دینی تعلیم کے ادارے ’’جامعہ احمدیہ‘‘ کی بنیاد اور شاندار ترقیات – حصہ اول

(مطبوعہ رسالہ اسماعیل اپریل تا جون 2014ء)

تاریخ احمدیت کا ایک زرّیں باب
دینی تعلیم کے ادارے ’’جامعہ احمدیہ‘‘ کی بنیاد اور شاندار ترقیات

وہ مادرِعلمی جس کی ابتدا مدرسہ تعلیم الاسلام سے ہوئی
اورترقی کرتے کرتے جامعہ احمدیہ کے نامِ نامی تک پہنچ گیا

شروع شروع میں قادیان میں دو سکول ہوا کرتے تھے ایک سرکا ری جو پرائمری تک تھا اور ریتی چھلہ کے قریب واقع تھا۔دوسرا سکول ’’آریہ سکول ‘‘تھا جو پرائمری سے اوپر کی کلا سوں پر مشتمل تھا۔ باوجود اس کے کہ اوّل الذکر سکول سرکا ری تھا جہاں ہر مذہب کے بچوں کو پوری مذہبی آزادی ملنی چاہئے۔ ہیڈ ماسٹر آریہ تھا اور مسلمان بچوں کو گمراہ کرنے کے لئے اسلام پر اعتراضات کرتا رہتا تھا۔ ایک روز صاحبزادہ میاں محموداحمد صاحب کے لئے سرکاری پرا ئمری سکول میں جب دوپہر کا کھانا گھر سے آیا تو اس میں کلیجی کا سالن دیکھ کر ایک بچہ نے حیرت سے اپنی انگلی دانتوں میں دبالی اور کہنے لگا یہ تو ماس ہے یعنی گوشت ہے جس کا کھانا حرام ہے۔ جب اس واقعہ کی اطلاع سیّدنا حضرت مسیح موعود ؑ کو ہوئی تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ مسلمان بچوں کی دینی تربیت اور تعلیم کے لئے الگ اسلامی سکول کھولیں۔
آپؑ نے 15 ستمبر1897ء کو تحریک فرمائی کہ مسلمان بچوں کے لئے ایک مدرسہ کھولنا ضروری ہے جہاں انہیں لازمی طور پر ایسی کتب پڑھائی جائیں جن سے انہیں پتہ لگے کہ اسلام کیا ہے اور کیا کیا خو بیاں اپنے اندر رکھتا ہے۔ اور جو لوگ اسلام پر ناجائز حملے کرتے ہیں ان کی خیانت اور جھوٹ کھل کر سامنے آجائے۔
حضور نے فرمایا کہ اس سکول میں علاوہ روزمرہ کی درسی تعلیم کے ایسی کتابیں بچوں کو پڑھائی جائیں گی جو مَیں ان کے لئے لکھوں گا۔ اس سے اسلام کی خوبی سورج کی طرح ظاہر ہوگی اور دوسرے مذاہب کی کمزوریاں انہیں معلوم ہو جائیں گی جن سے ان کا باطل ہونا ان پر کھل جائے گا۔
آپؑ نے فرمایا: ’’مَیں چاہتا ہوں کہ بچوں کی تعلیم کے ذریعہ اسلامی روشنی مُلک میں پھیلاؤں‘‘۔
آپؑ نے پرزور تحریک فرمائی کہ مسلمان بچوں کو بچانے کیلئے تمام مسلمان اس تحریک میں مالی مدد کریں اور قادیان میں فوری طورپر ایک مڈل سکول کھولا جائے۔ (رسالہ تعلیم الاسلام جلداوّل نمبر6صفحہ 230تا232)
آپ نے ایک بار پھر مسلمانوں کو وارننگ دی کہ اگر انہوں نے اپنے بچوں کی اسلام کے مطابق تعلیم و تربیت نہ کی تو آئندہ نسل اُن کے ہاتھوں سے نکل جائے گی۔
حضورعلیہ السلام نے اس مدرسہ کے قیام کے لئے ایک انتظامیہ کمیٹی مقرر فرمائی اس کے پریذیڈنٹ حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب بھیرویؓ، محاسب (آڈیٹر) حضرت میر ناصر نواب صاحب ،سیکرٹری مکرم خواجہ کمال الدین صاحب، (وکیل ہائی کورٹ) اور جائنٹ سیکرٹری حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی مقرر ہوئے۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 27دسمبر1897ء کو ہوا اوراس کمیٹی نے سفارش کی کہ مدرسہ یکم جنوری 1898ء سے کھول دیا جائے۔
گو سفارش تو یہ تھی کہ مدرسہ یکم جنوری سے ہی کھل جانا چاہئے لیکن چونکہ یہ جلسہ سالانہ کے دن تھے مہمانوں کی مصروفیات بھی تھیں اس لئے مدرسہ کا افتتاح 3جنوری 1898ء کو ہوا۔ حضورؑ نے اس مدرسہ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’ہما ری یہ غرض نہیں کہ ایف۔اے یا بی۔اے پاس کر کے دنیا کی تلاش میں مارے مارے پھریں۔ ہمارے پیشِ نظر تو یہ امر ہے کہ ایسے لوگ خدمتِ دین کیلئے زندگی بسر کریں اور اسی لئے مدرسہ کو ضروری سمجھتا ہوں کہ شاید دینی خدمت کے لئے کام آسکے۔‘‘ (الحکم 10دسمبر1905ء صفحہ2)
مندرجہ بالا تحریر سے ظاہر ہے کہ یہ ’’مدرسہ تعلیم الاسلام ‘‘عام سکولوں کی طرح نہیں تھا۔ اس میں جہاں معیا ری دنیوی تعلیم دی جا نی تھی وہاں بچوں کی مذہبی اور روحانی تعلیم تربیت اس رنگ میں کرنا مقصود تھی کہ اس کے نتیجہ میں وہ اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرکے خدمتِ دین کیلئے زندگیاں وقف کریں اور دین کی خدمت سرانجام دیں۔
11اکتوبر 1905ء کو حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ تین ماہ کی لمبی بیماری کے بعد وفات پاگئے اور حضرت مولانا برہان الدین صاحبؓ جہلمی 3دسمبر 1905ء کو وفات پا گئے۔ سلسلہ کے ان دو عظیم الشان بزرگوں کی وفات پریہ تجویز کی گئی کہ جماعت میں علماء پیدا کرنے کے لئے ایک الگ دینی درسگا ہ قائم کی جائے۔ چنا نچہ حضور علیہ السلام نے 6دسمبر1905ء کو اس سلسلہ میں بہت دردکے ساتھ تحریک فرما ئی۔اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں مزید اصلاحی قدم اٹھا نے کیلئے بہت سے احباب کو بلا کر ان کے سامنے یہ امر پیش فرمایا کہ مدرسہ میں ایسی اصلاح کرکے اسے ایسی شکل دیدی جائے کہ اس میں ایسے علماء پیدا کئے جائیں جو اعلیٰ دینی و عربی علوم کے ساتھ ساتھ کسی قدر انگریزی اور دیگر علوم سے بھی واقف ہوں۔حضورؑ کی اس تجویز پر غورو فکر ہوتا رہا اور موجود حالات میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں علماء اور مبلغین تیار کرنے کیلئے ایک الگ شاخِ دینیات جاری کردی جا ئے۔ یہ گویا ’’مدرسہ احمدیہ قادیان ‘‘کا سنگِ بنیاد تھا جو جنوری 1906ء میں رکھا گیا۔
اس شاخِ دینیات یا مدرسہ احمدیہ کے سب سے پہلے دو مدرس (ٹیچر) حضرت قاضی سیّد امیر حسین شاہ صاحب اور مولوی فضل دین صاحب (کھاریاں ) تھے۔ بعد میں حضرت مولانا سیّد سرور شاہ صاحب اس کے استاد مقرر ہو گئے۔تعلیم الاسلام سکول سے جوطلبہ پرائمری پاس کرکے شاخِ دینیات میں داخل کئے جا تے تھے وہ مدرسہ احمدیہ کے طلبہ بن جا تے تھے۔پہلے سال میں 9 اور دوسرے سال میں 5 طلبہ لئے گئے۔ (تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 428-430)
مدرسہ احمدیہ کی ابتداء بڑی سادگی سے ہوئی۔ اساتذہ اور طلبہ کے لئے کوئی میزکرسیاں، بینچ یا ڈیسک وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔ اساتذہ اور طلبہ سب زمین پر بیٹھتے تھے۔ اساتذہ کیلئے امتیاز کیلئے جائے نماز بچھادی جاتی اور طلبہ ٹاٹ پر بیٹھتے تھے۔یکم مارچ 1909ء کو مدرسہ احمدیہ کی ابتداء ہوئی اس کا نام شاخِ دینیات کی بجائے ’’مدرسہ احمدیہ ‘‘ حضرت مو لوی شیر علی صاحبؓ نے تجویز فرمایا۔ اس کے پہلے ہیڈ ما سٹر حضرت مولانا سیّد سرور شاہ صاحبؓ قرار پائے اور سپرنٹنڈنٹ مولوی صدرالدین صاحب بی۔اے بی۔ٹی۔
مدرسہ احمدیہ میں داخلہ کے لئے حسبِ ذیل معیار کی منظوری سیّد نا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل ؓ نے دی۔
1۔ مدرسہ میں گیا رہ سال سے کم عمر کا لڑکا داخل نہ کیا جا ئے گا۔
2۔ معیار قابلیت مروجہ پرائمری کا امتحان ہو گا۔
3۔ پرائمری سے کم تعلیم کے بچوں کیلئے داخلہ کا ایک امتحان دینا ضروری ہو گا۔
4۔ مدرسہ کا نصاب سات سال کا ہو گا۔
عہدِخلافت ِاولیٰ کے اساتذہ کرام
1۔ حضرت مولانا سیّد سرور شاہ صاحبؓ ہیڈماسٹر اوّل مدرسہ دینیا ت
2۔ حضرت قاضی امیر حسین صاحبؓ (فقہ)۔
3- حضرت مو لوی محمد اسما عیل صاحبؓ (علم ِادب)
4۔ حضرت حکیم فضل الدین صاحبؓ بھیروی (دینیات )
5۔ حضرت میاں (پیر) منظور محمد صاحبؓ (متفرق مضامین )
6۔ حضرت مولوی محمدجی صاحبؓ۔
7۔ حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصریؓ۔
8۔ پیر مظہر قیوم صاحبؓ۔
9۔ حضرت مولانا عبدالرحیم نیّرصاحبؓ۔
10۔ شیخ عبدالرحمان صاحب مصریؓ۔
11۔ حکیم محمدالدین صاحب ؓ۔
12۔ میاں عبدالحق صاحبؓ۔
13۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ۔
14۔ حضرت مرزا برکت علی صاحبؓ۔
15۔ میاں دین محمدصاحبؓ۔
مدرسہ کی ابتدائی کمزور حالت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اساتذہ اور طلبہ کی کتب کیلئے ابتداء صرف 125روپے کا بجٹ تھا۔ سیّد نا حضرت مرزا محمود احمد صاحب ؓ ستمبر1910ء میں مدرسہ احمدیہ کے نگرانِ اعلیٰ (افسر) مقرر ہوئے اور اپنی خلافت تک آپ نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ ہیڈماسٹر بدستور حضرت مولانا سیّد سرور شاہ صاحبؓ تھے۔ مکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اس سنہری دور کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مدرسہ ہا ئی (High School)کے ساتھ جب تک مدرسہ احمدیہ رہا اس کی حالت بالکل ایک لاوارث چیز کی سی تھی طالب علموں کے پاس پورے طور پر کمرے بھی نہ تھے۔ مدرّسوں(Teachers)کے پاس اچھی کرسیاں تک نہ تھیں۔۔بعض کلاسیں زمین پر چٹائیاں بچھا کر گزارہ کرتی تھیں۔ایک دفعہ ایسا بھی ہؤا کہ نہ امتحان ہؤا اور نہ کلاس بند ہوئی۔ بالکل لاوارثی کی سی حالت تھی۔ اس بے کسی کے زمانہ میں حضرت محمود (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) مدرسہ احمدیہ کے لئے فرشتہ بن کر ظاہر ہوئے۔ مدرسہ احمدیہ کی نظامت آپ کے سپرد ہوئی۔ وہ مدرسہ احمدیہ جس کی ڈوبتی کشتی ایک دفعہ آپ پہلے بچا چکے تھے اب آپ نے اسے اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیا۔
آپ کا وجود مدرسہ احمدیہ کے لئے ایک مجسم رحمت تھا۔ آپ نے پست خیال طالب علموں کے اندر علوہمتی پیدا کرنے کے لئے متعدد طریق اختیار فرمائے۔ آپ نے حکما ً طالب علموں کو زمین پر بیٹھ کر پڑھنے سے منع فرمایا۔ کیونکہ اس سے پست خیالی پیدا ہوتی ہے۔ طالب علموں کو فنِ خطابت سکھانے کے لئے جلسوں اور لیکچروں کا انتظام فرمایا۔ ہر جمعرات کو نصف دن تعلیم ہوتی تھی اور با قی نصف وقت تعلیمِ خطابت ہوتی تھی۔ لڑکوں کے بورڈنگ ہاؤس کی صفائی کا خاص اہتمام ہونے لگا۔ ہرماہ میں ایک دفعہ لازما ًآپ بورڈنگ، واٹر ہاؤس، کچن اور بیت الخلا ء کی صفا ئی کا ملاحظہ فرماتے۔
عربی مدرسوں کے طالب علموں میںایک قسم کی پستی پیدا ہو جا تی ہے۔ اس کو دُور کرنے کے لئے آپ خود وقتاًفوقتًا تقریریں فرماتے اور اِ ن کو اُبھارتے۔ مدرسہ احمدیہ کے طالب علموں کے لئے کھیلنے کے لئے کوئی الگ فیلڈ نہ تھی۔ آپ نے ان کے لئے فیلڈوں کا انتظام کیا تا کہ آئندہ بننے والے علماء صرف مُلّاں ہی نہ ہوں بلکہ ہر طرح چاق وچوبند ہوں۔
مدرسہ کے پاس تو ایک قیمتی لائبریری تھی جس سے طالب علم فائدہ اٹھا تے تھے مگر مدرسہ احمدیہ کے پاس کوئی لائبریری نہ تھی۔ آپ نے اس ضرورت کو سخت محسوس کیا اور اپنی لائبریری سے قیمتی کتابوں کا ایک بڑا مجموعہ جس میں الہلال مصر کے پر چے بھی تھے مرحمت فرمایا اور مزید روپیہ بھی انجمن سے منظور کروایا۔ طالبعلم عربی کتابوں کو پڑھتے تھے اور فائدہ اٹھاتے تھے۔
آپ نے مدرسہ کی چوتھی جماعت کو اپنے لئے مخصوص کرلیا اور روزانہ تین چار گھنٹہ اپنا وقت دیتے تھے۔مَیں بھی اس کلاس کا طالبعلم تھا اور اپنے بخت پر فخر کرتا ہوںکہ مجھے بھی آپ سے نسبتِ تلمذ حاصل ہے۔ آپ اپنی کلاس کے طالب علموں کی ہر طرح سے تربیت فرمایا کرتے تھے۔یہ مدرسہ احمدیہ کا موضوع بہت لمبا ہے سرِدست اختصار سے اس قدر لکھتا ہوں کہ بعض طالبعلم مدرسہ میں کُرتہ پہن کر آجاتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے ترجمہ میں ایک فقرہ دیا جو یہ تھا: مدرسہ میں بغیر کوٹ پہنے نہیں آنا چاہئے۔
اس فقرہ سے سب لڑکے سمجھ گئے کہ آپ کیا چا ہتے ہیں دوسرے دن لڑکے کوٹ پہن کر آ گئے۔
تربیت کا یہ عجیب پہلو تھا۔ ایک دن سکول میں آپ دیر سے تشریف لائے۔ لڑکے باہم ہنسی مذاق کرنے لگے۔اسی حالت میں آپ تشریف لے آئے۔ آپ نے اس وقت تو کچھ نہ فرمایا۔ تیسرے دن اُردو سے عربی کرنے کا جب کام دیا تو حسبِ ذیل فقرات اس میں درج تھے۔
1۔ ہنسی مذاق بُری چیز نہیں۔
2۔ مگر کھیل، کھیل کے و قت کھیلو۔
3۔ مدرسہ میں جب آؤ،ایک دوسرے کا ادب کرو۔
4۔ دھکم دھکا مت ہو۔
5۔ کسی کے کندھے پر ہاتھ مت رکھو۔
لڑکوں نے عربی میں تر جمہ تو کیا مگر اس کے ساتھ ہی اپنی اصلاح کر لی۔ رات کو آپ لڑکوں کو سٹڈی(Study)کی حالت میں دیکھنے کے لئے تشریف لاتے۔الغرض مدرسہ احمدیہ آپ کی پوری تو جہ سے بڑھتاچلا گیا۔اور سلسلہ میں جس قدر کام کر نے والے علماء آج نظر آتے ہیں وہ آپ کی تو جہ اور محنت کا نتیجہ ہے۔‘‘ (الحکم جوبلی نمبرصفحہ 71 کالم12)
مدرسہ احمدیہ کے نظامِ تعلیم کو ٹھوس اور مستقل بنیادوں پر قائم کر نے کے لئے آپ نے سب سے اہم قدم یہ اٹھایا کہ اوائل 1912ء میں اپنے خرچ پر ہندوستان کا ایک لمبا دورہ کیا۔ (اس دوران میں آپ کی قائم مقامی میں افسر مدرسہ احمدیہ کے فرائض مولوی محمد الدین صاحب نے سر انجام دیئے۔ (رجسٹرنمبر5 صدرانجمن احمدیہ صفحہ 335) جس میں دیوبند، سہارنپور، ندوہ وغیرہ اسلامی مدارس کی تعلیم اور ان کے انتظام کا بغور مطالعہ کیا اور پھر اپنے تجربات کی رو شنی میں مدرسہ میں اہم تبدیلیاں کرکے طلباء کے معیار تعلیم کو بلند سے بلندتر کر دیا۔اس کے بعد آخر 1912ء میں عربی مدارس دیکھنے اور حج کر نے کے لئے آپ نے مصر وعرب کا سفر بھی اختیار فرمایا۔(ان سفروں کی تفصیل آگے آرہی ہے) سفرِمصر کے دوران حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ افسر مدرسہ بنے اور مشیر تعلیمی حضرت مولانا سرور شاہ صاحبؓ۔ (رجسٹر نمبر 6 صدر انجمن احمدیہ صفحہ 134)
1913ء میں آپ کے مشورہ پر حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مدرس مدرسہ احمدیہ کو مصر میں بغرضِ تعلیم بھجوایا گیا تا وہ عربی تعلیم حاصل کرکے مدرسہ احمدیہ کے لئے مفید وجود بن سکیں۔ قبل ازیں مدرسہ احمدیہ کے طلبہ کو نہ مولوی فاضل کا امتحان پاس کر نے کی سہولت تھی نہ انٹرنس تک انگریزی پڑھنے کی آسانی مگر آپ کی تو جہ سے مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلبہ کے لئے ہائی سکول میں انگریزی تعلیم کا انتظام ہوا۔ نیز طلبہ مدرسین کی مددسے مولوی فاضل کے امتحان میں شامل ہونے لگے۔ (ایضاًصفحہ333) علاوہ ازیں مدرسہ کے نصاب کی تکمیل کے لئے ایک دوسالہ طبّی کورس بھی رکھا گیا۔ آپ اپنے اوقات کا اکثرحصّہ مدرسہ کی اصلاح میں خرچ کرتے اور اپنی قوم کے بچوں کے لئے تڑپ تڑپ کر دعا ئیں کرتے تھے۔ (تشحیذالأذہان جنوری 1912 ء صفحہ4)
آپ نے بورڈنگ کا الگ انتظام کروایا۔پرا ئمری سے کم تعلیم رکھنے والے طلبہء کے لئے (یکم مارچ 1913ء سے) سپیشل کلاس کھلوائی۔ (رجسٹر نمبر 4 صدر انجمن احمدیہ صفحہ145)
آپ طلبہ کی تعلیم میں اس حد تک ذاتی دلچسپی لیتے رہے کہ جب کو ئی استاد رخصت پر جا تا تو بعض اوقات خود ہی اس کا مضمون پڑھاتے اور طلبہ میں عربی کا ذوق پیدا کر نے کے لئے عربی میں کلام فرما تے تھے۔
(بدر22مئی 1912ء صفحہ 2کالم 2)
مدرسہ احمدیہ کے لئے آپ کی خدمات کا سلسلہ بہت وسیع ہے۔مختصراً یہ کہ آپ نے اس دینی درسگاہ کو بامِ عروج تک پہنچانے کے لئے کو ئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور مدرسہ نے آپ کے عہد میں حیرت انگیز ترقی کی۔
مدرسہ خلافت ِ ثا نیہ میں
مارچ 1914 ء میں جب آپ ؓ مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو مدرسہ کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے خوش اسلوبی سے سنبھال لیا۔ (الفضل 8اپریل 1915ء صفحہ 4کالم2)
ازاں بعد شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ہیڈ ما سٹر مقرر ہو ئے۔ 1919ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ محسوس کرکے کہ جماعت کی عالمگیر تبلیغی ضروریا ت کو صرف مدرسہ احمدیہ ہی پورا کرسکتا ہے، آپ نے پہلی جا ری شدہ سکیم پر نظر ثانی کے لئے ایک کمیٹی نامزد فرما ئی جس کے ممبر یہ تھے :
1۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ
2۔ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ ایم۔اے (جن کا نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بعد میں عبدالرحیم صاحب دردؔ تجویز فرمایا)
3۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ
4۔ حضرت مولوی محمد دین صاحب ؓ
5۔ حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ
6۔ حضرت سیّد محمد سرور شاہ صاحبؓ
7۔ ماسٹرنواب دین صاحب
8۔ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری
چنانچہ حضور کی زیر نگرانی مدرسہ کے لئے ایک نئی انقلابی سکیم نافذ کی گئی۔
(رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ 1919-20ء صفحہ59)
اس سکیم کے نتیجہ میں مدرسہ احمدیہ ترقی کرتے کرتے 20 مئی 1028ء کو عربی کالج یعنی جا معہ احمدیہ کی شکل اختیار کر گیا۔(رسالہ جامعہ احمدیہ اپریل 1930ء صفحہ3) جس نے بڑے بڑے نامور علماء اور مبلغ پیدا کرکے تبلیغ اسلام کی جدوجہد میں شاندار حصّہ لیا جو رہتی دُنیا تک یا د گار رہے گا۔صدر انجمن احمدیہ نے 15اپریل 1928ء کو فیصلہ کیا کہ آئندہ اس تعلیمی درسگاکانام جامعہ احمدیہ ہو گا۔
حضرت میر محمداسحق صاحبؓ کی اصلاحات کا دَور
وسط 1937ء میں مدرسہ احمدیہ کا ایک جدید دور شروع ہؤا جبکہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے اخراجِ جماعت کے بعد حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ اس کے ہیڈماسٹر ہوئے۔آپ نے اپنے مختصر عہد میں مدرسہ میں متعدد اصلاحات کیں۔ اس کی خستہ عمارت کو پختہ کرایا۔ یتیم اور بے سہارا طلبہ کی تعلیم کے لئے خصوصی انتظامات کئے۔ طلبہ میں علمی شعور پیدا کر نے کے لئے علمی مجالس قائم کیں آپ طلبہ میں تبلیغی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے اپنے شاگردوں کو قادیان سے باہر جلسوں پر لے جاتے۔ خود بھی تقریر فرماتے اور ان سے بھی تقریریں کراتے۔ آپ نے اپنی خداداد علمی، روحانی اور انتظامی قابلیتوں سے مدرسہ احمدیہ کی عظمت کو چارچاند لگا دیئے۔ مگر افسوس زندگی نے وفا نہ کی۔ اور آپ 19مارچ 1944ء کو انتقال فرماگئے اور آپ کی بجائے مولوی عبدالرحمن صاحب ہیڈماسٹر مقرر ہوئے۔

1947ء میں تقسیم ملک کے بعد جب قادیان فسادات کی لپیٹ میں آگیا تو مدرسہ احمدیہ کے سٹاف کے چار اساتذہ جن میں مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل بھی تھے درویشوں میں شامل ہو گئے اور بقیہ اساتذہ کا قافلہ جامعہ احمدیہ کے سٹاف کے ساتھ 10نومبر1947ء کو بذریعہ کنوائے (Convoy) قادیان سے لاہور پنا ہ گزین ہؤا۔
مدرسہ احمدیہ کا احیا ء پاکستان میں
نئے بدلے ہوئے حالات میں چو نکہ دو مستقل اداروں کا علیحدہ علیحدہ شکل میں قائم رہنا مشکل تھا اس لئے ان کا الحاق کر کے 13نومبر 1947ء کو لاہور میں ایک مخلوط ادارہ کا اجراء کیاگیا جس میں مدرسہ احمدیہ اور جا معہ احمدیہ کے طلبہ جامعہ احمدیہ کے پر نسپل مو لانا ابوالعطاء صاحب فاضل کی زیرنگرانی تعلیم پا تے تھے۔ جگہ کی تنگی نیز ہوسٹل کی سہولتوں کے میسّرنہ آنے کی وجہ سے یہ ادارہ چند دن بعد پہلے چنیوٹ میں بعدازاں دوماہ بعد احمد نگر (متصل ربوہ) میں منتقل کر دیا گیا۔ شروع دسمبر 1949ء میں جامعۃ المبشرین یعنی مبشرین کالج کا اجراء ہوا جس میں جا معہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباء کو تبلیغ ِ اسلام کی خصوصی ٹریننگ دی جا نے لگی۔ آخر 7جولائی 1957ء کو مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ اور جامعۃالمبشرین تینوں ادارے ایک ہی درسگاہ میں مدغم کردیے گئے اور اس درسگاہ کے پرنسپل سیّد داؤد احمد صاحب مقرر ہوئے۔
اب یہ درسگاہ جامعہ احمدیہ کے نام سے یا د کی جاتی ہے۔
(تاریخِ احمدیت جلد 4صفحہ293)
مکرم سیّد داؤد احمد صاحب کی وفات پر حضرت ملک سیف الرحمن صاحب، مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب، مکرم ملک مبا رک احمد صاحب اور مکرم میر محمود احمد صاحب بالترتیب جامعہ احمدیہ ربوہ کے پرنسپل مقرر ہو ئے۔
اس وقت قادیان اور ربوہ کے علاوہ غانا، نائیجیریا، انڈونیشیا، کینیڈا، برطانیہ اور جرمنی میں انٹرنیشنل جامعہ احمدیہ کھل چکے ہیں اور بہت سے دوسرے ممالک میں جامعہ احمدیہ کے نام سے مقامی ادارے کام کررہے ہیں۔
پس وہ مدرسہ تعلیم الاسلام جس کی بنیاد سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام  نے اپنے دستِ مبارک سے رکھی تھی آج دنیا کے کئی ممالک میں اس کی شاخیں ربانی علماء اور مبلغین تیار کر رہی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں