محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19فروری 2011ء میں مکرم محمد الیاس منیر صاحب مربی سلسلہ کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے ایک سفید پرندے محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کی چند یادیں بیان کی ہیں۔
محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کی رحلت کی خبر جماعت کو ملی تو بہت سے لوگ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ بعض کے لئے تو بولنا بھی مشکل ہوگیا۔ دراصل محترم ہیوبش صاحب اپنے مشفقانہ طرزعمل سے لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔ میرا آپ سے تعلق ربوہ میں 1972ء میں قائم ہوا جب آپ پہلی بار ربوہ آئے تھے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ہدایت بیگم سوکیہ صاحبہ کا تعلق ماریشس سے تھا جہاں میرے والد (محترم محمد اسماعیل منیر صاحب) کو لمبا عرصہ خدمت کی سعادت ملی تھی چنانچہ یہ چیز بھی ہمارے باہمی تعلق کو مضبوط کرنے کا باعث بنی۔
آپ کو قرآن کریم سے عشق تھا۔ اس کا اظہار اس سے بھی ہوتا کہ اگر قرآن کریم کے نسخہ پر کوئی کاغذ یا پنسل بھی دیکھتے تو فوراً اُسے ہٹا دیتے۔ ایک مرتبہ قرآن کریم طبع ہوکر آیا۔ آپ نے فوراً پیکٹ کھولا، ایک نسخہ نکالا اور بے اختیار ہوکر اُسے چومنے لگے۔ آپ قرآن کریم کا مطالعہ نہایت گہرائی میں جاکر کرتے۔ چنانچہ قرآن کریم کے مضامین پر آپ کو بہت عبور حاصل تھا۔ کئی بار کسی مضمون سے متعلق ایک مخصوص آیت کی تلاش کرتے ۔ اُسی مضمون پر کئی دیگر آیات بھی نظر آتیں لیکن جب تک وہ خاص آیت نہ مل جاتی، آپ چین سے نہ بیٹھتے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر جماعت نے جب قرآن کریم کے نسخوں کی نمائشوں کا اہتمام کرنا شروع کیا تو آپ کی خوشی دیدنی تھی۔ آپ نے اپنی ذاتی لائبریری سے کئی نایاب نسخے بھی اس مقصد کے لئے مہیا کئے۔ ادرک کا استعمال بھی اسی لئے اچھا سمجھتے کہ اس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔
سنّت رسولؐ کا ہر بات میں خیال رکھتے۔ کسی موسم میں کوئی نیا پھل آتا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ طویل دعا پڑھتے جو احادیث کی کتب میں درج ہے۔ صحابہؓ کے اکثر حوالے دیتے۔
آپ قلم کے دھنی تھے۔ جماعت کو جب بھی کسی کتاب یا مضمون کے لکھنے کی ضرورت پیش آتی، سب کی نظریں آپ کی طرف اٹھتیں۔ سینکڑوں کتب اور رسالے آپ نے تحریر کئے۔ جرمن اور انگریزی میں برجستہ اور عمدہ شاعری کرتے تھے۔ کئی بار جلسہ سالانہ کے موقع پر پڑھنے کے لئے فوری طور پر نظم لکھی جو نہایت اعلیٰ کلام ہوتا تھا۔ اسی طرح ترجمہ کرنے کی مہارت غیرمعمولی تھی۔ ایک بار رسالہ الوصیت کا جرمن ترجمہ نظرثانی کے لئے آپ کو بھجوایا تو آپ نے جائزہ لے کر فرمایا کہ اس میں اتنی غلطیاں ہیں کہ نیا ترجمہ کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ میرا خیال تھا کہ اس میں چند دن لگ جائیں گے لیکن آپ اگلے ہی روز نئے ترجمہ کے ٹائپ شدہ کاغذات لے کر دفتر میں آگئے۔
آپ گہری علمی شخصیت کے مالک تھے اور مزاج میں بذلہ سنجی کا بھی حسین امتزاج تھا۔ حیرت ہوتی کہ آپ کو اس قدر لطائف کیسے یاد ہیں۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسی موضوع پر ایک کتاب بھی لکھ رہے تھے۔ حافظ اتنا غیرمعمولی تھا کہ بیس بیس سال پرانی باتیں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان فرمادیتے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو آٹھ بچے عطا فرمائے جن کی بہت اچھی تربیت کرنے کی توفیق پائی۔ آخری روز بھی گھر پر نماز فجر باجماعت ادا کی۔ بہت سی دعائیں اُنہیں یاد کروائیں۔ خلیفہ وقت سے بہت محبت کرتے اور اپنے تمام ذاتی کام بھی اُن کے مشورہ سے سرانجام دیتے۔
آپ کے پاس کار نہیں تھی لیکن وقت کے اتنے پابند تھے کہ ہر پروگرام کے لئے کچھ دیر پہلے ہی پہنچ جاتے تھے۔ دعوت الی اللہ کے لئے بیماری کے باوجود لمبے سفر سے بھی نہ گھبراتے۔ اگر کبھی دو پروگرام اکٹھے آجاتے تو ایک پروگرام سے معذرت کرلیتے لیکن اپنی بیماری یا ذاتی مصروفیت کی وجہ سے کبھی معذرت نہیں کی۔ دوسروں کی تکلیف کا سن کر بے چین ہوجاتے۔ ایک بار مجھے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تو کئی لوگوں کو میری صحت کے لئے فون کئے۔ حضور انور کی خدمت میں بھی پیغام لکھوایا۔ تیمارداری کے لئے آئے تو جماعتی رسائل کا ایک تھیلا ساتھ لائے کہ فارغ وقت کا زادِ راہ ہوگا۔ پھر جاتے ہوئے نصیحت کی کہ Don’t forget your fish. یعنی اپنی عبادات کا بھی خیال رکھنا۔
نواحمدیوں کی تالیف قلب کرتے رہتے۔ دوسروں کو بھی اس بارہ میں زبانی اور تحریری طور پر توجہ دلاتے۔ مختلف نواحمدیوں کے معاملات تحریر کرکے اُن کی مدد کرنے کے لئے کہتے اور بعد میں اس بارہ میں پوچھتے رہتے۔
آپ یقینا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے وہ سفید پرندے تھے جن کی آمد کی اطلاع حضورؑ کو کشفاً دی گئی تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ نے بھی اپنے خطبہ جمعہ میں قریباً بیس منٹ تک آپ کی خوبیوں کا تذکرہ کرکے سند قبولیت عطا فرمائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں