محترم محمد ظفر اللہ وڑائچ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22؍فروری2008ء اور 17؍اپریل 2008ء میں مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب نے اپنے سسر محترم محمد ظفراللہ وڑائچ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ صاحب وڑائچ کے دادا محترم چوہدری اللہ بخش صاحب ولد چوہدری میراں بخش صاحب نے 1904ء میں قادیان جاکر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد آپؓ کی وفات بعمر قریباً 76 سال ہوئی اور چک پنیار ضلع سرگودھا میں دفن ہوئے۔ آپؓ 1/9 حصہ کے موصی تھے۔ نصف مربع زمین کی آمد اشاعت اسلام کے لئے دیتے رہے۔ دیگر چندوں میں بھی ذوق و شوق سے حصہ لیتے اور دعوت الی اللہ بھی کرتے تھے۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔
محترم چودھری محمد ظفراللہ صاحب مئی 1927ء میں چک 9 پنیار ضلع سرگودھا میں محترم چوہدری فضل احمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔
آپ کے والد نے آپ کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھا اور تین بھائیوں میں صرف آپ ہی تعلیم یافتہ تھے۔ 1948ء میں آپ نے بی اے کرلیا اور محکمہ ایکسائز اینڈ لینڈ کسٹم میں بطور انسپکٹر ملازمت کرلی۔ لیکن اِس محکمہ میں نوکری کے باوجود آپ نے حرام کمائی کو حقارت سے ٹھکرادیا۔ لاکھوں کی رشوت کی پیشکش ہوئی لیکن قبول نہ کرنے پر تکالیف اٹھانی پڑیں اور صوبہ سرحد اور بلوچستان کے غیرآباد علاقوں میں تبدیل کردیئے گئے۔ دیانتداری اور اصول پرستی اگرچہ دنیاوی ترقی کی راہ میں روک بنی لیکن آپ کا نفس مطمئن تھا اور دوسرے لوگ دل سے آپ کی عزت کرتے تھے۔ تاہم دوران ملازمت صرف ایک ترقی ملی اور آپ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ سے 1987ء میں ریٹائر ہوئے۔ پھر آپ نے زندگی وقف کردی۔ ملازمت کے دوران آپ نے LLB بھی کرلیا تھا۔
تحریک جدید میں خدمت کرنے کے علاوہ مدرسۃ الحفظ کے نگران بھی رہے، بطور قاضی دارالقضاء میں فرائض 2005ء تک ادا کرتے رہے۔ ہمیشہ دین کو دنیا پر نمایاں طور پر مقدّم رکھا۔ آپ کا کردار بے داغ تھا اور بشری کمزوریوں سے قطع نظر آپ ایک نفع بخش وجود تھے۔ ایک دفعہ اپنے گھر کا ضرورت سے زائد سامان مستحقین میں بانٹ دیا۔ اپنی ضرورت کے لئے بہت تھوڑا رکھتے تھے۔ خود کو سفر آخرت کے لئے پوری طرح تیار رکھا ہوا تھا۔ اپنے صندوق اور کفن کا کپڑا عرصہ درازسے رکھا ہوا تھا۔ 7نومبر 2007ء کو لیّہ میں دل کے دورے کے نتیجے میں وفات پائی۔ سفر پر جانے سے قبل اپنے صندوق میں وصیت کے حساب سمیت تمام چیزیں ترتیب سے رکھ دی تھیں۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔
محترم چوہدری صاحب نے اپنے حصہ کی زمین بیچ کر اس میں سے معمولی رقم اپنے اور اہل خانہ کے گزارہ کے لئے رکھی اور بھاری رقم جو ایک لاکھ روپیہ کے قریب تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں اشاعت اسلام کے لئے پیش کر دی۔ آپ نے 1/3 حصہ کی اپنی وصیت کی ہوئی تھی۔ حتی المقدور ہر تحریک میں حصہ لیتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی تحریک ’’مریم شادی فنڈ‘‘ کا اعلان ہوا تو آپ نے اپنے بینک اکاؤنٹ سے ساری رقم جو سوا لاکھ روپے سے زیادہ تھی اس فنڈ میں پیش کردی۔ اپنے طور پر بھی اپنے محلہ یا جاننے والے غریب لوگوں کی بچیوں کی شادی میں معاونت کرتے رہے۔
آپ نے اپنی زندگی بلاتکلّف اور نہایت سادگی سے گزاری اور اپنا بوجھ تادم آخر خود اٹھایا۔ ایک اہم سرکاری عہدہ پر کام کرنے کے باوجود کوئی ناز نخرہ نہ تھا۔
خدا تعالیٰ پر آپ کا بھروسہ اور توکّل حیرت انگیز تھا۔ خاکسار اپنے رشتہ کے لئے خود ہی ایک دن آپ کے پاس حاضر ہوا۔ دستک دی تو آپ ہی نے دروازہ کھولا۔ میں نے بتایا کہ میرے کچھ عزیز آج آپ کے پاس میرے رشتہ کے سلسلہ میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے آجائیں ہم انتظار کریں گے۔ چنانچہ اُسی وقت رضامندی کا اظہار کردیا اور صرف ایک ہی بات مد نظر رکھی کہ میں واقف زندگی مربی سلسلہ ہوں۔ آپ نے مجھے کہا کہ ہماری طرف سے کوئی مطالبہ نہیں۔ اگر ایک جوڑا کپڑوں کا لے کر آجاؤ گے تو میں بیٹی رخصت کر دوں گا۔ آپ نے ایسا ہی کر دکھایا۔ شادی والے دن خاکسار چند عزیز و اقارب کو لے کر آپ کے گھر دارالنصر غربی میں آیا۔ چند جوڑے کپڑوں کے ہمارے پاس تھے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ کسی نے بھی ہم سے نہ پوچھا کہ بیاہنے آئے ہوتو کیا لائے ہو۔ میرے پاس ایک طلائی انگوٹھی بھی نہ تھی جو پہنا دیتا۔ آپ نے اسی حالت میں بچی رخصت کر دی۔ اور مجھے کہا کہ اب آپ اس گھر کے ایک فرد کی طرح ہیں۔ دن کو آؤ یا رات کو ہم آپ کا احترام کریں گے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اسی طرح آپ کا بھی ہے جس طرح ہمارا ہے۔ میری بیٹی اب آپ کی بیوی ہے۔ آپ کی اجازت ہوگی تو ہمارے پاس آسکے گی۔ اگر ہمارے ہاں ہوگی اور آپ دن یا رات کو کسی وقت بھی لینے آؤ گے تو ہم اس کو آپ کے ساتھ بھجوائیں گے۔
شادی کے بعد قریباً چار سال تک میری بیوی اور بچے آپ کے ہاں رہے۔ خاکسار کی اہلیہ جو کہ شادی کے وقت صرف میٹرک پاس تھیں ابM.A., M.Ed. ہیں۔ محترم چودھری صاحب نے میرا بوجھ بٹانے میں ہر طرح ساتھ دیا۔ بہت پُرخلوص، ہمدرد، سادہ اور صاف گو تھے۔
احمدیت کے لئے آپ دل و جان سے فدا تھے۔ ابھی ملازمت میں ہی تھے کہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں لکھ دیا کہ میں ملازمت چھوڑ کر دین کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ حضورؒ کی طرف سے حکم ہوا کہ ملازمت مکمل کرکے پھر آجائیں۔ چنانچہ 1987ء میں ریٹائرڈ ہوئے تو زندگی وقف کر کے بلامعاوضہ خدمت سلسلہ میں مصروف ہوگئے۔ پہلے وکالت مال اول تحریک جدید میں کام کیا۔ اس کے بعد 2005ء تک بطور قاضی سلسلہ خدمت بجالاتے رہے۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ ساری اولاد ہی آپ کی وقف ہو۔ چنانچہ آپ کے دو بیٹے مکرم طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ صاحب اور مکرم حافظ محمد اقبال وڑائچ صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ خاکسار کے علاوہ ایک اور مربی سلسلہ نصیر احمد شاد چیمہ صاحب مرحوم آپ کے داماد تھے۔ اس وقت آپ کا ایک نواسہ (خاکسار کا بیٹا) عزیزم سعد محمود باجوہ صاحب جامعہ احمدیہ ربوہ میں استاد ہیں۔ نیز دو نواسے واقف زندگی ہیں اور جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم ہیں۔
اپنی بیٹیوں کے رشتے کرتے وقت آپ نے ہمیشہ دین کو ترجیح دی۔ ایک دفعہ ایک بیٹے نے ارادہ کیا کہ ان کی ڈیوٹی ربوہ میں لگ جائے تا کہ وہ ساتھ ساتھ والدین کی خدمت بھی کرے۔ جب آپ کو پتہ چلا تو فوراً روک دیا اور کہا کہ ہم گزارہ کر لیں گے۔ ہماری خاطر ایسا نہ کرو۔ دنیا سے آپ کی بے رغبتی کمال درجہ کی تھی۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی درویشی اختیار کی اور دنیا کی رنگینیوں سے بے نیاز رہے۔ مہمان نوازی کا وصف بھی خوب تھا۔ مہمان جس وقت بھی آتا جو کچھ میسر ہوتا پیش کر دیتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں