مکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6جون 2011ء میں مکرمہ م۔ جاوید صاحبہ نے ایک مضمون میں اپنے والد محترم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
حضرت مولانا ذوالفقار علی خان گوہرؓ کے بیٹے مکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب کا نام حضرت مسیح موعودؑ نے تجویز فرمایا تھا۔


پھر آپ کے والد صاحب نے دس برس کی عمر میں آپ کو قادیان بھجوا دیا جہاں سے آپ نے میٹرک کیا۔ پھر اسلامیہ کالج لاہور سے B.Sc تک تعلیم حاصل کی اور M.Sc. علی گڑھ سے 1931ء میں کی۔ پھر حیدرآباد دکن کے مدرسہ عالیہ میں سائنس ٹیچر کے طور پر ملازمت کرلی۔ اس مدرسہ میں افسروں اور جاگیرداروں کے بچے پڑھتے تھے۔ سولہ سال وہاں گزارنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ارشاد ملا کہ تعلیم الاسلام کالج لاہور میں B.Sc. کی کلاسز شروع ہو گئی ہیں سٹاف کی ضرورت ہے، آپ بھی رپورٹ کریں۔
انہی دنوں میں تقسیم ہند ہوگئی۔ ذرائع آمدورفت مسدود ہوگئے۔ اتفاقاً حیدرآباد میں ایک کیپٹن سے آپ کی ملاقات ہوئی اور لاہور جانے کے بارہ میں ذکر ہوا تو انہوں نے آپ کو بطور فوجی بحری جہاز میں کراچی تک بطور بیرہ لے جانے کی حامی بھرلی۔ چنانچہ آپ فوجی دستہ کے ہمراہ کراچی سے ہوتے ہوئے آخرکار لاہور پہنچ گئے اور یہاں تعلیم الاسلام کالج کے سٹاف میں شامل ہوگئے۔
لاہور کے ایام میں آپ ڈھائی تین میل روزانہ سائیکل پر کالج جاتے۔ اکثر طالب علموں کو کالج ٹائم کے بعد بھی وقت دیتے۔ تنخواہ معمولی تھی اور نو بچوں کے ساتھ گزارا بڑا مشکل۔ گھر کیا تھا ایک کمرہ کچن اور مختصر سا صحن اور وہ بھی اوپر والی منزل پر۔ برسات میں پانی سیدھا کمرہ میں آجاتا اگر رات ہوتی تو اور بھی دقّت پیش آتی کیونکہ گھر میں واحد چار پائی اور تین صندوق۔ رات اس پر بیٹھ کر گزارنی پڑتی۔ چھوٹے ہونے کے باوجود وہ نقشہ ابھی تک یاد ہے۔ والدین کا صبح صبح اٹھ کر نماز قرآن سے فارغ ہوکر لکڑیوں کے چولہے پر ناشتہ تیار کرنا۔ سکول کے لئے تیار کرکے زینے سے نیچے تک چھوڑ کر آنا۔ رات کو لالٹین کے گرد سب بچوں کو پڑھانا۔
آپ بڑے صابر اور بہت ہمت والے انسان تھے۔ تنگی و خوشحالی، غمی و خوشی ہر دَور سے گزرے اور اس کو معمول کا حصہ سمجھا۔ ایک دن ہمیں گندم ابال کر کھانی پڑی۔ اگلے روز امی نے بتایا کہ آج تو کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ کہنے لگے جانتا ہوں لیکن کیا کروں دست سوال کرنا طبیعت پر بار معلوم دیتا ہے۔ پھر کچھ توقف کے بعد سائیکل پکڑی اور باہر نکل گئے۔ جاتے ہوئے امی جان سے کہا تم بھی دعا کرو کہ اللہ بہتر بندوبست کرے۔ آپ بتاتے کہ راستہ میں کسی نے پیچھے سے آواز دی تو آپ سائیکل سے اترے۔ ایک نوجوان لڑکے نے ٹیوشن پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے اُسے کالج کے بعد آنے کو کہا تو اُس نے جیب سے کچھ رقم نکال کر دی۔ آپ نے کہا کہ ابھی تو پڑھانا شروع نہیں کیا۔ جب پڑھاؤں تب ہی لوں گا۔ لیکن وہ بصد اصرار آپ کے ہاتھ میں رقم تھما گیا۔ آپ نے گھر کے لئے سودا خریدا اور گھر آکر خدا کا یہ احسان بتایا۔
جب کالج ربوہ شفٹ ہوا تو آپ بھی ربوہ چلے آئے۔ یہاں پر چھوٹا سا گھر بنانے کی توفیق ملی۔ آپ شعبہ کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔ نصرت گرلز کالج میں جب سائنس کا شعبہ قائم ہوا تو وہاں پر بھی خدمات انجام دیں۔ آپ ناظم امتحانات بھی رہے ہیں۔ بڑی دیانتداری سے پرچے چیک کرتے بلکہ اکثر اوقات ہمیں کہتے کہ ذرا تم بھی دوبارہ سے چیک کراؤ کہیں غلطی تو نہیں ہوگئی۔ مبادا کسی کی سال بھر کی محنت رائیگاں نہ جائے۔ اکثر دوسرے شہروں سے طلباء اپنے والدین کے ساتھ یا پھر اکیلے ہی آتے کہ اگر نمبر میں کمی ہو تو پوری کروالیں گے۔ لیکن آپ اصول کے بہت پابند تھے۔ کہتے تھے جتنی محنت وہ اس بات کے معلوم کروانے میں کرتے ہیں کہ فلاں پرچہ کس کے پاس گیا ہے اتنی محنت پڑھائی میں کرتے تو یوں خواری نہ اٹھانی پڑتی۔
آپ کو باغبانی کا بہت شوق تھا اور گھر کے ایک حصہ میں باغیچہ بنایا ہوا تھا۔
آپ سیکرٹری مجلس کارپرداز اور نائب ناظر مال کے طور پر خدمات بجالاتے رہے۔ مجلس انصاراللہ میں قائد تعلیم اور قائد وقف جدید بھی رہے۔ ایک عظیم الشان سعادت بھی ملی کہ حضرت مصلح موعودؓ نے میسور میں ہونے والے ایک مباہلہ میں آپ کو نمائندہ مقرر فرمایا۔ آپ کی تصانیف میں ’’تاریخ انصاراللہ جلد اول‘‘، ’’انصاراللہ کا بنیادی نصاب‘‘ اور ’’کلام گوہر‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے سائنسی مضامین میں ’’سمندر کے عجائبات‘‘ اور ’’خلاء کی تسخیر‘‘ شامل ہیں۔
آپ جلسہ سالانہ پر ناظم مکانات بھی تھے اور اپنی ڈیوٹی بڑی جانفشانی سے سرانجام دیتے۔ گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کی بھی بھرپور خدمت کرتے۔ جلسہ کے دنوں میں آپ کا بستر باورچی خانہ میں ہوتا۔ عام دنوں میں بھی آپ رات کا اکثر حصہ نماز پڑھتے دعاؤں میں گزارتے۔
آپ کو کئی مرتبہ اعتکاف میں بیٹھنے کا موقع بھی ملا۔ روزے بڑی باقاعدگی سے رکھتے رہے بلکہ شوال کے روزے بھی رکھتے تھے۔ یہ سلسلہ ان کا وفات سے دو تین سال پہلے تک چلا۔ جمعہ کی نماز میں بھی صحت قائم رہنے تک بڑی باقاعدگی تھی۔ آپ مستحقین کی یوں امداد کرتے کہ دوسرے کو خبر بھی نہ ہوتی۔ آپ صاف گو، نہایت سادہ مزاج مخلص فدائی احمدی تھے، ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے۔
آپ نے تقریباً نوے سال عمر میں 13 جنوری 1997ء کو وفات پائی۔ آپ موصی تھے چنانچہ بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں