محترم مولانا عبدالرحمٰن مبشر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20 جنوری 2011ء کے ایک مضمون میں مکرم نصراللہ بلوچ صاحب نے اپنے والد محترم مولانا عبدالرحمٰن مبشر صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم مولانا عبدالرحمٰن مبشر صاحب نتھوانی بلوچ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈیرہ غازیخان سے 28 میل دور بستی رانجھا میں 1908ء میں مکرم احمد خان صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ والد ناخواندہ اور سیدھے سادے انسان تھے۔ 1918ء میں وہ بعارضہ فالج قریباً ایک سال بیمار رہ کر فوت ہوگئے۔ ان کی عمر 40 سال تھی۔ چھ ماہ بعد اُن کی اہلیہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر صرف 30 سال تھی۔ اس پر دس سالہ عبدالرحمٰن مبشر کو رشتہ کے ایک دادا نے اپنے پاس رکھ لیا۔ آپ کے تین بھائی اور ایک بہن بھی تھیں۔
محترم عبدالرحمٰن مبشر صاحب پرائمری کرچکے تھے۔ کچھ عرصہ میں ہی خودداری کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑدینے کا فیصلہ کیا اور ایک بھائی کے ہمراہ چھپتے چھپاتے 28 میل پیدل چل کر ڈیرہ غازیخان پہنچے۔ پہلے وہاں اور پھر دہلی کے ایک مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔ زمانۂ طالبعلمی میں ہی ایک کلاس فیلو کے منہ سے حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر سنا:

جمال و حسن قرآں نور جانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے

اس نے ان پر بڑا اثر کیا۔ دہلی سے دوسرے بھائی واپس گھر چلے گئے اور محترم مبشر صاحب قصور سے ہوتے ہوئے ملتان پہنچے اور ایک سرکاری دفتر میں ملازمت کرلی۔
ایک دن آپ ایک لائبریری میں مطالعہ میں مصروف تھے کہ وہاں کسی نے آکر عملہ سے پوچھا کہ کوئی مرزا صاحب کی کتاب بھی ہے؟ جواب ملا کہ تمہیں اُن کی کتابوں کی کیا ضرورت ہے اور ان میں کیا رکھا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہر مذہب اور فرقہ کی کتاب پڑھنی چاہئے اس میں کیا حرج ہے، شاید کوئی اچھی بات مل جائے۔
یہ بات محترم مبشر صاحب پر بہت اثر کرگئی۔ چنانچہ ملتان میں ہی ایک مخالف نے مباہلہ کا ایک اشتہار آپ کو دیا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے متعلق غلط الفاظ لکھے ہوئے تھے تو آپ نے احمدی نہ ہونے کے باوجود اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ پھر مکرم شیخ فضل الرحمن صاحب اختر ملتانی کی دعوت پر آپ اُن کے ہمراہ 1930ء میں قادیان جلسہ پر گئے۔ وہاں شیخ صاحب نے بیعت کی تلقین کی تو آپ نے کہا کہ میں بیعت تو کرلیتا ہوں لیکن سب جزا سزا آپ کے ذمہ ہے کیونکہ ابھی تک مَیں نے کوئی مطالعہ نہیں کیا۔ چنانچہ بیعت کر تو لی لیکن جب واپس ملتان آئے تو عجیب کشمکش تھی کہ مَیں کام صحیح کر آیا ہوں یا غلطی ہوگئی ہے۔ چنانچہ نماز عشاء پڑھی اور دعا کرکے سوگئے تو ایک ایمان افروز خواب دیکھا اور اگلے ہی روز حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو بیعت کا خط لکھ دیا۔ پھر اپنے ہم زلف محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کے کہنے پر تعلیم حاصل کرنے 1931ء میں قادیان چلے آئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ ایک سال میں ساتویں کلاس پاس کی اور پھر مزید چار سال میں مولوی فاضل اور مربی کی ڈگری حاصل کی۔
زمانۂ طالبعلمی میں ہی آپ کی شادی حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحبؓ کی بیٹی سے ہوگئی۔ 1937ء میں مدرسہ احمدیہ میں بطور مدرّس دینیات متعین ہوئے۔ تالیف و تصنیف کا کام بھی عرصہ تک کیا۔ قاعدہ تعلیم القرآن بطرز جدید، لفظی ترجمہ والا قرآن شریف اور نماز مترجم مکمل کی۔ 34 کے قریب مفید عام کتب لکھیں جن میں بشارات رحمانیہ جلد اول و جلد دوم، برہان ہدایت، دلائل قاطعہ، صوت حق، سلطان مبین اور موعود اقوام عالم وغیرہ بہت مشہور ہوئیں۔
آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ 1953ء میں ڈیرہ غازیخان کے سیکرٹری تعلیم و تربیت مقرر ہوئے۔ پھر 1956ء سے مقامی صدر اور امیر ضلع رہے۔ انتخاب خلافت کمیٹی کے ممبر بھی رہے۔ زندگی کے آخری ایام تک خود کو جماعت کے لئے وقف رکھا اور قلمی خدمت میں مصروف رہے۔ نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا نہ کرتے۔ ہمدرد انسان تھے اور اپنی اولاد کو بھی اس طرح کی زندگی گزارنے کی تلقین کرتے۔ قناعت پسند تھے۔ کثرت اولاد اور مالی پریشانیوں کے باوجود ہمیشہ دعائیں ہی کرتے رہتے۔ سینکڑوں کتابوں پر مشتمل لائبریری آپ نے اپنے پیچھے چھوڑی۔
کامیاب زندگی کے بعد 82 سال کی عمر میں نومبر 1990ء میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ کی اہلیہ آپ کی وفات سے دس سال قبل فوت ہوگئی تھیں۔ آپ نے پانچ بیٹے اور سات بیٹیاں سوگوار چھوڑیں۔ موصی تھے اس لئے بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں