محترم چودھری عزیز احمد صاحب کی چند یادیں

محترم چودھری عزیز احمد صاحب سابق ناظر مال نے 1937ء میں اُس وقت احمدیت قبول کی جب آپ فرسٹ ایئر کے طالبعلم تھے۔ آپ کے والد نے آپ پر ہر طرح سے سختی کی تاکہ آپ احمدیت ترک کر دیں حتیٰ کہ آپ کے چچا آپ کو ایک ایسے شخص کے پاس بھی لے گئے جو مرتد ہو چکا تھا۔ آخر اُس نے بھی کئی روز کی بحث کے بعد یہ فیصلہ دے دیا کہ آپ ’’لاعلاج‘‘ ہیں۔ آپ کے والد محترم نے آپ کی بیعت کے 15؍سال بعد احمدیت قبول کی۔
محترم چودھری صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ نے، جو تقسیم ہند کے وقت پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن تھے، ایک بار آپ سے ذکر کیا کہ ایک بار وہ دلّی میں مسز سروجنی نائیڈو سے ملنے گئے جو کانگریس کی صف اوّل کی لیڈر تھیں، ہندوستان کی آزادی کے وقت صوبے کی گورنر بھی رہیں، انگریزی کی شاعرہ تھیں اور ’’بلبل ہند‘‘ کے لقب سے معروف تھیں۔ حضرت چوہدری صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ موصوفہ سے میں نے کہا کہ آپ کرشن اوّل کو تو مانتی ہیں کرشن ثانی کو کیوں نہیں مانتیں؟ مسز نائیڈو نے اپنے نوکر کو آواز دے کر کہا میرے سرہانہ کے نیچے جو کتاب ہے وہ اٹھا لاؤ۔ نوکر کتاب لے کر آیا اور مسز نائیڈو کی طرف بڑھائی۔ انہوں نے کہا یہ چوہدری صاحب کو دو۔ چودھری صاحبؓ نے اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ وہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ محترم چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ کے چہرہ پر حیرت اور خوشی کی لہر دیکھ کر مسز نائیڈو نے کہا: کیا آپ اب بھی کہتے ہیں کہ مَیں کرشن ثانی کو نہیں مانتی؟
محترم چوہدری عزیز احمد صاحب کی یادوں پر مشتمل ایک مختصر مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍جنوری 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں