محترم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍اگست 2009ء میں محترم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب سابق امیر ضلع ساہیوال کے بارہ میں ایک مضمون اُن کے بیٹے مکرم ندیم الرحمن صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب فیض اللہ چک ضلع گورداسپور (بھارت) میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حضرت میاں عظیم اللہ صاحبؓ اور والدہ محترمہ بی بی غلام فاطمہ صاحبہ عبادت گزار اور پارسا خاتون تھیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی پرائمری تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ سے حاصل کی۔ پھر قادیان میں ہوسٹل میں داخل ہو کر تعلیم الاسلام ہائی سکول سے تعلیم مکمل کی۔ دینیات میں اول پوزیشن لے کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ سے سونے کا تمغہ بھی حاصل کیا۔ پھر امرتسر کے Glancy میڈیکل کالج میں میڈیکل کی تعلیم مکمل کی۔
میڈیکل کی تعلیم مکمل کرکے کچھ عرصہ تک بلوچستان میں سول ملازمت کی اور پھر 1944ء میں کمیشن لے کر فوج میں بطور ڈاکٹر تعینات ہو گئے جہاں عملی ٹریننگ پونا کے قریب ایک میڈیکل سینٹر سے حاصل کرنے کے بعد قاہرہ میں آپ کی پوسٹنگ ہوئی۔ قیام پاکستان کے وقت آپ فیض اللہ چک سے عورتوں بچوں اور مردوں کے قافلہ کو بحفاظت قادیان کے راستہ لاہور لائے۔
لاہور میں آپ ایک ہندو ڈاکٹر کا متروکہ کلینک الاٹ کروا کر پریکٹس شروع کرنا چاہتے تھے کہ اپنے میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل سے ملاقات ہو گئی اور اُن کے اصرار پر میو ہسپتال لاہور میں بطور میڈیکل ڈاکٹر ملازمت کرلی۔ اُس دَور میں مہاجرین کی خدمت کے حوالہ سے آپ بیان کرتے ہیں کہ صبح سات بجے ناشتہ کے بعد خاکسار گھر سے نکل جاتا اور شام چار پانچ بجے تک شدید مصروفیت رہتی اور ہسپتال سے باہر جانا ممکن نہ ہو سکتا کیونکہ لوگ غریب الدیار اور مفلس تھے اس لئے ان کی زیادہ محنت اور کوشش سے دلجوئی اور علاج کرنا ہوتا تھا۔
31مارچ 1948ء کو ڈاکٹر صاحب ملازمت چھوڑ کر ساہیوال (منٹگمری) آ گئے جہاں ایک سکھ ڈاکٹر دھیان سنگھ کا متروکہ کلینک ان کو الاٹ ہو گیا۔ اپنے اعلیٰ اوصاف کی وجہ سے آپ کے تعلقات ہر قسم کے طبقہ سے جلد ہی ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دست شفا عطا فرمایا تھا چنانچہ دُور دُور سے مریض آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ آپ ضرورتمندوں کو مفت دوا دیتے تھے بلکہ ساتھ مالی مدد بھی کرتے تھے۔ رات کو بھی مریض دیکھنے چلے جاتے اور اس خدمت کو عبادت سمجھتے تھے۔ اکثر آپ کو وقت پر کھانے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ آپ کا کلینک بھی جدید میڈیکل آلات و مشینری سے آراستہ تھا۔ جلد ہی ڈپٹی کمشنر صاحب نے آپ کو ساہیوال شہر سے متصل عارف والا روڈ پر نہایت عمدہ پانچ مربع اراضی الاٹ کر دی۔ لیکن آپ نے اپنے والد محترم کی اس خواہش پر یہ اراضی شکریہ کے ساتھ واپس کردی کہ اتنی بڑی جگہ حاصل کرو کہ جہاں سارے مہاجر رشتہ دار دوبارہ اکٹھے آباد ہوجائیں۔
آپ کہا کرتے تھے کہ اپنے والد صاحب کے حکم کی تعمیل میں اتنی قیمتی اراضی چھوڑنے کا کبھی افسوس تک نہیں ہوا بلکہ خوشی اس بات کی ہے کہ اُن کی خواہش پوری کرنے کی توفیق ملی۔
محترم ڈاکٹر صاحب 1962ء سے 1966ء تک وقتاً فوقتاً قائممقام امیر ساہیوال مقرر ہوتے رہے اور پھر کچھ عرصہ کے علاوہ قریباً چار دہائیوں تک بطور امیر جماعت خدمت انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ ناظم انصاراللہ ضلع، قائد خدام الاحمدیہ اور قاضی کے طور پر بھی کام کیا ۔ مرکز سے آنے والے مہمانوں کا بہت احترام کرتے اور میزبانی میں راحت محسوس کرتے۔ بعض بزرگان کی آمد پر گھر کے وسیع لان میں مجالس سوال و جواب منعقد کرتے۔ وسعت حوصلہ کے ساتھ شفقت علیٰ خلق اللہ کی صفت بھی آپ کی ذات کا نمایاں امتیا ز تھا جس کی وجہ سے لوگ ہمیشہ آپ کی طرف کھینچے چلے آتے۔ بے شمار لوگوں کی نہایت راز داری سے مالی مدد کرتے۔ اکثر ضرورتمندوں کی ان کے گھروں میں جاکر خاموشی سے امداد کرتے۔ اسی طرح اپنے چندوں میں ہمیشہ سب پر سبقت لے جاتے اور خلیفہ وقت کی ہر تحریک پر سب سے پہلے لبیک کہتے۔ لیکن جماعتی پیسوں کو بہت زیادہ احتیاط سے خرچ کرتے۔ حتیٰ کہ جماعتی گرانٹ کو اپنے ذاتی جماعتی کاموں پر خرچ نہ کرتے اور جماعتی کاموں کے لئے اخراجات اپنی جیب سے کرتے۔ اس جماعتی امانت کی حفاظت کی دوسروں کو بھی تلقین کرتے۔
جون 1965ء میں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحبؒ بطور صدر انصاراللہ پاکستان تشریف لائے تو ساہیوال جماعت کی تنظیم اور مسجد بیت الحمد دیکھ کر بہت خوش ہوئے جو بہت فراخ تھی اور اعلیٰ رنگ و روغن سے مزین تھی۔ چنانچہ حضورؒ نے ساہیوال جماعت کو بعض پروگراموں کے لئے پاکستان کی دس بڑی جماعتوں میں شامل فرما دیا۔
1984ء میں مخالفین کے مسجد پر حملہ کے نتیجہ میں دو حملہ آور ہلاک ہو ئے تو دشمن نے ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہا اور حالات مخدوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن خداتعالیٰ کی مدد شامل حال رہی۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے نہایت دلیری اور حکمت سے ان پُرآشوب حالات میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی راہنمائی سے جماعت کو نکالا۔ اُس وقت کے آئی جی پولیس ساہیوال کے رہائشی تھے اور اُن کی فیملی کا علاج بھی آپ ہی کرتے تھے۔ آپ کے ذاتی تعلقات کی بِنا پر انہوں نے بھی مدد کی۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 3مارچ 1985ء کو اپنے دست مبارک سے آپ کو تحریر فرمایا:’’ابتلاء کے اس دور میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہترین پُرحکمت، پُرولولہ اور پُر خلوص خدمت کی توفیق بخشی ہے‘‘۔
3 فروری 1986ء کو لکھے گئے خط میں تحریر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس ابتلاء سے کامیابی سے پار کیا ہے اور تاریخ احمدیت میں دائمی مقام عطا کیا ہے‘‘۔
محترم ڈاکٹر صاحب خلفاء کے احکامات کو دل و جان سے مقدم رکھتے اور جب تک ان کی منشاء پوری نہ ہوتی آپ چین سے نہ بیٹھتے۔ 1983ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے قواعد وصیت پر نظر ثانی کے لئے ایک کمیٹی قائم فرمائی تو آپ کو اس کمیٹی کا صدر مقرر فرمایا۔ تین سال تک اس کمیٹی کی بیسیوں میٹنگز ہوئیں اور انتہائی عرق ریزی کے بعد اس کام کو مکمل کرکے سفارشات حضور کی خدمت میں بھجوائیں۔
1974ء کے فسادات میں احمدیوں کے لئے جو مسائل پیدا ہوئے ان میں سے ایک علیحدہ قبرستان کا تھا۔ آپ نے ساہیوال میں اڑھائی ایکڑ رقبہ الاٹ کروایا جو نہایت باموقع میونسپل حدود کے اندر برلب پختہ سڑک نہایت قیمتی زمین ہے۔ شروع میں اس کی دیکھ بھال اور خاردار تاروغیرہ بھی سرکاری خرچ پر کروائی اور ا س طرح زمین کی خرید اور دیگر ضروریات پر جماعت کا قیمتی سرمایہ محفوظ رہا۔
ساہیوال کی پہلی مسجد سیل (Seale) ہو جانے کے بعد آپ نے متبادل کے طورپر دوسری مسجد تعمیر کروائی جس کی ابتدائی زمین مکرم ملک نصیر احمد صاحب مرحوم نے بطور عطیہ پیش کی۔ پھر اس سے ملحق تین مکان اور خریدے گئے۔ پھر مزید اس کے ساتھ تقریباً ایک کنال جگہ بھی خرید لی گئی ۔تعمیر وغیرہ کے کاموں میں مکرم رانا مبارک علی صاحب نے بہت تعاون کیا۔
محترم ڈاکٹر صاحب قرآن مجید ، احادیث نبوی اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا گہرا علم رکھتے تھے۔ تبلیغ کی ایسی لگن تھی کہ کوئی موقعہ بھی حکمت کے ساتھ اس فریضہ کی ادائیگی کی راہ میں روک نہ تھا۔ ذاتی نمونہ اس فریضہ میں بہت مدد گار تھا اور اس طرح بیسیوں افراد نے ان کے ذریعہ سے راہ حق قبول کی۔
فلاحی کاموں میں ہمیشہ مستعد رہتے۔ چند سال پہلے تک اپنے گاؤ ں میں میڈیکل کیمپ لگائے ۔ ایک غریب موچی جس کو اپنا کام کرنے کے لئے کہیں کوئی بیٹھنے نہ دیتا تھا۔ آپ نے اپنے کلینک کے آگے نہ صرف جگہ دی بلکہ شام کو وہ اپنا سامان بھی آپ کے کلینک میں رکھ کر جاتا تھا۔ اس کی بھی مالی مدد کرتے۔
اپنی وفات سے دو ماہ قبل اپنے گاؤں میں برلب پختہ سڑک اپنے باغ کی قیمتی زمین میں سے ایک فلاحی ہسپتال اپنے مرحوم نواسے دانیال کی یاد میں قائم کیا۔ اس ہسپتال میں کوالیفائیڈ ڈاکٹر اور سٹاف کام کررہا ہے اور یہ علاقہ بھر کے مستحق افراد کی بلاتمیز رنگ و نسل مفت دوا اور معائنہ سے مدد کر رہا ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی ساٹھ سالہ طبّی اور فلاحی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آپ کو 2003ء میں ایوارڈ بھی دیا۔
انتہائی پُرآشوب حالات میں بھی کبھی گھبراہٹ نہیں دیکھی گئی۔ طبیعت میں بہت دلیری اور اعلیٰ درجہ کا توکل علی اللہ تھا۔ 1974ء میں جب احمدیوں کے گھر نذرآتش کئے جارہے تھے اور دشمن احمدیوں کے گھروں میں خودساختہ بم بنا کر پھینکتا تھا۔ آپ رات کو اپنی کار میں دوستوں کے گھروں پر جا کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور ہمت بندھاتے تھے۔ اُن دنوں آپ کے کلینک کی نگرانی بھی کی جارہی تھی لیکن آپ کلینک ضرور جاتے تاکہ غیر یہ نہ سمجھے کہ احمدی ڈر گئے ہیں۔ ایک دن جب آپ اپنی کار میں کلینک سے گھر واپس جانے کے لئے ایک سڑک پر مڑے تو سامنے سے نعرے لگاتا اور بینر لہراتا مخالفین کا جلوس آرہا تھا۔ آپ نے اپنے بیٹے حمیدالرحمن کو جو گاڑی چلا رہے تھے ہدایت دی کہ گاڑی کو سڑک کے درمیان میں رکھنا اور آہستہ سپیڈ میں چلتے رہنا۔ اگر وقت آزمائش کا آ گیا ہے تو خداتعالیٰ مالک ہے۔ جیسے جیسے آپ کی کار جلوس کی طرف بڑھنے لگی تو انہوں نے بینر لپیٹ لئے اور سڑک کے دونوں جانب ہوکر خاموش کھڑے ہوگئے۔ کار درمیان میں سے گزر گئی اور جب تک کافی دُور نہیں چلی گئی اُس وقت تک کوئی نعرہ بھی کسی نے نہ لگایا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے نُصِرْتُ بِالرّعب کا نظارہ دکھایا۔
خداتعالیٰ باوجود دشمنی کے بعض دفعہ دشمن کو آپ کی مددلینے کے لئے مجبور کردیتا۔ ایک دفعہ احمدیہ مخالف تحریک میں ایک صاحب کو پکڑکرجیل بھیج دیا گیا۔ وہ کافی بااثر شخص تھے۔ اُن کو جیل میں درد گردہ کی شدید تکلیف ہو گئی تو انہوں نے جیل حکام سے مطالبہ کیا کہ مجھے ڈاکٹر عطاء الرحمن کے پاس لے چلو۔ جیل حکام نے تعجب کا اظہار کیا کہ تم انہیںکے خلاف تحریک میں پکڑے ہوئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے تو صرف انہیں کی دوا سے آرام آتا ہے۔چنانچہ محترم ڈاکٹر صاحب کو بلایا گیا اور آپ نے معائنہ کرکے دوا دی تو اللہ تعالیٰ نے شفا دیدی۔
آپ بچوں کی تربیت نہایت احسن انداز میں کرتے جس وجہ سے تمام بچے نماز، قرآن کے پابند ہوگئے۔ کبھی بھی بے جا سختی نہ کرتے۔ وقت کی پابندی کرتے۔ نماز جمعہ کے لئے بھی ہمیشہ اوّل وقت پہنچتے۔ حتی الوسع اپنا کام خود کرنے کی کوشش کرتے۔
خداتعالیٰ پر کمال توکل تھا۔ بہت دعا گو تھے۔ نویں کلاس سے نماز تہجد کی ادائیگی شروع کی تھی جس کی خدا کے فضل سے تمام عمر پابندی رکھی۔ نماز اشراق بھی باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے تھے اور کبھی ناغہ نہیں کیا۔ کمزور طبیعت کے باوجود بھی روزہ رکھنے کا التزام کرتے اور اگر ہم کہتے فدیہ دیدیں تو وہ بھی دیدیتے اور کہتے کہ مزید ثواب ہو جائے گا۔ بہت صابر شاکر اور سادہ زندگی بسر کرنے والے تھے۔ عاجزی اور انکساری بہت زیادہ تھی اور چھوٹی عمر کے بچوں کی عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتے۔
غیر از جماعت معززین نے بھی ان کی وفات کو پورے علاقہ کا نقصان قرار دیا اور بہت بڑی تعداد میں تعزیت کے لئے تشریف لائے اور ان کے شفقت کے واقعات سنا کر خراج تحسین پیش کرتے رہے۔
اللہ تعالیٰ نے محترم ڈاکٹر صاحب کو دو دفعہ حج کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ 1959ء میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ اور پھر 1961ء میں اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ۔ دوران حج بھی حاجیوں کو بلا معاوضہ طبی امداد فراہم کرتے رہے۔ حکومت نے آپ کو حج فلائٹ کا امیر بھی مقرر کیا۔ محض اللہ کے فضل سے آپ کو خانہ کعبہ کے اندر بھی نوافل ادا کرنے کی توفیق ملی۔
1997ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی طرف سے گیمبیا سے احمدیوں کے انخلاء کے لئے آپ کے بیٹے محترم لطف الرحمن خان صاحب کو کارروائی کرنے کا ارشاد ملا۔ خاکسار (مضمون نگار) اُس وقت ریپبلک آف گنی (مغربی افریقہ) میں مقیم تھا۔ یہ نہایت اہم ذمہ داری تھی جو ہر قسم کی احتیاط کی متقاضی تھی۔ چنانچہ حضورؒ کی براہ راست ہدایت کے مطابق ’گنی ائیر‘ کا بوئنگ 737جہاز چارٹر کرکے 62افراد پر مشتمل قافلہ وہاں سے بحفاظت نکالا گیا۔ اس کے بعد حضورؒ نے اپنے خط محررّہ 15ستمبر 1997ء میں محترم ڈاکٹر صاحب کو تحریر فرمایا: ’’گیمبیا کے سلسلہ میں آپ کے خاندان نے تاریخ ساز خدمت کی ہے‘‘۔
ایک مشہور احراری لیڈر نے 1953ء میں اپنی تقریر میں کہا کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن سے دوا نہ لینا وہ اس میں زہر ڈال دے گا۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا کیا ہوا کہ مفتی صاحب کی اپنی طبیعت بگڑ گئی اور آپ کے پاس علاج کے لئے آئے۔ آپ نے اُن کا معائنہ کرکے کہا کہ مفتی صاحب! رات کو آپ نے تقریر میں کہا تھا کہ میں زہر دے دوں گا۔ مفتی صاحب فوراً بولے: آپ کے ہاتھ سے تو مجھے زہر بھی منظور ہے۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک امام مسجد (جو جماعت کے خلاف تقاریر کیا کرتے تھے) کا بچہ شدید بیمار ہوگیا۔ کافی علاج معالجہ کروایا گیا لیکن افاقہ نہ ہوا اور طبیعت نہ سنبھلی۔ کسی نے مشورہ دیا کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب کو دکھائیں۔ انہوں نے مشورہ دینے والے سے کہا کہ مجھے تو شرم آتی ہے، آپ میری بیوی اور بچے کے ساتھ اُن کے پاس چلے جائیں۔ چنانچہ وہ شخص اُن کی بیوی اور بچے کو لے کر آپ کے پاس آ گیا اور سارا ماجرا بھی کہہ سنایا۔ آپ نے بچہ کا معائنہ کیا اور دوا وغیرہ تجویز کر دی۔ اللہ کا کرنا تھا بچہ کی حالت سنبھل گئی۔ اس پر اگلے روز وہ امام مسجد خود بھی آپ سے ملنے آ گئے۔
ایک دفعہ بیماری کی وجہ سے محترم ڈاکٹر صاحب کی زبان پر کچھ وقت کے لئے اثر ہوا تو آپ نے اس وقت دعا کی کہ یا الٰہی! معذوری سے بچانا۔ اس پر نصف گھنٹہ کے اندر زبان بالکل صاف ہو گئی اور پھر آخر وقت تک خدا کے فضل سے کوئی اثر نہ تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات پر خطبہ جمعہ میں بہت پیارے انداز میں آپ کی صفات کا ذکر کیا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں