خلفائے کرام سے متعلق ذاتی مشاہدات

ما ہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں ’’رنگ بہار‘‘ کے عنوان سے تین مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں خلفائے کرام سے متعلق ذاتی مشاہدات بیان کئے گئے ہیں۔
پہلا مضمون جولائی 2008ء کے شمارہ میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کا ہے جس میں آپ اپنے ذاتی مشاہدات کا اظہار یوں کرتے ہیں:
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ :
تمام مصروفیات کے باوجودحضورؓ اپنے عزیزوں اور قرابت داروں سے محبت اور احسان کا سلوک خوش دلی اور بشاشت سے فرماتے تھے۔ جب پارٹیشن ہوئی تو ہم سب قادیان سے لٹے پٹے آئے۔ اکثر کی کوئی آمد کی سبیل نہیں تھی اور حضورؓ کے زیرِ سایہ سارا خاندان رتن باغ میں آکر ٹھہرا۔ شروع میں آپؓ نے ہی سارے خاندان کا بوجھ اٹھایا خوراک کا، رہائش کا۔ ہم پانی بجلی سب استعمال کرتے تھے۔ یہ تمام اخراجات حضورؓ اپنی گرہ سے کرتے۔ حالانکہ جس طرح حضورؓ کے دوسرے رشتہ داروں کے نقصانات ہوئے تھے اور اُن کی آمد کم ہوگئی تھی اس طرح حضورؓ کو بھی مالی نقصان ہوئے تھے۔ لیکن کئی مہینے حضور نے سارے خاندان کا بوجھ اٹھایا۔ میری والدہ بیان کرتی ہیں کہ تین چار مہینے اس طرح گزر گئے کہ حضرت صاحب کی طرف سے ہی کھانا آتا تھا اور سارے اخراجات پورے کئے جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ خاندان کے مختلف لوگوں کی آمد کی کوئی نہ کوئی سبیل پیدا ہونی شروع ہو گئی تو انہوں نے اپنا انتظام کرنا شروع کردیا اور اپنے کھانے پینے کے اخراجات خود اٹھانے لگے۔ اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہم ابھی بھی حضرت صاحب پر بوجھ ہیں۔ لیکن مجبوری تھی کہ آمد کی ایسی کوئی سبیل نہ تھی کہ ہم اپنے آپ کو علیحدہ کرسکتے۔ حضرت صاحب کی فراست اور احساس کی لطافت نے اسے بھانپ لیا اور میری والدہ کہتی ہیں کہ مَیں دل میں یہ شرمندگی محسوس کرتی تھی تو ایک دن حضرت اماں جانؓ، جو ہماری پھوپھی تھیں، اُن کے ذریعہ پیغام بھجوایا کہ نصیرہ بیگم! لوگ تو مجھے چھوڑ گئے ہیں تم نہ مجھے چھوڑنا!۔ اس خوبصورتی سے اظہار کیا کہ دوسرے کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور یہ احساس بھی نہ ہو کہ میرے ساتھ احسان کا سلوک ہو رہا ہے ۔ بلکہ یہ اظہار کیا کہ گویا ہم حضور پرکوئی احسان کر رہے ہیں کہ اُن کے دسترخوان سے کھا رہے ہیں۔
حضورؓ نے زندگی بھر سارے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا سلوک فرمایا۔ چونکہ میں اپنے ذاتی واقعات بیان کر رہا ہوں۔ جب ربوہ نیا نیا بنا ہے ہم اس وقت کچے مکانوں میں رہتے تھے۔ میرے بہنوئی صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب مرحوم وہ بھی کام کی تلاش میں تھے۔ وہ بارایٹ لاء تھے۔ انہوں نے سرگودھا کو پریکٹس کے لئے چنا۔ لیکن وہاں انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی ۔ میری والدہ اور ہمارے ابا جان ان سے ملنے کے لئے سرگودھا گئے تو وہاں سے ابا جان نے دو خط لکھے ایک حضرت صاحب کو دعا کے لئے اور ایک میرے چھوٹے بھائی مرزا غلام احمد صاحب کو لکھا ۔ غلطی سے دونوں خطوط کے لفافے تبدیل ہوگئے۔
حضورؓ کو وہ خط ملا جو میاں احمد کو لکھا گیا تھا کہ گھر سے اتنا گڑ، اتنی شکر، اتنی دال، اور اتنی فلاں چیز کھانے پینے کی چیزیں بھیج دو۔ حضور کو فوراً احساس ہوا کہ ظفر کے گھر کھانے پینے کی تنگی ہے اور انہوں نے گھر سے یہ اشیاء منگوائی ہیں۔ اس خط پر لکھا ہوا تھا پیارے احمد!۔ ہمارے خاندان میں دو احمد تھے۔ ایک تو میاں غلام احمد صاحب اور ایک عبدالرحیم احمد صاحب جو حضورؓ کے داماد تھے۔ حضورؓ نے یہ سمجھ کر کہ شاید میاں عبدالرحیم صاحب کو یہ خط لکھا ہے، فوراً انہیں بلواکر پیسے دیئے اور فرمایا کہ یہ چیزیں فوراً میاں عزیز احمد صاحب کو پہنچائو۔ شام کے وقت میاں احمد صاحب کو بھی خط مل گیا تو وہ اپنے وقت پر حضورؓ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور میرے لفافہ میں سے آپ کا یہ خط نکلا ہے۔ حضورؓ فرمانے لگے: لاحول ولاقوّۃ تم نے مجھے اتنا پریشان کیا ہے۔ میں تو عبدالرحیم احمد کو پیسے دے کر بھجوا بھی چکا ہوں کہ وہاں سامان لے جائے۔
یہ کہنے کو بڑی چھوٹی باتیں ہیں لیکن جو شفقت اور پیار کا احساس ہوتا ہے۔ وہی دل جانتا ہے جس پر یہ چیز گزری ہو۔ جب ربوہ بنا ہے تو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ تو ربوہ آگئے لیکن آپؓ کی بیگم صاحبہ لاہور ہی میں ٹھہری رہیں۔ حضرت صاحب چاہتے تھے کہ وہ بھی آجائیں۔ ایک آدھ دفعہ حضورؓ نے پیغام بھی بھجوایا لیکن وہ ربوہ آنے کو تیار نہ ہوئیں۔ ایک دفعہ حضورؓ لاہور تشریف لے گئے اور رتن باغ میں ٹھہرے۔ وہ بھی رتن باغ میں تھیں۔ حضورؓ نے فرمایا: اب آپ ربوہ آجائیں۔ انہوں نے ٹالنے کے لئے کہا کہ میرا تو وہاں کوئی مکان نہیں۔ حضورؓ نے فرمایا کہ کچھ مکان تیار ہوگئے ہیں، آپ میرے ساتھ چلیں میں کل جا رہا ہوں، جو مکان آپ کو پسند ہو وہ آپ لے لیں۔ انہوں نے پھر کہا کہ میں اتنی جلدی تیاری کس طرح کرلوں؟ تو حضورؓ نے فرمایا کہ مَیں اپنا پروگرام ملتوی کردیتا ہوں، پرسوں چلے جائیں گے۔
اب آپ سوچیں کہ یہ وہ شخص کہہ رہا ہے جس پر ساری جماعتوں کا بوجھ ہے اور جس نے سینکڑوں ہزاروں کام نپٹانے ہوتے ہیں۔ خیر مکرمہ بیگم صاحبہ مجبور ہو گئیں۔ اب کوئی مفر نہیں تھا۔تو حضورؓ ساتھ لے کر آئے۔ اس وقت تک کئی مکان بن گئے تھے۔ حضرت صاحب نے کہا کہ جو آپ کو پسند ہو آپ لے لیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو ایسا مکان چاہیے جو الگ ہو اور منصور کے ساتھ ہو (حضرت میاں منصور احمد صاحب اُن کے صاحبزادہ تھے) اس پر حضورؓ نے حضرت میاں منصور احمد صاحب کے مکان کے پیچھے جو جگہ خالی تھی، وہاں مکان تیار کرنے اور بیگم بُو صاحبہ کو وہاں رکھنے کا ارشاد فرمایا۔ وہ بار بار کہا کرتی تھیں یہ حضرت صاحب ہی تھے جنہوں نے اتنا کیا! کون اتنے نخرے اٹھاتا ہے؟
حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہوگا جس پر حضرت صاحب کا کوئی ذاتی احسان نہ ہو۔ حضورؓ بنیادی طور پر ایک زمیندار تھے۔ اور زمیندار یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اُس کی برابری کا کوئی اَور اُس کے علاقہ میں زمین لے یا اُس کے شریک برابر کی ٹکّر کے ہوجائیں۔ لیکن جب حضورؓ نے انجمن کے لئے اور اپنے لئے سندھ کی زمینیں خریدیں تو سارے خاندان میں پوری کوشش کی کہ لوگ وہاں زمین لیں اور دنیاوی طور پر بھی فائدہ اٹھائیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ :
حضورؒ کے ساتھ خاکسار کو لمبا عرصہ کالج میں بھی اور بعد میں بھی کام کرنے کا موقع ملاہے۔ حضو ر کی طبیعت میں بنیادی چیز جو تھی وہ حضور کی مہربانی،لطف، عفو،درگزر، چشم پوشی اور نرمی کا سلوک ہے۔ پھر حضور کوہِ وقار تھے، ایک نہایت عزت کے مقام پر فائز تھے لیکن اتنی ہی عاجزی اور انکساری تھی۔ خاص طور پر جہاں کوئی جماعتی معاملہ آجاتا تھا وہاں حضورؒ نے کبھی اپنی انا کو آڑے نہیں آنے دیا۔ ایک شریف صاحب ہوتے تھے جو سیکرٹری ایجوکیشن تھے۔ کالج کا کوئی کام تھا۔حضورؒ اُس وقت پرنسپل تھے۔ حضور نے اُن سے وقت لیا اور تشریف لے گئے۔ جیسے ہماری بیورو کریسی کی عادت ہے۔ انہوں نے حضرت صاحب کو کچھ دیر بٹھایا اور پھر کہہ دیا کہ وقت نہیں ہے۔ ایک دو دفعہ اس طرح ہوا تو تیسری دفعہ حضورؒ اندر گئے اور کہنے لگے کہ دیکھیں میں وقف زندگی ہوں اور جماعت کا کالج میرے سپرد ہے۔ آپ نے اگر سلام کروانے ہیں تو میں یہاں کئی بار سلام عرض کردیتا ہوں لیکن میرا وہاں کام کا حرج ہوتا ہے اس لئے مجھے بار بار کے پھیرے نہ دلوائیں۔
پھر میں نے حضورؒ کے ساتھ 1974ء میں بھی کام کیا ہے۔ حضور کا توکّل اور اطمینان عجیب تھا۔ حضور کو اُن سارے واقعات کا، جو 1974ء میں گزرے، دکھ تو تھا، بہت صدمہ تھا لیکن اس کے باوجود کبھی میں نے حضور کی طبیعت میں گھبراہٹ نہیں دیکھی۔ حالانکہ اس وقت یہ بھی مشہور ہوا تھا کہ حکمران حضور کی گرفتاری کریں گے اور ایسی خبریں آتی تھیں کہ سمن جاری ہوگئے ہیں۔ اپنے اللہ کے حضور اپنی گھبراہٹ کا اظہار کیا ہو تو کیا ہو لیکن ہمیں نصیحت فرماتے تھے کہ ہماری مسکراہٹ کوئی نہیں چھین سکتا اور میں نے حضورؒ کے لبوں سے اُن دنوں میں بھی مسکراہٹ غائب نہیں دیکھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ :
حضورؒ کی طبیعت میں جو میں نے سب سے زیادہ چیز نوٹ کی وہ یہ تھی کہ حضور کی طبیعت میں صفت شکور بہت ہی نمایاں تھی۔ کوئی شخص ذرا سا کوئی کام کردیتا، خواہ وہ جماعتی ہو یا حضورؒ کے لئے کوئی ذاتی خدمت سرانجام دیدے اُس کی اتنی قدردانی کرتے تھے کہ ڈر ہوتا تھا کہ کسی کا دماغ نہ خراب ہوجائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں