مکرم سید قمرالحق صاحب شہید اور مکرم راؤ خالد سلیمان صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم راؤ خالد سلیمان صاحب گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہنے والے تھے۔ آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ شہادت سے دو تین سال قبل بیعت کی لیکن اپنے اخلاص سے السابقون الاوّلون میں شمار ہونے لگے۔ آپ کراچی میں ملازم تھے اور سکھر میں شدید مخالفانہ حالات کے پیش نظر مقامی احمدیوں کی حفاظت کے لیے رضاکارانہ طور پر بھجوائے گئے تھے۔ آپ غیرشادی شدہ تھے۔
مکرم سید قمرالحق صاحب شہید ابن مکرم حکیم سید عبدالہادی صاحب مونگھیری کے ہاں چندور ضلع مونگھیر میں پیدا ہوئے۔ دس سال کی عمر میں قادیان آئے اور مڈل تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ تقسیم ملک کے بعد ملتان سے میٹرک کیا جس کے بعد چھ سال تک مرکز سلسلہ ربوہ میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری، دفتر وصیت اور دفتر خزانہ میں خدمات سرانجام دیں۔ 1956ء میں سکھر چلے گئے اور وہاں پرائیویٹ طور پر M.A. اور B.T کرکے گورنمنٹ کامران ہائی سکول میں انگلش ٹیچر لگ گئے اور بوقت شہادت اسی ادارے میں ملازمت کر رہے تھے۔
مکرم سیّد قمرالحق صاحب نوعمری ہی میں نظام وصیت سے منسلک ہوگئے ۔ نماز روزہ کی بڑے خلوص سے پابندی کرتے تھے۔ بہت کم گو اور سنجیدہ مزاج تھے۔ سکھر میں قائمقام امیر اور زعیم انصاراللہ کے طور پر بھی خدمات کی توفیق پائی۔ آپ مکرم سید شمس الحق صاحب (مرحوم) کارکن دارالافتاء اور مکرم مکرم نجم الحق صاحب مرحوم امیر ضلع کے بھائی تھے۔
11؍مئی 1986ء (یکم رمضان) کی صبح آپ اپنے گھر سے سکول جانے کے لیے پیدل روانہ ہوئے۔ مکرم راؤ خالد سلیمان صاحب بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ راستے میں پانچ نامعلوم افراد نے اچانک خنجروں اور کلہاڑیوں سے حملہ کردیا۔ مکرم خالد سلیمان صاحب کچھ دیر تک ان حملہ آوروں کے خلاف دفاع کرتے رہے۔ مگر حملہ آوروں نے پستول سے گولیاں چلا کر اور خنجروں اور کلہاڑیوں سے پے در پے وار کرکے دونوں کو شہید کردیا۔ بوقتِ شہادت سیّدقمرالحق صاحب کی عمر 53 سال تھی۔ اگلے روز دونوں شہداء کے جنازے ربوہ لائے گئے جہاں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد شہداء کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ پولیس نے کسی قاتل کو گرفتار نہیں کیا۔
آپ کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں