محترم چودھری رشید احمد صاحب (سابق انٹرنیشنل پریس سیکرٹری)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25 و 26 نومبر 2010ء میں مکرمہ ناصرہ رشید صاحبہ کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں آپ نے اپنے خاوند محترم چودھری رشید احمد صاحب (انٹرنیشنل پریس سیکرٹری جماعت احمدیہ) کی سیرت اور خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
محترم چودھری رشید احمد صاحب نے اپنا کیرئیر پولیس اکیڈمی والٹن سے تھانیدار کی حیثیت سے شروع کیا۔ آپ باقاعدہ واقف زندگی نہ تھے لیکن اپنے آپ کو ہمیشہ وقف ہی سمجھتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بارہا اظہار خوشنودی کے طور پر فرمایا کہ ’رشید صاحب واقف زندگی تو نہیں ہیں لیکن واقف زندگی سے بڑ ھ کر کام کرتے ہیں‘۔
آپ خلیفۂ وقت کی کمال اطاعت کرتے تھے جب حضورؒ کا ارشاد ہوتا تو ساری ساری رات بھی کام کئے جاتے اور صبح اپنی ملازمت پر بھی بروقت پہنچتے۔
آپ نے میٹرک کے بعد تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں داخلہ لیا تو حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ پر نسپل تھے۔ حضورؒ نے آپ کا چھوٹا قد اور کمزور جسم دیکھ کر دودھ پینے کے لئے کہا اور احسان یہ کیا کہ آپ کی ضروریات کا نصف خرچ کالج نے اٹھالیا۔ انہی شفقتوں کے سایہ میں آپ نے B.A. کیا۔ پھر B.Ed. کیا۔ پھر معاشی تنگی کے باعث تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور پولیس اکیڈمی میں بھرتی ہوگئے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے مشورہ پر آپ نے ملازمت کے دوران شام کی کلاسز میں داخلہ لے کر L.L.B. کی ڈگری حاصل کرلی جس کا ہمیشہ بہت فائدہ ہوا۔ بعدازاں پرائیویٹ طور پر ایم اے اسلامیات کرکے سول سروسز کا امتحان دیا۔ لیکن اسی دوران مستقلاً لندن آگئے اور شعبہ تدریس سے وابستہ ہوکر مزید دو کورسز بھی کئے۔
محترم رشید احمد صاحب کا آبائی گاؤں پھمبیاں ضلع ہوشیارپور تھا۔ آپ کے دادا حضرت مولا بخش صاحبؓ ایک تعلیم یافتہ شخص تھے۔ انہوں نے گاؤں میں پہلا پرائمری سکول بھی جاری کیا جو بعد میں ہائی سکول بن گیا۔
آپ کے والد مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب ریلوے کے محکمہ سے منسلک تھے۔ عرصہ دراز تک سلطان پورہ لاہور کے صدر جماعت بھی رہے۔ وہ بہت نیک اور خاموش طبع انسان تھے۔ ان کو خدا نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ رشید احمد صاحب آپ کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ نومبر 1965ء میں آپ کا نکاح حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے پڑھایا۔
رشید احمد صاحب اگرچہ پولیس کے محکمہ سے منسلک تھے لیکن خداتعالیٰ نے ہمیشہ رزق حلال کھانے کی توفیق عطا فرمائی۔ چنانچہ پولیس کی ملازمت کے علاوہ بھی زائد وقت میں مختلف کام کرتے تاکہ مکان کی تعمیر کا خرچ پورا ہوسکے۔ طبیعت میں بہت قناعت تھی۔
آپ نے افریقہ میں بطور ٹیچر اپنے آپ کو پیش کیا تھا اور آپ کی تقرری سیرالیون میں ہوئی تھی۔ لیکن محکمۂ پولیس میں ہونے کی وجہ سے N.O.C کے حاصل کرنے میں کئی ماہ صرف ہو گئے۔ اسی دوران لندن کے لئے بھی اپلائی کیا تو شعبہ تدریس میں ویزا مل گیا۔ چنانچہ وکیل اعلیٰ صاحب کے مشورہ پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی منظوری سے افریقہ جانے کا ارادہ ترک کردیااور اکتوبر1967ء میں آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لندن آگئے۔ روانگی سے قبل آپ نے ملاقات کی تو حضورؒ نے اپنا رومال آپ کو تبرکاً عطا فرمایا۔
لندن پہنچے تو غیرمتوقع حالات درپیش ہوئے۔ ملازمت، رہائش، ضروریاتِ زندگی … کئی بار گھبراکر آپ نے واپس لَوٹ جانے کا ارادہ بھی کیا۔ وہاں کی شاہی نوکری اور جماعتی خدمت یاد آتی۔ لاہور میں آپ مختلف ڈیوٹیوں کے علاوہ ناظم عمومی کے طور پر خدمت بجالارہے تھے۔ لندن پہنچ کر پہلے پلاسٹک کے کھلونے بنانے والی ایک فیکٹری میں عارضی کام مل گیا۔ اُن دنوں برف بہت پڑتی۔ آپ کے پاس گرم کپڑے بھی کافی نہ تھے اور اثاثہ بھی نہ تھا۔ باہر سے گھر آتے تو اپنے جوتے تیل سے جلنے والے ہیٹر پر رکھ کر سکھایا کرتے۔ ایک کمرہ اور باورچی خانہ کرایہ پر لیا۔ کرایہ 4 پاؤنڈ فی ہفتہ تھا۔ گیس اور بجلی کے میٹروں میں روزانہ پیسے ڈالنا پڑتے۔ کپڑے بہت مہنگے تھے۔ سلائی مشین قسطوں پر خریدی۔ اکثر صرف Beans یا دالیں کھا کر ہی گزارہ ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود لجنہ اور خدام کے اجلاسات کے لئے آپ ہمیں ساتھ لے کر بس کا کرایہ ادا کرکے باقاعدگی سے مسجد فضل جاتے تھے۔
چھ ماہ کے بعد جزوقتی تدریس کا کام ملا۔ اُس وقت قانون تھا کہ پہلے ایک سال عارضی کام ملتا تھا۔ کبھی ایک دو ہفتہ کی اکٹھی نوکری مل گئی۔ روزانہ صبح دفتر میں کام کے لئے فون کرنا پڑتا۔ اگر جگہ ہوتی تو بھاگم بھاگ نئے سکول پہنچنا ہوتا ورنہ فون کے پیسے بھی ضائع ہو جاتے۔ تقریباً نو ماہ تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔ آخر ایک سکول میں تین ماہ کے لئے نوکری مل گئی اور یہی نوکری پھر مستقل ہوگئی۔
جب بچوں میں اضافہ ہونے لگا تو ہم جگہیں بدلتے بدلتے مسجد فضل کے قریب واقع ایک فلیٹ میں آگئے۔ 1970ء میں اپنا گھر خریدنے کی کوشش کی لیکن ان دنوں سٹیٹ ایجنٹ کو مکان پسند آنے پر بقیہ کارروائی سے پہلے 100 پاؤنڈ دینا ہوتے تھے مگر ہمارے پاس یہ رقم میسر نہ تھی۔ انہی دنوں آپ کے دو دوست امانتاً 500 پاؤنڈ آپ کے پاس رکھوانے آئے۔ دوران گفتگو اُن کو ہماری ضرورت کا علم ہوا تو انہوں نے بخوشی اپنی رقم ہمیں ادھار دیدی۔ اس طرح ہمیں ایک نہایت باموقع جگہ پر مکان مل گیا جس کی ایک منزل کرایہ پر دیدی گئی اور اس سے اس مکان پر 30پاؤنڈ کی ماہوار قسط ادا ہونے لگی۔
اخبار احمدیہ، کتابوں کی ترسیل، اور بک سٹال کا کام رشید احمد صاحب کے ذمہ ہوتا تھا۔ ہمارا گھر ہمیشہ کتابوں اور اخباروں سے بھرا رہتا۔ 1978ء میں کسر صلیب کانفرنس کے لئے نمائش کا کام بھی آپ نے محترم غلام احمد چغتائی صاحب مرحوم کے ساتھ مل کر کیا۔ اَن گنت راتیں اس کام پر خرچ ہوئیں۔ 1979ء میں ہم نئے گھر میں منتقل ہوگئے جس میں چار بڑے تہہ خانے بھی تھے جو کتابوں کی سٹوریج کے لئے بہت موزوں تھے۔ ان دنوں آپ یوکے جماعت کے سیکرٹری تعلیم، مینیجر اخبار احمدیہ اور سیکرٹری ساؤتھ فیلڈ ٹرسٹ تھے۔ (یہ ٹرسٹ حضرت سر ظفراللہ خان صاحبؓ کا قائم کردہ تھا)۔ آپ آٹھ سال تک ٹرسٹ کے سیکرٹری رہے۔ان مصروفیات کی وجہ سے اکثر وقت مسجد فضل میں گزارتے۔ عید ہو یا جلسہ ہم ہمیشہ دیر سے پہنچتے جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ پہلے صبح صبح جاکر کتابوں کا سٹال سیٹ کرتے اور پھر واپس گھر آکر ہمیں لے کر جاتے۔
آپ نظمیں بھی کہتے تھے مگر طبیعت میں جھجک کی وجہ سے سٹیج پر زیادہ نہ پڑھا۔ تحریر نہایت خوشخط اور صاف تھی۔
آپ کے اندر جماعتی کام کرنے کا جنون بچپن سے ہی تھا۔ 1953ء میں لاہور اور ربوہ میں نمایاں خدمت کی توفیق پائی۔ خدام الاحمدیہ لاہور کے رسالہ ’’الفاروق‘‘ کے بورڈ کے ممبر بھی تھے۔ انگلستان میں خدام الاحمدیہ اور پھر جماعت کے نیشنل شعبوں میں لمبا عرصہ کام کیا۔ آپ کے مضامین ’’لاہور‘‘ رسالہ میں اکثر چھپتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خلیفہ منتخب ہونے سے پہلے ہی آپ کو بچوں کے لئے کتابیں لکھنے کی تحریک کی تھی۔ چنانچہ پہلی کتاب Golden Deeds of Muslimsکے نام سے شائع ہوئی جو بہت مقبول ہوئی۔ بعد ازاں آپ ’’چلڈرن بُک کمیٹی‘‘ کے چیئرمین بنے تو اس کتاب میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے متعدد اصلاحات فرمائیں اور یہ کتاب Stories from Early Islam کے نام سے دوبارہ شائع ہوئی۔ اسی طرح Book of Religious Knowledge بھی بہت مقبول ہے۔ وفات کے وقت آپ اس کا دوسرا ایڈیشن تیار کر رہے تھے جو بہت ضخیم ہے۔
شروع میں آپ کا معمول تھا کہ سکول سے گھر آکر کھانا کھاتے اور پھر مسجد چلے جاتے جہاں سے رات گئے لَوٹتے۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے لندن تشریف لانے کے بعد سکول سے سیدھا مسجد چلے جاتے حالانکہ گھر راستہ میں پڑتا تھا۔ وہاں سے دیر کے بعد گھر آتے اور پھر کھانا بھی دیر سے کھاتے۔ کھانے کے دوران اکثر خبروں کا وقت ہو جاتا یا فٹ بال کا میچ ہوتا جو آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ یہی لمحات آپ کی سارے دن کی تفریح تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ بھی جب لندن تشریف لاتے تو بھی آپ روزانہ مسجد سے خطوط لاتے، ان کا خلاصہ تیار کرتے اور صبح کام پر جانے سے قبل دفتر میں دے جاتے۔ حضورؒ نے ایک بار آپ کو سنہری رنگ کا پارکر کا پین دیا اور فرمایا کہ آپ لکھنے کا کام کرتے ہیں یہ پین آپ کے لئے ہے اور ساتھ ہی قرآن کریم کا ایک مخملیں ڈبہ دیا اور فرمایا ’’اس کو زیور سے بھر کر ناصرہ کو دینا‘‘۔
1982ء میں جب مسجد بشارت سپین کا افتتاح ہوا تو آپ کو بطور قائمقام امیر جماعت یوکے خدمت کا موقع ملا۔ سالہاسال تک اطفال کی پندرہ روزہ کلاس کے انچارج رہے۔
1984ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو پہلا پریس سیکرٹری مقرر فرماتے ہوئے ایک خوبصورت رائیٹنگ فولڈر اور پین دیا۔ اس کے ایک کونے پر خود ہی آپ کا نام لکھ کر دستخط کئے۔ 1986ء کے جلسہ سالانہ پر حضورؒ نے آپ کو انٹرنیشنل پریس سیکرٹری کا عہدہ تفویض کیا۔ اس شعبہ میں کام کرتے ہو ئے آپ نے اپنی ٹیم کو ساتھ ملاکر سالانہ سینکڑوں خطوط لکھے۔پریس ریلیز لکھیں۔ اہم خبروں کے تراشے محفوظ کئے۔
رشید احمد صاحب ایک خاموش، محنتی اور بے نفس انسان تھے جن کی زندگی کا مقصد خلیفۂ وقت کی اطاعت میں کام کرنا تھا۔ بیرونی جماعتوں کے آرڈر پورے کرنے کے لئے کتب کی ترسیل، بل بناکر رقوم کی وصولی اور اندراج اور پوسٹ آفس جاکر کتابوں کو پوسٹ کرنا بہت محنت طلب تھا۔ دس سال تک اخبار احمدیہ کے مینیجر بھی رہے۔ برطانیہ میں رسالہ ’لاہور‘ کی ترسیل کی ذمہ داری تادم مرگ ادا کی۔ اتنی مصروفیت کے باوجود بچوں کو بھرپور وقت دیتے۔ عاجزہ کو لمبا عرصہ لجنہ کی نیشنل عاملہ میں مختلف حیثیتوں سے خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ رشید احمد صاحب ہمیں اپنی کار میں دورہ جات کے لئے لے کر جاتے۔ ہماری رپورٹس کا ترجمہ کرتے۔ لجنہ و ناصرات کی تربیتی کلاسوں میں تعاون کرتے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ارشاد پر 1985ء میں اسلام آباد (یوکے) میں ہونے والی انٹرنیشنل لجنہ کلاس کے انچارج بھی رہے۔
1991ء میں ہم قادیان گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔ وہاں قیام کے دنوں میں رشید صاحب کی اپنی فیملی کے ساتھ صرف دو تین بار ملاقات ہوئی۔ قادیان سے آپ پریس والوں کے ساتھ دلّی چلے گئے اور ہمیں ایک قافلہ کے ہمراہ پاکستان بھیج دیا۔ پاکستان سے روانگی کے وقت بھی آپ اپنے کاموں کی وجہ سے ہمیں کراچی میں ہی چھوڑ کر لندن آگئے۔
آپ کو گردہ میں پتھری کی بیماری ورثہ میں ملی تھی۔ بلڈپریشر، بواسیر اور کئی دواؤں کے سائیڈ ایفیکٹ مزید پیچیدگیاں پیدا کرتے رہے۔ پھر ہارٹ اٹیک بھی ہوا۔ چونکہ پورا آرام نہیں کرتے تھے اس لئے طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی۔ دل کی تکلیف خاموشی سے اتنی بڑھی کہ ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ آپ کی زندگی کے دن پورے ہوچکے ہیں۔ جب یہ پیغام حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ تک پہنچا تو حضورؒ نے ازراہ شفقت فرمایا کہ صرف آپ کے خاندان کو ہی نہیں، جماعت کو بھی ان کی بہت ضرورت ہے، انہوں نے ابھی بہت کام کرنے ہیں۔ پھر حضورؒ نے ایمرجنسی میں آپ کے دل کے آپریشن کے پرائیویٹ طور پر انتظامات کروائے۔ مجھے بلاکر فرمایا: پیسوں کی فکر نہ کرنا، ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔ مَیں نے عرض کی کہ پیسوں کا انتظام انشاء اللہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے گھر آگئے۔
1993ء میں ایک اخبار میں کوئز جیتا اور بطور انعام ہم دونوں کو آسٹریلیا کے ٹکٹ مل گئے۔ الفضل انٹرنیشنل کے اجراء کے وقت آپ کو غیرمعمولی محنت کرنی پڑی۔ آپ کی ادارت میں یہ اخبار جاری ہوگیا۔
2002ء میں ہمیں عمرہ کی سعادت عطا ہوئی۔ 2004ء میں ہم نے قادیان اور انڈیا کے بعض مقامات کا سفر کیا۔ 2005ء میں حضور انور ایدہ اللہ قادیان تشریف لے گئے تھے کہ 25 دسمبر کو رشید احمد صاحب کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹر نے گھر آکر دیکھا اور ایمبولینس منگوائی لیکن آپ نے جانے سے انکار کردیا کہ کرسمس والے دن سٹاف کم ہوتا ہے۔ 26دسمبر کو حضور انور نے جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب فرمایا تو رشید احمد صاحب نے نوٹس لے کر پریس ریلیز تیار کرکے اخبارات کو بھجوائی۔ طبیعت میں کچھ بہتری محسوس ہورہی تھی لیکن 28 دسمبر کو طبیعت کافی خراب ہوگئی کہ حضور انور کا خطاب بھی براہ راست نہیں سُن پائے۔ 29 دسمبر کو ایمبولینس منگواکر ہسپتال چلے گئے۔ راستہ میں ہی طبیعت بہت بگڑ گئی۔ ہسپتال پہنچ کر پتہ چلا کہ گردوں میں پوٹاشیم کا لیول بہت ہی زیادہ ہوچکا تھا۔ اُسی رات قریباً آٹھ بجے آپ وفات پاگئے۔ نماز جنازہ 5 جنوری 2006ء کو ادا کی گئی اور بروک وُڈ قبرستان کے قطعہ موصیان میں تدفین عمل میں آئی۔ بعد ازاں حضور ایدہ اللہ نے نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں