محترم چودھری فضل کریم صاحب آف کریم نگر فیصل آباد

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30 ؍ اگست 2006ء میں محترم چودھری فضل کریم صاحب کے خودنوشت حالات شائع ہوئے ہیں جو اُن کے بیٹے مکرم حامد کریم محمود صاحب (مبلغ سلسلہ) نے مرتب کئے ہیں۔
محترم چودھری فضل کریم صاحب آف کریم میڈیکل ہال فیصل آباد، اپنے خاندان میں اکیلے احمدی ہوئے۔ آپ اپنے حالات یوں بیان کرتے ہیں کہ مَیں 1918ء میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں میں حاجی عمرالدین صاحب کے ہاں پیدا ہوا۔ میرے بڑے بھائی محمد علی احمدی نہیں ہوئے لیکن مخالفت بھی کبھی نہیں کی۔ میری عمر ایک سال سے کم تھی جب میری والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔
گاؤں میں پرائمری سکول تھا۔ اس کے بعد پکاانّا اور دسوہہ میں کچھ سال پڑھا لیکن نویں کلاس میں تعلیم ختم کر دی اور والد صاحب کے ساتھ زمینداری کا کام دو سال کیا۔ یہ کام مشکل تھا اس لئے گاؤں کے درزی کے پاس سلائی کا کام ایک سال تک سیکھا۔ 1933ء میں لائلپور (فیصل آباد) جاکر چار سال تک یہ کام کیا۔ گاؤں میں احمدیت کا تعارف ہوچکا تھا اس لئے فیصل آباد میں مسجد احمدیہ سے رابطہ ہوگیا۔ یہاں 1936ء یا 1937ء میں مَیں نے بیعت کرلی۔ اس پر میرے درزی استاد نے گاؤں میں میرے والد صاحب کو پیغام بھجوایا کہ آپ کا لڑکا احمدی ہوگیا ہے، اس کو سمجھائیں، اس پر گاؤں سے میرے والد صاحب اور چند دیگر افراد مجھے سمجھانے کے لئے آئے۔ کوئی بھی سمجھا نہیں سکا کہ مَیں نے کیا غلط کام کیا ہے۔ بہرحال میرے استاد درزی نے مجھے رہائش سے نکال دیا البتہ کام ان کے پاس ہی کرتا رہا۔ ایک سال مسجد احمدیہ میں ٹھہرا۔
میرے والد صاحب متعصب نہیں تھے، وہ پیروں فقیروں کو مانتے تھے، اس لئے مجھ پر زیادہ تشدد نہیں کیا۔ جب میں ابھی پانچ چھ ماہ کا بچہ تھا اس وقت میری منگنی میری والدہ نے میری ماموں زاد سے کر دی تھی لیکن جب میں احمدی ہوگیا تو میرے ماموں نے یہ رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ 1938ء میں میری شادی مکرم چوہدری عبدالستار صاحب گوکھووال کی بیٹی کے ساتھ ہوگئی۔ شادی کے بعد احمدیہ مسجد کی پچھلی گلی میں ایک مکان تین روپے کرایہ پر حاصل کرکے رہنے لگا۔ بعد میں میرے خسر محترم نے گوکھووال بلا لیا۔
1942ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر کثرت سے احمدی نوجوان فوج میں بھرتی ہوگئے۔ میں نے فیروز پور میں فوجی ٹریننگ حاصل کی۔ پھر آسام بھجوادیا گیا۔ کل ساڑھے چار سال فوج میں رہا۔ دوسری جنگ عظیم برما میں لڑے۔
1944ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہ تحریک بھی فرمائی کہ سابق فوجی واپس آکر وقف (تجارت) کریں۔ میں نے آکر رپورٹ کی تو مجھے انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا کہ آپ اپنے طور پر تجارت کریں آپ کا یہی وقف شمار ہوگا۔ چنانچہ میں نے فیصل آباد میں ایک ہندو کی کپڑے کی دکان پر سلائی کا کام شروع کردیا۔ کام اچھا چل پڑا۔
1947ء میں حفاظت مرکز کے لئے قادیان چلاگیا۔ اپنا سامان ہندوؤں کی دکان پر ہی رکھ گیا تھا۔ قادیان سے آخری قافلہ دسمبر 1947ء میں پاکستان آیا جس میں مَیں بھی شامل تھا۔ دیکھا تو ہندوؤں کی دکان مسلمانوں کو الاٹ ہوچکی تھی۔ چنانچہ میرا سارا سامان ضائع ہوگیا۔ میں نے واپس آکر لوگوں کو ان کا نقصان رقم کی صورت میں ادا کیا۔ میری مشین گھر میں تھی اس لئے بچ گئی۔ مسجد احمدیہ لائل پور کی دکان کرایہ پر لی۔ کچھ کپڑا خرید لیا اور ساتھ کاریگر رکھ لئے اور دکان شروع کر دی۔ فوج سے چار پانچ ہزار روپیہ مجھے ملا تھا اس رقم سے یہ کاروبار شروع کیا جو اچھا چل پڑا۔
اسی دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تحریک پر فرقان فورس میں ڈیوٹی پر چلاگیا۔ چار پانچ ماہ بعد واپسی ہوئی تو دوبارہ پہلے والا کام شروع کردیا۔ لیکن چونکہ مارکیٹ میں کپڑا انڈیا سے بھی آگیا تھا اس لئے میرے پانچ ہزار روپے کے خریدے ہوئے کپڑے کی قیمت نصف رہ گئی تھی۔
1953ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ ہر احمدی ایک ہنر ضرور سیکھے۔ میں خدام الاحمدیہ لائل پور کا قائد اور سیکرٹری تحریک جدید تھا۔ میں نے ایک ہسپتال میں ڈسپنسر کی ٹریننگ شروع کر دی۔ 1958ء میں کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے ڈسپنسر کا امتحان پاس کیا۔ پھر اپنی دکان کے ایک کونے میں ہی میز پر دوائیں رکھ لیں۔ ڈاکٹری کا کام بھی آہستہ آہستہ چل پڑا تو مسجد احمدیہ کے سامنے نصف دکان خرید لی۔ پھر اسی کی برکت سے کئی دکانیں اور مکان بنائے۔ پھر کریم نگر فیصل آباد میں مکان بناکر 1970ء میں یہاں شفٹ ہوگئے۔ کریم نگر کا نام حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب امیر جماعت احمدیہ نے اُس وقت تجویز فرمایا تھا جب وہ کسی احمدی کے مکان کی افتتاحی تقریب میں وہاں تشریف لائے تھے۔ مجھے لمبا عرصہ اس جماعت کا صدر رہنے کی توفیق ملی۔ دیگر کئی شعبوں میں بھی خدمت کی توفیق عطا ہوتی رہی۔ مجھے اور میرے بیٹوں کو اسیرراہ مولی ہونے کا شرف بھی عطا ہوا۔ جیل کی دیواروں پر ہم نے ایک کاتب سے حضرت مسیح موعودؑ کے اشعار بہت خوبصورت الفاظ میں لکھوائے۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے صدقے خاکسار پر بے انتہاء انعامات فرمائے۔ مال دیا، کثرت سے اولاد دی۔ بے شمار پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں بھی عطا کئے۔ میرے خاندان میں سے کسی اور کو احمدی ہونے کی توفیق نہیں ملی۔ اگر ان کا مجھ سے مقابلہ کیا جائے تو ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے انعامات ہم پر زیادہ ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں