مکرم محمود احمد صاحب اٹھوال شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم محمود احمد صاحب اٹھوال شہید کی اہلیہ مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ محمود صاحب کو شہادت کا بہت ہی شوق تھا۔ 1974ء کے فسادات میں آپ نے ہر موقع پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن یہ مخالفت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی اور آپ کے ماموں زاد بھائی مقبول احمد صاحب کو فروری 1982ء میں پنوں عاقل میں شہید کردیا گیا۔ جب آپ اپنے بھائی کی نعش کو بہشتی مقبرہ میں قبر میں اتار رہے تھے تو کہا: اے مقبول! یہ رتبہ خوش نصیبوں کو نصیب ہوتا ہے۔ پھر اپنے آپ سے کہا کہ اے محمود! کاش تجھے بھی یہ رتبہ حاصل ہو جائے اور تُو بھی یہیں پر آئے۔
ربوہ سے واپسی پر پنوں عاقل کی پولیس نے آپ سے کہا کہ آپ اپنی زمینیں فروخت کرکے کہیں اور چلے جائیں کیونکہ پہلے آپ کے رشتہ دار بھائی کو شہید کیا جاچکا ہے اور ہم مولویوں کی وجہ سے مجبور ہیں کچھ نہیں کر سکتے۔ اس پر آپ نے انہیں جواب دیا کہ احمدیت کی مخالفت تو ہر جگہ ہے اگر مجھے شہادت ملنی ہے تو یہاں کیوں نہ ملے۔
آپ کے دو بیٹے سکول جاتے تو مولویوں کے کہنے پر کچھ لڑکے ان کوتھپڑ مارتے اور گالیاں دیتے۔ سکول کے اساتذہ بھی مذہبی مخالفت کی بِنا پر سختی کرتے۔ اوباشوں کے گروہ ان کے گھروں پر فائرنگ بھی کرتے رہتے۔ دشمن رات کو چھپ کر ان کے کھیتوں کا پانی بند کر دیتے۔ پکی ہوئی فصلوں کو آگ لگا دیتے یا کاٹ کر اُجاڑتے تاکہ ان پر ذریعہ معاش تنگ ہو جائے۔
ایک رات دروازہ کھٹکا تو آپ کا بھتیجا سعید باہر گیا۔ دروازے کے پاس دو آدمی کھڑے تھے جنہوں نے سعید کو پکڑ کر اس کے منہ اور ناک کو ہاتھوں اور کپڑے سے باندھ دیا اور مارتے اور گھسیٹتے ہوئے پندرہ گز دُور لے گئے۔ سعید نے آزاد ہونے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ آخر جب مارنے والے نے خنجر نکالا تو اُس نے اللہ کو یاد کرتے ہوئے آخری کوشش کی اور منہ آزاد کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ اُس کی آوازیں سن کر اُس کے والد اور چچا یعنی محمود احمد صاحب شہید باہر نکلے تو ایک آدمی تو بھاگ نکلا لیکن دوسرے کو پکڑ لیا گیا۔ مجرم نے پولیس کو بتایا کہ میں گھوٹکی ضلع سکھر کے ایک مدرسہ کا طالبعلم ہوں اور مولویوں نے ہمیں اس نوجوان کو قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔
بہرحال ملاّں بازار میں مسلسل لوگوں کو بھڑکاتے رہے کہ محمود قادیانی کو قتل کرنا واجب اور باعثِ ثواب ہے۔ چنانچہ 29؍جولائی1985 ء کی شام کو جب آپ اپنے چودہ سالہ بیٹے کے ہمراہ ایک دوست کو مل کر واپس آرہے تھے تو تین آدمیوں نے اچانک حملہ کردیا اور آپ وہیں شہید ہوگئے۔ شہادت کے وقت آپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹے احمدیت نہ چھوڑنا خواہ تمہیں بھی جان دینی پڑے۔
شہید مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ چھ بیٹیاں اور چار بیٹے چھوڑے ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں