محترم چودھری عبدالرحیم صاحب شہید اور محترم چودھری محمد صدیق صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جون 2012ء میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم چودھری عبدالرحیم صاحب 1910ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام چودھری شاہ نواز صاحب اور والدہ کا نام حاکم بی بی صاحبہ تھا۔شہید مرحوم پیدائشی احمدی تھے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر قریباً ساٹھ سال تھی۔ آپ کا گاؤں‘تلونڈی جُھنگلاں’قادیان سے چار میل کے فاصلہ پر تھا۔ 1947ء میں ہجرت کرکے پہلے کھرولیاں ضلع سیالکوٹ میں رہائش اختیار کرلی۔ پھر چار سال کے بعد فیصل آباد میں سسرال کے ہاں چند سال گزارے۔ 1961ء میں موسیٰ والا چلے آئے جہاں آپ کو زمین کی الاٹمنٹ ہوئی تھی۔
موسیٰ والا میں مسجد احمدیہ میں احمدی اور غیراحمدی دونوں نماز پڑھتے تھے۔ بعد میں ایک اور مسجد تیار کی گئی جو کہ غیراحمدیوں نے گاؤں میں ہی واقع اپنی زمین پر تعمیر کروائی۔ فریقین نے اس میں حصہ ڈالا اور احمدی اور غیراحمدی دونوں اپنی اپنی نماز علیحدہ پڑھنے لگے۔ گاؤں کے چند شرپسندوں اور ڈسکہ شہر سے مولویوں نے آکر اندر ہی اندر شرارت کا منصوبہ بنایا۔ مسجد کے اردگرد آباد مقامی لوگ ایک برادری کے تھے اور آپس میں باہم رشتہ دار تھے جس کی وجہ سے ان کا یہ منصوبہ ظاہر نہ ہوسکا۔
26؍ستمبر 1976ء کو نماز عید پڑھنی تھی جہاں غیراحمدی بھی نماز پڑھتے تھے۔ نمازفجر کے بعد چودھری عبدالرحیم صاحب نے اپنے دو بیٹوں کوکہا کہ صفیں وغیرہ عیدگاہ لے جائیں اور ساتھ ہی خود بھی تیار ہوگئے۔ شرپسندوں نے منصوبہ کے مطابق پہلے ان لڑکوں پر حملہ کردیا۔ جب چودھری عبدالرحیم صاحب اور ان کے بھائی محمد صدیق صاحب عیدگاہ میں داخل ہوئے تو چند افراد نے ان دونوں پر بھی کلہاڑیوں اور ڈنڈوں کے ذریعہ اچانک حملہ کردیا جبکہ یہ دونوں خالی ہاتھ تھے۔ چودھری عبدالرحیم صاحب زخموںکی تاب نہ لاکر ایک گھنٹہ کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور چند گھنٹے بعد چودھری محمد صدیق صاحب نے بھی دَم توڑ دیا۔
چودھری عبدالرحیم صاحب نے بیوہ امانت بی بی صاحبہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑیں۔ چودھری محمد صدیق صاحب کے پسماندگان میں آپ کی بیوہ عائشہ بی بی صاحبہ کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں شامل تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں