خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 2؍دسمبر2005ء

جماعت احمدیہ کے جلسوں کے خاص مقاصد ہوتے ہیں اور سب سے بڑا مقصد اللہ تعالیٰ کاتقویٰ اختیار کرناہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کرنا ہے۔
ہمیشہ ایسے نظریات اور فلسفوں سے بچوجوتمہیں خدا سے دور لے جانے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم میں ایسے فلسفوں کوردّکرنے کی تمہیں دلیل مل جائے گی۔
نمازوں کے قیام، ایم ٹی اے سے بھرپور استفادہ، خاص طورپر خطبہ جمعہ کو ضرور سننے اوراعلیٰ اخلاق کی طرف خصوصی توجہ دینے کی تاکید۔
(جماعت احمدیہ ماریشس کے سالانہ جلسہ کے موقع پرخطبہ جمعہ میں احباب جماعت کونہایت اہم نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 02؍دسمبر 2005ء (02؍ فتح 1384ہجری شمسی)بمقام ماریشس

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْاللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (التوبۃ: 119)

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ماریشس کا 44واں جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ میری موجودگی میں یہ جلسہ پہلا جلسہ ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ کسی بھی خلیفۃ المسیح کی موجودگی کا یہ پہلا جلسہ ہے جو جماعت احمدیہ ماریشس منعقد کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے اور یہ جلسہ جماعت کی روحانی اور عددی ترقی میں ایک سنگ میل ثابت ہو۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جماعت احمدیہ کے جلسوں کے خاص مقاصد ہوتے ہیں اور سب سے بڑا مقصد اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے،
اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کرنا ہے۔ اس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا کرنا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے یہ دن آپ لوگ دعاؤں اور عبادتوں میں گزارنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ مقصد آپ نے حاصل کر لیا اور پھر اسے اپنی زندگیوں کا ہمیشہ اور دائمی حصہ بنانے کی کوشش کی تو سمجھیں آپ کا اس جلسہ میں شمولیت کا مقصدپورا ہو گیا۔
پس ان دنوں میں خاص طور پر اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔اور ان تین دنوں میں آپ خود بھی اور آپ کے عزیزوں اور دوستوں کو بھی یہ احساس ہو کہ واقعی آپ نے اپنے اندر نمایاں تبدیلی پیدا کی ہے۔ اگر یہ تبدیلیاں پیدا نہیں ہو رہیں، آپ کے نیکی اور تقویٰ کے معیار نہیں بڑھ رہے تو پھر اس جلسے میں شمولیت بے فائدہ ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑا واضح طور پر فرما دیا ہے کہ یہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے جہاں لو گ جمع ہوں اور آپس میں گھلیں ملیں۔ شور شرابہ ہو، نعرے بازی ہو اور بس۔ ایک سال جب آپؑ نے محسوس کیا کہ لوگ اس مقصد کو پورا نہیں کر رہے تو آپؑ نے جلسہ بھی منعقد نہیں فرمایا تھا۔ اگر نعرے دل سے نہیں اٹھ رہے، اگرنعرے آپ کے دل میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کا جوش پیدا نہیں کر رہے تو یہ نعرے بے فائدہ ہیں۔ اگر تقریریں سن کر آپ میں صرف وقتی جوش پیدا ہو رہا ہے اور جلسہ گاہ سے باہر نکل کر اسی جگہ پر کھڑے ہوں جہاں آپ پہلے تھے۔ اور اپنی روحانی ترقی میں قدم آگے بڑھانے والے نہ ہوں تو غور کرنا چاہئے کہ ہم کیوں جلسے میں شامل ہوتے تھے۔ یہ غور کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ پس اگر آپ میں سے ہر ایک کو اس غور کی عادت پڑ جائے یا احساس پیدا ہوجائے، جوان اور بوڑھے، مرد اور عورتیں سب اس سوچ کے ساتھ جلسے کے یہ تین گزارنے کی کوشش کریں گے تو نہ صرف ان تین دنوں میں روحانیت میں ترقی کر رہے ہوں گے بلکہ جلسے کے بعد بھی یہ احساس رہے گا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد اس تعلیم پر عمل کر رہے ہیں۔ ہم نے آپؑ کے ہاتھ پر ان شرائط پر بیعت کی ہے جو صرف اور صرف خداتعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی طرف لے جاتی ہیں۔ ہم نے ان شرائط پر آپؑ کی بیعت کی ہے جو صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی طرف توجہ دلانے والی ہیں۔ اگر یہ احساس پیدا نہیں ہوتا تو احمدی ہونا بھی بے فائد ہ ہے۔ بلکہ اپنے آپ کو گناہگار بنانے والی بات ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دنیاوی لحاظ سے بھی بے مقصد مشکلات میں گرفتار ہونے والی بات ہے۔
یہاں بھی بعض اوقات آپ لوگوں کو دوسرے مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی اکثریت اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں قائم کرتے ہوئے، اللہ کی خاطر احمدیت کی وجہ سے آنے والی مشکلوں اور مخالفتوں کو برداشت کرتی ہے اور آپ اللہ کے فضلوں کے وارث بھی ٹھہرتے ہیں۔ لیکن جو احمدیت قبول کرنے کے بعد بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کر رہے وہ بلاوجہ ان مخالفتوں کو اپنے سر مول لے رہے ہیں۔ کیونکہ اپنے اعمال ٹھیک نہ کر کے، اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی طرف توجہ نہ دے کر آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں ٹھہر رہے ہوتے۔ پس اس جذبے کو جوپاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کرنے کا جذبہ ہے آپ نے آگے بڑھانا ہے، اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرنے کے تمام اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ آپس میں محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا ایک جگہ ٹھہرنا نہیں بلکہ آگے سے آگے بڑھنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ تمہاری زندگیوں کا یہی مقصد ہونا چاہئے کہ

فَاسْتَبِقُوْاالْخَیْرَاتِ۔

تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ جب تم ایک دوسرے سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے تو نیکیوں کے اعلیٰ معیار بھی قائم کر رہے ہو گے۔ اور یہ تبھی ہو گا جب اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو گے۔ پس ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف دلوں میں رکھتے ہوئے، تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے، اس کے آگے جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کریں۔ اور ایک اچھے مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے جو ہماری ذمہ داری لگائی ہے آپ لوگ اس کو پورا کرنے والے ہوں۔
احمدی لوگ تو بہت خوش قسمت لوگ ہیں جو اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے والے بنے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر عمل کرنے والے بنے ہیں کہ جب میرے مہدی کا ظہور ہو تو اسے مان لینا خواہ تمہیں برف کی سلوں پر گھٹنوں کے بل چل کر بھی جانا پڑے جا نا اور میرا سلام کہنا۔ پس آپ کو اپنے احمدی ہونے پر فخر اور ناز ہونا چاہئے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر پیشگوئی اور آپؐ کے ہر حکم پر ایمان لانے والے ہیں۔ لیکن یہ ایمان کامل تبھی ہو گا جب آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی تعلیم پر عمل بھی کر رہے ہوں گے، ان نصائح پر عمل کر رہے ہوں گے جو آپ نے قرآن کریم اور سنت نبویؐ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح طور پر سمجھ کر ہمیں دی۔
آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ قرآن و سنت کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ کیونکہ آپؑ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حَکَم اور عَدَل کہہ کر یہ بتا دیا کہ یہی وہ شخص ہے جس کو قرآن و سنت کا سب سے زیادہ فہم و ادراک ہے۔ اس لئے کسی بھی مسئلے کی یہ شخص جو تشریح کرے گا، وضاحت کرے گا، وہی صحیح اور درست ہو گی۔ جس تعلیم کو یہ تم میں رائج کرے گا، یہی خدا کے ساتھ ملانے والی تعلیم ہے۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ ہمیں نصیحت فرما رہا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب آپ کا غلام ِصادق ہی سب سے بڑا صادق ہے۔ پس اب جب آپ نے اس صادق کے ساتھ تعلق جوڑا ہے تو اس تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کریں۔ اور آپؑ اپنی جماعت جیسی بنانا چاہتے تھے ویسی جماعت بننے کی کوشش کریں۔ دنیا کوبتا دیں کہ تم ہمیں مسلمان سمجھو یا غیر مسلم اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس صادق کو پا لیا ہے اور اب اس کی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ اور اب ہم ہی ہیں۔ جن سے اسلام کی آئندہ تاریخ بننی ہے (انشاء اللہ) اس لئے ہم اب تمہیں بھی کہتے ہیں کہ آؤ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق صادق کی جماعت میں داخل ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنوار لو۔ لیکن جب یہ دعویٰ کرکے آپ دنیا کو اپنی طرف بلائیں گے تو اپنے آپ پر بھی نظر ڈالنی ہو گی کہ ہم نے اپنے اندر کیا انقلاب پیدا کیا ہے۔ اس زمانے کے مسیح و مہدی اور سب سے بڑے صادق کو مان کر ہمارے اپنے نمونے کیا ہیں۔ ہمارے اپنے تقویٰ کے معیار کیا ہیں۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا تعلیم دی اور ہم سے آپؑ نے کیا کیا توقعات وابستہ کیں اور ہم اب کس حد تک اس پر عمل کر رہے ہیں۔
اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات پڑھ کے مختصراً بعض باتوں کا ذکر کر دیتا ہوں کہ آپؑ ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں اور کیا تعلیم آپؑ ہمیں دیتے ہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’ عزیزو! خدا ئے تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو۔ موجودہ فلسفہ کی زہر تم پر اثر نہ کرے۔ ایک بچے کی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو۔ نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے۔ اور جب تو نمازکے لئے کھڑا ہو تو ایسا نہ ہو کہ گویا توُ ایک رسم ادا کر رہا ہے۔ بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہر وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو اور اپنے اعضاء کو غیراللہ کے خیال سے دھو ڈالو۔ تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑگڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر رحم کیا جائے‘‘۔
پھر فرمایا:
’’ سچائی اختیار کرو۔سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں۔ کیا انسان اس کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :
’’ باہم بخل اور کینہ اور حسد اوربُغض اور بے مہری چھوڑ دو اور ایک ہو جاؤ۔ قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں۔ ایک توحید ومحبت اور اطاعت باری، عَزَّاِسْمُہٗ۔ دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور بنی نوع کی‘‘۔
(ازالہ اوھام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ550-549)
تو یہ ہے پاک تعلیم اس زمانے کے سب سے بڑے صادق کی جس کے ساتھ منسوب ہو کر اور جس کی جماعت میں شامل ہو کر انسان خود بھی صادق بن سکتا ہے۔ آپ نے پہلے ہمیں انتہائی بنیادی بات کی طرف توجہ دلائی کہ اگر یہ دعویٰ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی مسلمان ہوں تو اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے جو قرآن کریم میں سینکڑوں احکام ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی بے قدری کی نظر سے نہیں دیکھنا۔ کسی ایک حکم کے بارے میں بھی یہ نہیں سوچنا کہ چلو کوئی بات نہیں اگر اس حکم پر عمل نہ کیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک دوسری جگہ آپ نے فرمایا کہ جو ان حکموں پر عمل نہیں کرتا اور ان میں سے ایک کو بھی چھوڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
آپ لوگ جو اس چھوٹے سے جزیرے میں رہتے ہیں یہاں بھی کسی حد تک ہر مذہب والے کا کچھ نہ کچھ مذہب سے تعلق قائم ہے۔ لیکن جس تیزی سے دنیا ایک ہو رہی ہے یہاں بھی بہت سی دوسری قوموں کا آنا جانا ہو گیا ہے جو مذہب سے دور ہٹتے جا رہے ہیں۔ پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے نئی نسل کے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں۔ مختلف نظریات اور فلسفے ان بچوں کو سننے کو ملتے ہیں جو خدا سے دور لے جانے والے ہیں، جو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے دور لے جانے والے ہیں۔ اس لئے یاد رکھو ہمیشہ ایسے نظریات اور فلسفوں سے بچو جو تمہیں خدا سے دور لے جانے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم میں ایسے فلسفوں کو رد کرنے کی تمہیں دلیل مل جائے گی اس لئے کسی بھی قسم کا احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپؑ نے فرمایا جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنے ماں باپ کی ہدایت پر عمل کرتا ہے، تم بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرو۔ لیکن یاد رکھیں کہ ان حکموں پر عمل کرنے کے لئے قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی طرف بھی توجہ کرنی پڑے گی۔ پس نیکیاں اپنانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بھی پڑھنا ہو گا اور اس کے فضلوں کو بھی سمیٹنا ہو گا۔ اور اس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے بہترین ذریعہ نماز ہے۔ اس لئے نمازوں کی طرف توجہ دو اور نمازیں صرف دکھاوے کے لئے یا کسی وجہ سے وقتی جوش سے نہ ہوں۔ بلکہ جس طرح آج کل میں دیکھ رہا ہوں مسجد بھری ہوتی ہے آپ کی تمام مسجدیں بھری ہوں اور ہمیشہ بھری رہنے والی ہوں۔
ایک بات مجھے آپ کی بہت اچھی لگی ہے کہ آپ نے مسجدیں بنانے کی طرف توجہ دی ہے اور بہت چھوٹی چھوٹی جگہوں پر بہت خوبصورت مسجدیں بنائی ہیں۔ لیکن ان مسجدوں کونیک اور پاکباز نمازیوں سے بھرنا ہے۔ عمارتیں بنانا ہمارا مقصد نہیں بلکہ عبادالرحمان پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نمازیں پڑھو گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل کرو گے اور اس کی برکتیں بھی حاصل ہوں گی۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نماز میں ایسی حالت میں آؤ کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں ہو۔ دوسرے دنیاوی خیالات ہیں، کاروباری خیالات ہیں یا دوسری دنیاداروں کی باتیں ہیں ان کو مکمل طور پر اس وقت دل سے نکال دو اور جب اس طرح صرف خالص اللہ کے ہو کر نمازیں پڑھو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر مہربان بھی ہو گا اور رحم فرمائے گا۔
پھر ان عبادتوں کے ساتھ ایک اہم چیز تمہارے دوسرے اعمال ہیں۔ ان اعمال میں بھی تمہاری اس نیکی کا اثر ظاہر ہونا چاہئے۔اس لئے یہ معیار حاصل کرنے کے لئے تمہارے ہر قول و فعل سے سچائی ظاہر ہونی چاہئے۔ کبھی دھوکہ اور جھوٹ تمہارے کسی عمل سے ظاہر نہ ہو۔ کیونکہ اگر ہماری باتوں میں جھوٹ اور غلط بیانی شامل ہے تو یہ شرک کی طرف لے جانے والی چیز ہے۔ اس لئے شرک سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو بھی اور اپنے بچوں کو بھی جھوٹ سے پاک کرنا ہو گا۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے دو بڑے حکم ہیں۔ پس ہمیشہ ان کو اپنے پیش نظر رکھو یعنی ایک تو ایک خدا کو ماننا اور اس کی محبت دل میں قائم کرنا۔ اس سے بڑھ کر کسی سے محبت نہ ہو۔ اور اس محبت کا یہ تقاضا ہے کہ اس کے ہر حکم کی تعمیل بھی ہو۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی ہو۔ اپنے کسی بھائی کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہ پہنچاؤ بلکہ ایک دوسرے کے کام آؤ۔ اگر تم یہ دونوں باتیں نہیں کر رہے تو تمہارا اس زمانے کے امام صادق سے تعلق اور بیعت کا دعویٰ صرف منہ کی باتیں ہیں۔ پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس درد کے ساتھ اپنے ماننے والوں کو جو نصائح فرمائی ہیں ان پر عمل کرنے والے ہوں۔
اسی ضمن میں دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ آج ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نئی ایجادات کے ذریعے سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی ہر جگہ پہنچانے کا موقع میسر فرمایا ہے پس اس سے بھی فائدہ اٹھائیں اور ایم ٹی اے کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو نعمت میسر فرمائی ہے اس میں وہ تمام پروگرام جو آپ سمجھ سکتے ہیں وہ دیکھیں۔ خاص طورپر خطبہ جمعہ کو ضرور سننے کی عادت ڈالیں۔ کیونکہ اب تک کی ملاقاتوں میں جو جائزہ میں نے لیا ہے اس سے مجھے احساس ہوا ہے کہ کافی بڑی تعداد یہاں جماعت کی ہے جو ایم ٹی اے سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھاتی۔ اس طرف جماعتی نظام بھی توجہ دے اور ذیلی تنظیمیں بھی توجہ دیں اور دیکھیں کہ کتنے لوگ ایم ٹی اے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور کیا کوشش کرنی چاہئے جن سے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے کیونکہ جتنی زیادہ دنیا میں مذہب سے دور لے جانے والی دلچسپیاں پیدا ہو رہی ہیں اتنی زیادہ ہمیں اس سلسلے میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
پس جہاں اس کے لئے عملی کوشش کریں کہ دنیا کے گند سے بچیں وہاں ان دنوں میں جیسا کہ میں نے کہا ہے نمازوں اور دعاؤں کی طرف بھی خاص توجہ پیدا کریں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا ان دنوں میں یہ عہد بھی کریں اور اللہ سے مدد بھی مانگیں اور کوشش بھی کریں کہ زیادہ سے زیادہ ایسے پروگرام جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا جا رہا ہو ان کو توجہ سے سنا جائے۔ ان دنوں میں ایک دوسرے سے ملنے ملانے، ملاقات کرنے اور پیار و محبت کو پھیلانے کی طرف بھی خاص توجہ دیں۔ کیونکہ یہ جلسے کا ماحول جو آپ کو میسر آیا ہے اس میں محبتیں بکھیرنے کا یہ بہت عمدہ موقع ہے۔ ہرقسم کے اعلیٰ اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے کی طرف خاص توجہ کریں۔ اور پھر اس تبدیلی کوہمیشہ اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تاکہ آپ کے ماحول کو یہ نظر آئے کہ احمدی عبادتوں میں بھی اعلیٰ ہیں اور اخلاق میں بھی اعلیٰ ہیں، احمدیوں اور دوسروں میں ایک نمایاں فرق ہے۔ آپ کے یہ خاموش عمل بھی خاموش تبلیغ کر رہے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور یہ جلسہ بے شمار رحمتوں اور برکتوں کا حامل بن جائے۔ اور آپ میں سے ہر ایک اس جلسہ کی بے شمار برکات سے فائدہ اٹھانے والا ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں