شاعر مغرب

مزاحیہ مضمون:
(مطبوعہ رسالہ ’’طارق‘‘ جلد3 شمارہ 1)

(تحریر: محمود احمد ملک)

امید ہے اس سے قبل آپ نے ’’شاعر مشرق‘‘ کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ آج ہم آپ کا تعارف ’’شاعر مغرب‘‘ سے کرا رہے ہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ’’شاعر مشرق‘‘ کو یہ لقب اس وقت ملا جب وہ شاعری کی دنیا میں مستند سمجھے جانے لگے تھے جبکہ ’’شاعر مغرب‘‘ یہ لقب پانے کے بعد اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ شعراء کی صف میں شامل ہونے کی سعی میں مصروف ہیں۔ اسی طرح ’’شاعر مشرق‘‘ کی شہرت کی اصل وجہ محض اُن کی شاعری ہے جبکہ ’’شاعر مغرب‘‘ کی شہرت میں شاعری کے بجائے کچھ دیگر عناصر زیادہ فعال نظر آتے ہیں مثلاً سرخ و سفید رنگ، ہنسنے اور ہنسانے والا چہرہ، روشن آنکھیں، سادگی، سادہ دلی اور سادہ لوحی وغیرہ۔
’’شاعر مغرب‘‘ کو چاندنی سے عشق ہے (گو کہ یہ چوکور نہیں ہیں بلکہ شاعری کے حوالہ سے سورج ہیں)۔ چاندنی دراصل اِ ن کی محبوبہ ہے اور جس مہارت کے ساتھ یہ اُس کے ساتھ اپنے محبت بھرے نازک جذبات کا اظہار اشعار میں کرتے ہیں وہ انہی کا حصّہ ہے۔
اکثر شعراء اس انتظار میں نظر آئیں گے کہ آپ کے منہ سے اپنی تعریف میں چند الفاظ سنیں اور اپنا دیوان کھول لیں مگر شاعر مغرب کا انداز جُدا ہے کہ اوّل تو یہ ہر کسی کو اپنے اشعار سنا کر زبردستی داد لینے کے قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ بہت سے ستم رسیدوں نے مجھے بتایا ہے کہ شاعر مغرب نے اپنا کلام ارشاد فرمانے کے بعد انہیں کہا کہ وہ اپنا کلام ہر کسی کو نہیں سناتے بلکہ یہ خوش قسمتی (بدقسمتی سے) ان کے ہی حصّہ میں آئی ہے کیونکہ وہ دیکھنے میں باذوق نظر آتے ہیں۔ دوم یہ کہ ’’شاعر مغرب‘‘ اپنا کلام سنانے اور پھر سناتے ہی چلے جانے سے پہلے اور اِس کے دوران آپ کے منہ سے اپنی یا اپنے کلام کی تعریف سننے کی ضرورت قطعاً محسوس نہیں کرتے بلکہ روانی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ آپ کو مجلسِ شعروادب کے برخواست یا ملتوی کرنے کی درخواست کرنے کے لئے جو مختصر وقفہ درکار ہوتا ہے، وہ بھی نصف گھنٹے سے قبل نہیں آتا۔
شاعر مغرب کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہیں اپنا قریباً سارے کا سارا دیوان زبانی یاد ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کے اشعار لچک دار ہیں اور الفاظ کے آگے پیچھے ہونے سے نہ تو مفہوم بدلتا ہے اور نہ اُن کی شاعری کے (اس) لطف میں کچھ کمی آتی ہے (جو یہ اشعار سناتے ہوئے اٹھا رہے ہوتے ہیں)۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ شعروں کی لچک اِن کی اپنی لچک دار شخصیت کا پرتَو ہے اور ممکن ہے یہ بات اِن کی شاعری کی عظمت پر بھی دلالت کرتی ہو۔
ہمارے ایک دوست عمرؔ کا کہنا ہے کہ ’’شاعر مغرب‘‘ ایک ایسا شاعر ہے جہاں جاکر شاعری بھی غروب ہو جائے۔
اگر آپ کو کبھی کلام شاعر بزبان شاعر سننے کا موقعہ ملا ہو تو آپ کو اندازہ ہؤا ہوگا کہ شعراء ایسے تکلّفات کا مظاہرہ کرتے ہیں گویا انہیں کلام سنانے پر مجبور کیا جا رہا ہو جبکہ شاعر مغرب سے کلام سننے والے فریادکناں ہیں کہ یہاں شاعر کی بجائے بے چارہ سامع مجبور نظر آتا ہے۔
اکثر شعراء کسی نہ کسی کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں اور اُن کی شاعری میں ان کے استاد کا رنگ بھی جھلکتا ہے، گویا شاعری میں بھی ایک طرح کا سلسلہ نسب ہوتا ہے۔ ’’شاعر مغرب‘‘ چونکہ ایک نئی طرز فکر کے بانی اور ندرت کلام کے موجد ہیں اس لئے یہ استاد سے محروم ہیں۔ البتہ امید سے ہیں کہ اِن کے ہاں ایسے شاگرد ضرور پیدا ہوں گے جو اِن کا نام روشن کریں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر رنگ کی مخلوق پیدا کی ہے، یعنی اگر ’’شاعر مغرب‘‘ وجود میں آ سکتے ہیں تو اِن کے شاگرد بھی جنم لے سکتے ہیں …۔
البتہ شاعر مغرب کے استاد کا مسئلہ بہت پیچیدہ صورت اختیار کرچکا تھا کیونکہ اِ ن کے کلام سے مرعوب ہوکر زندہ شعراء نے تو صاف صاف معذرت کرتے ہوئے کہہ دیا کہ جناب! چونکہ آپ کی شاعری سو فیصد خداداد عطیہ ہے اس لئے ہماری ناچیز رائے میں یہ مناسب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی یا درستی کی جسارت کی جائے اور اس کام کے لئے وقت ضائع کیا جائے کیونکہ وقت اللہ کی نعمت ہے اور نعمت کا ضیاع گناہ ہے، وغیرہ۔ چنانچہ ’’بڑی دور کی سوجھی‘‘ کے پیش نظر ’’شاعر مغرب‘‘ نے غالبؔ مرحوم کو اپنا استاد بناکر نہایت فراست کا ثبوت دیا اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ’’شاعر مغرب‘‘ کے کلام میں تو خیر نہیں لیکن اِن کے لباس میں غالب کا رنگ ضرور آگیا۔
تاریخی طور پر ثابت ہے کہ غالبؔ مرحوم نے جو لباس زیب تن کیا ہوتا تھا اس میں ایک لمبا کوٹ اور سر پر بڑی سی ٹوپی شامل تھی۔ چنانچہ ’’شاعر مغرب‘‘ نے بھی ایک بڑی قراقلی ٹوپی کا آرڈر دیا اور جب تک وہ مخصوص ٹوپی تیاری کے مراحل سے گزری، اِنہوں نے ایک ’’ٹی کوزی‘‘ کو اپنے سر کی زینت بنائے رکھا۔ کسی نے شاعر مغرب کو بتایا ہے کہ اِن کی ٹوپی کی خاطر ایک پورے بکرے کی خصوصی قربانی دی گئی ہے۔ اگرچہ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ اِن کی جہازی سائز ٹوپی کے نیچے حفظ ماتقدم کے طور پر ایک ہیلمٹ بھی ہوتا ہے۔ بہرحال شاعر مغرب جس طرح غالبؔ مرحوم کے روایتی لباس میں مسلسل روبہ ترقی ہیں اس سے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگتی کہ بہت جلد یہ اپنے استاد مرحوم کے کان کاٹنے لگیں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ روشن مستقبل کے متلاشی ایسے شاعر کا کلام باقاعدہ محفوظ کیا جانا چاہئے بلکہ اگر ممکن ہو تو کسی پرائیویٹ سکول کے پہلی دوسری جماعت کے نصاب کے طور پر بھی متعارف کروایا جائے اور اس نصاب سے استفادہ کرنے والے بچوں کو نفسیاتی تجربات کے لئے استعمال کیا جائے۔ اِس طرح جہاں شاعر مغرب کے منفرد کلام کو اردوادب میں فروغ حاصل ہوگا وہاں ایسے بے شمار شعراء کو حوصلہ نصیب ہوگا جو کلی سے پھول بننے کے نازک مرحلے سے دوچار ہیں۔ نیز ایسے احباب کو بھی عبرت حاصل ہوگی جو پختہ عمر میں شاعری کا روگ پال کر دوسروں کے نازک جذبات سے کھیلتے ہیں اور لاحق ہونے والے اس عارضہ کے باعث دوسروں کے لئے سوہانِ روح بنتے ہیں۔
ذیل میں آپ کی خدمت میں شاعر مغرب کے کلام کا محض ایک نمونہ (کچھ ضروری تصحیح کے بعد) پیش کیا جا رہا ہے لیکن یاد رہے کہ کلام کا چناؤ جہاں اپنی جگہ کارِدارد تھا وہاں چناؤ کی خاطر سارے مجموعہ ہائے کلام کا مطالعہ بھی سردردی سے کچھ کم نہ تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ مضمون رقم کرنے کے بعد مجھے اطمینان ہے کہ جو وعدہ اپنے پیارے ’’شاعر مغرب‘‘ سے میں نے کسی نازک لمحے میں بے اختیار کر لیا تھا اُس کا حق کسی نہ کسی حد تک ادا کردیا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ شاعر مغرب جس بلند مقام پر فائز ہیں، اُس کے لحاظ سے ہی اگر ’’بات کی جاتی تو یقینا بڑھ جاتی‘‘۔ اور اگر اِن کی ذومعنی، لچک دار، پابند و آزاد قسم کی شاعری پر ایک طائرانہ قسم کی نظر ہی ڈالی جاتی اور شاعر کی حیثیت سے اِن کے کلام پر بھرپور تبصرہ کا موقع ہوتا تو یقینا اِس شمارے کے صفحات اسی کی نذر ہو جاتے۔ پس ضروری ہے کہ مضمون پڑھنے کے باوجود تشنگی کا احساس باقی رہے۔ چنانچہ اس پیارے اور خوبصورت ابھرتے ہوئے شاعر کی شخصیت کا جو خاکہ قارئین کے ذہنوں میں یہ مضمون پڑھنے کے بعد پیدا ہوا ہے، اگر آپ آنکھیں بند کرکے اس خاکہ میں رنگ بھر سکتے ہیں تو گویا اس تحریر سے آپ لطف اندوز ہوئے ہیں۔ لیکن نوٹ فرمالیں کہ یہ مضمون چونکہ آپ کی ظرافت طبع کے لئے نہیں لکھا جا رہا اس لئے اس مضمون کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف شاعر اور مضمون نگار … دونوں اپنی متضاد آراء محفوظ رکھتے ہیں۔
ذیل میں نمونہ کلام کے طور پر ’’شاعر مغرب‘‘ کی ایک نظم کے منتخب اشعار پیش کئے جا رہے ہیں۔ اگر آپ اِن کی تاثیر سے جاں بر ہوگئے تو حسب فرمائش مزید کلام بھی بذریعہ ڈاک بھجوایا جا سکتا ہے۔ نیز یہ کہ اس کلام کی کسی بھی دوسرے شاعر کی کسی نظم سے مماثلت محض اتفاقیہ حادثہ ہوگی جسے خاطر میں لانے کی ضرورت نہیں- اشعار ملاحظہ کیجئے- فرماتے ہیں:

افق پر نئے رُخ سے نکل نہیں سکتا
میں آفتاب ہوں رستہ بدل نہیں سکتا
قدم قدم پر اسے دعویٰ قیادت ہے
جو اپنی ذات سے باہر نکل نہیں سکتا
غریب شاعر، امیر ضمیر ہوتا ہے
بدلتے وقت کی صورت بدل نہیں سکتا
بلندیوں کے سفر میں قدم جماکے چلیں
پھسلتے وقت کوئی بھی سنبھل نہیں سکتا

بعض احباب کا خیال ہے کہ ہم نے کلام کے چناؤ میں اور پھر اس کی درستی میں اس قدر جانفشانی دکھائی ہے کہ گویا اِن اشعار کو مکمل تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اس بارے میں پہلی عرض تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے رسالہ کے معیار کا خیال بھی تو بہرحال کرنا پڑتا ہے اور کوئی مدیر بھی ہر قسم کا رطب و یابس اپنے رسالہ میں بغیر اصلاح کئے شائع نہیں کرسکتا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ چونکہ شاعر مغرب کا کلام لچک دار ہے، اس لئے مفہوم میں بالکل کوئی فرق نہیں پڑا جبکہ تیسری اور آخری بات راز کی یہ ہے کہ موصوف شاعر کی فراخدلانہ خصوصی اجازت سے ہی اُن کے منتخب کلام (کے تقریباً ہر مصرعہ) میں تبدیلی کی جسارت کی گئی ہے۔

محترم قارئین! اگر آپ میں بھی شاعری کے جراثیم پرورش پا رہے ہیں تو راقم الحروف آپ کے رابطہ کا شدت کے ساتھ منتظر ہے۔

(نوٹ: یقین کیجئے کہ اس مضمون کی وجۂ تخلیق واقعی ایک شاعر نما مخلوق ہے تاہم بوجوہ اُن کا نام صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے۔ ایک پُرلطف بات یہ بھی ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے چند روز بعد موصوف خاکسار کے پاس آئے اور پوچھا کہ سب کو میرا یہ مضمون بہت پسند آیا ہے اور سب نے ہی تعریف کی ہے لیکن میری بیوی کہتی ہے کہ محمود سے پوچھو کہ اُس نے واقعی تمہاری تعریف کی ہے یا صرف تمہارا مذاق اڑایا ہے۔ مَیں نے اپنے موصوف شاعر سے جواب دینے کے لئے سوچنے کا وقت مانگا ہے۔ لیکن اس وقت مجھے اپنے پیارے قارئین کا مشورہ درکار ہے کہ بات وہی منہ سے نکلے جو اس معاملہ کو ہاتھ سے نہ نکلنے دے۔)

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں