قرآنی پیشگوئی کی مصداق دو نہریں

(مطبوعہ رسالہ اسماعیل جولائی تا ستمبر 2013ء)

قرآنی پیشگوئی کی مصداق دو نہریں
(ناصر پاشا)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اس نے دو سمندروں کو اس طرح چلایا ہے کہ وہ ایک وقت میں مل جائیں گے۔ (سورۃ رحمن:20)
حضرت مصلح موعود تفسیر صغیر کے حاشیہ میں اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس میں نہر سویز اور نہر پانامہ کی پیشگوئی ہے۔ فرمایا کہ دو سمندر قریب قریب ہیں لیکن ان کے درمیان خشکی ہے۔ ایک دن وہ مل جائیں گے۔ ان کی علامت یہ ہے کہ ان میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے یہ دونوں چیزیں سویز اور پانامہ سے بکثرت نکلتی ہیں اور دونوں نہروں نے بحیرہ قلزم اور روم کو ایک طرف ملادیا ہے اور دوسری طرف بحراوقیانوس اور بحرالکاہل کو ملا دیا ہے۔
یہ بیسویں صدی میں قرآن کی سچائی کا ایک بہت واضح ثبوت ہے اور قرآن کریم کے زندہ معجزات اور پیش گوئیوں کے لئے زندہ ثبوت ہے۔ ان دونوں نہروں کی مختصر تاریخ پیش ہے:۔
نہر سویز
825ء میں یوروپین بادشاہ شارلمین کے دربار میں ایک آئرش جغرافیہ دان ڈی سوئی لس نے ایک راہب کا ذکر کیا جو قریباً 750ء میں یروشلم کی زیارت کے سفر میں ایک نہر سے گزرا جو دریائے نیل کو بحیرہ احمر سے ملاتی ہے۔وہاں موجود ایک اور راہب فیڈیلس نے اس بات کی تصدیق کی کہ یروشلم کی زیارت کے لئے جانے والے عیسائی نیل پر سفر کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں نیل کے دہانہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ ڈی سوئی لس کو تو یہ علم نہیں تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ صدی میں نہر سویز بنانے والوں کی پلاننگ ایک قدیم نمونہ پر مبنی تھی۔

بحیرہ احمر اور بحیرہ روم کو نہر کے ذریعے ملانے کا کام رعمسیس ثانی نے کیا جو تیرھویں صدی ق م میں ہوا۔ بعد میں یہ نہر صحرا کی ریت کی نذر ہوگئی۔ 700 سال بعد فرعون نکوہ نے اس نہر کی تجدید کروائی۔ ہیروڈوٹس نے اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ نہر اتنی لمبی ہے کہ چار دن میں طے ہوتی ہے اور دو بڑے یونانی جہاز اس میں سما سکتے ہیں۔ نہر کا پانی نیل سے لیا جاتا تھا۔ ایک لاکھ 20 ہزار مصری اس کی تعمیر میں ہلاک ہوئے۔ سو سال بعد ایرانی بادشاہ دارا نے نہر کو بہتر بنایا اور وسعت دے کر 150 فٹ چوڑا اور 20 فٹ گہرا کروایا اور کنارے پر پتھر لگوائے۔ پھر ایک لمبے زمانے تک اس نہر کا ذکر نہیں ملتا۔ 500 سال بعد مؤرخ پلوٹارک کے مطابق ملکہ قلوپطرہ نے اپنا بیڑہ بحیرہ احمر میں پہنچانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی غالباً اس کے کچھ حصے ناقابلِ استعمال ہوچکے تھے۔
شہنشاہی دور کے رومن جغرافیہ دان اس نہر کو ’’ٹروجن کا دریا‘‘ کہتے تھے۔ قیاس ہے کہ شہنشاہ ٹروجن نے اس نہر کو از سر نو جہاز رانی کے قابل بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ ساتویں صدی میں فتح مصر کے بعد مسلمانوں کے خلیفہ نے نہر دوبارہ جاری کی اور پھر سو سال تک اس میں جہاز چلتے رہے۔ 770ء میں عباسی خلیفہ ابو جعفر نے نہر کے کچھ حصے بند کرادیئے تاکہ جنوبی عرب کے باغیوں کا راستہ مسدود کردیا جائے۔ پھر نہر سویز ایک لمبی خاموشی کا شکار ہوگئی۔قریباً 1485ء میں ایبے سینا جانے والے عیسائیوں نے اس نہر کے آثار دیکھے۔ ان میں سے ایک لکھتا ہے ’’قاہرہ سے روانگی کے دوسرے روز ہم بحیرہ احمر پہنچے اور اگلے روز ایک کھائی پار کی جو مصر کے بادشاہ نے کھدوائی تھی اور پھر ایران کے بادشاہ دارا نے اور پھر ٹالمی (سکندر کا ایک جرنیل) نے اس کی تجدید کی۔ یہ سو فٹ چوڑی ہے یعنی 53 قدم اور 30 فٹ گہری ہے اور بحیرہ احمر کو بحیرہ روم سے ملاتی ہے مگر چونکہ بحر ہند کی سطح بحیرہ روم سے اونچی ہے اسلئے ان بادشاہوں نے نہر مکمل نہ کرنا چاہی کیونکہ نتیجۃً سارا مصر زیرِ آب آ جاتا‘‘۔

1671ء میں ایک معروف جرمن عالم نے شہنشاہ فرانس لوئی شانزدہم کو مصر فتح کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھا کہ یہ فتح ہندوستان اور فرانس کی تجارت کا راستہ کھول دے گی اور عظیم الشان فتوحات کا ذریعہ بنے گی۔ بادشاہ نے تو اس مشورہ پر عمل نہ کیا لیکن یہ تحریر نپولین کو قدیم دفاتر سے مل گئی اور اس نے 1799ء میں فتح مصر کی مہم شروع کردی اور نہر کے نشانات تک پہنچ گیا۔ لیکن نپولین کے انجینئروں نے نہر کی تجدید کی تجویز پر سخت شبہات کا اظہار کیا۔ رعمسیس کے معماروں اور قرون وسطیٰ کے علماء کی طرح ان کا بھی خیال تھا کہ چونکہ بحیرہ احمر کی سطح بحیرہ روم سے چار فٹ بلند ہے اس لئے ایک مضبوط بند اور پشتوں کے بغیر نہر کی تعمیر سے بحیرہ ہند پھٹ کر سارے مصر کو زیرِ آب کردے گا۔ چنانچہ نپولین، فرانسیسی عوام اور پریس نے اس رائے کا احترام کیا اور صرف فرانس کے ماہر طبیعات اور حساب دان لاپ نیس نے اس کی تردید کی اور ثابت کیا کہ سمندرروں کی سطح میں کوئی فرق نہیں۔ مگر اس کی کسی نے نہ سنی۔ بالآخر 1846ء میں اس مردہ نہر کو نئی زندگی ملی۔
نہر پانامہ PANAMA CANAL
پانامہ وسطی امریکہ کی ایک ریاست ہے۔ جو دو سمندروں بحرالکاہل اور بحراوقیانوس کے درمیان باریک پٹی کی صورت میں واقع ہے اور کئی مقامات سے یہ پٹی اتنی باریک ہے کہ دونوں سمندروں کے درمیان صرف چند میل کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ ریاست شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ کے براعظموں کو بھی ملاتی ہے۔ اس امر کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ شمالی امریکہ کا سفر کئی ہزار میلوں اور کئی دنوں پر مشتمل تھا۔ جو طے کرنا کافی مشکل تھا۔ 16ویں صدی عیسوی میں سپین کے حکمرانوں کو خیال آیا کہ ایک نہر ہونی چاہئے جس سے یہ مشقت ختم ہو مگر اس وقت یہ ممکن نہ ہوسکا۔ اسی طرح گاہے بگاہے مختلف حکمرانوں، ملکوں اور کمپنیوں نے اس کو بنانے کی کوشش کی۔ مگرناکامی ہوئی۔ بالآخر 20ویں صدی میں جدید مشینری کی بدولت ایسا ممکن ہوا۔ امریکہ نے اس کو بنانے کا ذمہ لیا۔

1903ء میں کام شروع ہوا اور 1914ء میں تکمیل عمل میں آئی۔ یہ نہر 64 کلومیٹر لمبی ہے اور 41 فٹ گہری ہے۔ بشمول ان دونوں حصوں کے جہاں سے دونوں سمندروں سے جہاز اس میں داخل ہوتے ہیں۔ اس نہر پر 350 ملین ڈالر خرچہ ہوا۔ 5 لاکھ مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔ 15؍اگست 1915ء کو پہلے جہاز نے اس میں سفر کیا۔ بعدازاں Land Sliding اور جنگ عظیم اول (1914ء تا 1918ئ) کی وجہ سے اس کو 1920ء تک بند کر دیا گیا۔ یہ نہر دنیائے انجینئرنگ اور 20 ویں صدی کا ایک شاہکار ہے۔

یہ نہر سفر کے لحاظ سے 3 حصوں میں تقسیم ہے۔ آخری حصہ میں اس کی بلندی سطح سمندر سے 26 میٹر 85 فٹ اونچی ہو جاتی ہے۔ اس نہر میں سفر کرنے کے بھی قواعد ہیں۔ جو جہاز اس میں بآسانی سفر کرسکتے ہیں ان کو Panamax کہتے ہیں۔ سوائے بڑے بحری بیڑوں کے اکثر جہاز اس میں سے گزرتے ہیں۔ یہ نہر امریکہ نے اپنے فوجی مقاصد کے لئے بنائی تھی اور شروع سے لے کر 31 دسمبر 1999ء تک اس کا کنٹرول امریکہ کے پاس رہا۔ 31 دسمبر 1999ء کو ایک معاہدہ کے تحت یہ پانامہ کے حوالے کی گئی۔ 1990ء سے اس کا ایڈمنسٹریٹر پانامہ کا مقامی باشندہ ہے۔ اس سے پہلے امریکہ کے ریٹائرڈ فوجی افسر اس پر مقرر رہے۔ انتظامیہ 9 اراکین پر مشتمل ہے جس کاکام ٹیکس وصول کرنا اور نہر کی حفاظت اور مرمت وغیرہ ہے۔ اس نہر سے جو آمد ہوتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1995-96ء میں اس نہر سے 15ہزار جہازوں نے سفر کیا۔ جو 42 جہاز یومیہ بنتے ہیں۔ 1995ء میں جو سالانہ ٹیکس وصول ہوا وہ 450 ملین ڈالر تھا۔ اس نہر کی کھدائی کے دوران تقریباً 10ہزار مزدور ہلاک ہوئے۔ جن میں زیادہ تر مچھروں کے کاٹنے سے ملیریا اور Yellow Fever کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اس وقت یہ نہر پانامہ اتھارٹی کے تحت ہے اور اس کے ذریعہ ایک کثیر زرمبادلہ کمایا جارہا ہے۔ یہ نہر قرآن مجید کی پیشگوئی کو بڑی شان سے پورا کررہی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں