مجلس انصاراللہ برطانیہ کا 32 واں سالانہ اجتماع 2014ء

مجلس انصاراللہ برطانیہ کا 32 واں سالانہ اجتماع 2014ء
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا انصار سے پُرمعارف خطاب اور نہایت اہم نصائح
سالانہ مجلس شوریٰ، علمی و ورزشی مقابلوں اور رُوح پرور ماحول میں تربیتی و تعلیمی اجلاسات کا انعقاد

(رپورٹ: فرخ سلطان محمود)

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5 دسمبر 2014ء)

مجلس انصاراللہ برطانیہ کا 32واں سالانہ اجتماع نہایت کامیابی کے ساتھ مسجد بیت الفتوح مورڈن کے احاطہ میں 17، 18اور 19اکتوبر 2014ء کو منعقد ہوا۔ پہلے روز سالانہ مجلس شوریٰ کا بھی انعقاد عمل میں آیا۔
اجتماع کے تینوں ایام میں نہایت روح پرور ماحول میں برطانیہ کے طول و عرض سے تشریف لانے والے 2200 سے زائد انصار کے علاوہ خدام اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہوئی۔ اجتماع کا مرکزی اجلاس 19 اکتوبر کی سہ پہر سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ حضور انور نے اپنے خطاب میں انصار کو اُن کی اجتماعی اور انفرادی ذمہ داریوں کی طرف نہایت احسن رنگ میں توجہ دلائی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں سلسلہ احمدیہ کے قیام کی اغراض بیان کرتے ہوئے احباب جماعت کو اپنی زندگیوں میں عملی تبدیلی لانے کے بارے میں نصائح فرمائیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ انصاراللہ کے معنی اللہ کے مددگار ہونے کے ہیں اس لئے ہرناصر کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی سچی اور پُرامن تعلیم کے اظہار کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو صرف کردے۔ اپنی عمر کے اس حصے میں انصار کو چاہئے کہ وہ اپنے تجربات اور تدبر سے اللہ کے دین کے حقیقی مددگار بن کر سامنے آئیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو کسی مددگار کی ضرورت نہیں ہے اور تمام طاقتوں کی جامع اُس کی ہی ذات ہے تاہم یہ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم اُس کے دین کی خدمت بجالائیں اور اس کی اشاعت کریں تاکہ اُس کے افضال اور انعامات کے حقدار قرار پاسکیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ بیشک یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات اور نصرت سے شروع فرمایا ہے اور تائیدات اور نصرت کے نظارے دکھا بھی رہا ہے لیکن ہم سے بھی مطالبہ ہے کہ اس سلسلہ کی غرض و غایت پر نظر رکھیں اور جہاں دنیا کو ان اغراض سے آگاہ کریں، خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا دنیا میں اعلان کر کے اسے اس طرف بلائیں، اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور خاتم الرسل ہونے کا ادراک مسلمانوں اور غیر مسلموں میں پیدا کریں، وہاں اپنے بھی جائزے لیں کہ توحید کس حد تک ہم میں راسخ ہے اور ہم تسبیح و تحمید کی طرف توجہ کرتے ہیں؟ اسلام کی خوبصورت تعلیم پر ہم کتنا عمل کر رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق ہمیں کس حد تک درود بھیجنے کی طرف مائل رکھتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اپنانے کی طرف ہم توجہ دیتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟
حضور انور نے دنیا کے مختلف ممالک میں اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید اور لوگوں کی براہ راست احمدیت کی صداقت کی طرف رہنمائی کے ایمان افروز واقعات بھی بیان فرمائے اور انصار کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ چاہے تو تمام دنیا کے دن پھیر سکتا ہے لیکن ہمارے ذمہ اس نے یہ کام لگایا ہے کہ تم بھی اپنی حالتوں کو بدلو۔ اپنے عملوں کو بدلو۔ اپنی تبلیغ کے ساتھ اپنے نمونوں کو اس طرح بناؤ جو اُسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے قائم فرمایا ہے تا کہ تمہاری کوششوں کو پھل بھی لگیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی تم جزا پانے والے ہو۔
حضور انور نے فرمایا کہ ایک بہت بڑی غرض ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام مبعوث ہوئے اور یہ سلسلہ قائم ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و عزت کا قیام تبھی ہو گا جب ہم اپنی حالتوں کو حقیقی رنگ میں اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔ عبادتوں کے معیار ہیں۔ دوسروں کے حقوق ہیں۔ ان باتوں کا مختلف اوقات میں ذکر کرتا رہتا ہوں، آپ کو یاددہانیاں بھی کروائی جاتی ہیں۔ ان کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ پس پہلا کام تو ہمارا یہ ہے کہ ان باتوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر دنیا کو دکھائیں۔ اور یہی چیز ہے جو دنیا کو بتائے گی کہ اس نبی کے نمونے پر چلنے کی بھرپور کوشش جو ہم کرتے ہیں اور خاص لگن اور شوق اور کوشش سے کرتے ہیں یہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نبی ہونے کا ثبوت ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ یہ الٰہی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم نے غالب آنا ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ سے غلبہ کے سامان فرمائے ہیں۔ پس یہ ہماری ذمہ داری ہے خاص طور پر انصار اللہ کی کہ اپنی حالتوں کو دین اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھال کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے توحید کے قیام کے لئے اپنی تمام تر طاقتوں کو استعمال کریں اور قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس کی حکومت اپنے دلوں پر قائم کریں۔ اور یہ نمونے پھر اپنی نسلوں کے لئے پیش کریں۔ اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے حقیقی انصار بنیں۔
خطاب کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اجتماعی دعا کروائی اور اس کے بعد نیشنل عاملہ اور دیگر عہدیداران کے ساتھ گروپ تصاویر کا پروگرام ہوا۔ اور اس کے ساتھ یہ اجتماع خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت روح پرور ماحول میں اپنے اختتام کو پہنچا۔
(حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کا مکمل متن حسب سابق آئندہ کسی اشاعت میں شائع کیا جائے گا۔ انشاء اللہ۔)
اجتماع کے تینوں دن نماز تہجد باجماعت ادا کی گئی۔ نماز فجر کے بعد درس (قرآن، حدیث اور ملفوظات) کا پروگرام ہوتا رہا۔ ناشتہ کے بعد روزانہ دس بجے اجتماع کی کارروائی کا آغاز کیا جاتا۔ جمعۃالمبارک کے روز مجلس شوریٰ کا انعقاد ہوا جس کی کارروائی نماز جمعہ اور کھانے کے وقفہ تک جاری رہی۔ اور نماز جمعہ و عصر کے بعد دوبارہ شروع ہوکر قریباً پونے سات بجے شام تک جاری رہی۔ محترم چودھری وسیم احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے نے مجلس شوریٰ سے افتتاحی اور اختتامی کلمات کہے اور ممبران شوریٰ کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف احسن رنگ میں توجہ دلائی اور تجاویز پر بحث کے دوران بھی بحیثیت صدر، مجلس شوریٰ کی کارروائی کے دوران ممبران کی ہر پہلو سے راہنمائی کی۔
مغرب اور عشاء کی نمازوں کی باجماعت ادائیگی کے بعد شام ساڑھے سات بجے اجتماع کی افتتاحی تقریب مسجد بیت الفتوح مورڈن کے احاطہ میں نصب وسیع و عریض مارکی میں منعقد ہوئی۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے کی۔ مجلس انصاراللہ اور برطانیہ کے قومی پرچم لہرائے جانے کے بعد دعا ہوئی۔ جس کے بعد کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم رفیع احمد شاہنواز صاحب نے کی۔ مکرم نسیم جمال صاحب نے آیات کریمہ کا انگریزی ترجمہ پیش کیا اور مکرم منصور احمد چودھری صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام سے چند اشعار خوش الحانی سے سنائے۔ اس کے بعد مکرم امیر صاحب نے انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے انصار کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے کہا کہ اس ملک میں رہنے کی وجہ سے ہم پر بعض فرائض عائد ہوتے ہیں تاکہ ہم اُن انعامات پر شکر ادا کرسکیں جو یہاں رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر نازل کئے ہیں۔ مکرم امیر صاحب نے والدین سے حسن سلوک کی طرف بھی قرآنی ارشادات کی روشنی میں توجہ دلائی اور اس حوالہ سے بعض افسوسناک معاشرتی پہلوؤں کا ذکر کیا۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت اس رنگ میں کرنی چاہئے کہ وہ ہمارے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں۔ اسی طرح مالی قربانی کی تحریک کرتے ہوئے مساجد کی تعمیر کے حوالہ سے آپ نے بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ نے برطانیہ میں تین نئے مراکز کے قیام کی منظوری دی ہے جو مچم (لندن)، لورپول اور لیوٹن میں قائم کئے جائیں گے۔ جبکہ ساؤتھ ویلز میں انصاراللہ کی مدد سے مسجد کے قیام کا منصوبہ بھی جاری ہے۔
ساڑھے آٹھ بجے مکرم رانامشہود احمد صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ یوکے نے ’ذکرحبیب‘ کے موضوع پر انگریزی میں تقریر کی۔آپ نے عبادات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس فرمانِ الٰہی کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر میری محبت چاہئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا جائزہ لیں تو عبادت کا معیار انتہائی بلند نظر آتا ہے۔ آپ نے اپنی تقریر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعودؑ اور صحابہ کی ایسی مثالیں بیان کیں جن سے نماز کی اہمیت پوری طرح واضح ہوتی ہے۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ نے بھی ایک موقع پر فرمایا ہے کہ خلافت کے نظام سے فائدہ اٹھانے کے لئے قیامِ نماز پہلی شرط ہے۔
رات قریباً 9 بجے یہ پروگرام اختتام کو پہنچا۔
ہفتہ اور اتوار کے دونوں دن ناشتہ کے بعد بیک وقت مختلف علمی اور ورزشی مقابلہ جات کا انعقاد عمل میں آتا رہا۔ اس موقعہ پر منعقد ہونے والے علمی مقابلہ جات میں تلاوت، نظم خوانی، تقریر، فی البدیہہ تقریر، پیغام رسانی اور حفظ قرآن کے مقابلے شامل تھے جبکہ ورزشی مقابلوں میں والی بال، رسّہ کشی اور گولہ پھینکنا کے علاوہ ایتھلیٹکس سے متعلق بعض دیگر مقابلے بھی ہوئے۔
ہفتہ کے روز بعد دوپہر محترم چودھری وسیم احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے کی زیرصدارت منعقد ہونے والے اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم حبیب الرحمن غوری صاحب نے کی۔ آیات کریمہ کے انگریزی ترجمہ اور نظم کے بعد محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالہ سے نہایت دلنشیں تقریر کی۔ آپ نے بتایا کہ مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب میں مذہب اور اخلاق کی دنیا میں ایک سو بااثر شخصیات کا انتخاب کیا ہے جس میں اُس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور گوتم بدھ کو بھی شامل کیا ہے۔ محترم میر صاحب موصوف نے ان تینوں شخصیات کے تقابلی جائزہ سے ثابت کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اثرات کے مقابلہ میں دنیا کا کوئی شخص دُور دُور تک نظر نہیں آسکتا۔ آپ نے مزید کہا کہ سیرت رسولؐ کا اصل مأخذ قرآن کریم ہے جبکہ احادیث اس کی تشریح اور تفسیر کرتی ہیں۔ پونے چار بجے یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
پھر شعبہ تبلیغ اور شعبہ مال میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے انصار کی مختصر تقاریر ہوئیں اور مکرم مرزا تنویر احمد صاحب زعیم ناربری، مکرم امتیاز احمد صاحب زعیم پٹنی، مکرم آغا حبیب اللہ صاحب ، مکرم شیخ آفتاب احمد صاحب آف تھارنٹن ہیتھ نے اپنے تجربات بیان کئے۔ مکرم شکیل بٹ صاحب قائد تبلیغ مجلس انصاراللہ یوکے نے مجلس کی کارکردگی کے چند روشن پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کتاب ’’لائف آف محمدؐ‘‘ اب تک ایک لاکھ تین ہزار کی تعداد میں طبع کرواکر اس میں سے 45 ہزار کی تعداد میں اب تک تقسیم بھی کی جاچکی ہے جبکہ تقسیم کی جانے والی دیگر کتب اور پمفلٹس کی تعداد اس کے علاوہ ہزاروں میں ہے۔ آپ نے تبلیغی نشستوں، تبلیغی سٹالز، مجالس سوال و جواب اور بیعتوں کی تعداد سے متعلق کوائف بھی بیان کئے۔ اس دوران مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن اور مکرم امیر صاحب یوکے نے بھی مختصراً چند ضروری امور بیان کئے۔
قریباً 5 بجے مکرم امداد الرحمن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش نے اپنی تقریر میں بنگلہ دیش میں جاری جماعت احمدیہ کی مخالفت اور اس کے جواب میں جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔ بنگالی احمدیوں کے جذبۂ قربانی کو بیان کرتے ہوئے موصوف مقرر کئی بار جذبات سے مغلوب ہوگئے اور آپ نے کئی ایمان افروز واقعات بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے اس دعویٰ کی تصدیق کی جس میں حضورؑ فرماتے ہیں کہ جنت صرف مرنے کے بعد نہیں بلکہ اسی زندگی میں مل جاتی ہے۔ آپ نے بتایا کہ بیعتوں کے حصول کے لئے دعائیں کرنا اور رات کو گریہ و زاری کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور تڑپنا بہت ضروری ہے۔
ساڑھے پانچ بجے مکرم ڈاکٹر شبیر احمد بھٹی صاحب ڈائریکٹر ہیومینٹی فرسٹ نے ادارہ کی خدمات خصوصاً ایبولاؔ وائرس کے حوالہ سے update کیا اور اس کے لئے امداد اور دعاؤں کی درخواست بھی کی۔ پھر مکرم دبیر بھٹی صاحب ایڈیشنل قائد تربیت نے ایک Presentation میں کار میں MP3 Modulator کی تنصیب سے متعلق بتایا۔ یہ آلہ کار میں موجود سگریٹ لائٹر کی جگہ لگایا جاتا ہے اور ایک ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کام کرتا ہے۔ مجلس انصاراللہ برطانیہ نے اس آلہ کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر کتب اور اُن کے تراجم (کی آڈیوز) سننے کی سہولت مہیا کی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تربیت اور تعلیم کا شاندار ذریعہ ہے۔ دوستوں کو اس آلہ کو خرید کر بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ بعد ازاں مکرم حیدر حمید صاحب نے چیریٹی واک اور اس میں اکٹھی کی جانے والی رقوم کے حوالہ سے ادائیگی کے طریقہ کار پر بریفنگ دی۔ پھر مکرم منصور احمد کاہلوں صاحب نائب صدر مجلس نے بتایا کہ چیریٹی کے ذریعے اکٹھی کی جانے والی رقم 188 مقامی اور قومی چیریٹیز میں تقسیم کی گئی ہے۔ آپ نے حضور انور کا یہ ارشاد بیان کیا کہ چیریٹی اکٹھی کرنے سے تبلیغ کے دروازے بھی کھلتے ہیں اور اسی لئے حضور انور نے مختلف ممالک کی ذیلی تنظیموں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ مجلس انصاراللہ برطانیہ کی چیریٹی سے متعلق کی جانے والی کاوشوں کو Follow کریں۔
اس کے بعد مکرم اویس جنود صاحب نے اپنے خاندان میں احمدیت کی آمد کے بارہ میں تفصیل سے بیان کرتے ہوئے بتایا کہ 1938ء میں ان کے والد محترم حاجی جنوداللہ صاحب کاشغر، گلگت اور کشمیر کی برف پوش چوٹیوں سے ہوتے ہوئے دو ماہ کے طویل سفر کے بعد قادیان پہنچے اور بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ پھر اُن کی والدہ بھی اگلے سال آئیں اور بیعت کی توفیق پائی۔ قیام پاکستان کے بعد یہ خاندان سرگودھا میں آبسا جہاں 1974ء کے فسادات کے دوران انہیں شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور کلمہ کیس میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے افضال کا بھی ذکر کیا جو اِس قربانی کے نتیجہ میں نازل ہوئے۔
اس کے بعد مکرم خالد چغتائی صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کا کلام:’’دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو!…‘‘ خوش الحانی سے پیش کیا۔
اسی اجلاس میں مکرم صفدر حسین صاحب نے پنجابی زبان میں تقریر کی۔ آپ شیعہ تھے اور پاکستان میں ریلوے میں ڈائننگ کار کا ٹھیکہ لیا کرتے تھے۔ آپ اُس روز بھی چناب ایکسپریس میں ڈیوٹی پر موجود تھے جب ربوہ کے سٹیشن پر 1974ء میں مخالفین احمدیت کی طرف سے غنڈہ گردی کرتے ہوئے ملک بھر میں فسادات کی راہ ہموار کی گئی اور دراصل یہی واقعات تھے جن کے نتیجہ میں آپ نے سچائی کی بنیاد پر احمدیوں کا ساتھ دیا اور آخرکار ایک خواب کے ذریعے احمدیت کی قبولیت کی توفیق پائی۔ آپ نے اپنی تقریر کے آخر میں بتایا کہ احمدیت سے قبل ہی مَیں کئی احمدیوں کے اخلاق کا معترف تھا اور یہ احمدیوں کے اخلاق ہی تھے جو مجھے احمدیت کے قریب لے کر آئے تھے۔ آپ نے نصیحت کی کہ غیروں کو قریب لانے کے لئے اخلاق بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
آخر میں محترم چودھری وسیم احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے نے اپنی تقریر میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کی روشنی میں نہایت مؤثر رنگ میں بیان کیا کہ اگر ہم بحیثیت انصار اپنے گھروں میں اچھا ماحول پیدا نہیں کرسکتے تو ہمیں باہر کسی اَور کو تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ نے متعدد مسائل اور واقعات بیان کئے جن کے نتیجہ میں مقامی افراد اور اداروں نے جماعت سے رابطہ کیا اور یہ اظہار کیا کہ فلاں احمدی کا رویہ آپ کی جماعت کی تعلیم کے منافی ہے۔
اتوار کے روز دوپہر کے کھانے کے بعد حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیرصدارت اختتامی اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم معید حامد صاحب نے کی۔ مکرم ڈاکٹر منصور احمد ساقی صاحب نے آیات کریمہ کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ مکرم خالد چغتائی صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے کلام ’’دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکادیا‘‘ سے چند اشعار پڑھ کر سنائے۔ جس کے بعد علمی و ورزشی مقابلہ جات میں اوّل آنے والوں کے علاوہ اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر مختلف مجالس کو بھی انعامات و سندات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عطا فرمائے۔ چھوٹی مجالس میں اوّل آکر مجلس براملے ولیوشم اور چھوٹے ریجنز میں اوّل آکر ہارٹفورڈ شائر نے سندات وصول کیں۔ بڑے ریجنز میں بیت الفتوح ریجن سوم، لندن ریجن دوم اور ساؤتھ ریجن اوّل رہا جبکہ علمِ انعامی کے مقابلہ میں مجلس مچم سوم آئی، مجلس ویسٹ ہِل دوم قرار پائی اور مجلس ناربری اوّل آکر عَلم انعامی اور سند خوشنودی کی حقدار ٹھہری۔ اللہ تعالیٰ یہ اعزازات ان مجالس کے لئے ہر پہلو سے بابرکت فرمائے۔ آمین۔
اس کے بعد محترم چودھری وسیم احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے نے مجلس شوریٰ اور اجتماع کے حوالہ سے مختصر رپورٹ پیش کی۔ جس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔ دعا کے ساتھ اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کے نیک اثرات کو جاری رکھے۔ شاملینِ اجتماع کو نیک راہوں پر چلنے اور پاکیزہ نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے اور اجتماع کے انعقاد کے لئے مختلف پہلوؤں سے خدمت بجالانے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں