عزیزم ولید احمد شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍جولائی 2010ء میں جناب ابن کریم کے قلم سے ایک واقف نَو عزیزم ولید احمد کا ذکرخیر کیا گیا ہے جو سانحہ دارالذکر میں شہید کردیئے گئے۔
اس ننھے واقف نو مجاہد کے دادا مکرم چوہدری عبدالحمید صاحب نے محراب پور سندھ میں1984ء میں جان کا نذرانہ پیش کیا جب کسی ظالم نے سینے میں خنجر کا بڑا کاری وار کیا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ وہ خنجر خود انہوں نے اپنے ہاتھ سے باہر نکالا اور جب ان کو ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تو اپنے بیٹے چوہدری منور احمد صاحب کو نصیحت کی کہ قاتل کوکچھ نہ کہا جائے اور یہ اعزاز خدا نے مجھے دیا ہے۔ پھر ذکر الٰہی اور درود شریف کا ورد کرتے ہوئے خدا کے حضور حاضر ہو گئے ۔
اور اس سے اگلے سال 1985ء میں عزیزم ولید احمد کے نانا محترم چوہدری عبدالرزاق صاحب نے بھریاروڈ سندھ میں شہادت کا اعزاز پایا۔ آپ ایک صابر و زاہد انسان تھے۔ شروع سے ہی اپنی مقامی جماعت کے صدر تھے۔ شہادت سے ایک سال قبل امیر ضلع بھی مقرر ہوئے۔ 1984ء کے آرڈیننس کے بعد آپ کو گمنام خطوط کے ذریعہ متواتر دھمکیاں ملتی رہتی تھیں مگر آپ کبھی بھی خوفزدہ نہیں ہوئے۔
عزیزم ولید احمد ابن مکرم چوہدری منور احمد صاحب اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ میڈیکل کا طالبعلم تھا۔ والد کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر بن کر طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں خدمات بجالائے۔ یہ ننھا مجاہد جب گیارہ سال کاتھا تو وقف نو کی ایک کلاس میں بچوں سے یہ پوچھے جانے پر کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے، ولید احمد نے اپنی باری پر جواب دیا کہ مَیں اپنے دادا کی طرح احمدیت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کروں گا۔ خدا نے اس کے من کی مراد اس طرح پوری کی کہ نماز جمعہ کے لئے بڑی دُور سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا۔ عجیب اتفاق تھا کہ دونوں دوست بچ گئے اور ولید گولیوں کی زد میں آگیا۔ شدید زخمی حالت میں گھر فون کرکے اپنے امی ابا سے بات کی کہ میری یہ حالت ہے، خون بہت زیادہ بہہ رہا ہے اور گولیوں کی بوچھاڑجاری ہے، ظالم مسجد میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ پھر اپنے کزن کو فیصل آباد فون کیا اور یہ ساری صورتحال بتائی اور پھر یہ بھی بتایا کہ اب دوبارہ دروازہ کھلا ہے اور دہشتگرد میری طرف بڑھ رہا ہے … پھر وہ آواز بند ہوگئی۔ گویا ؎

من نہ آنستم کہ روز جنگ بینی پشت من

کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ بڑی جرأت کے ساتھ پہلے زخمی ہونے کی حالت میں مجاہدانہ وقت گزارا اور پھر سینے اور منہ پر گولیاں کھا کر دشمن کو بتا دیا کہ ؎

جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

شہید مرحوم کے پسماندگان میں ان کی دادی جان، والدین اور چھوٹی تین بہنیں شامل ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں