محترمہ شمس النساء صاحبہ

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 14؍اپریل 2011ء میں مکرم شہاب احمد صاحب اور اُن کے بھائی بہنوں کی طرف سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جو اُن کی والدہ محترمہ شمس النساء صاحبہ (عرف چنّی بیگم) اہلیہ محترم سیّد محی الدین صاحب مرحوم (ایڈووکیٹ) کے ذکرخیر پر مبنی ہے۔
محترمہ شمس النساء صاحبہ 18؍ستمبر 2010ء کو قریباً 80 سال کی عمر میں بمبئی میں وفات پاگئیں۔ رانچی میں تدفین ہوئی۔ تدفین میں غیرازجماعت بھی بڑی تعداد میں شامل ہوئے۔
محترم سیّد محی الدین صاحب کو اُن کی سماجی خدمات کے اعتراف میں انگریز سرکار کی طرف سے خان بہادر کا خطاب ملا تھا۔وہ ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر تھے اور اسمبلی کے رُکن بھی رہے۔ آپ کے قبول احمدیت پر اگرچہ مخالفت کا طوفان کھڑا ہوا لیکن آپ اور آپ کی اہلیہ نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ اور بعدازاں خوب خدمت کی توفیق پائی۔ خلیفۂ وقت کے ارشاد پر جماعتی جائیداد کے مقدمات کی پیروی کی اور کامیابیاں حاصل کیں۔ انجمن احمدیہ کے ممبر بھی رہے۔ رانچی میں ایک کامیاب کانفرنس کا انعقاد کرکے جماعت کو اعلیٰ سطح پر روشناس کروایا۔ آپ کا گھر ’’آشیانہ‘‘ اُس زمانے میں احمدیہ مرکز کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ کثرت سے مہمان وہاں آتے۔ آپ کی اہلیہ نہایت خوش اخلاقی سے سب کا خیال رکھتیں۔اُنہیں قادیان سے ایسی محبت تھی کہ اپنے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی شادی بھی قادیان میں کی۔
محترم سیّد محی الدین صاحب کی پہلی شادی حسینہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جن سے چھ بچے تھے، پھر دوسری شادی صالحہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جن سے پانچ بچے ہوئے لیکن وہ 1961ء میں وفات پاگئیں تو آپ نے تیسری شادی محترمہ شمس النساء صاحبہ سے کی۔ انہوں نے آپ کی پہلی بیویوں کے بچوں کو بہت پیار دیا اور کم عمر ہونے کے باوجود گھر کو بھی عمدگی سے سنبھال لیا اور حُسنِ سلوک سے سب کا دل جیت لیا۔ آپ کے ہاں چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ احمدی ہونے سے پہلے آپ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ کے والد الٰہ آباد میں کلکٹریٹ میں اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے لیکن بعض وجوہات کی وجہ سے ہجرت کرکے رانچی آگئے اور بطور مدرس کام کرنے لگے۔
محترمہ شمس النساء صاحبہ نے احمدی ہونے کے بعد دینی امور کی سختی سے پابندی کی۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند اور تہجدگزار تھیں۔ حج کی سعادت بھی حاصل کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں