صوبیدار (ر) راجہ محمد مرزا خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21 اور 22 دسمبر 2011ء میں مکرم راجہ منیر احمد خان صاحب (پرنسپل جامعہ احمدیہ جونیئرسیکشن ربوہ) کے قلم سے اُن کے والد محترم صوبیدار راجہ محمد مرزا خان صاحب کے حالاتِ زندگی تفصیل سے شامل اشاعت ہیں ۔
محترم صوبیدار راجہ محمد مرزا خان صاحب 1922ء میں ادووال (ضلع جہلم) میں پیدا ہوئے اور 4؍اگست 2011ء کو وفات پائی۔ بوجہ موصی ہونے کے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ آپ کو اپنے خاندان میں سب سے پہلے بیعت کرنے کا شرف حاصل تھا۔ گو آپ کے والد محترم راجہ حاکم خان صاحب ولد راجہ سرفراز خان صاحب احمدیت کی نعمت سے محروم رہے تاہم انہوں نے احمدیت کی مخالفت کبھی نہیں کی۔
محترم راجہ محمد مرزا خان صاحب دورانِ تعلیم ہی فوج کی میڈیکل کور میں بھرتی ہوگئے ۔ بعدہٗ آپ نے کوالیفائیڈ ڈسپنسر کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران آپ مشرق وسطیٰ میں متعیّن رہے جہاں آپ کو بیت المقدس اور دیگر مقدّس مقامات دیکھنے اور مسجد اقصیٰ میں نمازیں ادا کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ جنگ کے دوران آپ کا قیام لیبیا، آسٹریا اور اٹلی میں بھی رہا۔
اٹلی میں آپ کے ساتھ ایک احمدی مکرم شبیر حسین شاہ صاحب حوالدار بھی رہتے تھے۔ اُن کے توسّط سے آپ کو ’’کشتی نوح‘‘ پڑھنے کا موقع ملا تو آپ کو اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا جب آپ کی برادری کے ہی کسی شخص نے آپ کی کسی معمولی غلطی پر ناراض ہوتے ہوئے آپ کو ’’اومرزیا قادیانیا‘‘ کہا تھا۔ اُس وقت آپ کو صرف یہ سمجھ آیا تھا کہ آپ کے نام مرزاؔ کو بگاڑ کر اُس نے طنز کیا ہے۔ لیکن کتاب ’’کشتی نوح‘‘ کو دیکھ کر آپ کو اُس طعنہ کی سمجھ آئی اور پھر کتاب پڑھ کرآپ کو احمدیت کی سچائی کا علم ہوا۔ چنانچہ آپ نے اٹلی سے ہی خط کے ذریعہ حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کرلی۔ حضورؓ نے آپ کی بیعت قبول فرمائی اور یہ درخواست بھی قبول فرمائی کہ آپ کو احمدیت سے متعلق بہت سی کتب ارسال کردی جائیں ۔ ان بھجوائی جانے والی کتب میں ’’براہین احمدیہ‘‘ بھی شامل تھی۔
آپ اٹلی میں مقیم تھے جب ایک رات آپ کو خواب میں جنگ بند ہونے کی خبر دیدی گئی۔ چنانچہ اگلے روز جب میمورنڈم پہنچا جس میں جنگ بندی کی اطلاع دی گئی تھی تو آپ نے اسے احمدیت کی سچائی کا نشان سمجھا۔ جنگ کے بعد آپ واپس اپنے گاؤں آگئے اور کچھ عرصہ تبلیغ بھی کرتے رہے۔ لیکن کسی نے بھی احمدیت میں دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔ پھر آپ حضرت مصلح موعودؓ کی زیارت کے لئے قادیان چلے گئے جہاں کے پاکیزہ ماحول اور نیک ہستیوں کی صحبت نے آپ کی سوچ میں روحانی انقلاب پیدا کردیا۔
احمدیت قبول کرنے سے قبل آپ کی منگنی اپنے خاندان میں ہو چکی تھی لیکن قبول احمدیت کے بعد آپ نے صرف احمدیوں میں ہی رشتہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کے اس فیصلہ کے نتیجہ میں آپ کو خاندانی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بہرحال پھر آپ کا رشتہ کلر کہار (ضلع چکوال) کے ایک مخلص احمدی محترم میاں سلطان بخش صاحب کی بیٹی سے طے پاگیا۔ محترم میاں سلطان بخش صاحب کو 1925ء میں کلر کہار میں سب سے پہلے ا حمدیت قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ان کی تبلیغ سے ہی وہاں جماعت قائم ہوئی تھی جس کے وہ پہلے صدر بھی مقرر ہوئے اور مسلسل 30سال تک یہ خدمت سرانجام دینے کی توفیق پائی۔ انہوں نے ایک اَور مخلص احمدی کو ساتھ ملاکر وہاں مسجد احمدیہ بھی تعمیر کروائی۔ محترم میاں سلطان بخش صاحب از حد بااخلاق، منکسرالمزاج، جفاکش، بہادر، امام وقت اور احمدیت سے والہانہ عشق اورانتہائی عقیدت رکھنے والے صوم و صلوٰۃ کے پابند ، چندہ جات میں باقاعدہ، حتی الوسع حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے فرشتہ سیرت بزرگ انسان تھے۔ موصی تھے۔ 1995ء میں 90 سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔ اُن کی اہلیہ محترمہ عائشہ بی بی صا حبہ بھی (جو اپنے بزرگ خاوند ہی کی صفات سے متصف تھیں ) 96سال کی عمرپا کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں ۔
محترم راجہ محمد مرزا خان صاحب نے قیام پاکستان کے بعد پہلے فرقان بٹالین میں بطور پلاٹون کمانڈر خدمات سرانجام دیں اور اس کے بعد اپنی سابقہ فوجی خدمات کے تسلسل میں ہی پاکستانی فوج میں شامل کرلئے گئے۔ دورانِ ملازمت مری میں تعیّناتی کے دوران وہاں زعیم خدام الاحمدیہ بھی رہے۔ تبلیغ بھی خوب کی۔ 1953ء کے پُرآشوب حالات میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر اہم ڈاک لے کر کراچی پہنچائی۔ 1972ء میں فوج سے ریٹائر ہوئے تو اس سے قبل آپ ربوہ میں اپنا ذاتی مکان تعمیر کروا چکے تھے۔ بعد ازاں یہاں ایک میڈیکل سٹور بھی شروع کرلیا۔ تبلیغ کا آپ کو جنون تھا اور ہر قسم کے لوگوں سے بات کرنے کا ہنر بھی آتا تھا۔ انفاق فی سبیل اللہ میں ہاتھ کھلا تھا۔ تہجّدگزار اور پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ 87 سال کی عمر تک باقاعدہ روزے رکھتے رہے۔ اپنے محلہ میں مسلسل جماعتی خدمت کی توفیق بھی پائی۔ جون 2009ء میں مسجد میں گرجانے سے کولہے کی ہڈّی میں فریکچر ہوگیا تو اس کے بعد آپ صاحب فراش ہوگئے اور بہت صبر سے اپنی یہ بیماری برداشت کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا جنہیں پنجگانہ نماز کا پابند بنانے میں آپ کے عملی نمونہ اور نگرانی کا بڑا دخل ہے۔
محترم راجہ صاحب حقوق العباد کی ادائیگی میں حتی الوسع مصروف عمل رہتے۔ اگرچہ یہ دستور بنارکھا تھا کہ ہر مریض سے بہت کم فیس اور ادویات کی قیمت لیتے لیکن سفیدپوش گھرانوں کا مفت علاج کرنے میں فرحت محسوس کرتے تھے۔ متعدد افراد کی باقاعدگی سے مالی مدد بھی کرتے تھے۔ ربوہ کے مضافات میں آباد کئی غیر از جماعت بھی آپ کی خدمت خلق اور اخلاق فاضلہ کے معترف تھے۔
آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کرام سے عشق تھا۔ حضور علیہ السلام کی ہر کتاب کئی کئی بار پڑھی تھی۔ خلفاء کرام کی بھی ساری کتب حاصل کرکے پڑھیں ۔ اہم عبارات کو اپنی زبان میں ریکارڈ کرواکر خود بھی بار بار سنتے اور زیرتبلیغ افراد کو بھی سناتے۔ اردو اور فارسی درثمین کے متعدد اشعار حفظ تھے۔ اپنے علاقہ کے اہم افراد کو مسلسل تبلیغی خطوط لکھتے رہتے۔ جلسہ سالانہ پر انہیں مدعو کرتے۔ یہ سلسلہ خلیفۂ وقت کی ہجرت کے بعد جلسہ سالانہ لندن کے ایم ٹی اے پر نشر ہونے کے زمانہ میں بھی جاری رہا۔ چنانچہ متعدد افراد نے آپ کے ذریعہ احمدیت بھی قبول کی۔ حضور انور ایدہ اللہ نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھانے سے قبل فرمایا: ’’خلافت سے بڑا تعلق تھا اورہر پروگرام کو جو خلیفہ وقت کاہوتاتھا بڑے غور سے دیکھتے ،سنتے اوریاد رکھنے کی کوشش کرتے تھے…‘‘
1974ء میں پنڈدادنخان کی احمدیہ مسجد پر معاندین نے وقتی طور پر قبضہ کر لیا۔ ان معاندین کے جلوس کی قیادت کرنے والے نامور رہنما نے محترم راجہ صاحب کی تبلیغ کے نتیجہ میں نہ صرف احمدیت کی مخالفت چھوڑ دی بلکہ احمدیت کے مدّاح ہوگئے۔ یہی حالت کئی دیگر افراد کی تھی۔ اس پر گاؤں کے ایک پیر نے آپ کی تبلیغی کاوشوں کو دیکھ کر شدید مخالفت شروع کردی اور حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں نہایت بدزبانی کرنے لگا۔ اس صورتحال پر آپ بہت دُکھی ہوئے اور آخر خاص دعا شروع کی۔ تو کچھ عرصہ بعد ہی وہ پیر پاگل ہوگیا اور اُس کے افرادِ خانہ نے اُسے ایک کمرہ میں بند کردیا جہاں وہ انتہائی غلیظ حالت میں وہ مرگیا۔ اس واقعہ نے اہل علاقہ پر بہت اثر کیا۔
آپ کو اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ سے سب وفاداروں سے بڑھ کر وفا کاسلوک فرمایا۔ ہر مشکل ، تکلیف اور دکھ میں آپ کا ساتھ دیا۔ آپ کی دوبیٹیاں ایک سال کے وقفہ سے بیوہ ہوگئیں ۔ آپ نے اُن کی اولاد کے سر پر اپنا دست شفقت و احسان اس طرح رکھا کہ ان کی ساری اولاد تعلیم مکمل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑی شاندار زندگی گزار رہی ہے۔
آپ نہایت جفاکش تھے۔ جہاں بھی بصورت رہائش آپ کا لمبا قیام رہا وہاں سبزیاں کاشت کیں ، نیز پھل دار اورسایہ دار درخت ضرور لگائے۔ ایک بار ایک درخت جو بظاہر سوکھ چکا تھا آپ اُسے بھی باقاعدگی سے پانی دیا کرتے تھے۔ دوسرے حیران ہوتے کہ اِس مرے ہوئے درخت کو پانی کیوں دیتے جارہے ہیں ۔ آخر ایک روز اُس کی کونپلیں اور پتے نکلنے لگے۔اور چند دن میں وہ سرسبز ہو گیا۔ تب آپ نے نہایت انکساری سے بتایا کہ دراصل مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ یہ درخت سر سبز ہے۔ لہٰذا میرا کام تو بس اتنا ہی تھا کہ اسے پانی دیتا رہوں ۔ آگے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے کہ یہ سر سبز ہوگیا ہے۔
آپ نہایت نڈر تھے اور ہر خطرہ کا مقابلہ بہادری سے کرتے۔ خدا تعالیٰ بھی آپ کو اپنے فضل سے ہر شر سے محفوظ رکھتا۔آپ ہمیشہ سچی اور کھری بات کرتے۔ کم گو تھے لیکن دوسرے کی لمبی بات کو بھی اطمینان سے سن لیتے ۔ جہاں بھی کسی کی بات کو خلاف واقعہ پاتے اسی وقت اس کی درستی کروادیتے۔ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کرتے۔ لیکن دوسروں کو اُن کا حق خود جاکر دیتے۔ ایک مرتبہ آپ کے بینک اکاؤنٹ میں کسی ادارہ کی ایک بڑی رقم غلطی سے آگئی۔ آپ نے از خود جاکر وہ رقم متعلقہ ادارہ کو واپس کر دی۔
آپ حتی الوسع اپنے اعمال صالحہ کو پوشیدہ رکھنے کے عادی تھے۔ مستجاب الدعوات تھے۔ لمبی دعائیں یاد تھیں ۔ قناعت کے ساتھ زندگی بسر کرنا آپ کا شیوہ تھا۔ نہایت نفیس اور صفائی پسند انسان تھے۔ کوئی بھی موسم ہو، روزانہ لازماًغسل کرتے اور ہمیشہ صاف ستھرا لباس زیب تن رکھتے۔ ماحول میں بھی صفائی کو پسند کرتے تھے۔ خوشبو کا استعمال آپ کے معمولات میں شامل تھا۔
ربوہ میں ریلوے کراسنگ کے قریب مارکیٹ میں آپ کا میڈیکل سٹور تھا۔ دیگر احمدی دکانداروں کے تعاون سے آپ نے وہاں ایک خالی جگہ کو ہموار کروا کے کھلے آسمان کے نیچے باجماعت نماز پڑھانی شروع کردی۔ پھر جلد ہی نظام جماعت کی اجازت سے اپنی نگرانی میں قریبی دکانداروں کی مالی معاونت سے ایک سادہ سی مسجد وہاں تعمیر کروادی۔ پھر انتہائی کوشش کرکے مخالفت کے باوجود پانی وغیرہ کے انتظامات کروائے۔ یہ مسجد بلال اب پختہ اور خوبصورت حالت میں موجود ہے۔
آپ کی اہلیہ محترمہ امۃ الکریم صاحبہ کی وفات آپ کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی۔ وہ وفات سے قبل 40سال تک چلنے پھرنے سے معذور رہیں ۔ مسلسل بیٹھنے سے بعض اَور عوارض بھی لاحق ہو گئے تھے۔ آپ نے اُن کا ہر طرح سے خیال رکھا اور ایک مثالی جوڑے کے طور پر آپ دونوں نے اپنی 62 سالہ رفاقت کا سفر طے کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں