خطبہ جمہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 25؍اپریل2003ء

اے جانے والے تو نے اس پیاری جماعت کو جو خوشخبری دی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی اور یہ جماعت آج پھر بنیان مرصوص کی طرح خلافت کے قیام و استحکام کے لئے کھڑی ہوگئی۔
اے میرے قادر خدا! تو ہمیشہ کی طرح اپنی جماعت پر اپنے کئے ہوئے وعدوں کے مطابق اپنے پیار کی نظر ڈالتا رہ

25؍اپریل2003ء بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے- )

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم –
الحمدللہ رب العٰلمین – الحمدللہ رب العٰلمین – الرحمٰن الرحیم – مٰلک یوم الدین –
إیاک نعبد و إیاک نستعین – إیاک نعبد و إیاک نستعین –
اھدنا الصراط المستقیم – صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
وَاِذَسَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ۔
فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ- (البقرۃ:۱۸۷)

اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
یہ آیت ِ کریمہ جس کی ابھی تلاوت کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب سے تعلق رکھتی ہے ۔ گو اس صفت کا بیان حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرما چکے ہیں لیکن ان حالات میں آج کے لئے میں نے اس کو منتخب کیا ہے۔ اس میں دعاؤں کی قبولیت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس پہلو سے آج یہ مضمون بیان کیا جائے گااور قبولیت دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر جو بیشمار احسان اور فضل فرمایا ہے اس کا ذکر ہوگا۔ اس بارہ میں ایک حدیث ہے:۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا:۔ اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ،بڑا کریم اور سخی ہے ۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تووہ ان کوخالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔(ترمذی ۔کتاب الدعوات)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں۔ جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کروں گا۔ اور اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے گا تو میں اس بندے کا ذکر اس سے بہتر محفل میں کروں گا۔ اگر وہ میری جانب ایک بالشت بھرآئے گاتو میں ا س کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا۔ اگر میری طرف وہ ایک ہاتھ آئے گا تو میں اس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا۔(ترمذی ابواب الدعوات)
یہاں تو جماعت ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی۔ پھر کیوں نہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق دوڑتا ہوا آتا اور ہماری مدد فرماتا ۔الحمد للہ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ شاید ہی کبھی کسی مجلس سے اُٹھے ہوںگے کہ آپؐ نے اپنے صحابہؓ کے لئے ان الفاظ میں دعا نہ کی ہو: اے میرے اللہ! تُو ہمیں اپنا ایسا خوف عطا کر جو ہمارے اور تیری معصیت کے درمیان حائل ہو جائے اور ہمیں اپنی ایسی اطاعت عطا کر جس کی وجہ سے تُو ہمیں جنت میں پہنچا دے اور ایسا یقین بخش کہ جس کی وجہ سے دنیا کے مصائب تُو ہم پر آسان کردے۔ اے میرے اللہ! ہمیں اپنے کانوں، اپنی آنکھوں اور اپنی طاقتوں سے زندگی بھر صحیح صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیں اس بھلائی کا وارث بنا۔ اور جو ہم پر ظلم کرے اُس سے تُو ہمارا انتقام لے۔ جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اُس کے برخلاف ہماری مدد فرما۔ اور ہمارے دین کے بارہ میں ہمیں کسی ابتلا میں نہ ڈال۔ اور دنیا کو ہمارا سب سے بڑا غم اور فکر نہ بنا اور دنیا ہی ہمارا مبلغ علم نہ ہو ۔یعنی ہمارے علم کی پہنچ صرف دنیا تک ہی محدود نہ ہو۔ اور ایسے شخص کو ہم پر مسلّط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرتا ہو۔(ترمذی کتاب الدعوات باب فی جامع الدعوات)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے راہ کھول دیتا ہے ۔ وہ دعا کو ردّ نہیں کرتا۔… قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں ۔ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے

وَلَنَبْلُوَ نَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ

میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے۔ نونِ ثقیلہ سے جو اظہارِ تاکید کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

ہی ہے۔ اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے ، وہ

اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ

میں ظاہر کیا ہے۔…الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اورکبھی وہ مان لیتا ہے ۔ یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے ۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعاؤں کی ہے اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں۔ چنانچہ آپؐ کے گیارہ بچے مرگئے مگر آپؐ نے کبھی سوال نہ کیا کہ کیوں؟‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۲۲۵ تا ۲۲۶)
پھر فرمایا : ’’خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے‘‘۔( ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۲۷)
فرماتے ہیں:۔’’اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو۔ جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خداتعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا‘‘۔( ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۳۲)
فرمایا:۔’’میں ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہتا ہوں اور سب سے مقدّم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کو ہموم اور غموم سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ مجھے تو ان کے ہی اَفکار اور رنج، غم میں ڈالتے ہیں۔ اور پھر یہ دعا مجموعی ہیئت سے کی جاتی ہے کہ اگر کسی کو کوئی رنج اور تکلیف پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کو نجات دے۔ ساری سرگرمی اور پورا جوش یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کروں‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۸۶)
اللہ تعالیٰ مجھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس سنّت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کا درد مجھے اپنے درد سے بڑھ کر ہوجائے ۔اللہ میری مدد فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔’’سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہوجاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے ۔ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کردیتے ہیں دور کردے اور اپنی رضا مندی کی راہ دکھلائے‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۳۰)
آپ فرماتے ہیں:۔ ہم تو یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا جماعت کو محفوظ رکھے اوردنیا پر ظاہر ہوجائے کہ نبی کریم ﷺ برحق رسول تھے اور خدا کی ہستی پر لوگوں کو ایمان پیدا ہوجائے‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۲۶۱)
پھر آپ نے فرمایا:۔’’جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں ان کو سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں ۔ دعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سرسبز کرسکتی ہے اور مردہ کو زندہ کرسکتی ہے۔ اس میں بڑی تأثیریں ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۰۰)
اللہ تعالیٰ اس دور میں بھی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے جوآپ نے اپنے ماننے والوں کے لئے کیں۔ اور سب سے بڑھ کر ان دعاؤں سے بھی حصہ دے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ نے اپنی اُمّت کے لئے کیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پیاروں کی دعاؤں کا وارث بنایا ہے جس کے نظارے ہم روز کرتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات نے ہماری کمریں توڑ کر رکھ دیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کے طفیل ہی اپنے وعدہ کو پورا فرمایا۔ چنانچہ فرماتا ہے:۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا۔ وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ-(سورۃ النور: ۵۶)

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس پیاری جماعت کو کبھی ناشکر گزاروں میں سے نہ بنائے۔
ایک حدیث ہے۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھالے گا اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی ۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا ۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی( جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے) جب یہ دَور ختم ہوگا توا س کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کردے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔یہ فرما کر آپؐ خاموش ہوگئے۔(مسند احمد بن حنبلؒ )
اللہ کرے کہ یہ نعمت تاقیامت قائم رہے ۔ خداتعالیٰ اپنے فضل کا ہاتھ کبھی جماعت پر سے نہ اُٹھائے ۔یہ جماعت ہمیشہ شکرگزاروں اور دعائیں کرنے والوں کی جماعت بنی رہے ۔اللہ تعالیٰ کے پیار اور رحمت کی نظر ہمیشہ ہم پر پڑتی رہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔’’جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا ازسرنو اُس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے‘‘۔(الحکم ۱۴؍اپریل ۱۹۰۸ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں:۔’’اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلادے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کردیوے۔ … تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے ۔ اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔… جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے ۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ … ہمارا خدا وعدوں کا سچّا اور وفادار اور صادق خدا ہے ۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گاجس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے ۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اوربہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے، پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہوجائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسّم قدرت ہوں۔ اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔(الوصیت ، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحہ۳۰۵)
حضرت مسیح موعود علیہ الصوۃ والسلام رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں:۔
یہ خداتعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے ۔جیسا کہ وہ فرماتا ہے

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ

اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہوجائے اوراُس کا مقابلہ کوئی نہ کرسکے۔ اسی طرح خداتعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کردیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہی کے ہاتھ سے کردیتا ہے ۔ لیکن اُس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا۔ بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔ مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن و تشنیع کاموقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کرچکتے ہیں تو پھر ایک دوسر اہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔ (رسالہ الوصیت صفحہ ۶)
اب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔یہی تمہارے لئے بابرکت راہ ہے تم اس حبل اللہ کو اب مضبوط پکڑ لو۔ یہ محض خدا ہی کی رسّی ہے جس نے تمہارے متفرق افراد کو اکٹھا کردیا ہے ۔پس اسے مضبوط پکڑے رکھو۔(بدر۔ یکم فروری۱۹۱۲ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔خلافت کے قیام کامدعا توحید کا قیام ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اٹل۔ ایسا کہ جو کبھی ٹل نہیں سکتا ، زائل نہیں ہوسکتا ، اس میں کوئی تبدیلی کبھی نہیں آئے گی۔ خلافت کا انعام یعنی آخری پھل تمہیں یہ عطا کیا جائے گا کہ میری عبادت کروگے، میرا کوئی شریک نہیں ٹھہراؤ گے ، کامل توحید کے ساتھ تم میری عبادت کرتے چلے جاؤگے اور میرے حمد وثناء کے گیت گایا کروگے۔ یہ وہ آخری جنت کا وعدہ ہے جو جماعت احمدیہ سے کیا گیا اور مجھے یقین ہے اور جو نظارے ہم نے دیکھے ہیں اور جن کے نتیجے میں غم کے دھاروں کے علاوہ حمد کے دھارے بھی ساتھ بہہ رہے ہیں اور شکر کے دھارے بھی ساتھ ہی بہہ رہے ہیں ایسے حیرت انگیز ہیں کہ آج دنیا میں کوئی قوم اس کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتی ۔جو جماعت احمدیہ کا مقام اس دنیا میں ہے وہ کسی اور جماعت کا نہیں۔ پس کامل بھروسہ اور کامل توکّل تھا اللہ کی ذات پر کہ وہ خلافت احمدیہ کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا۔ زندہ اور تازہ اور جوان اور ہمیشہ مہکنے والے عطر کی خوشبو سے معطر رکھتے ہوئے اس شجرۂ طیبہ کی صورت میں اس کو ہمیشہ زندہ قائم رکھے گا جس کے متعلق وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کا کہ ایسا شجر ۂ طیبہ ہے جس کی جڑیں زمین میں گہری پیوست ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت اسے اکھاڑ کر پھینک نہیں سکتی۔ … حمد اور شکر کا پہلو ایک ابدی پہلو ہے ۔ وہ ایک لازوال پہلو ہے۔ وہ کسی شخص کے ساتھ وابستہ نہیں۔ نہ پہلے کسی خلیفہ کی ذات سے وابستہ تھا، نہ میرے ساتھ ہے ، نہ آئندہ کسی خلیفہ کی ذات سے وابستہ ہے۔ وہ منصبِ خلافت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ وہ، وہ پہلو ہے جو زندہ و تابندہ ہے ۔اس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ ہاں ایک شرط کے ساتھ اور وہ شرط یہ ہے کہ دیکھو اللہ تم سے وعدہ تو کرتا ہے کہ تمہیں اپنا خلیفہ بنائے گا زمین میں لیکن کچھ تم پر بھی ذمہ داریاں ڈالتا ہے ۔ تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور عمل صالح بجالاتے ہیں۔ پس اگر نیکی کے اوپر جماعت قائم رہی اور ہماری دعا ہے اور ہمیشہ ہماری کوشش رہے گی کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ جماعت نیکی پر ہی قائم رہے ، صبر کے ساتھ اور وفا کے ساتھ۔ تو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ وفا کرتا چلا جائے گا اور خلافت احمدیہ اپنی پوری شان کے ساتھ شجرۂ طیبہ بن کر ایسے درخت کی طرح لہلہاتی رہے گی جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ (روزنامہ الفضل ربوہ۔ ۲۲؍جون ۱۹۸۲ء)
اس ضمن میں آپؒ نے مزید فرمایا:
آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ جو خدا نے آپ کو نعمت عطا فرمائی ہے اور آپ کو معلوم بھی نہیں تھا کہ کیسے عطا ہوئی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واسطے سے دوبارہ عطا ہوئی ہے ۔ پس اس نعمت کو یادرکھیں۔ اللہ نے دوبارہ یہ نعمت اپنے فضل سے عطا کی ہے اور نعمت کے سوا دل نہیں باندھے جاسکتے ۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصور اپنے میں سے نکال دیں تو آپ میں سے کسی کو دوسرے کی پرواہ نہیں رہے گی اور اس تعلق کو خلافت آگے بڑھا رہی ہے اور وہ تعلق پھر خلافت کی ذات میں مرکوز ہوتا ہے اور پھر آگے چلتا ہے۔( خطبہ جمعہ ۱۰؍جون ۱۹۹۰ء الفضل ۷؍اگست ۱۹۹۱ء)
آپؒ نے جماعت کو اجتماعیت کی برکت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:۔
’’پس وہ خدا کا احسان کہ آپ کو اکٹھے کردیاآج یہ دوسری صورت میں ظاہر ہوا ہے‘‘۔ الحمد للہ کہ آج ہم نے پھر دیکھا’’ آج پھر بھائی بنائے گئے ہو لیکن خدا کی قسم اب جو بنائے گئے ہو، انشاء اللہ تعالیٰ قیامت تک بنائے رکھے گا تمہیں، اگر تم انکساری کے ساتھ خدا تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگیاں بسر کرو گے تو اس نعمت کو کوئی تم سے چھین نہیں سکے گا‘‘۔(خطبہ جمعہ ۵؍اگست ۱۹۹۴ء،الفضل۲۳؍اگست ۱۹۹۴ء)
آپ نے فرمایا تھا کہ :۔
’’میں آپ کو ایک خوشخبری دیتا ہوںکہ اب انشاء اللہ خلافت احمدیہ کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ جماعت بلوغت کے مقام کو پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں۔ اور کوئی دشمن آنکھ ، کوئی دشمن دل،کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کرسکے گی اور خلافت احمدیہ انشا ء اللہ تعالیٰ اسی شان کے ساتھ نشوونما پاتی رہے گی جس شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدے فرمائے ہیں۔ کم ازکم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی۔ تو دعائیں کریں، حمد کے گیت گائیں اور اپنے عہدوں کی پھر تجدید کریں۔(الفضل ۲۸؍جون ۱۹۸۲ء)
آج ہم سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اے جانے والے تو نے اس پیاری جماعت کو جو خوشخبری دی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔ اور یہ جماعت آج پھر بنیان مرصوص کی طرح خلافت کے قیام و استحکام کے لئے کھڑی ہوگئی اور اخلاص اور وفا کے وہ نمونے دکھائے جن کی مثال آج روئے زمین پر ہمیں نظر نہیں آتی۔ اے خدا اے میرے قادر خدا تو ہمیشہ کی طرح اپنی جماعت پر اپنے کئے ہوئے وعدوں کے مطابق اپنے پیار کی نظر ڈالتا رہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔’’میں بڑے دعویٰ او راستقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پرہوں اور خدا ئے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہان تک میں دوربین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحتِ اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پُتلی کی طرح اس مشتِ خاک کو کھڑا کردیا ہے‘‘۔(ازالہ اوہام صفحہ ۳۰۳)
پھر آپ ؑفرماتے ہیں:۔
’’خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا۔ اور ہر ایک الزام سے تیری بریت کروں گا اور تجھے غلبہ ہوگا۔ اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب ہوگی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا‘‘۔(انوار الاسلام صفحہ ۵۴)
آخر میں میں پھر دعا کی تحریک کرتا ہوں۔ میرے لئے بھی بہت دعا کریں، بہت دعا کریں ،بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ مجھ میں وہ صلاحیتیں اور استعدادیں پیدا فرمائے جن سے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت کی خدمت کرسکوں اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں۔
کل ایک دوست نے مجھے خط لکھا اوراس میں یہ دعا دی، بڑی اچھی لگی مجھے، کہ میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر آپ میں خلافت کے منصب کو نبھانے کی صلاحیت نہیں بھی ہے تو اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے۔ یقینا دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی یہ کارواں تمام تر کامیابیوں کے ساتھ آگے انشا ء اللہ تعالیٰ رواں دواں رہے گا۔
آپ سے دعا کی درخواست ہے ۔لیکن اس بارے میں ایک وضاحت میں یہاں کردوں کہ نظام جماعت اور خلافت کا ایک تقدّس ہے جوکبھی آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ لوگوں میں بیٹھ کر یہ باتیں کی جائیں کہ اس خلیفہ میں فلاں کمی ہے یا فلاں کمزوری ہے۔ آپ مجھے میری کمزوریوں کی نشاندہی کریں، حتّی الوسع کوشش کروں گا کہ ان کو دُور کروں لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر باتیں کرنے والے کے خلاف نظام جماعت حرکت میں آئے گا اور اس کے خلاف کارروائی ہوگی ۔اس لئے میری یہی درخواست ہے کہ دعائیں کریں اور دعاؤں سے میری مدد کریں اور پھر ہم سب مل کر اسلام کے غلبہ کے دن دیکھیں ۔انشاء اللہ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں