مکرم منیر احمد شیخ صاحب امیر ضلع لاہور

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اگست 2010ء میں مکرمہ ب۔نصیر صاحبہ رقمطراز ہیں کہ مکرم منیر احمد شیخ صاحب میرے شوہر مکرم نصیرالدین صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ میرے شوہر تیرہ سال قبل کینسر سے وفات پاگئے تھے۔ آپ کے والد مکرم شیخ تاج الدین صاحب کے 7 بچے تھے۔ 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں۔ مکرم منیر احمد صاحب ان میں پانچویں نمبر پر تھے۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے ساتھ گزارے پینتالیس سال پر محیط یادیں اور واقعات ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے دل و دماغ میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے، قلم رُک جاتا ہے۔ میرا رشتہ آپ سے دیور بھابھی والا نہیں تھا۔ یہ رشتہ دو بھائیوں کی بے انتہا محبت، شفقت، دوستی اور بھرپور ہمدردی و خلوص کا تھا۔
آپ سیشن جج کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے۔ اس کے بعد نیب کے محکمہ میں تعیناتی ہوئی۔ وہاں سے فارغ ہو کر قانون کی پریکٹس شروع کی نیز جماعت کے مختلف عہدوں پر کام کیا۔ امیر ضلع بننے کے بعد کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ ہم نے کوئی تکلیف آپ کے پاس جا کر بیان کی تو آپ اس کا ازالہ پہلے ہی کرچکے ہوتے تھے۔ ہر صحیح مشورہ پر فوراً عملدرآمد کرواتے۔ آپ نے دوران سرکاری ملازمت بھی بہت نام کمایا۔ نہایت دیانتداری سے جو بھی تنخواہ پائی اسی میں گزراوقات کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی کمائی میں بہت برکت رکھی تھی۔ ہر وقت آپ کے دسترخوان پر مہمان ہوتے۔ جو بھی آجائے آپ مُصرہو کر کھانا کھلاتے اور خوش ہوتے۔ اس کام میں آپ کی زوجہ محترمہ بھی برابر کی شریک ہوتیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے کبھی آپ کو پیسوں کی کمی یا سرکاری ملازمت میں ہونے والی بے انصافیوں کا شکوہ کرتے بھی نہیں پایا۔ ہمیشہ ہی ایک مومنانہ قناعت نظر آئی۔
اپنی عائلی زندگی میں بھی آپ ایک بے مثال انسان تھے۔ سارے خاندان کی دیکھ بھال آپ نے سنبھالی ہوئی تھی۔ کوئی بیمار ہوا تو فوراً ہسپتال لے جانا اور جو بھی ضرورت ہوتی وہ پوری کرتے۔ اس کے علاوہ قانونی مشورے دینا، دُور دُور کے ملنے والوں کے ہر قسم کے جھگڑے اور الجھنیں دُور کرنا آپ کا معمول تھا۔ ہر معاملہ اس طرح حل کرلیتے کہ سب کی تسلی ہو جاتی اور کدورتیں مٹ جاتیں۔
میرے شوہر کی وفات کے بعد میری اور میرے بچوں کی ہر طرح سرپرستی فرمائی۔ ہماری کسی بھی ضرورت کے موقعہ پر آپ فون کرتے یا خود آتے۔ یوں لگتا ہے جیسے ایک محور تھا جو ٹوٹ گیا۔
لوگوں سے تعلقات میں بھی آپ مثالی تھے۔ لوگ آپ سے مشورے لیتے۔ آپ معاملہ فہمی اور حاضر دماغی سے معاملہ کا نہایت سادہ اور قابل عمل حل نکال لیتے۔ دائرہ احباب بے حد وسیع تھا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی چلا آرہا ہے، کبھی فون آرہے ہیں۔ خواہ کھانے کا وقت ہو یا آرام کا۔ حیرانی کی بات تو یہ تھی کہ انتہائی مختلف نوع کی مصروفیت کے باوجود میں نے کبھی آپ کو کسی پر غصہ کرتے یا اپنی ذات کے لئے کوئی تقاضا کرتے نہ پایا حالانکہ دیکھنے میں دبلے پتلے، دھان پان سے انسان تھے، ایک مومنانہ شان تھی آپ کی۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا کامل نمونہ آپ کی ذات تھی۔
احمدیت سے محبت میں بھی آپ کی ایک جدا حیثیت تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہمہ وقت ایک خشک قسم کا رنگ نظر آئے یا ہر وقت پندونصائح کر رہے ہوں۔ باتوں باتوں میں نکتہ سمجھا دیتے اور سننے والے خود کچھ نہ کچھ سیکھ لیتے۔ اپنے گھر میں یا کسی دوسرے گھر میں ہوں، خوش گپیاں ہو رہی ہیں لیکن نماز کا وقت ہوتے ہی چادریں بچھ جاتیں اور سب آپ کی امامت میں نماز ادا کرتے۔ نماز عمدہ اور مختصر پڑھاتے۔ آپ کی صحبت میں عمدہ مزاح اور خوشگوار بحث و تمحیص خوب چلتی تھیں۔ اکثر عمدہ لطیفے بھی سناتے۔ باتوں باتوں میں آپ دینی اور دنیاوی مسائل بیان کر دیتے جو سننے والوں کو ثقیل نہ لگتے۔
مسجد دار الذکر میں اصرار کے باوجود آپ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں نہتّا محض درود اور دعاؤں کے حصار میں یہ سالار اپنے قافلہ کے ساتھ خون میں نہا گیا اور اپنے ایمان پر اپنے عمل کی مہر تصدیق ثبت کر گیا۔ ؎

جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں