مکرم سیٹھی مقبول احمد صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم سیٹھی مقبول احمد صاحب آف جہلم 1942ء میں مکرم سیٹھی محمد اسحاق صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو انتہائی مخلص، نڈر اور بہت جوشیلے احمدی تھے اوراپنی وفات تک زعیم انصاراللہ جہلم رہے۔ شہید مرحوم کے دادا حضرت میاں محمد ابراہیم صاحبؓ ابتدائی صحابہ میں سے تھے جن کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’انجامِ آتھم‘‘ میں شائع شدہ 313 صحابہ کی فہرست میں 205ویں نمبر پردرج فرمایا ہے۔ آپ کی دادی جان بھی صحابیہ تھیں۔ اور آپ کے نانا حضرت شیخ فرمان علی صاحبؓ بھی صحابی تھے۔ یعنی آپ نجیب الطرفین تھے۔
مکرم سیٹھی مقبول احمد صاحب نے ابتدائی تعلیم جہلم میں حاصل کی، پھر بی۔اے تک تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے طالبعلم رہے۔ پھر جہلم میں مقبول شُو سٹور کے نام سے ذاتی کاروبار شروع کیا۔ احمدیوں کے خلاف شرانگیزی کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد مولوی ہر روز لاؤڈ سپیکر پر جماعت اور حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف زہر اگلنے لگے۔ انہی دنوں جہلم شہر میں ایک اوباش نوجوان قتل ہوا تو مولویوں نے قتل کا الزام چند احمدیوں پر لگاکر جماعت کے خلاف مزید اشتعال انگیزی شروع کردی۔ مساجد کے سپیکروں اور بازاروں میں احمدیوں کی قتل و غارت اور لُوٹ مار کے بار بار اعلانات کیے گئے۔ ایک احمدی سیٹھی عطائ الحق صاحب ایڈووکیٹ کو بھی قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔
مُلّاؤں کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں 2؍جولائی 1974ء کو چار احمدی گھروں اور اڑتالیس کاروباری مراکز کو لُوٹ کر آگ لگادی گئی۔ جب چند دکانوں کو آگ لگائی گئی تو مخالفین کی ملحقہ کچھ دکانیںبھی آگ کی لپیٹ میں آگئیں جس پر ایس پی چودھری محمد رمضان نے اعلان کیا کہ اب صرف سامان لُوٹا جائے اور آگ نہ لگائی جائے کیونکہ اس طرح مسلمانوں کی دکانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ایک دکان کا تالا ایس پی نے خود اپنے پستول سے فائر کرکے توڑا اور دکان لُوٹی۔
اسی دوران پولیس کی نگرانی میں اسلحہ بردار جلوس سیٹھی مقبول احمد صاحب کے گھر پر حملہ آور ہوا اور اندھادھند فائرنگ کرکے سیٹھی صاحب، آپ کے دو بھائیوں اور بھاوجہ کو شدید زخمی کردیا۔ سیٹھی مقبول احمد صاحب موقع پر ہی شہید ہوگئے اور ان کے بھائی سیٹھی محبوب احمد صاحب کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔ شہید مرحوم بیوہ اور ایک دو سالہ بیٹا چھوڑ گئے۔ شہادت کے دو ماہ بعد دوسرا بیٹا مقبول احمد ثانی پیدا ہوا۔
مجلس تحفظِ ختم نبوت کا سیکرٹری نشرواشاعت مولوی محمد اکرم جو کہ جہلم شہر میں اشتعال انگیزی میں پیش پیش تھا اسے ذیابیطس کی بیماری لگی، جسم گلنا سڑنا شروع ہوگیا۔ بیوی بچوں نے چھوڑ دیا، کوئی تیمارداری کرنے والا نہ تھا۔ اسلام آباد میں ایک مکان میں اس کی موت ہوئی جس کا تین چار دن بعد علم ہوا۔ جسم سے شدید بدبو آ رہی تھی۔ لاش کسی نے جہلم پہنچائی تو اس کے بیوی بچوں اور سسر نے لاش قبول نہ کی اور کہا کہ اس قسم کے سیاہ کار شخص کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ تب مولویوں نے اُس کا جنازہ پڑھاکر لاش اس کے آبائی گاؤں سمندری ضلع فیصل آباد بھجوادی۔
اسی طرح مجلس تحفظِ ختم نبوت کے صدر مولوی عبدالغفور کے جسم پر بھی ذیابیطس کے پھوڑے نکلے اور جسم میں کیڑے پڑ گئے اور بعد ازاں وہ اسی بیماری کے ساتھ مرا۔
پھر مجلس تحفظِ ختم نبوت کا جنرل سیکرٹری ناصر فدا اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسجد احمدیہ جہلم پر اُس وقت حملہ آور ہوا جب وہاں یوم مسیح موعودؑ کا جلسہ ہو رہا تھا۔ اُس نے حقارت سے ٹھوکر مار کر مسجد کے بیرونی دروازہ کو کھولا جس سے اسی وقت اُس کے پاؤں کے ناخن میں تکلیف شروع ہوئی جو بعدازاں کینسر میں تبدیل ہوگئی۔ اس کی وجہ سے تین دفعہ اس کی ٹانگ کاٹنی پڑی۔ آخر اسی بیماری کا عذاب سہتا ہوا وہ مرگیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں