محمد بن موسیٰ خوارزمی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍اگست 2007ء میں نامور مسلمان سائنسدان محمد بن موسیٰ خوارزمی کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔
محمد ابن موسیٰ غالباً 780ء میں خیوا (خوارزم) میں پیدا ہوا۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دَور میں جب بغداد میں سائنسی ترقی کا سنہری دور شروع ہوا اور علمی اور تحقیقی کاموں کے لئے علماء کو دربار کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیت الحکمت قائم ہوا جہاں ہر طرف سے علم کے طالب کھچے چلے آتے تھے۔ تو محمد بن موسیٰ جسے مطالعہ کا انتہائی شوق تھا، غالباً 825ء میں بیت الحکمت کی کشش اُس کو بھی بغداد کھینچ لائی۔ وہ بڑی خاموشی سے بغداد کی علمی محفلوں میں شریک ہونے لگا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا تھا اور اس کا یہ یقین پختہ ہوتا جاتا تھا کہ کچھ کرنے کے لئے بیت الحکمۃ میں اس کی شمولیت ناگزیر ہے۔ لیکن جس شخص کو اپنے وطن میں کوئی نہ جانتا ہو اس کو بغداد میں کون پہچانتا!!۔
پھر اُس نے شب و روز کی دیدہ ریزی سے علم ریاضی پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا اور اسے بیت الحکمۃ بھیج دیا۔ جب ذہین ترین علماء کے ایک بورڈ نے اس سے اس کے مقالہ کے بارے میں سوالات کئے تو اس کو بیت الحکمۃ کی رکنیت دیدی گئی۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے مقالہ (Thesis) لکھنے کا طریقہ نکالا۔ Ph.D. کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے مقالہ لکھنے کا یہ طریقہ ابھی تک رائج ہے۔ اب بھی ڈگری کے امیدوار کو پروفیسروں کے ایک بورڈ کے سامنے مقالے کے بارے میں کئے گئے سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے جو Defence کہلاتا ہے۔
جب خوارزمی مامون کے دربار کی ایک اہم شخصیت بن گیا تو مامون نے اس کے سپرد یونانی کتابوں کو اکٹھا کرنے اور ان کا ترجمہ کرنے کا کام کیا۔ چنانچہ اس کا بیشتر وقت مامون کے کتب خانے میں گزرنے لگا۔ جو وقت بچتا تھا وہ علماء کی صحبت میں گزارتا تھا۔ مامون خوارزمی کی بے انتہا قدرو منزلت کرتا تھا۔ خوارزمی ایک مقتدر ماہر فلکیات، ریاضی دان اور تاریخ دان تھا لیکن آج اس کی اصل اہمیت ریاضی دان کی حیثیت سے ہے۔ مامون کی فرمائش پر اس نے ایک کتاب ’’ علم الحساب‘‘ لکھی۔ اس کا موضوع علم ہندسہ ہے اور اس میں ریاضی کے اہم نکات اور نئے اصول و قواعد پر بحث کی گئی ہے۔ خلیفہ کو یہ کتاب بے حد پسند آئی اور اس نے خوارزمی کو خوب نوازا۔ دوسری کتاب ’’الجبروالمقابلہ‘‘ بھی مامون نے کہہ کر لکھوائی۔ ’’علم الحساب‘‘ کی طرح یہ کتاب بھی اپنی مثال آپ ہے اور الجبرا کے علم کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کے حوالہ سے خوارزمی کو اتفاق رائے سے الجبرا کا موجد تسلیم کیا جاتا ہے۔ الجبرا کی اصطلاح بھی اس کی اپنی اختراع ہے۔ یہ کتاب ریاضی کی کلدانی، یونانی، عبرانی اور ہندوستانی روایات کے تقریباً تین ہزار برس پر حاوی ہے۔ بارہویں صدی عیسوی میں اس کتاب کا لاطینی میں ترجمہ ہوا۔ اہل یورپ کو الجبرے سے متعارف کروانے کا سہرا خوارزمی کے سر ہے۔ اس کے دریافت کردہ قواعد اور قوانین آج بھی پڑھائے جاتے ہیں۔
خوارزمی نے نہ صرف صفر کا ریاضی میں درست استعمال کیا بلکہ ایک سے لے کر نو تک کے ہندسوں کا الگ الگ استعمال کیا۔ اس زمانے میں یورپ میں رومن ہندسوں کا رواج تھا۔ خوارزمی کی کتب کے تراجم پڑھ کر اہل یورپ نے حساب کتاب اور ہندسوں کا نظام بدل دیا جس سے جمع تفریق اور ضرب تقسیم کرنا نسبتاً آسان ہوگیا۔ یہ ہندسے آج تک عربی ہندسے (Arabic Figures) کہلاتے ہیں۔ خوارزمی نے ہندسی جدولیں تیار کیں اور سائن (Sine) اور مماس (Tangent) کی مقداریں درج کیں۔
خوارزمی نے فلکیات اور نجوم میں بھی طبع آزمائی کی۔ اس زمانے کے ماہرین فلکیات نے ستاروں کی کئی فہرستیں مرتب کی تھیںجو ’’زیچ‘‘ یا زائچہ کہلاتی تھیں جن میں ستاروں کے مقام، چمک، رنگ وغیرہ کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ خوارزمی نے نجوم کے مسائل پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ اس نے آنحضرت ﷺ کی ولادت مبارک کے وقت کی مدد سے آپ کا زائچہ بنایا ہے اور ستاروں کی رو سے آپ کی بعثت کے وقت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ مامون کے کہنے پر اس نے افلاک اور کرہ ارض کے نقشوں کی ایک اٹلس بھی تیار کی۔ اصطرلاب پر اس کی دو کتابیں ہیں اور ایک کتاب ’’کتاب التاریخ‘‘ بھی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں