خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 9؍ستمبر 2005ء

ہر احمدی کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جو فرائض اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں ان کوادا کرنے کی کوشش کرے۔
اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔ اس معاشرے میں جہاں قدم قدم پر گند اور بے حیائی ہے اپنے آپ کو ا س سے بچائیں۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 09؍ستمبر 2005ء (09؍ تبوک 1384ہجری شمسی)بمقام مسجد نصرت جہاں۔کوپن ہیگن (ڈنمارک)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُم تَعْلَمُوْنَ (الصف:12-11)

آپ میں سے جو یہاں اس ملک میں آباد ہیں، بہت سے ایسے ہیں بلکہ شاید چند ایک کے سوا اکثریت ایسوں کی ہے جن کے باپ دادا کو، بزرگوں کو، اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ان کی نیکیوں کے سبب، ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ انبیاء پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کفر کی حالت میں بھی کی گئی نیکیوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا اور ان کا بدلہ دیتا ہے۔
کہتے ہیں ایک بوڑھا جو آگ کو پوجنے والا تھا، شدید بارش کے دنوں میں ایک دفعہ جبکہ کئی دن سے بارش پڑرہی تھی، ہر طرف پانی ہی پانی کھڑا تھا، پرندوں کو دانہ کھانے کے لئے کوئی جگہ میسر نہیں تھی۔ تو وہ بوڑھا آتش پرست اپنے گھرکی چھت پہ کھڑا پرندوں کو دانہ ڈال رہا تھا، دانہ پھینک رہا تھا کہ پرندے آکے کھالیں۔ کسی نے دیکھ کر کہا کہ تم آتش پرست ہو، تمہیں اس کا کیا ثواب ملے گا، اگر مسلمان ہوتے تو اس نیکی کا ثواب بھی تمہیں ملتا۔ اس آتش پرست نے،آگ کو پوجنے والے نے کہا کہ ثواب تم نے تو نہیں دینا، تمہیں کیا پتہ خدامیرے ساتھ کیا سلوک کرے، کیونکہ ہر مذہب والے کے دل میں فطرتی طور پر خدا کا تصور بہرحال ہوتا ہے۔ پھر ایک دفعہ یہی مسلمان جس نے اس آتش پرست کو یہ بات کہی تھی، حج کرنے گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ آتش پرست بھی وہاں حج کررہا تھا۔ اس نے پوچھا تم یہاں کس طرح آگئے؟ تو اس آتش پرست نے جواب دیا کہ مَیں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ اگر یہ میری نیکی ہے تو اس کا اجر مجھے ضرور ملے گا۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی صورت میں اس کا اجر مجھے دیا اور آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حج بھی کررہا ہوں اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہوں۔
تو اللہ تعالیٰ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرتا۔ پس جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت کی توفیق ملی، آپ سے براہ راست فیض پانے کی توفیق ملی اور یوں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق عمل کرکے پہلوں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ملنے کی توفیق پائی اور اس طرح صحابہ کا درجہ پایا پس یقینا ان میں نیکی تھی۔ ان میں اسلام کی گرتی ہوئی حالت دیکھ کر ایک فکر کی کیفیت تھی۔ ان میں خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی ایک تڑپ تھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی نیکیوں اور ان کی اس تڑپ کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے، آپ پر ایمان لانے اور پھر اس ایمان پر مضبوط ہوتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائی۔
پھر خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ کے ابتدائی زمانے میں آپ میں سے بعض کے باپ دادا نے، بزرگوں نے بیعت کی، احمدیت قبول کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔پس ان بزرگوں نے ان نیکیوں کا صلہ پایا جو انہوں نے پہلے کبھی کی تھیں۔ اور یقینا انہوں نے یہ دعائیں بھی کی ہوں گی کہ ان کی اولادیں بھی اس نعمت سے فیضیاب ہوتی رہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں آپ کے ماننے والوں کی معاشی حالت اتنی اچھی نہیں تھی بلکہ اکثریت معاشی لحاظ سے، مالی لحاظ سے کمزور طبقے سے آئے ہوؤں کی تھی۔ اور انبیاء کو عموماً معاشی لحاظ سے کمزور لوگ ہی مانتے ہیں۔ کیونکہ عموماً ان میں خوف خدا زیادہ ہوتا ہے۔ بہرحال بات ہو رہی تھی ان پہلے ایمان لانے والوں کی جن کی آپ میں سے اکثریت اولاد یں ہیں۔ آج ان مغربی ملکوں میں آ کر آپ کے معاشی حالات پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ لیکن ان معاشی حالات کی بہتری یا آپ کے کاروباروں یا کام میں زیادتی آپ کو ان نیکیوں سے دور نہ لے جائے جن کی وجہ سے آپ کے بزرگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق ملی۔
وہ بزرگ تو نیکیوں پر قدم مارتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، نیک اعمال بجا لاتے ہوئے اور دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ لیکن اب آگے ہمارا،ان کی اولادوں کا، فرض بنتا ہے کہ ان کی نیکیوں کو قائم کرنے کی ہر دم کوشش کریں، ہر وقت کوشش کریں۔ ان بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں۔ آج ہمارے معاشی حالات کی بہتری اور بعض سہولتیں اور آسائشیں ہمیں اللہ تعالیٰ سے غافل نہ کر دیں۔ اور جب انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جائے تو پھر شیطان کے قبضے میں چلا جاتا ہے، بہت سی برائیوں میں ملوث ہو جاتا ہے اور ہوش اس وقت آتا ہے جب انتہائی ضلالت اور گمراہی کے گڑھے میں پڑے ہوتے ہیں۔ اولاد برباد ہو رہی ہوتی ہے۔ اس وقت خیال آتا ہے کہ ہم سے بڑی غلطی ہوئی۔ہم دنیادار ی میں پڑ کر دین کو بھول گئے، اپنے خدا کو بھول گئے۔اس کے حضور جھکنے کی بجائے ہم نے اپنے کاموں، اپنے کاروباروں، اپنی نوکریوں کو زیادہ اہمیت دی۔ لیکن جب یہ حالت ہوجائے تو پھر ایسی حالت میں کف افسوس ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، پھر افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے ہمیں قرآن کریم میں بے شمار جگہ اپنی ایمانی حالت کو درست کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس کے لئے مختلف راستے دکھائے ہیں کہ کس کس طرح تم اپنی ایمانی حالت کو درست رکھ سکتے ہو۔ اور نتیجۃً آگ کے عذاب سے بچ سکتے ہو۔
جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں دو باتوں کا ذکر ہے۔ ایمان لانے والوں کو فرمایا کہ: ایمان لانے کے بعد تمہاری یہ حالت نہ ہو جائے کہ پھر تم آگ کے گڑھے میں چلے جاؤ۔اور اس سے بچنے کے لئے فرمایا کہ: جو تجارت تمہیں آگ کے عذاب سے بچانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہو گی اس کے بارے میں مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کیا ہے۔ وہ تجارت ہے جان اور مال اللہ کی راہ میں قربان کرنا، جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری بھی دی کہ تم مسیح و مہدی کو مان کر، اس پر ایمان لا کر پہلوں سے مل سکتے ہو۔ صحابہ سے مل سکتے ہو۔ تو صحابہ کے مال و جان کی قربانی کے معیار بہت بلند تھے ان پر بھی تو قدم مارنا ہو گا۔اس زمانے میں جس صورت میں ہمیں پہلوں سے ملنے کی خوشخبری دی ہے وہاں ایسی صورت میں کھیل کود اور تجارت کا ذکر کرکے نصیحت بھی کی ہے کہ اللہ کے پاس جو فوائد ہیں، ایمانی حالت میں ترقی کرکے جوفوائد تمہیں پہنچیں گے وہ کھیل کود اور دنیاوی کاموں سے بہت بڑے ہیں۔ اس زمانے میں کھیل کود کی بھی انتہا ہوئی ہوئی ہے۔ اگر کھیل کے میدان میں نہ بھی جائیں تو گھر بیٹھے ہی کمپیوٹر کے اوپر، ٹیلی ویژن کے اوپر، یا اور اس طرح کی چیزیں ہیں، ایسی دلچسپی کی چیزیں ہیں جو اسی زمرے میں آتی ہیں، جن میں آدمی ایک دفعہ لگ جائے تو اٹھنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ بعض کمپیوٹر والوں کو تو ایک طرح کا نشہ ہے۔ جب آدمی اس پر بیٹھاہو تو بھول جاتا ہے کہ نماز کا وقت بھی ہو گیا ہے یا نہیں،جمعہ پر بھی جانا ہے کہ نہیں۔پھر تجارتیں ہیں، کام ہیں، نوکریاں ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا، یہ چیزیں بھی نمازوں سے، جمعوں سے، عبادتوں سے، غافل کرنے والی ہیں اور آہستہ آہستہ جب انسان ان میں بہت زیادہ انوالو (Involve) ہو جاتا ہے تو پھر ایمان بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ اگر انسان ایک جمعہ نہیں پڑھتاتو دل کا ایک حصہ سیاہ ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ جمعے چھوڑتے چلے جانے سے پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ تو جمعوں کی اہمیت، جمعہ پڑھنے کی اہمیت ہر احمدی کے دل میں ہونی چاہئے۔ او رکوئی پروگرام، کوئی کھیل کود، کوئی کام یا کاروبار جمعہ کی نماز کی ادائیگی میں حائل نہیں ہونا چاہئے۔
اس دن کے بابرکت ہونے کا،دعاؤں کی قبولیت کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جب مسلمان کو اس میں ایسا وقت ملتا ہے اور جب وہ کھڑا ہو کے نماز پڑھ رہا ہو، تو جو دعا وہ کرے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لیتا ہے۔ آپؐ نے ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ وہ چھوٹاسا وقت ہوتا ہے، بہت مختصر وقت ہوتا ہے، اس لئے جو لوگ مختصر وقت کے لئے، آخری وقت میں جب خطبہ ختم ہونے والا ہو، جمعہ پڑھنے آتے ہیں کہ جلدی جلدی نماز سے فارغ ہو کر اپنے کام پر چلے جائیں گے یا اپنی کھیل کود کو چھوڑکر تھوڑی دیر کے لئے بے دلی سے مسجد میں آتے ہیں کہ جلدی جلدی فارغ ہو کر چلے جائیں گے۔ تو ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حدیث میں آتا ہے کہ جو خطبہ ہے یہ بھی نماز کا حصہ ہے۔ اس لئے جمعہ کی نماز کی دو رکعتیں کی گئی ہیں۔ ان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت یاد رکھنی چاہئے۔ اس خوشخبری سے فائدہ اٹھانا چاہئے کہ دعاؤں کا وقت میسر آتا ہے اور کس کودعاؤں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لئے جمعہ کی نماز پر بڑی توجہ سے، پابندی سے آنا چاہئے۔ اس پابندی سے آئیں گے، اس کوشش سے آئیں گے تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔ آپ کی دعائیں بھی قبولیت کا شرف پا رہی ہوں گی۔ اور دنیاوی فوائد بھی آپ کو حاصل ہو رہے ہوں گے۔پس ہر احمدی کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جو فرائض اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں ان کو ادا کرنے کی کوشش کرے۔
آج کل نفس کا جہاد یہی ہے کہ دنیاوی فوائد بھی اگر ہو رہے ہوں تو یاد رکھو کہ یہ عارضی فوائد ہیں اس لئے دین کی خاطر ان عارضی فوائد کی پرواہ نہیں کرنی۔ پھر نفس کے جہادمیں تمام قسم کی برائیوں کو چھوڑنے کا جہاد ہے۔ حقوق العباد ادا کرنے کے لئے جہاد ہے۔ تب کہا جا سکتا ہے کہ ہم ایمان لانے والے ہیں، ہم اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں۔ عہد تو ہم یہ کرتے ہیں کہ اے مسیح موعود! (علیہ السلام) تیری جماعت میں شامل ہونے کے بعد خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے لیکن ہمارے عمل اس کے الٹ ہوں، ہماری برادریاں، ہماری رشتہ داریاں، ہماری دوستیاں، ہم پر جماعتی وقار سے زیادہ حاوی ہو جائیں، ہماری انائیں جماعتی عزت پر حاوی ہو جائیں اگریہ باتیں ہم میں ہیں تو یہ سب دعوے اور یہ سب عہد جھوٹے ہیں۔
پس ہر احمدی گہرائی میں جاکر اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہے؟ اور فی زمانہ اپنی جان قربان کرنے کا مطلب اپنے نفس کی قربانی ہے۔ اور نفس کی قربانی جماعت کا وقارقائم کرنے کے لئے بھی دینی ہو گی۔ اور دوسروں کے حقوق ادا کر نے کے لئے بھی دینی ہو گی۔ جھوٹی اناؤں اور عزتوں کو ختم کرنے کے لئے بھی دینی ہو گی۔پھر مال کا جہاد ہے، مالی قربانی ہے۔ ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ جو مالی کشائش اللہ تعالیٰ نے آپ میں پیدا کی ہے کیا اس کے مطابق چندوں کی ادائیگی کر رہے ہیں ؟ دنیاوی خواہشیں تو کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ ایک کے بعد دوسری خواہش تیار ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہر احمدی، کمانے والا احمدی،اپنے اوپر فرض کر لے کہ میری آمد کا سولہواں حصہ میرا نہیں ہے بلکہ جماعت کا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر مَیں نے جماعت کو دینا ہے تو مجھے یقین ہے آپ کے بجٹ یہاں بھی کئی گنابڑھ سکتے ہیں۔
الحمدللہ کہ وصیت کرنے کی تحریک کے بعد سے آپ کے موصی صاحبان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ چار گنا تقریباً۔ بارہ سے چوالیس ہو گئے ہیں۔ چھوٹی سی جماعت ہے۔ گو اتنی چھوٹی بھی نہیں۔ ابھی بہت گنجائش باقی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے یہ اضافہ بھی بالکل نوجوانوں اور عورتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ ابھی میں نے جائزہ نہیں لیا، جب جائزہ لیا جائے گا تو پتہ لگ جائے گا کہ صورت حال کیا ہے۔ تو بڑی عمر کے اور اچھا کمانے والے جو لوگ ہیں ان کو بھی وصیت کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ الحمدللہ یہ بات مجھے نظر آئی ہے کہ نوجوان بچے اور بچیاں احمدیت سے رشتے اور تعلق میں زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ اللہ ان کے ایمان میں مزید ترقی دے لیکن بعض دفعہ بعض بڑوں کی حرکتوں کی وجہ سے نوجوانوں کو ٹھوکر بھی لگ سکتی ہے۔ اس لئے نوجوانوں کے اس تعلق اور اخلاص میں بڑھنے کی وجہ سے جماعت کے بڑوں پر اور زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان کو اور زیادہ فکر سے اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں تاکہ کبھی کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں۔ اپنے نفس کی قربانیوں میں اور زیادہ ترقی کریں۔ اپنی مالی قربانیوں میں اور زیادہ ترقی کریں۔ اپنے بزرگوں کے نمونوں کو بھی دیکھیں، اپنے پہلے حالات پر بھی نظر رکھیں اور اپنے موجودہ حالا ت پر بھی خداتعالیٰ کا شکرادا کریں۔ اور شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں اپنے پر اظہار ہو رہا ہو وہاں اللہ تعالیٰ کی خاطر دینے کا بھی اظہار ہو رہا ہو۔ اور ہر قسم کی قربانی میں پہلے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اپنی اگلی نسل کے لئے بھی نیک نمونے قائم کریں۔ یہی باتیں ہیں جو آ پ کے ایمان میں ترقی کا بھی باعث بنیں گی اور احمدیت کی نوجوان نسل کے جماعت کے ساتھ بہتر تعلق اور نیکیوں میں بڑھنے کا بھی باعث بنیں گی۔ نوجوانوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ آپ لوگ جو اپنے ہوش و حواس کی عمر میں ہیں۔ جماعت سے اپنے تعلق کو مزید پختہ کریں۔ اپنے نمونے قائم کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بتائی ہوئی تعلیم پر عمل کریں۔ اگر برائی کسی میں دیکھتے ہیں تو اس پر اعتراض شروع کرکے اس پر ٹھوکر نہ کھائیں۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔ اس معاشرے میں جہاں قدم قدم پر گند اور بے حیائی ہے اپنے آپ کو اس سے بچائیں۔ اللہ کے حضور جھکنے والے بنیں۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے بنیں۔ کیونکہ یہی چیز ہے جس سے آپ کا خداتعالیٰ سے مزید پختہ تعلق پیدا ہو گا۔ مزید مضبوط تعلق پیدا ہو گا۔ اور جب اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے گا تو پھر نیکیوں میں قدم آگے بڑھے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا مزید فہم اور ادراک پیدا ہو گا۔ایمان میں مزید ترقی ہو گی۔
صرف اس بات پر ہمیں خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان لیا ہے اور بس کافی ہے۔ یہ تو ماننے کے بعدایک پہلا قدم ہے۔ ایمان میں ترقی ہو گی تو مومن کہلائیں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی بعض ان پڑھ جاہل لوگوں کو یہ جواب دیاتھا کہ ٹھیک ہے تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور تم مسلمان ہو گئے لیکن ایمان کے اعلیٰ معیار تمہیں حاصل نہیں ہوئے۔ ابھی بہت گنجائش ہے۔ پکے مومن تب کہلاؤ گے جب ایمان میں ترقی کرو گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے پہلے دن بھی ان بدوؤں پر بہت اثر ڈالا لیکن تب بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابھی بہت گنجائش ہے۔ تو آجکل تو اور بھی زیادہ گنجائش ہے جیسا کہ اللہ میاں قرآن کریم میں اعراب کو مخاطب کرکے فرماتا ہے

قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا۔قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَاوَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ (الحجرات:15)

بادیہ نشین یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ توُ کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے لیکن صرف اتنا کہا کرو کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں۔ جبکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں پور ی طرح داخل نہیں ہوا۔
پس نئے احمدی ہوں یا پرانے، بوڑھے ہوں یا نوجوان، یاد رکھیں کہ کامل مومن صرف مان لینے سے نہیں بن جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر بھی عمل کرنا ہو گا کہ نیکیوں میں آگے بڑھو۔

فَاسْتَبِقُوْاالْخَیْرَات۔

پس یہ نیکیوں میں آگے بڑھنا ہی ہے جو ایمان میں مضبوطی پیدا کرتا ہے اور جب ایمان میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے تو پھر ایک مومن مال اور جان کی قربانی میں بھی دریغ نہیں کرتا۔ اور یہ طاقت خداتعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس کا عبد بننے سے ہی حاصل ہوتا ہے،اس کابندہ بننے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ایمان کے لئے خشوع کی حالت مثل بیج کے ہے۔ لغو باتوں کے چھوڑنے سے ایمان اپنا نرم نرم سبزہ نکالتا ہے اور پھر اپنا مال بطور زکوٰۃ دینے سے ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں جو اس کو کسی قدر مضبوط کرتی ہیں اور پھر شہوات نفسانیہ کا مقابلہ کرنے سے ان ٹہنیوں میں خوب مضبوطی اور سختی پیدا ہوجاتی ہے۔ اور پھر اپنے عہد اور امانتوں کی تمام شاخوں کی محافظت کرنے سے درخت ایمان کا اپنے مضبوط تنے پر کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر پھل لانے کے وقت ایک اور طاقت کا فیضان اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس طاقت سے پہلے نہ درخت کو پھل لگ سکتا ہے نہ پھول‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سورۃ المومنون۔ زیر آیت 1تا 5)
تو فرمایا کہ جب تک عاجزی پیدا نہیں ہو گی، نفس کی قربانی کا جذبہ پیدا نہیں ہو گااس وقت تک ایمان نہیں بڑھ سکتا۔ پس یہ عاجزی اور نفس کی قربانی ہے اگر پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے دل میں، دل کی زمین پہ ایمان کا بیج بویا گیا ہے۔ اس لئے اپنے اندر ایمان پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے عاجزی کو اپنے اندر جگہ دو۔ پس جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ اپنے اندر عاجزی اور نفس کی قربانی پیدا کریں گے تو تب ایمان میں ترقی کرنے کے لئے دل کی زمین تیار ہوگی،۔
پھر فرمایا کہ: لغو باتیں ہیں۔ اس میں کھیل کود بھی ہیں،جیسا کہ پہلے میں بتا آیا ہوں ایسے کھیل بھی ہیں جو عبادتوں سے روکنے والے ہیں۔ پھر یہ لغویات ہیں جو جھوٹی اناؤں اور عزتوں کی طرف لے جانے والی ہیں۔ پھر اس قسم کی اور لغویات ہیں جو مختلف قسم کی برائیاں ہیں۔ تو پہلی بات یہ ہے کہ عاجزی اختیار کرو تو ایمان دل میں جگہ پائے گا۔ پھر لغو اور بیہودہ باتوں کو ترک کرو۔ لوگوں کے حقوق مارنے سے بچو۔ تو ایمان کا یہ بیج جو عاجزی اختیار کرنے سے، بے نفسی کی وجہ سے تمہارے دل میں آ گیا تھایہ پھر پھوٹنا شروع ہو جائے گا۔ اور جس طرح کھیت میں جب بیج باہر نکلتا ہے، یہاں بھی آپ نے دیکھا ہو گا، فصلیں لگتی ہیں تو تھوڑی تھوڑی ہریالی نظر آنی شروع ہو جاتی ہے۔ زمین پر مٹی اور ہریالی دونوں نظر آ رہی ہوتی ہیں۔ تو اس عاجزی کا بیج جو دل کی زمین پر ایمان کی مضبوطی کے لئے لگایا گیا ہے تب اگنا شروع ہو گا جب تم ہر قسم کی لغویات سے بھی بچو گے، تم تمام قسم کی برائیوں کو بھی چھوڑو گے۔لیکن ابھی نرم حالت میں ہو گا۔ اس نے پوری طرح زمین کو ڈھانکا بھی نہیں ہو گا۔ چلنے والے کے پاؤں تلے آ کے کچلا بھی جا سکتا ہے۔ شیطان کے حملوں سے بھی وہ کچلا جاسکتا ہے۔ اپنی اناؤں اور جھوٹی غیرتوں کے نیچے کچلا جا سکتا ہے۔ پھر آگے فرمایا کہ جب زکوٰۃ دو گے۔ مالی قربانی کروگے اور اپنے پاک مال سے، حلال ذریعہ سے کمائے ہوئے مال سے زکوٰۃ دو گے۔ یہ نہیں کہ مالی دباؤ سے مجبور ہوکر شراب بیچنے یا اس قسم کے جو دوسرے کاروبار ہیں ان میں پڑ جاؤ۔ ایسے مال پر اگر تم چندہ دو گے تو اس سے مال پاک نہیں ہو سکتا۔ زکوٰۃ کا مطلب ہے کہ پاکیزہ مال اور مال کو پاک کرنے کے لئے، تمہاری روحانیت کو پاک کرنے کے لئے مال کی قربانی۔ جیسا کہ بعض غیر احمدیوں میں رواج ہے، اپنے کاروبار ناجائز طور پر کرتے ہیں۔ لوگوں کو لوٹتے ہیں یا گھٹیا سودا بیچتے ہیں یا کوالٹی اچھی نہیں ہوتی یا شراب بیچنے والے ہیں اور پھر حج پر جا کر یا تھوڑا بہت صدقہ و دقہ کرکے سمجھتے ہیں کہ بہت نیک کام کر لیا اور اسی طرح واپس آ کر پھر وہی پرانے دھوکے شروع ہو جاتے ہیں۔ تو ایسے حج اور ایسے صدقے کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ جو مستقل صاف کرنے والے نہ ہوں یا حرام ذریعہ سے کمائے ہوئے مال سے ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو پاک مال چاہئے تاکہ تمہارا تزکیہ ہو۔ اور جب اس پاک مال سے تزکیہ نفس بھی ہو گا اور یہ ان پہلی دو قسم کی نیکیوں میں بھی شامل ہو جائے گا۔مالی قربانیوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی تو پھر وہ ایمان کا پودا بڑھتا ہے اور پھر اس کی ٹہنیاں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں پھر وہ نرم پودا نہیں رہتا۔ پس ایمان کے پودے کی بڑھوتڑی کے لئے پاک مال سے کی گئی مالی قربانی بھی ضروری ہے۔ پھر شہوات نفسانیہ ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنا ہے۔ ان ملکوں میں آزادی کی وجہ سے بہت سی بے ہودگیاں ہیں۔ جگہ جگہ پر غلاظتیں ہیں، نفسانی خواہشات ہیں، جن میں پڑ کر انسان اپنے اندر اپنے ایمان کے پودے کو کمزور کرنے والا بن جاتا ہے۔
پس یہ ایمان کی نرم ٹہنیاں بھی اس وقت مضبوط ہوں گی جب اپنے نفس پر کسی برائی کو غالب نہیں آنے دو گے۔ اورجب یہ چیز حاصل کر لو گے تو ایمان میں مزید مضبوطی پیدا ہو گی اور پھر اگلا قدم یہ ہے کہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے تمہارے جتنے بھی عہد ہیں ان کی حفاظت کرو۔ جتنی امانتیں ہیں ان کی حفاظت کرو۔ ہر احمدی کا بہت بڑا عہد اس زمانے کے امام کے ساتھ ہے، ان کو مان کرہے۔ جو عہد بیعت آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہوا ہے، ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ ان دس شرائط بیعت کی پابندی کر رہا ہے؟ ہر احمدی خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہے کہ اے خدا! مَیں تیری تعلیم کو بھلا بیٹھا تھا لیکن اب مسیح موعود کے ہاتھ پر عہد کرتا ہوں کہ میرے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما آئندہ انشاء اللہ میں اس عہد پر قائم رہوں گا۔
پھر عہدیداروں کے عہد ہیں۔ ان کے سپرد امانتیں ہیں۔ وہ جائزے لیں کہ کہاں تک وہ اپنے عہد اور اپنی امانتیں پوری طرح ادا کر رہے ہیں۔ ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جائزہ لیں کہ اپنے کام، اپنے فرائض کا حق ادا نہ کرکے وہ کہیں گناہگارتو نہیں ہو رہے۔ وہ اپنے ایمانوں میں ترقی کرنے کی بجائے، ایمانی پودے کی حفاظت اور آبیاری کی بجائے اس کو سکھا تو نہیں رہے۔ کیونکہ ایمان کی مضبوطی کے لئے ہر پہلو پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے جائزہ لیں کہ کوئی پہلو ایسا تو نہیں رہ گیا جس سے میرا ایمان وہیں رک گیاہو۔ مجھے تو حکم ہے کہ تم نے نیکیوں میں ترقی کرنی ہے۔ جہاں نیکیوں میں ترقی رکی وہاں ایمان کی ترقی بھی رک جائے گی۔ غرض یہ عہد اور امانتیں اس قدر ہیں کہ جس کی انتہا نہیں ہے۔ ایک عہد سے دوسرا عہد سامنے آتا چلا جاتا ہے۔ اور ایک امانت کی ادائیگی کے بعد دوسری امانت کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ چاہے وہ ایک عام احمدی کی طرف سے ہو، عہدیداروں کی طرف سے ہو یا کسی ذمہ دار کی طرف سے ہو۔ اور یہیں پر بس نہیں ہے۔ بلکہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد جو تم نے ایمان کے درخت کو مضبوط کیا ہے اس پر بھی ابھی پھل نہیں لگے گا جس سے تم بھی فیض پا سکو اور دوسرے بھی فیض اٹھائیں۔ اس کے لئے اور طاقتیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ غرض یہ ایک مسلسل عمل ہے جس کو تا زندگی جاری رکھنا ہو گا۔ اور جب ان نیکیوں میں اور ایمان کو مضبوط کرنے کی کوشش میں باقاعدگی آجائے گی پھر ایمان ایسی حالت میں پہنچ جائے گا کہ جب ہر فعل خود بخودخدا کی رضا حاصل کرنے والا فعل ہو گا۔ پس ہر احمدی کو اپنے ہر فعل سے خدا کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔ جب یہ صورت ہو جائے گی تو اپنے ماحول پر بھی آپ پہلے سے بہت بڑھ کر اثر انداز ہو رہے ہوں گے۔ اور احمدیت اور حقیقی اسلام کے پیغام کو لوگوں کی ہمدردی اور خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے پھیلا رہے ہوں گے۔ اللہ کرے کہ آپ اس طرف توجہ کریں۔ اپنی ایمانی حالت میں بھی ترقی کرنے والے ہوں اور دنیا کو بھی احمدیت کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرنے والے ہوں۔ اور آپ کی زندگی بھی پھل لانے والی زندگی بن جائے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’خداتعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے‘‘۔(تقریریں صفحہ21۔بحوالہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریرات کی رو سے۔جلد اول صفحہ 156)۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت جو دنیا میں ختم ہو گئی دوبارہ لے کے آئے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو‘‘۔ جو اپنے آپ کو میری جماعت میں شامل سمجھتے ہو۔’’آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خداتعالیٰ کو دیکھتے ہو۔ اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جوزکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے۔ جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو۔ اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو۔ یاد رکھو کہ کوئی عمل خداتعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا جوتقویٰ سے خالی ہو‘‘۔ (کشتیٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ15)
نیکی کے ادا کرنے کے جو لوازمات ہیں، باتیں ہیں ان کو پوری طرح ادا کرنا چاہئے۔ اور بدی سے بیزاری ہونی چاہئے۔ اس طرف توجہ ہی نہیں پیدا ہونی چاہئے۔ پس یہ تقویٰ ہی ہے جو ایمان کو بڑھاتا ہے۔ آپ لوگ ہمیشہ، جیسا کہ مَیں نے کہا، اپنے جائزے لیتے رہیں۔اگر ہم خود ہی اپنے جائزے لیتے رہیں اور تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے یہ جائزے لیں تو کمزوریاں بھی سامنے آئیں گی اور اصلاح کی توفیق بھی ملے گی۔ اللہ ہم سب کو اپنی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے اور اس کی رضا حاصل کرتے ہوئے ہم نیکیوں میں قدم بڑھانے والے ہوں۔ (آمین)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں