ابو سفیان بن حارث لگام سے پکڑے ہوئے ہانک رہے تھے۔ جب مسلمانوں کو اس طرح بکھرتے ہوئے دیکھا تو آپؐ کچھ وقفے کے لئے اپنے خچر سے نیچے اترے اور اپنے مولا کے حضور دعا کی۔ پھر آپؐ خچر پر سوار ہو کر مسلمانوں کو مددد کے لئے بلاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے اور آپؐ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے ؎

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ

میں خداکا نبی ہوں اور یہ سچی بات ہے لیکن میں وہی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ یعنی میری غیر معمولی جرأت دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی فوق البشر چیز ہوں۔ ایک انسان ہوں اور اسی طرح جرأت دکھا رہا ہوں۔ اور آپؐ یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ

اَللّٰھُمَّ نَزِّلْ نَصْرَکَ

اے خدا! اپنی مدد نازل کر۔ پھر حضرت براء نے کہا کہ حضورؐ کی شجاعت کا حال سنو کہ جب جنگ جوبن پر ہوتی تھی تو اس وقت حضور ؐ سب سے آگے ہو کرسب سے زیادہ بہادری سے لڑ رہے ہوتے تھے۔ اور ہم لوگ اس وقت حضور ؐ کو ہی اپنی ڈھال اور اپنی آڑ بنایا کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے زیاہ وہی بہادر سمجھا جاتا تھا جو حضور ؐ کے شانہ بشانہ لڑتا تھا۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد باب فتح مکہ)۔ تو کئی جگہوں سے اس کی گواہی ملتی ہے ایک آدھ صحابی کی مثال نہیں ہے۔
تو یہ تھے جنگوں کے واقعات کہ کس طرح آپؐ جرأت دکھاتے تھے اور کس طرح ان جنگوں میں صحابہؓ کی فکر کرتے تھے۔ آپؐ ایک ایسے لیڈر تھے جو ہر وقت اپنی رعایا کی، اپنے ماننے والوں کی فکر میں رہتے تھے۔ ان کی حفاظت کا خیال رکھتے تھے اور راتوں کو اٹھ کر بے خوف ہو کر حالات کا جائزہ لیا کرتے تھے۔
اسی طرح کے ایک واقعہ کا روایت میں ذکر ملتا ہیٗ حضرت انسؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں سے زیادہ خوبصورت تھے اور سب انسانوں سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ کسی طرف سے کوئی آواز آئی اور لوگ آواز کی طرف دوڑے۔ تو سامنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے ہوئے ملے۔ آپؐ بات کی چھان بین کرکے واپس آ رہے تھے۔ اور حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ آپؐ نے اپنی گردن میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی۔ آپؐ نے ان لوگوں کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ڈرو نہیں، ڈرو نہیں مَیں دیکھ کر آیا ہوں کوئی خطرے کی بات نہیں ہے۔ پھر آپؐ نے ابو طلحہ کے گھوڑے کے متعلق فرمایا کہ ہم نے اس کو تیز رفتاری میں سمندر جیسا پایا۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد باب الحمائل وتعلیق السیف بالعنق)
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ان دنوں مدینے میں دشمن کی طرف سے حملے کا خطرہ تھا جس کی وجہ سے ہر کوئی چوکس رہتا تھا کہ دشمن کہیں اچانک حملہ نہ کر دے۔ ایسے حالات میں جب دشمن کی طرف سے خطرہ بھی ہواس وقت اکیلے جا کر جائزہ لے کر واپس آنا غیر معمولی جرأت کا اظہار ہے۔ اور پھراتنی فکر میں،اتنی جلدی میں آپ ؐگئے کہ گھوڑے پر زین بھی نہیں ڈالی۔اسی حالت میں گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر ہی روانہ ہوگئے تا کہ جلدی سے جائزہ لیا جاسکے۔ دوسرے لوگ،دوسرے کام کرنے والے لوگ ابھی سوچ رہے ہیں کہ کس طرح جائزہ لیں،کس طرف سے شور کی آواز آئی ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی پریشانی دور کرنے کے لئے ہر طرف سے پھرپھرا کر،تسلی کاپیغام لے کر ان کے نکلنے سے پہلے واپس بھی پہنچ گئے۔عام حالات میں تو کوئی بھی جائزہ لے سکتاہے لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا،ایسے حالات میں جب دشمن کی طرف سے خطرہ بھی ہو ایسی جرأت کا مظاہرہ کوئی انتہائی جرأت مند ہی کر سکتاہے۔اور یقینا آپؐ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ اس روایت سے آپؐ کے بہترین اور جرأت مند سوارہونے کا بھی پتہ چلتاہے کہ گھوڑا بھی منہ زور تھا (اس کے متعلق یہی مشہور تھا کہ بڑا منہ زور ہے)اور بغیر کاٹھی کے اس پر سوار ہوئے۔سواری کرنے والے جانتے ہیں کہ ایسے گھوڑے کو قابو کرنا کتنا مشکل ہوتاہے اور پھر بغیر زین کے۔ غرض کوئی پہلو لے لیں جہاں بھی جرأت و مردانگی کے اظہار کی ضرورت محسو س ہو گی یا نظر آئے گی وہاں اس وصف میں سب سے بڑھی ہوئی ذات ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نظر آئے گی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپؐ کی جرأت و شجاعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ ایک وقت ہے کہ آپ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کر رہے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ تیرو تلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں۔سخاوت پر آتے ہیں تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں۔ حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے جو خداتعالیٰ نے دکھا دیا ہے۔ اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے۔ اس کا پھل، اس کا پھول اور اس کی چھال، اس کے پتے غرض کہ ہر چیز مفید ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑ ہا مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام او رپناہ لیتی ہے۔ لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا۔ کیونکہ آپؐ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔
سبحان اللہ !کیا شان ہے۔ اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہؓ برداشت نہیں کر سکتے مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے۔ اس میں صحابہؓ کا قصور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کوبخش دیا بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے۔ ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپؐ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے‘‘۔ (یعنی حنین کے واقعہ کا ذکر ہے کہ محمد رسول اللہ میں ہوں)۔’’ کہتے ہیں حضرت کی پیشانی پر ستر زخم لگے مگر زخم خفیف تھے۔
یہ خُلقِ عظیم تھا۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 84جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اسوہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں