مکرم چودھری عبدالحمید صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم چودھری عبدالحمید صاحب 1947ء میں مکرم چودھری سلطان علی صاحب کے ہاں ملتان میں پیدا ہوئے۔ 1957ء میں میٹرک اور1959ء میں F.Sc پاس کیا۔ بعد ازاں جب آپ کے والد تجارت کے سلسلہ میں محراب پور میں جاکر آباد ہوئے تو آپ بھی اپنے والد کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ آپ کے والد اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ آپ نے 13 سال کی عمر میں خود بیعت کی۔ بوقتِ شہادت آپ محراب پور ضلع نوابشاہ کی جماعت احمدیہ کے صدر تھے۔
10؍ اپریل1984ء کی صبح قریباً دس بجے آپ سائیکل پر اپنی دکان کی طرف جارہے تھے کہ پیچھے سے ایک شخص سچل سومرو نے آواز دی کہ میری بات سننا۔ اس شخص کی اور اس کے اہل خانہ کی تمام ضروریات ایک عرصہ تک چودھری صاحب مرحوم اپنی جیب سے پوری کرتے آرہے تھے لیکن اس نے علمائے سوء کے بہکانے پر اپنے ہی محسن کے سینے میں تیز چھری گھونپ دی۔ آپ سائیکل سے اتر کر نیچے بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ سے چھری پکڑ کر سینے سے باہر نکالی مگر اس کے زخم سے آپ کا پھیپھڑا بری طرح مجروح ہوگیاتھا۔ نوابشاہ ہسپتال لے جاتے ہوئے آپ راستہ میں ہی اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئے۔
قاتل نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ قادیانی ہے اور مَیں نے اسے مار کر جہاد کیا ہے۔ بہرحال قریباً تین سال بعد رجب علی ایڈیشنل سیشن جج نے قاتل کو تین سال قید کی سزا سنائی اور ساتھ ہی فیصلہ میں لکھا کہ ملزم جتنا عرصہ جیل میں رہا ہے، قید کا یہ عرصہ اس کی سزا سے منہا ہوگا۔ گویا عملاً اسے کوئی بھی سزا نہ دی گئی۔
شہید مرحوم نے اپنے آخری لمحات میں وصیت کی تھی کہ قاتل کے خلاف کسی قسم کی کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے کیونکہ مجھے اس کی بدولت اعلیٰ اور ارفع مقام نصیب ہو رہا ہے۔ شہید مرحوم بہت شگفتہ مزاج اور ہنس مکھ تھے۔ حقوق اللہ کے علاوہ حقوق العباد کا بھی خیال رکھتے تھے۔ آپ نے بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے چھوڑے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں