مؤرخ احمدیت تاریخ کا حصہ بن گئے

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا ستمبر و اکتوبر 2009ء میں مکرم پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب نے محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی یادوں پر مشتمل ایک مضمون قلمبند کرتے ہوئے لکھا ہے

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

کہ مولاناصاحب کا تخصص تاریخ نہیں تھا مگر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی نظرِ جوہر شناس نے انہیں چن لیا تو وہ گویا پارس بن گئے۔ پنڈی بھٹیاں جیسے کور دہ سے اٹھ کر آنے والا ایک معمولی طالب علم سلسلہ کا جید عالم ہی نہیں بنا سلسلہ کی تاریخ کا حافظ ومحافظ بھی بن گیا۔

یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا

اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا حافظہ ودیعت فرمایا تھا کہ معمولی سے معمولی بات بھی ان کے ذہن میں محفوظ ہو جاتی تھی اور وہ اس میں سے سلسلہ کے مفید مطلب مواد چن کر اسے تاریخ کا حوالہ بنا دیتے۔ میں حیران ہوں کہ مولانا صاحب تو کسی یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے نہیں تھے نہ انہیں کسی ایسے استاد سے ریسرچ کے رموز و اسرار سیکھنے کا موقعہ ملا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی بصیرت عطا فرمائی تھی کہ سلسلہ کے کام کی چیزیں اور حوالے ان کے لئے حرز جاں بن گئے تھے اور وہ بروقت ایسے حوالے پیش کرنے میں ایسے مستعد تھے کہ خلفاء سلسلہ نے انہیں حوالوں کا بادشاہ قرار دیا۔
یوں محسوس ہوتا تھا کہ مولانا چلتی پھرتی تاریخ ہیں ادھر کسی نے کوئی بات پوچھی ادھر اس بات کا حوالہ موجود۔ اور ان کی سنت جاریہ تھی کہ جہاں کسی مفید مطلب بات کا پتہ چلتا، کسی کتاب کا علم ہوتا ، کسی حوالہ کی بھنک ان کے کان میں پڑتی تو فوراً اس تک پہنچنے کی سعی کرتے۔ میرے کسی مضمون میں انہیں کوئی ایسی بات نظر آتی جو سلسلہ کے لئے مفید ہو سکتی تھی تو فوراً اپنے رتبۂ بلند کے باوجود مجھے خط لکھا اور اصل نقول طلب فرمائیں۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی صدر نکسن سے ملاقات کے بارہ میں امریکی کاغذوں کے حوالہ سے میرا ایک مضمون ثاقب زیروی صاحب کے رسالہ لاہور میں چھپا تو مولانا صاحب نے حوالہ کی اصل نقل طلب فرمائی جو بھجوادی گئی۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ، حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانیؓ، ایسے لوگ تھے جنہوں نے سلسلہ کی تاریخ کو محفوظ کیا۔ ملک صلاح الدین صاحب اور مولانا دوست محمد شاہد صاحب ایسے نابغے تھے جنہوں نے ان کی لکھی ہوئی تاریخ کو کھنگال کھنگال کر حالات محفوظ کئے اور مولانا دوست محمد شاہد کا نام تاریخ میں اس لئے زندہ رہے گا کہ انہوں نے سلسلہ کی تاریخ نہ صرف مجتمع کی بلکہ خالصتہً احمدیہ علم کلام کی روشنی میں اسے ورطہ تحریر میں بھی لائے۔ جماعت احمدیہ کے علم کلام میں تاریخ لکھنے کا آغاز تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی سیرۃ خاتم النبیّین سے ہؤا۔ تاریخ لکھنے کے لئے جس تبحر اورتوکل اور توثق کی ضرورت ہوتی ہے مولانا دوست محمد شاہد نے یہ سب کچھ قمرا لانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے سیکھا اور نبھایا۔
تاریخ احمدیت کی پہلی جلد چھپنے تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ تاریخ کس نہج پر لکھی جا رہی ہے مگر تاریخ چھپی تو ہر طرف سے نوجوان مؤرخ احمدیت کے اسلوب تاریخ نویسی پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے گئے۔ اب ان کا تخصص تاریخ ہو گیا۔ ان کے مطالعے کا رُخ بھی مؤرخانہ ہو گیایعنی ہر بات کو جانچنا تولنا، پرکھنا اور پھر قبول کرنا۔ مناظرے کرنا انہیں خوب آتے تھے اب ان مناظروں میں تاریخ دانوں جیسی ژرف نگاہی پیدا ہو گئی۔
1974ء میں جب آپ اسمبلی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ہمراہ حاضر تھے تو ادھر حوالہ طلب کیا جاتا ادھر حوالہ پیش کر دیا جاتا۔ مخالف علما نے اعتراف کیا کہ اِن کے پاس تاریخی حوالوں کا کوئی خزانہ ہے کہ پلک جھپکتے میں حوالہ ڈھونڈھ بھی لیتے ہیںاور پیش بھی کر دیتے ہیں۔ ایک مخالف مولوی نے تو بر ملا یہ کہا تھا کہ ہمارے علما حوالے ڈھونڈنے میں اتنا وقت صرف کر تے ہیں کہ حوالہ ملتے ملتے اس کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔
ایسا تبحر مطالعہ کے بغیر پیدا نہیں ہوتا۔ مولانا کے مطالعہ کی عادت ضرب المثل تھی اور نہ صرف مطالعہ میں فرد تھے۔ اخذ و اکتساب میں بھی ان کا کوئی جواب نہ تھا۔ پڑھنا اور فوراً اپنے مطلب کی بات اخذ کرنا ہر آدمی کو نہیں آتا۔ پھر اس بات کو استدلال کے معیار پر جانچنا اور پھر قبول کرنا بھی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ جس طرح مولانا بات میں سے بات نکالتے تھے اسی طرح دلیل میں سے دلیل نکالنا بھی ان کا خاص فن تھا۔ ان کی گفتگو میں وثوق اور انداز بیان میں ایک طنطنہ تھا۔ ان کے لہجہ میں قطعیت تھی مگر ایسی قطعیت نہیں جو بر خود غلط لوگوں میں ہوتی ہے بلکہ ایسی قطعیت جو گہرے علم اور وسیع مطالعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔کئی بار ایسا ہؤا کہ بعض خود غلط پروفیسر ربوہ آئے اور مولانا دوست محمد شاہد سے ملنے اور اپنی دانست میں انہیں لاجواب کرنے کی نیت لے کر آئے۔ ہم بلا جھجک انہیں مولانا کے پاس لے جاتے رہے۔ مولانا ان کی بات اطمینان اور خاموشی سے سنتے اور جب وہ سمجھتے کہ انہوں نے اپنے حساب سے مسکت دلائل دے لئے ہیں تو مولانا بات شروع کرتے اور اکثر ایسا ہوتا کہ وہ لوگ یوں لاجواب ہوتے کہ بغلیں جھانکنے لگتے اور یہ کہہ کر اجازت چاہتے کہ پھر حاضر ہوں گے اور باہر نکل کر کہتے کس بے پناہ عالم سے واسطہ پڑ گیا تھا۔
اسی طرح ایک ریسرچ سکالر ربوہ آئے وہ جس موضوع پر تحقیق کر رہے تھے اس سلسلہ میں کسی عالم سے استمداد چاہتے تھے۔ ہم انہیں مولانا دوست محمد شاہد کے حوالہ کر کے کالج واپس آگئے۔ جب شام کے وقت تک وہ واپس نہ آئے تو ہم مولانا کے دفتر تاریخ احمدیت میں گئے دیکھا کہ دونوں حوالوں کی تنقیح و تحقیق میں جٹے ہوئے ہیں اور دونوں میں سے کسی کو وقت کا اندازہ ہی نہیں کہ کتنا وقت گذر چکا ہے۔وہ صاحب کہنے لگے اے کاش یونیورسٹی میں مجھے کوئی ان جیسا سکالر رہنما کے طور پر میسر آجاتا تو میں کتنا خوش قسمت ہوتا۔ وہ صاحب نہ صرف پی ایچ ڈی ہوئے بلکہ دنیا کی ایک مشہوراسلامی یونیورسٹی میں استاد ہیں ۔ جب تک ان سے رابطہ رہا مولانا کے تبحر علمی اور علم دوستی اور علم شناسی کے باب میں رطب اللسان رہے۔ان کا مقالہ چھپا تو اس کے دیباچہ میں انہوں نے مولانا کا شکریہ ادا کیا اور لکھا: ’’ایک ایسے عالم کا از حد احسانمند ہوں کہ جس سے ایک دن کی صحبت نے اس موضوع کے سارے در وبست مجھ پر منکشف کردئے مگر اس کی طرف سے اس کا نام لکھنے کی اجازت نہیں۔ ‘‘
دراصل آپ کا فیضان صرف احمدیوں تک محدود نہیں تھا۔ وہ ہر علم دوست محقق کی دل و جان سے مدد کرنے پر مستعد رہتے تھے۔ ربوہ میں ہوتے یا ربوہ سے باہر علم کے متلاشی ان سے فیض پاتے رہتے تھے۔ ان کا علم محض کتابی نہیں تھا مستحضر علم تھا۔
ہمارے کالج کی علمی تقریبات میں شرکت کرکے ہمیں سرفراز کیا کرتے تھے۔ اِلّا کہ کوئی بہت ہی مجبوری ہو یا کوئی ایسا کام کر رہے ہوں جس کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے بغیر اپنے دفتر سے اٹھنا نہ چاہتے ہوں۔ یہ ان کی سنت جاریہ تھی کہ جب تک کام مکمل نہ ہو جاتا اپنا مستقر نہ چھوڑتے۔ دفتر سے نماز کے اوقات میں اٹھنا مسجد تک جانا اور مسجد سے واپس دفتر تک پہنچنا یہ ان کی ساری تگا پو تھی۔ جب تک خلافت لائبریری قصرخلافت کے ساتھ تھی بہت خوش تھے کہ دفتر سے غیرحاضری کا وقت بہت کم ہے اور نماز سے فراغت کے بعد جلدی دفتر میں پہنچا جا سکتا ہے۔
اکلوتا بیٹا سلطان احمد مبشر ڈاکٹر بن گیا تو فرمانے لگے کہ میری بہت بڑی فکر دور ہو گئی ہے اب یہ گھر والوں کی طبی کفالت کر لیا کرے گا اور مجھے پریشان نہیں ہونا پڑے گا۔ اکلوتے ڈاکٹر بیٹے کو بھی وقف کیا۔
مولانا کی بڑی بیٹی کی شادی ہوئی تو مولانا اس وقت مشرقی پاکستان کا دورہ کر رہے تھے انہیں سلسلہ کا کام زیادہ عزیز تھا۔
ان کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے عجیب تاثیر رکھی تھی۔ بات مدلّل، بیان مؤثر، لہجہ عالمانہ، مخاطب چھوٹاہے تو مربیانہ اور بڑا ہے تو مؤدبانہ ۔ غرض ان سے گفتگو کرنے والا تشنہ نہیں رہتا تھا سیر ہو کر اٹھتا تھا۔
مولانا دوست محمد شاہد کو سنت یوسفی بھی پورا کرنا پڑی۔ پیغام حق پہنچانے کے جرم میں رنج اسیری بھی کھینچا اور دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ اسیری میں بھی مولانا کا توکّل دیکھنے والا ہوتا تھا۔
مولانا کی طبیعت میں توکّل کے ساتھ استغنا بھی تھا۔ انہیں کبھی اپنے لباس کے معاملے میں تکلف برتتے نہیں دیکھا۔ گھر کے دھلے صاف ستھرے کپڑے پہنتے تھے البتہ پگڑی پر کلف ضرور لگاتے تھے کہتے تھے یہ خلفاء وقت کی سنت جاریہ ہے۔
سفر و حضر میں بشاشت ان کے ساتھ رہتی تھی۔ دو چار بار ربوہ سے لاہور تک ان کا ہمسفر ہونے کا موقعہ ملا تو ان کی زیادہ تر کوشش یہی ہوتی کہ کوئی سوال و جواب کا سلسلہ ہو جائے تو وقت آسانی سے کٹ جائے اور تبلیغ و اعلائے حق کا موقعہ بھی مل جائے۔نازک تر حالات میں بھی ان کے سوال و جواب میں اتنی احتیاط ہوتی تھی کہ کسی کو گرفت کا موقعہ نہیں ملتا تھا۔ ایک دوبار ایسا بھی ہؤا کہ ان کے استاد خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری بھی ہم سفر ہوئے تو نہایت ادب سے ان کی باتیں سنتے اور درمیان میں ان کی بات نہ کاٹتے۔ مولانا ابولعطاء صاحب سفر کے دوران مزاح ضرور فرماتے تھے تاکہ ماحول میں تناؤ پیدا نہ ہو اور ان کے پاس بیٹھنے والے لوگ ان کی بزرگی کی وجہ سے جھجکنے نہ لگیں مگر مولانا دوست محمد شاہد کو اپنے استاد کی موجودگی میں خاموش اور بہت زیادہ مؤدب پایا۔ بزرگوں کا یہی اسوہ دوسروں کو آداب سکھاتا تھا۔
سادگی تو ہمارے سارے ہی علماء کا شیوہ رہی ہے مگر مولانا دوست محمد شاہد اس باب میں بھی سادہ تر تھے۔ ان کی چال ڈھال میں کسی قسم کا تفاخر یا خدانخواستہ عالمانہ تکبر نہیں تھا۔ چلتے البتہ تیز تھے مگر اس عجلت میں بانکپن تھا چلتے ہوئے اچھے اور باوقارلگتے تھے۔ چلتے تو اپنے خیالات میں مگن چلتے تھے غالباً کسی ایسی کیفیت میں سائیکل سے گر کر ہڈی تڑوا بیٹھے تھے اور اس تکلیف کا انہیں اس لئے افسوس تھاکہ کچھ دیر کے لئے انہیں پابند بستر ہوجانا پڑا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں