قائد اعظم محمد علی جناح کی نظر میں حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2010ء میں شامل اشاعت مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خان صاحب کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ قائداعظم محترم محمد علی جناح صاحب حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی لیاقت کے قدردان اور آپؓ کی قومی خدمات کے مداح تھے۔
حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے ہندوستان میں آئینی اصلاحات اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے لندن میں منعقدہ تینوں گول میز کانفرنسوں میں شرکت کی چنانچہ قائداعظم جیسا زیرک لیڈر آپؓ کی نمایاں سرگرمیوں سے خوب آگاہ تھا۔ مؤرخ پاکستان ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ میں تحریر کیا ہے:’’گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین میں سے سب سے زیادہ کامیاب آغاخان اور چوہدری ظفراللہ خان ثابت ہوئے‘‘۔ قائداعظم نے بھی فرمایا تھا: ’’میں اپنی اور اپنی پارٹی کی طرف سے آنریبل سرمحمد ظفراللہ خان کو ہدیۂ تبریک پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مسلمان ہیں اور یوں کہنا چاہئے کہ میں اپنے بیٹے کی تعریف کررہا ہوں۔ مختلف حلقوں نے ان کو جو مبارکباد پیش کی ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں‘‘۔
قائد اعظم نے باؤنڈری کمیشن کے لئے بھی ہندوستان بھر کے ماہرین قانون میں سے سر محمد ظفراللہ خان کا انتخاب فرمایا کہ وہ مسلم لیگ کے کیس کی وکالت کریں۔ یہ قائداعظم کا آپؓ کی غیرمعمولی لیاقت اور مخلصانہ جذبۂ خدمت پر اعتماد کا زبردست ثبوت ہے۔ اسی کمیشن میں پروفیسر ڈاکٹر قاضی سعیدالدین احمد (ممتاز جغرافیہ دان) نے بطور رُکن ضلع گورداسپور کی آبادی کا جائزہ تیار کیا تھا جس سے اس کا پاکستان میں شامل کیا جانا ناگزیر تھا۔ اس کام کی حضرت چودھری صاحبؓ نے بہت تعریف و توصیف کی۔ انہی تعریفی کلمات کی بنا پر قائداعظم نے ڈاکٹر قاضی سعیدالدین احمد کو ’’بابائے جغرافیہ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔
پاکستان کے ایک سابق سفیر و وزیر سید احمد سعید کرمانی کہتے ہیں: قائداعظم نے کام کے مطابق آدمی کا انتخاب کیا۔ ظفراللہ خان کا انتخاب بھی قائداعظم کا تھا۔ ظفراللہ خان قیام پاکستان کے موقع پر نواب آف بھوپال کے آئینی مشیر تھے۔ قائداعظمؒ نے بلایا تو آپ اچھی خاصی تنخواہ اور مراعات چھوڑ کر آگئے۔ مطلب یہ ہے کہ قائداعظم کو اللہ تعالیٰ نے مردم شناسی دی تھی۔
معروف صحافی منیر احمد منیر لکھتے ہیں کہ چوہدری ظفراللہ خان کو باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے بعد قائداعظم نے شام کے کھانے کی دعوت دی اور انہیں معانقہ کا شرف بخشا جو قائداعظم کی طرف سے کرہ ارض پر بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا۔ پھر فرمایا کہ میں تم سے بہت خوش ہوں اور تمہارا ممنون ہوں کہ جو کام تمہارے سپرد کیا گیا تھا تم نے اسے اعلیٰ قابلیت اور نہایت احسن طریقے سے سرانجام دیا۔
قیام پاکستان کے بعد پہلی بڑی ذمہ داری قائداعظم نے آپؓ کے سپرد فرمائی وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کرنا تھا۔ اس کے پہلے مرحلہ میں پاکستان کے لئے اقوام متحدہ کی رکنیت کا حصول تھا۔ رکن بننے کے بعد فلسطین پر پاکستان کا مؤقف واضح کرنا اور عربوں کی بھرپور حمایت کرنے کا آپؓ کو ارشاد ملا۔ چنانچہ قائداعظم کے ایک معتمد ساتھی اور پاکستان کے سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی تحریر کرتے ہیں کہ پاکستان نے فلسطین میں عربوں کے حقوق کو اپنا مقصد قرار دیا اور اقوام متحدہ میں اس نصب العین کی خاطر پاکستان کے وزیرخارجہ ظفراللہ خان سے بڑھ کر کوئی فصیح ترجمان نہیں تھا۔… انڈونیشیا، ملایا، سوڈان، لیبیا، تیونس، مراکش، نائیجیریا اور الجیریا کی آزادی کی خاطر پوری تگ و دو کی گئی۔
25؍اکتوبر 1947ء کو قائداعظم نے رائیٹر کی نیوز ایجنسی کے نمائندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے بارے میں ہمارے مؤقف کی وضاحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ محمد ظفراللہ خان نے کردی ہے۔ مجھے امید ہے کہ تقسیم (فلسطین) کا منصوبہ مسترد کردیا جائے گا ورنہ ایک خوفناک چپقلش کا شروع ہو جانا ناگزیر اور لازمی امر ہے۔
اقوام متحدہ میں حضرت چوہدری صاحب اپنی خداداد لیاقت سے پاکستان کی لاجواب وکالت میں مصروف تھے کہ آپؓ کو پاکستان واپس آنے کا پیغام ملا۔ اس پر امریکہ میں پاکستانی سفیر ایم اے حسن اصفہانی نے قائداعظم کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا جس میں آپؓ کی سرگرمیوں کی اہمیت اور کامیابی کا ذکر کیا۔ اس کے جواب میں 22؍ اکتوبر 1947ء کو قائداعظم نے تحریر فرمایا: ’’جہاں تک ظفراللہ کا تعلق ہے تو ہم نہیں چاہتے کہ جب تک وہاں پر (اقوام متحدہ) ان کا قیام ضروری ہے وہ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر آجائیں اور میرا خیال ہے کہ انہیں اس امر کی اطلاع بھی دی جاچکی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں قابل لوگ خاص طور پر ان جیسی اعلیٰ صلاحیت کے اشخاص کی بہت کمی ہے۔ اس لئے جب بھی ہمیں مختلف مسائل سے واسطہ پڑتا ہے تو ان کے حل کے لئے لامحالہ ہماری نظریں ان کی طرف اٹھتی ہیں‘‘۔
٭ حضرت چودھری صاحبؓ جب 1947ء کے آخر میں واپس پہنچے تو قائداعظم نے جناب اصفہانی سفیر امریکہ کو تحریر فرمایا: ’’ظفراللہ واپس پہنچ گئے ہیں اور میری ان سے طویل گفتگو ہوئی ہے۔ واقعی انہوں نے اپنا کام عمدگی سے انجام دیا ہے‘‘۔
قائداعظم نے دسمبر 1947ء میں حضرت چودہری صاحب کو وزیرخارجہ کا منصب سنبھالنے کا ارشاد فرمایا۔
آپؓ کی خدمات کا ذکر کرنے کے بعد نوائے وقت کے بانی مدیر اور ممتاز صحافی جناب حمید نظامی لکھتے ہیں: ’’… جس طرح آپ نے ملت کی وکالت کا حق ادا کیا تھا اس سے آپ کا نام پاکستان کے قابل احترام خادموں میں شامل ہو چکا تھا۔ آپ نے ملک وملت کی جو شاندار خدمات سرانجام دیں تو قائداعظم انہیں حکومت پاکستان کے اس عہدے پر فائز کرنے پر تیار ہوگئے جو باعتبار منصب وزیراعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے۔ قائداعظم نے چوہدری صاحب کو بلاتامل پاکستان کا وزیرخارجہ بنا دیا لیکن ظفراللہ کے ہاتھوں وہ زبردست کارنامہ انجام دیناباقی تھا جس سے اس کا نام تاریخ پاکستان میں ہمیشہ زندہ رہے گا‘‘۔ (یعنی اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلہ کی لاجواب وکالت)۔
مسئلہ کشمیر جو بھارت یکم جنوری 1948ء کو خود اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔ لیکن اس پر بحث کے دوران چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان کی زبردست وکالت کے نتیجہ میں پاکستان کے مؤقف اور دلائل کے مطابق اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے قراردادیں منظور کیں۔ بھارتی یو این او میں گئے تھے مستغیث بن کر اور لوٹے وہاں سے ملزم بن کر۔ چنانچہ ماضی قریب میں بھی بھارتی رہنما ایل کے ایڈوانی نے بیان دیا تھا کہ سابق وزیراعظم نہرو نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جا کر سنگین غلطی کی تھی۔
سینئر اور بیباک صحافی جناب م۔ش لکھتے ہیں:
چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان نے پنجاب لیجسلیٹو کونسل سے لے کر راؤنڈ ٹیبل کانفرنس تک سیاسیات میں اعلیٰ پایہ کا تعمیری کردار ادا کیا۔ وہ قائداعظم کی زندگی میں لیاقت علی خان کی کابینہ میں وزیرخارجہ کی حیثیت سے بھرتی ہوئے اور آج ہم کشمیر کے متعلق سیکیورٹی کونسل کی جس قرارداد کو اساس بنا کر کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اسے سیکیورٹی کونسل سے متفقہ طور پر پاس کروانے میں ظفراللہ خاں کا ہاتھ تھا۔ یہی نہیں۔عرب ممالک کی جنگ آزادی میں اقوام متحدہ میں ان کی نمائندگی کا بھرپور کردار ظفراللہ خاں نے پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے تاریخی کارنامے انجام دیئے …‘‘۔
انگریزی اخبار Civil and Military Gazette کے 12؍اگست 1952ء کے اداریہ میں درج ہے کہ جب قائداعظم نے چوہدری صاحب کو پاکستان کا وزیرخارجہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تو چوہدری صاحب نے قائداعظم کی خدمت میں عرض کیا: ’’اگر آپ کو میری لیاقت اور دیانت پر پورا اعتماد ہے تو میں وزارت کے علاوہ کسی بھی اور حیثیت میں پاکستان کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ قائداعظم کا جواب صرف یہ تھا کہ تم پہلے شخص ہو جس نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم عہدے کے طلبگار نہیں ہو۔
حضرت چودھری صاحبؓ کی ایک تحریر کے مطابق اقوام متحدہ سے واپس آکر قائد اعظم کے ارشاد پر مَیں نے جناب لیاقت علی خان (وزیراعظم) سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان میں سپریم کورٹ قائم کرنا ہوگا۔ اس کے قواعد مرتب کرنے اور ججوں اور عملے کے انتخاب اور تقرر کے لئے تو کچھ وقت درکار ہوگا۔ لیکن چیف جسٹس کا تقرر جلد ہونا چاہئے تاکہ وہ ان تمام امور پر غور کرنا شروع کرے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ تم پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا منصب سنبھالو اور ان امور کے متعلق غور کرنا شروع کرو۔ پھر تقسیم پنجاب کے نتیجے میں جو ہل چل مچی ہے اور ابتری پیدا ہوئی ہے۔ خصوصاً پناہ گزینوں کی بھرمار اور مختلف صیغہ جات کے افسران اور عملے میں جو خلا پیدا ہوا ان سب امور نے مل جل کر اس صوبے میں انتظامی حالت خراب کر دی۔ ممتاز دولتانہ سے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کررہے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں یہ اکیلے ان کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے قائداعظم سے کہا کہ یہاں کسی بے لاگ اور صاحب عزم چیف منسٹر کی ضرورت ہے اور مشورہ دیا ہے کہ وہ تمہیں یہاں بھیج دیں۔ تیسرے مرکز میں بھی دو آدمیوں کی ضرورت ہے۔ علاوہ وزارت عظمیٰ کے دفاع اور امور خارجہ کے قلمدان بھی میرے سپرد ہیں یہ بھی ایک شخص کا کام نہیں۔ تم چاہو تو مرکز میں آجاؤ۔ ان سب باتوں پر غور کرکے تم اپنا منشاء مجھے بتادینا۔ لیکن قائداعظم چاہتے ہیں کہ تم وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالو۔
اس پر آپؓ نے فرمایا: تو پھر میرے غور کرنے اور میری منشاء کی کیا گنجائش باقی رہی؟
1934ء میں چوہدری صاحب کی والدہ محترمہ نے ایک رؤیا دیکھا تھا جس میں انہیں بتایا گیا کہ ہوگا چیف جسٹس ظفراللہ خان نصراللہ خان کا بیٹا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے گو کہ آپؓ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے کی پیشکش بھی کی تھی لیکن آپؓ نے بابائے قوم قائداعظم کی منشاء کی خاطر جو توکل اور ایثار دکھایا وہ خدائے برتر و قدوس کے ہاں ہرگز بے نتیجہ نہیں رہا اور چوہدری صاحب 1970ء میں عالمی عدالت کے چیف جسٹس بن گئے۔
قائداعظم کے ایک سابق اے ڈی سی (بعد میں پاک افواج کے سربراہ جنرل) گل حسن اپنے مشاہدہ کی بنا پر یہ گواہی دیتے ہیں: قائداعظم اپنی کابینہ کے وزراء میں سر محمد ظفراللہ خان اور سردار عبدالرب نشتر کے متعلق بہت اچھی رائے رکھتے تھے۔
جناب منیر احمد منیر صاحب ایک مخالف مضمون نگار کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب کے بارہ میں لکھتے ہیں:
’’ان کی تعریفیں تو وہ ہستی کرتی رہی ہے جسے دنیا بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے مبارک القاب اور نام سے جانتی ہے۔ سچائی جن کی پہچان تھی۔ جنہوں نے کسی کا دل رکھنے کے لئے مصلحتاً بھی جھوٹ نہ بولا۔ میں نے تو نہیں قائداعظم نے چوہدری ظفراللہ خان کو پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لئے مقرر کیا تھا اور جب چوہدری ظفراللہ خان یہ کیس پیش کرچکے۔ قائداعظمؒ نے انہیں شام کے کھانے کی دعوت دی اور انہیں معانقہ کا شرف بخشا۔ جو قائداعظمؒ کی طرف سے کرہ ارض پر بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا۔ معانقہ کرنے کے بعد قائداعظمؒ نے چوہدری ظفراللہ خان سے کہا ’’میں تم سے بہت خوش ہوں اور تمہارا نہایت ممنون ہوں کہ جو کام تمہارے سپرد کر دیا گیا تھا۔ تم نے اسے اعلیٰ قابلیت اور نہایت احسن طریق سے سرانجام دیا۔‘‘ قیام پاکستان کے بعد میں نے نہیں قائداعظمؒ نے چوہدری ظفراللہ خان کو پاکستان کی نمائندگی کے لئے یو این او میں بھیجا تھا۔ جب قائداعظمؒ نے امریکہ میں پاکستانی سفیر حسن اصفہانی کو لکھا کہ ظفراللہ خان کو واپس بھیج دیں تو اصفہانی صاحب نے پس و پیش کی۔ اس پر 22؍اکتوبر 1947ء کو اصفہانی کے نام اپنے خط میں یہ جملہ قائداعظم نے ہی ظفراللہ خان کے لئے لکھا تھا۔ یہاں ہمارے پاس اہل، خاص طور پر ان جیسے مقام (Caliber) کے حامل افراد کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مسائل کے حل کے لئے ہماری نگاہیں بار بار ان کی طرف اٹھتی ہیں‘‘۔
قائداعظم کے سیکرٹری مسٹر فرخ امین کا بیان ہے: ’’بیماری کے پورے زمانہ میں قائداعظم نے اس وقت تک سرکاری کاموں کا سلسلہ جاری رکھا جب تک ان میں ذرا بھی سکت باقی تھی … مجھے وہ دن ہمیشہ یاد رہے گا جب انہوں نے یو این او میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے سر محمد ظفراللہ خان کو پورے اختیارات دینے کے لئے آخری سرکاری کاغذ پر دستخط کئے…‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں