مکرم چودھری حبیب اللہ صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اکتوبر 2011ء میں مکرم بشارت احمد صاحب کے قلم سے درج ذیل شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔
مکرم چودھری حبیب اللہ صاحب کی تاریخ شہادت 13؍جون 1969ء ہے۔ آپ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے جس کی وجہ سے رشتہ داروں سمیت پورا گاؤں آپ کی مخالفت کرتا تھا۔ آپ کے والدین نے احمدیت قبول کرنے کے جرم میں آپ کو گھر سے نکال دیا تو ساہیوال میں آکر اپنے برادر نسبتی کے ہاں رہنے لگے جہاں آپ محنت مزدوری کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ان کی والدہ ان کو واپس اپنے گاؤں ’’چک حسن آرائیں‘‘ ضلع پاکپتن میں لے گئیں۔ آپ کے والد صاحب، والدہ اور دیگر اقرباء آپ پر زور دینے لگے کہ احمدیت چھوڑ دیں۔ آپ کو اس جرم میں اکثر مارا پیٹا بھی جاتا مگر آپ نے نہ بوڑھے والدین کی خدمت سے منہ موڑا، نہ احمدیت سے۔ اسی دوران آپ کے والد صاحب کی وفات ہوگئی۔ آپ نے تجہیز و تکفین کا مکمل انتظام کیا مگر اپنے غیراحمدی والد کا جنازہ نہ پڑھا جس سے آپ کے غیراحمدی چچا اور دیگر اقرباء نے بڑا شور کیا اور آپ کی مخالفت کھلے عام ہونے لگی۔ اس گاؤں کے مولوی کو آپ کئی دفعہ بحث میں لاجواب کرچکے تھے۔ اس نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور آپ کی مخالفت کی آگ خوب بھڑکائی۔ چنانچہ وہ آپ کے چچازاد بھائیوں کے ساتھ مل کر منصوبے بنانے لگا۔آپ نے شریعت کے مطابق اپنے والد صاحب کی زمین کا حصّہ اپنی پانچوں بہنوں کو دیا تو بھی آپ کے چچازاد برہم ہوئے اور کہنے لگے تم نے انہیں ہمارے سروں پر بٹھا دیا ہے۔ جب آپ نے قرآن و سنّت کا حوالہ دیا تو کہنے لگے کہ تم کہاں کی شریعت کی باتیں کرتے ہو تم خود تو مرزائی ہو۔
گاؤں سے قریبی قصبہ ’قبولہ‘ میں آپ کا بُک ڈپو تھا اور آپ وہاںاحمدیوں کے امام الصلوٰۃ مقرر تھے۔ 13؍جون 1969ء کو جب آپ قبولہ میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد واپس گاؤں میں آئے تو ان کی اہلیہ نے کہا آج زمین پر نہ جانا، میں نے سنا ہے کہ آج مخالفوں نے آپ سے لڑائی کا پروگرام بنایا ہوا ہے۔ مگر آپ نے کہا کہ جب میں نہیں لڑوں گا تو وہ خوامخواہ کیسے لڑیں گے۔ چنانچہ آپ خالی ہاتھ اپنی زمینوں کی طرف چل پڑے۔
پانی لگانے کی ان کی باری تھی مگر آپ کے ایک بہنوئی نے ان کا پانی اپنی زمینوں کو لگالیا۔ آپ نے جاکر دیکھا تو اپنے ایک مزارعہ کو جو برہم ہو رہا تھا کہا ’’یہ بھی تو اپنے ہی کھیت ہیں، انہیں پانی لگادو‘‘۔ پھر خود وہیں نالے پر وضو کرنے لگ گئے تاکہ نماز عصر ادا کریں۔ ابھی وضو کرکے واپس کھیتوں میں جا رہے تھے کہ ان کے چچازاد اور چند دوسرے مخالف للکارتے ہوئے لاٹھیوں سے مسلح ہوکر حملہ آور ہوئے۔ آپ چونکہ گتکے کے ماہر تھے اس لیے اُن سے ہی ایک لاٹھی چھین کر اپنا دفاع کرنے لگے۔ آپ کے ایک بہنوئی نے جب یہ دیکھا تو وہ برچھی سے ان پر حملہ آور ہؤا۔ برچھی آپ کے پیٹ میں لگی جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے۔ آپ کے ایک کزن جو آپ کی مدد کو آئے تھے، انہیں بھی برچھی لگی۔
جب آپ زخمی ہوکر زمین پر گرے تو آپ کی برادری کی ایک منافق عورت جو گاؤں میں نیک بی بی کے نام سے مشہور تھی دودھ کا گلاس لائی اور شہید مرحوم کے منہ سے لگا دیا کہ پی لو۔ شہید مرحوم نے اس دودھ کے چند گھونٹ پی لیے۔ آپ کو ہسپتال پہنچانے کے لیے لوگ اٹھاکر شہر کی طرف لے جا رہے تھے کہ آپ رستہ میں ہی شہید ہوگئے۔ بوقت شہادت آپ کی عمر 31 سال تھی۔ بعد میں پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ آپ کو دودھ میں اس بظاہر نیک بی بی نے زہر ملاکر دیا تھا۔ کیونکہ پوسٹ مارٹم میں وہ زہر نکل آیا۔ یہ عورت بعد میں پاگل ہوگئی اور لوگ اس کے نزدیک بھی نہیں آتے تھے۔ وہ اسی حالت میں مر گئی اور اس کو بغیر غسل دیے دفن کردیا گیا۔
شہید مرحوم کے پسماندگان میں بیوہ مکرمہ صدیقہ بیگم صاحبہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے شامل ہیں جن میں سے ایک مکرم ناصر احمد مظفر صاحب فضل عمر ہسپتال ربوہ میں کیشیئر ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں