خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 2؍ستمبر 2005ء

ہرجلسہ جو جماعت احمدیہ کسی بھی ملک میں منعقد کرتی ہے اس کی کامیابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی خواہش اور فکر اور متضرعانہ اور درد بھری دعاؤں کا ثمرہ ہے
اگرجلسہ کے ماحول کی دُوری آپ کو تقویٰ سے دور لے گئی ہے تووہ تین دن بے فائدہ ہیں۔
کوئی رشتہ کوئی تعلق نظام جماعت اور نظام خلافت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہیں آنا چاہئے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 02؍ستمبر 2005ء (02؍تبوک 1384ہجری شمسی)بمقام بیت الرشید۔ ہمبرگ (جرمنی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ اتوار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جرمنی کا تین دن کا سالانہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ وہ تین دن ہر مخلص احمدی کو اپنے اندر رحمتیں اور برکتیں لئے ہوئے محسوس ہوئے۔نہ صرف ان فضلوں سے آپ نے،جو براہ راست اس جلسہ میں شامل تھے حصہ لیا،بلکہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں جماعتیں قائم ہیں ہر مخلص احمدی نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ان فضلوں کے نظارے دیکھے جن کا اظہار مختلف جگہوں سے خطوط اور فیکسوں کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔ پس یہ جو تبدیلی اُس ماحول کی وجہ سے اکثریت نے ان دنوں میں اپنے اندر محسوس کی یہ صرف اس وجہ سے نہیں تھی کہ تقریر یں بہت اعلیٰ تھیں، تقریروں کے عنوانات بہت عمدہ تھے، مقررین کا طرز خطابت کمال کا تھا یا شامل ہونے والوں کی جلسہ سننے کی طرف توجہ بہت زیادہ تھی۔ یا اکثریت محبت اور پیار سے رہ رہی تھی یا ہر ایک، ایک خاص جذبے سے سرشار تھا۔ یقینا یہ باتیں تھیں لیکن ان سب کے پیچھے
اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے اور پھر ان فضلوں کو جو ہر ایک کو نظر آرہے تھے جلسے کے اس ماحول پر نازل ہوتا دیکھنے کے لئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ دعائیں تھیں جو آج سے سو سال سے زائد عرصہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ پر آنے والے شاملین کے لئے کیں۔ قادیان کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کی گئی وہ دعائیں آج دنیائے احمدیت کے ہر ملک میں جہاں جہاں جماعت احمدیہ کے جلسے منعقد ہوتے ہیں اور ہم ان جلسوں کو دیکھتے ہیں تو ان دعاؤں کے اثر بھی اپنے اوپر دیکھتے ہیں۔
ان جلسوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقصداپنی قائم کردہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنا تھا۔ ہر احمدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے والا بنانا تھا۔ ہر احمدی کو خداتعالیٰ کا حقیقی عبد بنانا تھا۔ پس اس مقصدکے لئے آپؑ نے ان جلسوں کا انعقاد فرمایا اور آپؑ نے اس بات پر بڑی گہری نظر رکھی کہ لوگ، احباب جماعت، جب جلسے پر آئیں تو اس مقصد کو لے کر آئیں کہ انہوں نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے۔
ایک سال آپؑ کو خیال آیا، یہ احساس پیدا ہوا کہ جلسے کا جو مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوا، جو لوگ شامل ہوئے ہیں ان میں سے اکثریت یا بعض ایسے تھے جو اس جلسے کو بھی دنیاوی میلہ سمجھ رہے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس وجہ سے ایک سال جلسہ منعقد نہیں فرمایا۔ اور یہ اعلان فرمایا کہ میرا مقصد جلسے سے اپنے ماننے والوں کی تعداد کا اظہار کرنا یا اپنی بڑائی ظاہر کروانا نہیں ہے بلکہ مَیں تو چاہتا تھا کہ لوگ خالصتاً للہ اس جلسے کے لئے آئیں۔ اور فرمایا کہ گزشتہ سال کے جلسے سے مجھے یہ لگا ہے کہ لوگ اس کو بھی ایک دنیاوی میلہ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اور یہ بات میرے لئے سخت کراہت والی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اس سال جلسہ نہیں ہو گا۔ اور اس وقت جب ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہو گی تو آپؑ جو اپنی جماعت میں ایک پاک تبدیلی اور پاک نمونے قائم ہوتا دیکھنا چاہتے تھے آپؑ نے اس وقت جب اگلے سال جلسہ منعقد ہوا یا اس سال میں بھی بڑی شدت سے اپنی جماعت کے لئے دعائیں کی ہوں گی کہ اللہ تعالیٰ ان میں روحانیت پیدا کرے ان میں پاک تبدیلیاں پیدا کرے اور یہ کہ جلسہ میں شامل ہونے والے خالصتاً للہ جلسہ میں شامل ہوں اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں۔
پس آج ہم دنیا میں ہر ملک کے جلسے میں، جہاں جہاں جماعت احمدیہ جلسے منعقد کرتی ہے ان دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھتے ہیں۔ ہر جلسہ جو جماعت احمدیہ کسی بھی ملک میں منعقد کرتی ہے اس کی کامیابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی خواہش اور فکر اور متضرعانہ اور درد بھری دعاؤں کا ثمرہ ہے جو آج ہم ہرجگہ دیکھ رہے ہیں اور یہ ثمر کھا رہے ہیں، یہ پھل کھا رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے متعدد دفعہ آپؑ کو آپؑ کی قبولیت دعا کے بارے میں خوشخبریاں دیں۔ مثلاً ایک فارسی الہام ہے۔ کہ دست تو دعائے تو ترحّم ز خدا۔ یعنی تیرے ہاتھ اٹھانے اور تیری دعاؤں کے نتیجے میں خداتعالیٰ کی رحمت کی بارش برستی ہے۔ پھر 1903ء کا ایک الہام ہے اور بھی بہت سارے ہیں کہ

دُعَاء کَ مُسْتَجَابٌ

تیری دعا مقبول ہوئی۔
پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مسلسل دعائیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے آپ کی دعاؤں کی قبولیت کے وعدے ہیں جن کا فیض آج ہم پا رہے ہیں۔ ورنہ اگر انسان دنیاوی نظر سے دیکھے تو بعض ایسے کام ہیں جو ان جلسوں کے دنوں میں ناممکن نظر آتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایسی آسانی پیدا فرما دیتا ہے اور ایسی خوش اسلوبی سے ان کی تکمیل کروا دیتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ مثلاً جلسے کی تیاریوں کا مرحلہ ہے، جلسے کے دنوں میں آپ کے افسر صاحب جلسہ سالانہ کا ایک انٹرویو ایم ٹی اے پر آ رہا تھا کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح بعض والنٹیئرز (Volunteers)ایسے ایسے کام کر رہے ہوتے ہیں جن کا ان کی روزمرہ زندگی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ مارکیوں کے کھڑے کرنے کا معاملہ ہے یا اور کام ہیں جن میں ٹیکنیکل آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض پیشہ وارنہ صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے خدام بڑے جذبے اور جوش سے اور بڑے ماہرانہ طریقے سے یہ کام کر دیتے ہیں۔ اُن میں بعض ڈاکٹرز ہیں ، انجینئرز بھی ہیں یا سائنس کے سٹوڈنٹس بھی ہیں، یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں، لیکن ایک عام آدمی کی طرح، ایک عام مزدور کی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔
پھر جلسے کے دنوں کی ڈیوٹیاں ہیں بعض بچے بچیاں چوبیس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی ادا کر رہے ہوتے ہیں اور بالکل بے نفس ہو کر کسی معاوضے کے بغیر، کسی ذاتی مفاد کے بغیر یہ سب کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔
یہ روح اُن میں کس طرح پیداہوئی؟ یقینا اس میں یہ جذبہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت ہم نے کرنی ہے اور اُن دعاؤں کا وارث بننا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کے لئے کی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے یہ جلسے منعقد کئے جا رہے ہیں اور گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے ہی ہم ایسے کام کرنے والوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا اثر دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ پس یہ کام کرنے کی روح اور یہ ایمان میں مضبوطی، یہ قربانی کے مادے، یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے طفیل ہی ہیں۔
پھر جیسا کہ مَیں نے کہا ان کارکنوں کے علاوہ اور ان کارکنات کے علاوہ جو جلسہ گاہ کی تیاری، کھانے پکانے، صفائی اور جلسہ کے بعد اس کو سمیٹنے وغیرہ کے کام میں شامل ہوتے ہیں۔ جلسہ سننے والوں پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے بیان کیا صرف یہاں نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں ایم ٹی اے کے ذریعے یہ نظارے دیکھے گئے وہاں جس نے بھی جلسے کا ماحول بنایا، چاہے وہ گھروں میں ہو یا مساجد میں ہو، سب یہی لکھتے ہیں کہ ہم جلسے کی برکات کو اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھ رہے تھے۔
پس یہ فضل کام کرنے والوں پر بھی ہیں اور شامل ہونے والوں پر بھی ہیں چاہے وہ براہ راست شامل ہونے والے ہوں یا ایم ٹی اے کے ذریعہ سے شامل ہونے والے ہوں۔ اور یہ صرف ان تین دنوں کے لئے نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ان فضلوں کو سمیٹ کر ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ اور یہ ہر احمدی جوان، بوڑھے، عورت، مرد، بچے کا فرض ہے تاکہ وہ دعائیں نسلاً بعد نسلٍ ہمارے حصے میں آتی چلی جائیں۔ اور وہ اسی صورت میں ہوگا (جیسا کہ مَیں نے جلسے کے دنوں بھی کہہ چکا ہوں) کہ جب آپ نے ان تقاریر، ان نصائح، ان عبادتوں اور ان دعاؤں کوان تین دنوں میں اپنی زندگیوں پر لاگو کیا اور اُن کے فیض سے حصہ پایا یا حصہ پا تے ہوئے اپنے آپ کو محسوس کیا۔ اور جب بعضوں نے اس روحانی ماحول کو اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھا۔ بعض کو اللہ تعالیٰ اس ماحول کے نظارے بھی دکھا دیتا ہے تاکہ ایمان میں زیادتی کا باعث بنے۔ لیکن جو اس طرح نظارے نہیں بھی دیکھ رہے ہوتے وہ بھی اس ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس ماحول پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش سے فیض پا رہے ہوتے ہیں۔
ایک خاتون نے ایک واقعہ لکھا تھا، میں نے کارکنان کی میٹنگ میں بھی بتایا تھا کہ آٹھ دس سال پہلے جب بیعت کی تو جلسے پر تشریف لائیں اور جس پرانی احمدی خاتون کے ساتھ آئی تھیں ان کا پروگرام یہ تھا کہ اپنے کسی عزیز کے ہاں رات کو رہنا ہے۔ تو اس وقت یہ نئی بیعت کرنے والی بڑی پریشان تھیں کہ میرا تو یہاں کوئی واقف نہیں ہے، یہ میری ایک واقف عورت ہے، یہ بھی یہاں سے جا رہی ہے۔ ان کو صحیح ماحول کا پتہ نہیں تھا، علم نہیں تھا کہ جلسے پر کیسا ماحول ہوتا ہے۔ اکیلی مَیں کیاکروں گی۔ کسی کو مَیں جانتی نہیں۔ خیر پرانی احمدی خاتون تو رات ہوتے ہی چلی گئیں۔ اور یہ نئی احمدی خاتون جلسہ گاہ کے انتظام کے تحت وہیں جلسہ گاہ میں ہی رہیں۔ اور کہتی ہیں مَیں پریشانی میں دعائیں کرتی رہی۔ اتنے میں ایسی کیفیت میں آنکھ لگ گئی۔ (یہ مجھے مستحضر نہیں ہے) بہرحال نظارہ دیکھا کہ آسمان سے ایک روشنی پھوٹی ہے جو دائرے کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس میں سے کچھ اوراق، کچھ صفحے، کچھ کاغذ نیچے آئے ہیں جن پہ عربی عبارت تھی، ان کو یاد تو نہیں کہ وہ عبارت کیا تھی، لیکن ان کا خیال ہے کہ قرآن کریم کے ہی کچھ احکامات تھے، نصائح تھیں اور دعائیں تھیں۔ بہرحال وہ کہتی ہیں مَیں نے اسی طرح وہ کاغذ جمع کئے اور جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو ان کے مطابق وہ نظارہ ان کے لئے اتنی تسکین کا باعث تھا کہ سارا خوف، فکر سب کچھ دور ہو گیا۔ یہ احساس ہی ختم ہو گیا کہ نئی جگہ ہے، نئے لوگ ہیں۔ تو اگلے دن صبح جب وہ احمدی خاتون آئیں جن کے ساتھ یہ آئی تھیں تو انہوں نے جو چلی گئی تھیں ان کو بتایا کہ مَیں تو اپنے فلاں عزیز کے گھر چلی گئی تھی، رات میری بڑے آرام سے گزری ہے، پتہ نہیں تمہاری رات یہاں کس طرح گزر سکی۔ تو اس نومبائع نے کہا کہ جو نظارے مَیں نے دیکھے ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضلوں سے نوازا ہے اور میری تسکین کے سامان پیدا فرمائے ہیں وہ بھلا تمہیں کہاں حاصل ہوئے۔
تو دیکھیں نیک نیتی سے جلسے میں شامل ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے فضلوں کی بارش کے نظارے دکھاتا ہے جو ایمان میں مضبوطی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ تو یہ فضل صرف اس ایک عورت یا صرف اس ایک خاندان کے لئے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس سارے ماحول کے لئے تھا۔ ان سب شاملین کے لئے یہ فضل تھے جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعائیں کی ہیں۔
پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ:’’ اس جلسے کومعمولی انسانی جلسوں کی طرح نہ خیال کریں۔یہ وہ امر ہے جس کی خالصتاً تائید حق اوراعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے‘‘۔
پس تائید حق کے یہ نظارے اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو ایک خاص شکل میں دکھا دئیے۔ بعضوں کو وہ دکھاتا ہے اور بعضوں کے دل اس تسکین کی وجہ سے اس کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ ہاں واقعی یہ جلسہ ایک خاص جلسہ ہے جس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی تائید اورقدرتوں کے نظارے دیکھے ہیں۔
لیکن یاد رکھیں ہر امر اس کے جو لوازمات ہیں ان کے ساتھ مشروط ہے۔ آپ نے جلسے کے دنوں میں مستقل مزاجی کے ساتھ، استقلال کے ساتھ جو تبدیلیاں پیدا کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے وہاں سے آتے ہی اگر آپ ان کو بھول گئے ہیں کہ جلسے کے دن تو گزر گئے۔ اب یاد نہیں کہ ایک احمدی کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ بعد میں اس طرف توجہ نہیں رہی کہ ہم نے اپنی زندگیوں میں کیا مستقل تبدیلیاں لانی ہیں تو ان تین دنوں کے جلسے میں آپ کی شمولیت کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ اگر جلسہ کے ماحول کی دوری آپ کو تقویٰ سے دور لے گئی ہے تو وہ تین دن اس نماز کی طرح بے فائدہ ہیں جس میں آپ نے کسی مشکل اور مصیبت میں پڑنے کی وجہ سے،کسی ذاتی تکلیف کی وجہ سے رو رو کر دعا تو کر لی۔لیکن اس نماز نے آپ میں یہ تبدیلی پیدا نہ کی کہ آپ مستقل پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق نماز ادا کریں اور پھر زائد عبادتوں کی طرف توجہ کریں۔
تو جلسہ بھی اسی طرح ہے کہ ایک جلسے میں سنی اور سیکھی ہوئی باتوں کو اپنے دلوں میں بٹھانا ہے اور اس کا اثر اگلے جلسے تک قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اور پھر اگلے سال ایک نئی روح، ایک نئے جوش، ایک نئے جذبے کے ساتھ پھر چارج (Charge) ہو کر آئندہ کے لئے پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں۔ ورنہ آپ جلسے کے فیض سے حصہ پانے والے نہیں ہوں گے۔ جلسہ پر آپ نے مختلف عنوانا ت کے تحت تقریریں سنیں لیکن سب کا محور ایک ہی تھاکہ تقویٰ اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنا۔ پس اس تقویٰ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے مستقل وارث بنتے چلے جائیں گے۔ اب کون ہے جو یہ کہے کہ نہیں جی جلسے کے دنوں میں کافی فیض پا لیا میری مصروفیات اس قسم کی ہیں کہ مَیں مستقل نہ اتنے انہماک سے، نہ باقاعدگی سے نمازیں پڑھ سکتا ہوں، نہ توجہ دے سکتا ہوں اور نہ بعض دوسرے نیکی کے کام کر سکتا ہوں۔ منہ سے تو نہیں کہتے اور کوئی احمدی کہنے کی جرأت بھی نہیں کرتا۔ لیکن عملاً بعض لوگ اپنے عمل سے یہی جواب دے رہے ہوتے ہیں۔ پس تقویٰ کی روح کو سمجھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کو جذب کرنے والے بنیں اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوں اور اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوں۔ ان سنی ہوئی باتوں کو، ان نصائح کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رہے ہوں۔ اور خود بھی ہمیشہ اس پر قائم رہنے کے لئے دعائیں کر رہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرما کہ جو کچھ ہم نے سیکھا اب یہ ہمارے اندر قائم ہو جائے۔ انسانی دل کا کچھ پتہ نہیں ہوتا اس لئے ہمیشہ دین پر اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔کسی کو کبھی یہ بڑائی کا احساس نہیں ہونا چاہئے کہ میرے اندر یہ نیکی ہے بلکہ نیکی کو مزید عاجزی کی طرف لے جانا چاہئے، مزید عاجزی کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے۔ اور پھر یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہ کوئی چیز حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی زندگی کا مستقل حصہ بن سکتی ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے نور سے منور کیا ہے۔ اکثریت جو یہاں بیٹھی ہے، یا جرمنی میں آئی ہوئی ہے ان کے بزرگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی۔ ملاقات میں آتے ہیں تو اکثر یا بعض لوگ تعارف تو یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے نانا یا دادا یا پڑدادا یا پڑنانا صحابی تھے۔ الحمدللہ یہ بڑا اعزاز ہے لیکن یہ اعزاز اس وقت تک ہے جب تک آپ خود بھی ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نیک اور اعلیٰ اور پاک نمونے قائم کرنے والے ہوں گے۔ دین کی اہمیت اپنے اندر اور اپنی نسلوں کے دلوں میں قائم کرنے والے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر آپؑ کی توقعات کے مطابق عمل کرنے والے ہوں گے۔
بعض خواتین اپنے تعارف تو صحابہ کے حوالے سے کروا رہی ہوتی ہیں لیکن لباس اور پردے کی حالت اور فیشن سے لگتا ہے کہ دین پر دنیا غالب آ رہی ہے۔ جماعت سے ایک تعلق تو ہے، ایک پرانا تعلق ہے، خاندانی تعلق ہے ایک معاشرے کا تعلق ہے لیکن ظاہری حالت جو معاشرے کے زیر اثر اب بن رہی ہے وہ دینی لحاظ سے ترقی کی طرف جانے کی بجائے نیچے کی طرف جا رہی ہے۔ اور پھر یاد رکھیں کہ ظاہری حالت کا تعلق دل کی کیفیت سے بھی ہوتا ہے۔اس کا دل پر بھی اثر ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ دل بھی اس ظاہری کیفیت کے زیر اثر آ جاتا ہے۔ اس لئے صرف اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہئے، یہی فخر کا مقام نہیں ہے کہ ہم صحابی کی اولاد ہیں۔ مرد ہو یا عورت، جب تک آپ اپنے اندر خود پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کریں گے باپ دادا کا صحابی ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو فرمایا تھا کہ تمہیں میری بیٹی ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا جب تک تمہارے اپنے عمل نیک نہیں ہوں گے۔ اس لئے جو جلسے کے تین دن ہیں جو گزشتہ ہفتے میں آپ کو تین دنوں کا روحانی ماحول میسر آیا ہے اب گھروں میں بیٹھ کر بھی اس کی جگالی کرتے رہیں۔ بچوں میں، آپس میں اس کے ذکر چلتے رہیں، تقریروں کے موضوعات کے ذکر چلتے رہیں، نصائح کے ذکر چلتے رہیں تو پھر ہی آپ کو فائدہ ہو گا۔ پھر جب آپ سوچیں گے اور غور کریں گے اور اپنے جائزے لیں گے کہ ہم سے کیا توقعات ہیں اور ہم کس حد تک ان پر پورا اتر رہے ہیں، اس جگالی کے نتیجہ میں وہ جائزے بھی سامنے آئیں گے تو پھر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ ہر وقت ہمیں یہ خوف ہونا چاہئے کہ شیطان کہیں ہمارے دلوں پر قبضہ نہ کر لے کیونکہ وہ اسی طاق میں بیٹھا ہے۔ نیکی کے راستوں کی طرف توجہ ہونے کے بعد برائی کے راستوں کی طرف نہ ہم چل پڑیں۔ اللہ تعالیٰ کے دین پر مضبوطی سے قائم ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے دین سے دُور لے جانے والی حرکات ہم سے سرزد نہ ہوتی ہوں۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ

یَا مُقَلِّبَ القُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ

کہ اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ اُمِّ سَلمہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دعا پر مداومت کی وجہ پوچھی، باقاعدگی کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا اے ام سلمہ! انسان کا دل خداتعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے۔ ایک تمثیلی بیان کی ہے، اللہ میاں کی تو دو انگلیاں نہیں ہیں۔ جس شخص کو ثابت قدم رکھنا چاہے اس کو ثابت رکھے اور جس کو ثابت قدم نہ رکھنا چاہے اس کے دل کو ٹیڑھا کر دے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنی باقاعدگی سے یہ دعا کرتے تھے تو ہمارے پر کس قدر فرض ہے کہ یہ دعا کیاکریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو سیدھا رکھے۔ (حوالہ)
خلافت جوبلی کے استقبال کے لئے مَیں نے جودعا ئیں بتائی ہیں اس میں یہ قرآنی دعا بھی شامل ہے کہ

رَبَّنَالاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَامِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔(آل عمر ان:9)

کہ اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا کر۔ یقینا تو بہت عطا کرنے والا ہے۔
پس یہ دعا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا اورنصیحت کے مطابق ہی ہے۔ تو دین کا علم اور دین پر قائم رہنا اور دین پر عمل کرنا اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرنا، اللہ کے فضل سے ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے اپنے دلوں کو ٹیڑھا ہونے سے بچانا نہایت ضروری ہے۔اس لئے ہر احمدی کو خاص طور پر یہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔
بعض معمولی باتیں ہوتی ہیں جو دلوں کو ٹیڑھا کرنے کا باعث بن جاتی ہیں اور عموماً یہی چیزیں ہوتی ہیں۔ مثلاً دو باتیں ہیں ایک شدید محبت اور ایک شدید غصہ جس میں انتہاء پائی جاتی ہو۔ تو اصل میں جو شدید محبت ہے وہی شدید غصے کی وجہ بنتی ہے۔ جب غصہ آتا ہے تو وہ یا تو نفس کی محبت غالب ہونے کی وجہ سے آتا ہے یا اپنے کسی قریبی عزیز کی محبت غالب ہونے کی وجہ سے آتا ہے۔ بعض دفعہ میاں بیوی کی جو گھریلو لڑائیاں یا خاندانی لڑائیاں یا کاروباری لڑائیاں ہوتی ہیں ان میں انسان مغلوب الغضب ہو کر ہوش وحواس کھو بیٹھتا ہے۔ تو جب یہ مغلوب الغضب ہوتا ہے تو اس وقت اپنے نفس سے ہی پیار کر رہا ہوتا ہے۔ اس کو اپنے نفس کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آ رہی ہوتی اور اس کو پتہ نہیں لگ رہا ہوتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔ بالکل ہوش و حواس غائب ہوتے ہیں۔
قضاء میں بعض معاملات آتے ہیں اگر فیصلہ مرضی کے مطابق نہ ہو، ایک فریق کے حق میں نہ ہو تو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ہوش وحواس میں نہیں رہتے۔ صاف جواب ہوتا ہے کہ جو کرنا ہے کر لو۔ اور پھر جب تعزیر ہو جاتی ہے، سزا مل جاتی ہے تو پھر معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے معافی مانگتے ہیں کہ غلطی ہو گئی، ہمیں معاف کر دیں اور پھر فیصلہ پر بھی عملدرآمد کر دیں گے۔ تو یہ تو وہی حساب ہو جاتا ہے ان کا کہ سو جوتیاں بھی کھا لیں اور سو پیاز بھی کھا لئے۔ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی، جھوٹی اَناؤں نے انہیں اپنے قبضے میں لیا ہوتا ہے۔ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اطاعت کرنی ہے۔ ویسے اگر اپنے اوپر کوئی بات نہ ہو، اپنا مسئلہ نہ ہو تو دعوے یہ ہوتے ہیں کہ نظام جماعت پر، خلیفۂ وقت پر ہماری تو جان بھی قربان ہے۔ لیکن اپنے خلاف فیصلہ ہو جائے تو پھر وہ نہیں مانتے۔ اور پھر نہ صرف مانتے نہیں بلکہ جماعت کے خلاف اعتراض بھی کرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ تو ایسے جو لوگ ہیں وہ اس زمرے میں شمار ہوتے ہیں جن کے دل آہستہ آہستہ مستقل ٹیڑھے ہو جاتے ہیں۔ جھوٹی اناؤں کی خاطر، چند ایکڑ زمین کی خاطر وہ اپنا دین بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے عزیز جو مجلس لگاتے ہیں یا ان کو اپنی مجلسوں میں بلاتے ہیں یا بعض دفعہ پاس بٹھا کر کھانا کھلا لیتے ہیں کہ جی مجبوری ہو گئی تھی۔ بعض دفعہ یہ بہانے بن رہے ہوتے ہیں کہ فلاں عزیز کی وفات پر وہ آیا تھا اس لئے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیا۔ تو ایسے لوگ بھی اس مجرم کی طرح بن رہے ہوتے ہیں۔ نظام جماعت کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ خلیفۂ وقت کے فیصلوں کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ جماعت کی تعزیر جو ایک معاشرتی دباؤ کے لئے دی جاتی ہے، اس کو اہمیت نہ دیتے ہوئے چاہے ایک دفعہ ہی سہی اگر کسی ایسے سزا یافتہ شخص کے ساتھ بیٹھتے ہیں جس کی تعزیر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زبانِ حال سے یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ سزا تو ہے لیکن کوئی حرج نہیں، ہمارے تمہارے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے تعلقات قائم ہیں۔ سوائے بیوی بچوں یا ماں باپ کے۔ ان کے تعلقات بھی اس لئے ہوں کہ سزا یافتہ کو سمجھانا ہے۔ اور قریبی ہونے کی وجہ سے ان میں درد زیادہ ہوتاہے اس لئے ایک درد سے سمجھانا ہے۔ ان کے لئے دعائیں کرنی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی جماعتی تعزیر یافتہ سے تعلق رکھتا ہے تو میرے نزدیک اسے نظام جماعت کا کوئی احساس نہیں ہے۔ اور خاص طور پر عہد یداران کو یہ خاص احتیاط کرنی چاہئے۔
پھر بعض دفعہ بعض لوگ غصّے میں ایسے الفاظ کہہ جاتے ہیں جو ہر مخلص احمدی کو برے لگتے ہیں۔ مثلاً لڑائی ہوئی یا گھریلو ناچاقیاں ہوئیں۔ بیوی سے تعلقات خراب ہوئے تو کہہ دیا کہ جو تم نے کرنا ہے کر لو۔ خلیفۂ وقت بھی کہے گا تو مَیں نہیں مانوں گا۔ تو ایسے لوگ پھر آہستہ آہستہ جماعت سے بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ لیکن جن کے سامنے یہ باتیں ہوتی ہیں وہ پریشانی کے خط لکھتے ہیں کہ دیکھیں جی اس کو خلیفہ ٔوقت کا بھی احترام نہیں ہے اس کو سزا ملنی چاہئے۔ ایسے لوگوں کو سزا دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر ان کے اندر جماعت سے تعلق کا کوئی ہلکا سا بھی شائبہ ہے تو جب تعزیز ہو گی یا فیصلہ ہو گا تو ان کو احساس ہو گا کہ ہمیں مان لینا چاہئے۔ اور اگر نہیں مانیں گے تو کسی حق کے ادا کرنے کے لئے سزا ہو گی اور سزا سے علیحدگی ہو ہی جاتی ہے۔ سزا اس لئے نہیں ہو گی کہ اس نے خلیفۂ وقت کو کیوں کچھ کہا۔ خلیفۂ وقت کو کہنے کے لئے تو سزا کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس نے تو خود اعلان کر دیا کہ مَیں نظام جماعت میں شامل نہیں ہوں، مَیں بیعت میں شامل نہیں ہوں اس لئے اس کی فکرکرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ تو خود علیحدہ ہو رہا ہے۔ پھر وہ جانے اور اس کا خدا جانے۔
پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ بہت زیادہ محبت ہو تو اس وجہ سے ٹھوکر لگتی ہے۔ بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے کہ بچے کو سزا ملی ہے تو اس سے محبت کی وجہ سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ بچے کی محبت غالب آ جاتی ہے اور نظام جماعت کے خلاف ماں باپ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، بہن بھائی ایک دوسرے کی محبت غالب آنے کی وجہ سے نظام کے فیصلوں پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح بعض دوسرے رشتے بھی ہیں۔ تو بہرحال محبت اور غضب کی وجہ سے یعنی ان دونوں میں شدت کی وجہ سے یہ برائیاں عموماً پیدا ہوتی ہیں۔
پس ہر احمدی کو یہ بھی ہر وقت ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب بھی ایسے معاملات ہوں اونچ نیچ ہو جاتی ہے، نظام جماعت سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں، قضاء سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن ہمیشہ ٹھنڈے دل سے ان فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اگر کوئی اپیل کا حق ہے توٹھیک، نہیں تو جو فیصلہ ہوا ہے اس کو ماننا چاہئے۔ کوئی رشتہ، کوئی تعلق نظام جماعت اور نظام خلافت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہیں آنا چاہئے۔ نہیں تو یہ عہد کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے یہ دعوے کھوکھلے ہیں۔ پس اگراس دعوے کو سچا ثابت کرنا ہے تو ہر تعلق کو خالصتاً للہ بنانا ہے۔ اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرنے ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور نظام کا بھی احترام کرنا ہے۔ تو پھر ان دعاؤں کے وارث بنیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کیں اور اُن توقعات پر پورا اتریں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں سے رکھی ہیں۔ اگرہم سچے اور پکے احمدی ہیں تو ہمیں ہمیشہ ان توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ ان راستوں پر چلنا چاہئے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے لئے متعین کئے ہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’ ہماری جماعت کو واجب ہے کہ اب تقویٰ سے کام لے اور اولیاء بننے کی کوشش کرے‘‘۔ پھر فرماتے ہیں :’’یاد رکھو کہ سچے اور پاک اخلاق راستبازوں کا معجزہ ہے جن میں کوئی غیر شریک نہیں۔ کیونکہ وہ جو خدا میں محو نہیں ہوتے وہ اوپر سے قوّت نہیں پاتے اس لئے ان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ پاک اخلاق حاصل کر سکیں۔ سو تم اپنے خدا سے صاف ربط پیدا کرو۔ ٹھٹھا، ہنسی، کینہ وری، گندہ زبانی، لالچ، جھوٹ، بدکاری، بدنظری، بدخیالی، دنیا پرستی، تکبر، غرور، ‘‘تکبر اور غرور ہی ہے جو بہت سارے جھگڑوں کی بنیاد بنتا ہے’’خود پسندی‘‘، یہ بھی بہت بڑی وجہ ہے، جھگڑوں کی بنیاد کی’’ شرارت، کج بحثی‘‘،بلاوجہ بحث میں پڑ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ’’ یہ سب چھوڑ دو۔ پھر یہ سب کچھ تمہیں آسمان سے ملے گا‘‘۔ یعنی اعلیٰ اخلاق تمہیں تب ملیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب تب ملے گا۔’’ جب تک وہ طاقت بالا جو تمہیں اوپر کی طرف کھینچ کر لے جائے تمہارے شامل حال نہ ہو اور روح القدس جو زندگی بخشتا ہے تم میں داخل نہ ہو تب تک تم بہت ہی کمزور اور تاریکی میں پڑے ہوئے ہو۔ بلکہ ایک مردہ ہو جس میں جان نہیں۔ اس حالت میں نہ تو تم کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہو، نہ اقبال اور دولتمندی کی حالت میں کبر اور غرور سے بچ سکتے ہو‘‘۔بہت سارا کبر اور غرورپیسہ آنے کی وجہ سے آ جاتا ہے اگر اپنی زندگیوں میں غور کریں تو آپ کو نظر آئے گا۔’’ اور ہر ایک پہلو سے تم شیطان اور نفس کے مغلوب ہو۔ سو تمہارا علاج تو درحقیقت ایک ہی ہے کہ روح القدس جو خاص خدا کے ہاتھ سے اترتی ہے تمہارا منہ نیکی اور راستبازی کی طرف پھیر دے۔ تم

اَبْنَآء السَّمَآء

بنو نہ

اَبْنَآء الْاَرْض‘‘

(آسمان کی طرف جانے والے بنو، زمین کی طرف نہیں) ’’اور روشنی کے وارث بنو۔نہ تاریکی کے عاشق۔ تا تم شیطان کی گزر گاہوں سے امن میں آ جاؤ۔ کیونکہ شیطان کو ہمیشہ رات سے غرض ہے دن سے کچھ غرض نہیں۔ کیونکہ وہ پرانا چور ہے جو تاریکی میں قدم رکھتا ہے‘‘۔(کشتیٔ نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ45)
پس یہ ہے اس تعلیم کا خلاصہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان توقعات پر پورا اترنے والے ہوں۔ ابناء السماء بننے والے ہوں نہ کہ ابناء الارض۔ عرش سے ہمارا تعلق ہو۔ عرش سے تعلق جوڑنے والے ہوں نہ کہ دنیا داری میں پڑ کر جھوٹی اناؤں کی نظر ہو کر دنیا کے بندے بن جائیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا، ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ کس حد تک ہم ان پر برائیوں سے بچنے والے ہیں یا بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل مانگتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو زمانے کے امام کی جماعت سے چمٹائے رکھیں کہ اِس میں ہی ہماری بقا ہے۔ اِس میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ اِسی سے ہمیں دنیا و آخرت کے فائدے حاصل ہونے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں