محترم چوہدری اللہ داد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍جولائی 2007ء میں جماعت کے دیرینہ خادم، ماہر گھوڑ سوار اور نیزہ باز محترم چوہدری اللہ داد صاحب کی یاد میں ایک مضمون مکرم ملک پرویز احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم چوہدری اللہ داد صاحب ابن چوہدری ولی داد صاحب 1920ء میں گجرات کے گاؤں اسماعیلہ میں پیدا ہوئے۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود فوج میں بطور ڈرائیور بھرتی ہوئے اور 18 سال بعد ریٹائر ہوئے۔ اپنے خاندان میں اکیلے احمدیت قبول کی تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒکے ارشاد پر سندھ میں زمینوں کی دیکھ بھال پر متعین ہوئے۔ پھر جب حضورؒ نے ربوہ میں خیل للرحمان کلب کے نام سے اصطبل بنایا تو آپ کو اس کا نگران مقرر فرمایا۔ حضورؒ نے ہی آپ کو گھوڑوں کی دیکھ بھال، بیماریوں اور دیگر ضروری امور سے متعارف کروایا۔ نیز سواری کے بنیادی اصول بھی سکھائے۔ اسی وجہ سے مرحوم ہمیشہ حضورؒ کو اپنا استاد کہہ کر پکارتے۔ آپ نے 87سال کی عمر پاکر 7 ؍فروری 2007ء کو وفات پائی۔
آپ گھوڑوں کی مختلف نسلوں، دیکھ بھال، سدھائی، عوارض و علاج، سواری کے اصولوں، اصطبل کے لوازمات، گھوڑے اور سوار کے تعلقات سے متعلق کمال علم کے مالک تھے۔ نہایت عاجز انسان تھے اور ہمیشہ اپنے آپ کو اصطبل کے نگران کی بجائے اس کا خادم اور ملازم کہتے۔ جب بھی کسی سوار کو کوئی بات بتانی ہوتی ہمیشہ اس طرح بتاتے کہ حضورؒ نے مجھے یہ بتایا تھا۔
انتہائی سادہ، منکسرالمزاج، مہمان نواز، دعاگو، پنجوقتہ نماز کے پابند، نظام جماعت کے انتہائی وفادار اور خلفاء سلسلہ کے ارشادات پر پوری مستعدی سے عمل کرنے والے انسان تھے۔ اپنے شاگردوں سے بہت پیار اور خوش دلی سے پیش آتے۔ ہر غلطی پر بڑے اطمینان سے سمجھاتے اور ہمیشہ نصیحت کرتے کہ اگر کوئی نقصان ہوجائے (چاہے وہ سامان کا ہو یا گھوڑے کو کسی قسم کی تکلیف سے متعلق ہو) چھپانا نہیں ہے بلکہ مجھے آکر بتانا ہے۔ اگر کوئی لڑکا دس دفعہ بھی غلطی کرتا تو اسے سمجھاتے اور برا ہرگز نہ مناتے۔ جب وہ اپنے کوارٹر میں اکیلے ہی رہتے تھے تو خود چائے تیار کرکے پیش کرتے۔ اپنے شاگردوں کی خیریت پوچھتے رہتے۔ اگر کوئی بیمار ہوجاتا تو تیمارداری کرتے۔ ہر خوشی و غمی میں اپنے جاننے والوں کے ہاں ضرور جاتے۔ اپنی وفات تک ہر رمضان المبارک کے تمام روزے رکھتے رہے۔
آپ ایک مشّاق نیزہ باز تھے۔ کئی واقعات ایسے ہوئے جن سے آپ کی غیرمعمولی مہارت کا اندازہ ہوتا تھا۔ ایک گھوڑا ’’یارو‘‘ جو انتہائی طاقتور اور منہ زور تھا اور ہمیشہ اپنی مرضی کرتا تھا۔ سوار کو سوار کرکے کبھی اپنے اصطبل میں لے جاتا تو کبھی چارے والی کھرلی پر لے جاتا اور کبھی سوار کے ساتھ ہی ٹریک سے اتر کر پانی پینے چلا جاتا۔ ایک دفعہ ہم نیزہ بازی کی غرض سے گھوڑدوڑ گراؤنڈ میں گھوڑے لے کر آئے تو ہم نے محترم اللہ داد صاحب سے کہا کہ یارو پر آپ سوار ہوکر کلّا اٹھائیں۔ آپ لڑکوں کی ضد کے سامنے مجبور ہوگئے اور یارو پر سوار ہوگئے۔ اُس وقت آپ کی عمر 83 سال تھی۔ آپ نے اللہ کا نام لے کر گھوڑے کو دوڑایا تو گھوڑا کمال رفتار اور اطاعت سوار کے ساتھ دوڑا۔ جب آپ نے نیزہ پر کلّا اٹھالیا تو دوڑتا ہوا گھوڑا کبھی اپنی اگلی ٹانگیں اور کبھی اپنی پچھلی ٹانگیں کبھی دائیں اورکبھی بائیں ٹانگیں ہوا میں بلند کرنے لگا اور ایسے پھدکتا تھا جیسے گائے کا بچہ پھدکتا ہے۔ اللہ داد صاحب بڑے فاتحانہ انداز میں اُسے واپس لے کر آئے اور کہا میرے سے زیادہ خوشی تو یارو کو ہے کہ میرے اوپر بیٹھ کر بھی کسی سوار نے کلّے پر نشانہ لگایا ہے۔ یقینا یہ نظارہ کوئی سوار ہی سمجھ سکتا ہے کہ اس میں اس 83 سالہ سوار کی کیا مہارت اور طاقت صرف ہوئی ہوگی۔
2004ء میں جب ہم نیزہ بازی کی غرض سے گھوڑ دوڑ گراؤنڈ میں آئے۔ خاکسار نے کلّا زمین میں لگایا اور استاد محترم کو دوڑنے کے لئے کہا۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹا آپ کلّے پر کھڑے ہوں کیونکہ اتنی دُور سے مجھے کلّا نظر نہیں آتا۔ چنانچہ خاکسار کلّے پر نشاندہی کے لئے کھڑا ہوگیا۔ جب کلّے سے تقریباً 35,30 فٹ گھوڑا دُور تھا تو آپ کو احساس ہوا کہ آپ نے نیزہ الٹا نکالا ہے۔ نیزے کی نوک ہاتھ میں ہے اور دستی والا حصہ فضا میں اوپر کی طرف بلند ہوگیا ہے۔ چنانچہ بجلی کی سی تیزی سے آپ نے نیزہ سیدھا کیا اور کلّا بھی اٹھا لیا۔ جبکہ ہم نوجوان یہ سوچ رہے تھے کہ شاید اب آپ کو اتنی مہلت ہی نہ ملے کہ نیزہ سیدھا کر سکیں۔ لیکن آپ نے اپنے ہنر اور ذہنی استعداد کا بھر پور مظاہرہ کیا۔
محترم اللہ دادصاحب ہمیشہ گھوڑوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے اور تمام شاگردوں کو بھی یہی درس دیتے کہ یہ بھی جاندار ہیں۔ دکھ اور تکلیف کو سمجھتے ہیں اور پیار کو تو خوب سمجھتے ہیں۔کئی بار کسی کو بتادیتے کہ آپ نے مجھے نہیں بتایا مگر گھوڑے یا گھوڑی نے مجھے بتا دیا ہے کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہے۔
انتہا کے غیرت مند، پُر خلوص، جماعت کے سچے وفادار، معاملہ فہم اور ایک عظیم انسان تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں