عزیزم معید وشال احمد کھرل

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ اکتوبر 2011ء میں مکرمہ ناصرہ کھرل صاحب آف ہالینڈ نے اپنے واقفِ نَو بیٹے عزیزم معید وشال احمد کھرل کی یادیں بیان کی ہیں جو قریباً دس ماہ تک کینسر میں مبتلا رہنے کے بعد وفات پاگیا۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 1974ء میں سارا خاندان مُرتد ہونے کے باوجود میرے والد صاحب اس لئے احمدیت پر قائم رہے کیونکہ ایک شام نیم کشفی حالت میں انہوں نے ’’احمدیت سچی جماعت ہے‘‘ لکھا ہوا دیکھا تھا۔ یہ اُن کے دل میں گڑ گیا۔
میرا بیٹا ابھی آٹھویں میں تھا کہ اُس کے اساتذہ نے ہمیں بلایا اور کہا کہ یہ مستقبل کا آئن سٹائن ہے۔ افسوس کہ اولیول شروع ہوتے ہی وہ کینسر کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہوگیا۔ اسی دوران اُس کے دل میں حضورانور سے ملاقات کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ حُسن اتفاق تھا کہ حضورانور اُنہی دنوں ہالینڈ تشریف لے آئے اور ہم برفباری کے باوجود ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تین گھنٹے میں کرکے ملاقات کے لئے پہنچ گئے۔ حضورانور نے ہومیوپیتھک علاج کی تاکید کی اور دعائیں دیں شاید اسی لیے اُس کا آخری دس ماہ کا عرصۂ حیات صبروسکون اور حوصلے سے گزرا۔
عزیزم وشال کو جامعہ جانے کی تمنّا تھی۔ نماز وقت پر ادا کرتا، قرآن کریم کی تلاوت باقاعدہ کرتا، مسجد میں جانے کے لئے بے چین رہتا۔ خواب میں کئی مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کی۔ ایک خواب میں حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے حضورؑ نے فرمایا کہ ’تم معید ہو‘۔ اس کے بعد اُس نے اعلان کردیا کہ اُسے آئندہ معید کہہ کر ہی پکارا جائے۔ ایک اور خواب میں اُس نے دیکھا کہ اسپتال میں وہ حضورؑ کی تصویر کے سامنے کھڑا ہے اور پوچھنا چاہتا ہے کہ مَیں ٹھیک ہوگیا ہوں لیکن یہ معجزہ کیسے ہوگیا؟ پھر اپنے منہ سے چیونگم نکال کر جب وہ تصویر کی طرف پلٹا تو اب وہاں فریم میں شہیدانِ لاہور میں سے ایک شہید کی تصویر تھی۔ یہ خواب سنتے ہی میرے دل میں جیسے خطرے کی گھنٹی بجی۔ اور الٰہی تصرّف دیکھیے کہ وہ ایک سال بعد ٹھیک اُسی دن یعنی 28مئی 2011ء کو خداتعالیٰ سے جاملا۔ شام چھ بجے اُسے بے چینی شروع ہوئی اور اُس نے سونے کی خواہش کی۔ مَیں وضو کرکے اُس کے پاس آبیٹھی اور قرآنی آیات پڑھنی شروع کیں۔ اُس نے اچانک آنکھ کھولی، سوری ماما کہہ کر اور گہری سانسیں لیتے ہوئے آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند کرلیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں