محترم شیخ خورشید احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍مارچ 2011ء میں مکرم لطف الرحمٰن محمود صاحب کے قلم سے سلسلہ احمدیہ کے دیرینہ خادم ، صحافی اور مصنف محترم شیخ خورشید احمد صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں محترم شیخ صاحب کے مختصر حالاتِ زندگی الفضل انٹرنیشنل 13مارچ 2015ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں۔ ذیل میں چند اضافی امور پیش ہیں۔
محترم شیخ خورشید احمد صاحب 1920ء کے لگ بھگ لاہور میں محترم شیخ سلامت علی صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ محترمہ حبیب النساء صاحبہ 1927ء میں مختصر سی علالت کے بعد وفات پاگئیں۔ مرحومہ حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب سابق امام مسجد فضل لندن کی بیٹی تھیں۔ شیخ صاحب اکلوتی اولاد تھے جو 8سال کی عمر میں یتیم ہوگئے۔ آپ کی والدہ مدرسۃالخواتین کی ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ اﷲتعالیٰ نے مرحومہ کو تقریر وتحریر کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ اس یتیم بچے کو علم و ادب کا میلان والدہ سے ورثے میں ملا۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک کرنے کے بعد آپ نے ادیب عالم اور ادیب فاضل کے امتحانات پاس کئے اورپھر الفضل میں مضامین لکھنے شروع کردیئے۔ آپ کے انداز تحریر اور دلائل سے متأثر ہو کر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تقریر اور پھر خطبہ جمعہ میں ان مضامین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ابھی ایک بچہ اُن کے رَدّ میں مضامین لکھ رہا ہے جس کا نام خورشید احمد ہے۔ وہ اس وقت لاہور میں رہتا ہے۔ اس کے مضامین ایسے اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں پہلے میں سمجھتا تھا کہ کوئی بڑی عمر کا آدمی ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خانصاحب فرزند علی صاحب کا نواسہ ہے اور سترہ اٹھارہ سال کی عمر کا ہے۔‘‘
غالباً 1962-1963ء میں محترم شیخ صاحب دو ماہ کی رخصت پر تشریف لے گئے۔ مَیں (مضمون نگار) اُن دنوں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سٹاف میں تھا۔ مجھے یہ حکم ملا کہ شیخ صاحب کی عدم موجودگی میں ان کی قائمقامی کے لئے الفضل کے دفتر میں رپورٹ کروں۔ محترم روشن دین تنویر صاحب سے ان چند دنوں کی رفاقت عظیم علمی نعمت ثابت ہوئی۔ وہ بڑے تجربہ کار، کہنہ مشق اور زندہ دل صحافی تھے۔ ایک بلندپایہ شاعر بھی تھے۔ وہ علّامہ اقبال کے ہم وطن اور اُن کے ملنے والوں میں شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اقبالؔ حضرت مسیح موعود کی فارسی شاعری کے بہت بڑے مداح تھے۔ ایک بار بتایا کہ مولانا کوثر نیازی نے اُنہیں ایک عریضہ لکھا تھا کہ وہ احمدیت کے بارہ میں ریسرچ کرنا چاہتے ہیں، اس حوالہ سے راہنمائی کی جائے۔ آپ نے نیازی صاحب کو لکھا کہ بہت نیک ارادہ ہے اگر تعصب سے بالا ہوکر تحقیق کریں گے تو لازماً حق آشکار ہوجائے گا۔ آپ نے اپنا تجربہ بھی بیان کیا کہ کس طرح احمدیت کے بارہ میں تحقیق قبولِ حق کا باعث بنی۔ آپ نے جواب کے ساتھ مولانا صاحب کو چند کتب بھی بھجوائیں جن میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ شامل تھی۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد مولانا کوثر نیازی صاحب وزیر مذہبی امور رہے۔
محترم شیخ صاحب پر الفضل کے علاوہ بعض جرائد مثلاً ’’تشحیذالاذہان‘‘ اور ’’مصباح‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری بھی عائد رہی۔ تین کتب بھی تصنیف کیں لیکن ان مصروفیات کے باوجود آپ کا ایک مستقل کام ڈائری لکھنا تھا۔ آپ نے 72سال تک اپنی باقاعدہ ڈائری لکھی۔
آپ مرنجاں مرنج، کم گو اور بے ضرر وجود تھے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’دل بدست آور کہ حج اکبر است‘‘ کہ انسان کم از کم ایسا تو ہوکہ اگر دوسروں کی دلداری نہیں کرسکتا تو کسی کی دل آزاری بھی نہ کرے۔
محترم شیخ صاحب پنجوقتہ نمازیں مسجد میں باجماعت ادا کرتے۔ آپ 1942ء میں نظامِ وصیت میں شامل ہوئے۔ 2005ء میں عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔
میں چند سال تک ’’تشحیذ الاذہان‘‘ کا نائب ایڈیٹر رہا۔ جب کبھی کاغذات یا مسودات لے کر حاضر ہوتا تو وہی گرمجوشی اور مسکراہٹ۔ مختصر سی دوچار باتیں۔
آپ 91برس کی عمر میں وداع ہوئے۔ آخر ی ایام میں بھی بقائمی ہوش و حواس بچوں سے باتیں کرتے رہے۔ حسبِ معمول نصائح سے نوازا اور اُنہیں بتایا کہ اب مولیٰ کریم کے حضور حاضر ہونے کا وقت آ گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ خوش و خرم اور مطمئن و مسرور اپنے ربّ کے حضور حاضر ہونے کے لئے تیار ہیں۔ الغرض انہوں نے نفسِ مطمئنہ کی کیفیت میں جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں