مختلف ماؤں کا بچے پالنا – جدید تحقیق کی روشنی میں

مختلف ماؤں کا بچے پالنا – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بڑی عمر کی مائیں زیادہ بہتر طریقے سے بچے پالتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان ماؤں کی نسبت بڑی عمر کی مائیں زیادہ بہتر طریقے سے بچوں کی پرورش کرسکتی ہیں ۔ جبکہ کم عمر ماؤں کو بچے پالنے میں نسبتاً کم دلچسپی ہوتی ہے۔ 30 سال کے عرصے پر محیط اس تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان ماؤں کے بچے ذہنی اور جسمانی سطح پر بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے جبکہ بڑی عمر کی ماؤں کے بچوں کی تخلیقی اور ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں زیادہ بہتر دکھائی دیتی ہیں۔ اس تحقیقی عمل میں دادی اور نانی کی نگرانی میں پلنے والے بچوں کی سرگرمیوں کا بھی مشاہدہ کیا گیا جو جوان ماؤں سے زیادہ عمدہ تھیں۔ تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایرک وارڈ نے کہا ہے کہ عمر کا تجرِبہ بچوں کو پالنے کے فن سے آشنا کرتا ہے اور یہ کہ جوانی میں دیگر دلچسپیوں کی وجہ سے مائیں بچوں کی پرورش کی طرف بہت کم توجہ دیتی ہیں۔ اس تحقیق میں مختلف نسلوں کی ماؤں کو شامل کیا گیا تھا۔
برطانیہ میں کی جانے والی ایک اور تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ملازمت پیشہ ماؤں کے بچوں کی عملی زندگی شدید متاثر ہوسکتی ہے جس کے باعث معاشرتی اطوار میں بہت سی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ایک برطانوی اخبار میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق اب خواتین معاشی طور پر زیادہ خودمختار ہونے کی وجہ سے اپنے شوہروں پر انحصار نہیں کرتیں لیکن اس کا خمیازہ ان کے بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ایک سال یا اس سے بھی کم عمر کے بچوں کو اگر مائیں کسی اَور کے سپرد کرکے کام پر جائیں تو اس کے نتیجے میں بچے ڈر اور خوف کے علاوہ متعدد جسمانی مسائل کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ نیز ملازمت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے ایسی مائیں بچوں پر، خود پر اور نہ ہی ملازمت پر پوری توجہ دے پاتی ہیں جس سے خاندان کا ہر فرد ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گھریلو خواتین کی نسبت ملازمت پیشہ ماؤں کے بچے ذہنی اور جسمانی سطح پرزیادہ کمزور اور سست واقع ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں ناکامیوں سے زیادہ دوچار ہوسکتے ہیں۔ چرچ آف انگلینڈ کی چلڈرن سوسائٹی اور آرچ بشپ آف کنٹر بری کی طرف سے کیے جانے والے اس سروے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ جن 70 فیصد ماؤں نے 25 سال پہلے 6 سے 9 ماہ کے بچوں کو ’’بچے پالنے والے لوگوں‘‘ کے پاس چھوڑا تھا وہ بچے 16 سال کی عمر تک ذہنی اور جسمانی کمزوری کا شکار نظر آئے جس کی وجہ سے اُن کی عملی زندگی بھی متاثر ہوئی،سروے میں ایسے 50 فیصد جوڑوں کے بچوں کو بھی شامل کیا گیا تھا جن کے درمیان طلاق واقع ہوچکی تھی اور ان بچوں کی حالت زار بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ سروے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خواتین کی ملازمت بظاہر ضروری نظر آتی ہے مگر اس کے بدلے میں بچوں کی جسمانی اور ذہنی تَباہی کا سودا بہت مہنگا ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں