خلفاء احمدیت کی قبولیتِ دعا

جامعہ احمدیہ ربوہ (جونیئر سیکشن) کے خلافت احمدیہ صد سالہ سووینئر میں خلفاء احمدیت کی قبولیت دعا کے واقعات مکرم نوید مبشر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی ایک چِٹ محترم قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ کو ملی جس پر لکھا ہوا تھا: ’’مَیں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نعم البدل دے گا وَلَمْ اَکُنْ بِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیّاً‘‘۔ (مَیں تجھ سے دعا مانگتے ہوئے کبھی بدنصیب نہیں ہوا) مَیں بہت حیران ہوا کہ یہ تو درست ہے کہ میرے دو لڑکے یکے بعد دیگرے فوت ہوئے تھے لیکن مَیں نے حضورؓ کو دعا کی کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ آخر معلوم ہوا کہ میری ایک نظم حضرت امّاں جی نے گھر میں پڑھی تو حضورؓ جو آنکھیں بند کئے لیٹے تھے، اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپؓ کی توجہ دعا کی طرف پِھر گئی۔ چنانچہ اس دعا کی قبولیت کا نظارہ ہم نے یوں دیکھا کہ 1910ء میں میرے ہاں پہلا بیٹا عبدالرحمن اور 1913ء میں دوسرا بیٹا عبدالرحیم پیدا ہوا۔
حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ کی آنکھ میں ایک بار زخم ہوگیا اور قریب سے بھی نظر آنا بند ہوگیا، ہر دوائی مُضر پڑنے لگی۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے دیکھ کر بتایا کہ ایک آنکھ کا بچنا تو قریباً محال ہے اور دوسری بھی بہت خراب ہورہی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کو معلوم ہوا تو آپؓ نے خاص دعا کی اور رات کو خواب میں ایک آدمی کو یہ کہتے سنا کہ ان کی آنکھ تو اچھی ہے۔ اُسی دن سے ہر دوائی مفید ہونے لگی اور جس آنکھ کا بچنا محال تھا، اُس کی نظر دوسری آنکھ سے بھی بہتر ہوگئی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے پیسے کی ضرورت تھی۔ مَیں نے اس کے لئے دعا کی اور کہا کہ تیرا وعدہ ہے کہ ’’تینوں ایناں دیاں گا کہ تُو رَج جائیں گا‘‘ اس لئے مجھے اپنے کسی بندے کا محتاج نہ کربلکہ مجھے تُو دے جس طرح بھی دیتا ہے۔ چنانچہ میرے ایک چھوٹے بھائی نے مجھ سے اُتنی ہی رقم قرض لی ہوئی اور میری نیت یہ تھی کہ اُس کو واپسی کے لئے نہیں کہنا، بے شک وہ واپس نہ بھی کرے اور مجھے اُس کے حالات کے لحاظ سے یقین تھا کہ وہ اگلے پانچ دس سال تک وہ رقم واپس نہیں کرسکتا۔ مگر کیا دیکھتا ہوں کہ شام کے وقت وہی بھائی میرے پاس رقم لے آیا اور اِس طرح اللہ تعالیٰ نے کسی کا محتاج کئے بغیر میری ضرورت پوری فرمادی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ اپنی ایک دعا کی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بچپن میں جب حضرت مسیح موعودؑ کا لٹریچر آنحضرتﷺ اور اسلام کے ڈیفنس میں پڑھا کرتا تھا تو مَیں خدا تعالیٰ سے دعا کیا کرتا تھا کہ اے خدا! جس طرح حضرت مسیح موعودؑ اپنے آقا اور مطاع حضرت محمدﷺ کی عزت کی حفاظت میں سینہ سپر ہوجاتے ہیں مجھے بھی یہ توفیق دے کہ مَیں حضرت مسیح موعودؑ کا ڈیفنس اسی طرح کروں‘‘۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ علم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا کس شان سے قبول فرمائی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ (خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍اگست 2005ء میں) جلسہ سالانہ برطانیہ کے حوالہ سے فرماتے ہیں: ’’عموماً تیز بارش میں MTA کا رابطہ بھی متأثر ہوتا ہے لیکن جب میری تقریر کے دوران بارش ہوئی ہے تو رابطہ تقریباً مسلسل قائم رہا ہے … انتظامیہ کو بڑی فکر ہورہی تھی کیونکہ بعض دفعہ لِنک نہیں رہتا بلکہ جس کمپنی کے ذریعہ سے جلسہ گاہ سے آگے سِگنل بھجوانے کا کام تھا، اس کے جو نمائندے وہاں موجود تھے، انگریز تھے، انہوں نے کہا ایسی بارش میں عموماً رابطے متأثر ہوتے ہیں، اس طرح لِنک نہیں رہتا لیکن لگتا ہے تمہارا خدا سے کوئی خاص تعلق ہے جو اِس کام کو سنبھالے ہوئے ہے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں