محترم مولوی عبدالحق نور صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر 2011ء میں مکرم عبداللہ زرتشت صاحب کے قلم سے درج ذیل شہید احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔
آپ قادیان کے قریب ایک گاؤں ’’بھٹیاں گوت‘‘ کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والد مکرم الٰہی بخش صاحب ایک معروف زمیندار تھے اور ہندو، سکھ اور مسلمان سب آپ سے اپنے معاملات کے فیصلے کرواتے تھے۔ آپ نے چار سال تک بطور ہیڈماسٹر ملازمت کی اور پھر ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ لمبی سوچ بچار اور دعاؤں کے بعد 1934ء کے جلسہ سالانہ پر بیعت کی تو شدید مخالفت شروع ہوگئی۔ آپ نے مخالف مولوی کو دعوتِ مباہلہ دی جس میں آپ نے تحریر کیا کہ ’’اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں تو سب سے پہلے مخالف مولوی کا بیٹا مرے گا اور اس کے بعد وہ خود بھی مر جائے گا‘‘۔ چنانچہ مولوی محمد اسماعیل جس کے ساتھ آپ نے مباہلہ کیا تھا مر گیا۔ یہ اطلاع آپ کے بھائی نے دی۔ آپ نے جوش میں آکر کہا کہ تحریر مباہلہ میں تو تھا کہ اس کا بیٹا پہلے فوت ہوگا۔ جاکر پتہ کرو کہ اس کا بیٹا فوت ہؤا ہے کہ نہیں۔ چنانچہ پتہ کرنے سے معلوم ہوا کہ پہلے مولوی مذکور کا بیٹا فوت ہوا تھا اور پھر وہ مرا۔ اس واقعہ کو دیکھ کر آپ کے بھائی نے بھی بیعت کرلی۔
1942ء میں آپ کرونڈی منتقل ہوگئے اور زمینوں کے ٹھیکے وغیرہ لینے شروع کیے۔ آپ بہترین داعی الی اللہ تھے۔ آپ کی تبلیغ سے آپ کے رشتہ داروں میں سے قریباً پچاس افراد احمدی ہوئے۔ کرونڈی جماعت کی داغ بیل آپ نے ہی ڈالی۔ شہادت کے وقت تک کرونڈی جماعت کے صدر تھے۔ زمیندارہ کا وسیع تجربہ ہونے کی وجہ سے شہید مرحوم کو تقسیم ہند کے بعد محمود آباد، ناصر آباد اور دوسری اسٹیٹس میں کام کی نگرانی پر مقرر کیا گیا۔
دسمبر1966ء میں بعض شرپسند عناصر نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور کرائے کے دو قاتل اس غرض کے لییبھیجے جو آپ کے پاس اس انداز سے آئے گویا وہ بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ حسب معمول ان کو تبلیغ کرتے ہوئے شام کے وقت اپنے گھر لے آئے۔ ان کی خاطرمدارات کی، نمازیں باجماعت اداکیں۔ پھر فجر کی نماز پر آپ نے خود پانی گرم کرکے ان کو وضو کروایا اور انہیں نماز پڑھائی اور نماز کے بعد انہیں باہر اپنے باغ میں سیر کروانے لے آئے۔ جب کافی دیر ہوگئی تو آپ کے بیٹے نے اپنے ایک بھتیجے سے کہا کہ جاکر دیکھو وہ واپس کیوں نہیں آئے۔ بھتیجے نے دیکھا کہ وہ مہمان جو مولوی صاحب کے ساتھ باغ میں گیا تھا بھاگ رہا ہے۔ اُسے شک ہوا تو اُس نے اپنے چچا کو بھی آواز دی۔ پھر دونوں نے باغ میں دیکھا تو مولوی صاحب شہید کردیے گئے تھے۔ شہید مرحوم موصی تھے۔ ایک سال تک کرونڈی میں امانتاً دفن رہے پھر ربوہ میں بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں