محترم چودھری محمود احمد چیمہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍مارچ 2010ء میں محترم چودھری محمود احمد چیمہ صاحب کا ذکرخیرمکرم انور ندیم علوی صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں 8جون 2012ء کے اخبار کے اسی کالم میں آپ کا ذکرخیر کیا جاچکا ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ مکرم چودھری محمود احمد صاحبہ چیمہ مربی سلسلہ خاکسار کی بیگم محترمہ کوثر جبیں چیمہ صاحبہ کے سگے ماموں تھے۔ آپ کے والد محترم چودھری عطاء اللہ چیمہ صاحب ایک جہاں دیدہ، علم سے محبت کرنے والے اور پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ انہوں نے بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور اپنی اکلوتی نرینہ اولاد چودھری محمود احمد چیمہ کو خدمت سلسلہ کے لئے وقف کردیا۔ آپ کا ضلع سرگودھا کے علاوہ لیّہ میں بھی زرعی رقبہ تھا مگر اپنے اکلوتے بیٹے کو زمینداری کے کاموں میں اپنا معاون و مددگار بنانے کی بجائے خدمت دین کے لئے وقف کیا۔ چودھری عطاء اللہ چیمہ صاحب اپنے زمینداری امور سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ دعوت الی اللہ میں بھی سرگرم رہتے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر لیّہ سے غیرازجماعت دوستوں کو کافی تعداد میں ساتھ لاتے۔ نئے احمدی ہونے والے احباب کا بہت خیال رکھتے اور ان کی مشکلات کم کرنے کے لئے ہمہ وقت کمربستہ رہتے۔
محترم چودھری محمود احمد چیمہ صاحب 1926ء میں پیدا ہوئے۔ 1945ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے۔ 1949ء میں آپ نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرلیا۔ 1952ء میں ربوہ جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ کی پہلی تقرری وکالت تبشیر میں ہوئی۔ 1955ء میں آپ کو سیرالیون میں مربی سلسلہ کی حیثیت سے بھجوایا گیا۔ قریباً چار سال تک آپ مغربی جرمنی میں بھی خدمت سلسلہ بجالاتے رہے۔ 1977ء سے 1991ء تک انڈونیشیا کے مشنری انچارج کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کے پرنسپل بھی رہے۔
جس وقت آپ خدمت سلسلہ کے لئے بیرون ملک تشریف لے گئے۔ اس وقت مالی اور قانونی مشکلات کی وجہ سے مربیان کرام کی جلد جلد آمد و رفت ممکن نہ تھی۔ سالہا سال بیوی بچوں سے دور دیار غیر میں گزارنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ آپ بحیثیت واقف زندگی ہمہ تن خدمت سلسلہ میں مصروف رہتے۔ سرگودھا اور لیّہ میں زرعی رقبہ تھا۔ دیکھ بھال کے لئے آپ کی نرینہ اولاد بھی نہ تھی مگر خود کو ان دنیاوی جھمیلوں سے دور رکھا۔ آپ کی چار بیٹیاں ہیں۔ چاروں میں سے کسی ایک کی شادی پر بھی آپ پاکستان نہیں آسکے۔ بچیوں کی شادی کا موقع اور ان کا کوئی سگا بھائی بھی نہ ہو۔ والد خود وطن سے ہزاروں میل دور۔ مگر کمال ہمت اور صبر سے عہد وفا نبھایا۔ اپنے رب پر انتہائی درجے کا توکل اور یقین تھا۔ آپ کی ساری زندگی ’’دین کو دنیا پر مقدم رکھنے‘‘ کی عملی تصویر نظر آتی ہے۔
ہر نماز پر مسجد میں جلد پہنچنا آپ کی عادت تھی۔ وقت کی پابندی کے بارہ میں آپ بہت ہی بااصول تھے۔ بیداری، عبادت، آرام، مطالعہ غرض کھانے اور سونے کے اوقات بھی مقرر تھے۔
آپ نے انڈونیشیا میں خدمت سلسلہ کے دوران تربیتی موضوعات پر ایک درجن سے زائد کتب تصنیف کیں۔ اپنی ذاتی لائبریری میں جماعتی کتب کے علاوہ دوسری بھی کافی کتابیں جمع کر رکھی تھیں۔ بہت ہی کم گو تھے۔ زبانی ڈانٹ ڈپٹ کبھی نہیں کی۔ اگر کسی ضروری امر میں توجہ دلانا مقصود ہوتی تو بعض اوقات گھر میں موجود افراد کو بھی تحریراً آگاہ کرتے۔
2002ء میں آپ انڈونیشیا سے مستقلاً پاکستان آگئے۔ آپ بفضل خدا موصی تھے۔ بیٹیوں کی شادی کے اخراجات اور حصہ جائیداد کی ادائیگی کے بعد قریباً چار لاکھ روپیہ نقد آپ کے پاس تھا جو آپ نے ایک بیٹی کے حوالے کیا۔ رات بھر سوچتے رہے کہ جب زندگی وقف کردی ہے اور اپنی ذات کو گویا بیچ دیا ہوا ہے تو پھر باقی بچا ہوا مال بھی ذاتی استعمال کے لئے نہیں۔ صبح ہوتے ہی اس ساری رقم کا بندوبست کیا اور جب تک خزانہ صدر انجمن میں جمع نہیں کرادیا، طبیعت کو چین نہیں آیا۔ آخری وقت تک صحت بہت اچھی تھی، ہمیشہ سیدھا چلتے نظر آتے۔ پیرانہ سالی کے باوجود چہرہ جھریوں کے بغیر اور کمر خمیدہ نہ ہوئی۔
14 جولائی 2009ء کو آپ کی وفات ہوئی اور اگلے روز بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009ء میں آپ کی خدمات دینیہ کا ذکر فرمایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں