مکرم ڈاکٹر عبدالقدیر جدران صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
آپ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ (یکے از صحابہ 313) آف تلونڈی جھنگلاں اور حضرت برکت بی بی صاحبہؓ کے ہاں 1924ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹری کا کورس پاس کیا اور کچھ عرصہ بطور واقفِ زندگی ناصر آباد اسٹیٹ کی ڈسپنسری میں خدمت بجالاتے رہے۔ اس کے بعد پہلے اپنے بڑے بھائی مکرم ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب شہید کے پاس نوابشاہ میں رہے اور پھر قاضی احمد ضلع نوابشاہ میں اپنا کلینک کھول لیا۔ بوقت شہادت مقامی جماعت کے صدر تھے۔
1984ء میں جب حالات خراب ہوئے تو ان کو کئی دھمکی آمیز خطوط آئے کہ ہم تمہیں قتل کردیں گے لیکن آپ تو نماز تہجد میں شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے۔ 2؍ اگست 1989ء کو ایک شخص خود کو مریض ظاہر کرکے دکان میں آیا اور آتے ہی کئی فائر کرکے ڈاکٹر صاحب کو موقع پر ہی شہید کردیا۔ آپ آبِ زمزم سے دھلے ہوئے دو کفن مکہ سے لائے تھے۔ آپ کی خواہش تھی کہ انہی میں آپ کو دفنایا جائے۔ اصولاً توشہید کو کفن نہیںدیاجاتا اور وہ اپنے انہی کپڑوں میں مدفون ہوتاہے جن میں خون میں لت پت وہ شہید ہوتاہے لیکن اس کا سبب اللہ نے یہ بنا دیا کہ پولیس نے و ہ کپڑے اپنے قبضے میں لے لیے جن میں وہ شہید ہوئے تھے اور باوجود اصرار کے واپس نہ کیے۔ نتیجۃً ان کو اسی مکہ والے کفن میں دفنایا گیا۔
شہید مرحوم نے اپنی بیوہ غلام فاطمہ بی بی صاحبہ کے علاوہ چار بیٹے اور ایک بیٹی پسماندگان میں چھوڑے۔ ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر عبدالمومن جدران صاحب کو نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ میں تین سال کے لیے وقف کرنے کی توفیق بھی ملی۔
ضلع نوابشاہ کا وہ بااثر زمیندار جس کی ایماء پر ہی اس علاقہ کے اکثر احمدی ڈاکٹروں کی شہادتیں ہوئیں، اس کا عبرت ناک انجام یوں ہوا کہ اُس کے جوان بیٹے نے گھر والوں سے باہمی مشورے کے بعد اپنے باپ کو رات سوتے میں گولی ماری۔ گولی لگنے کے بعد وہ ذرا سا اٹھا تو اس کی بیوی اور بچوں نے سمجھا کہ اس کو گولی نہیں لگی اور اگر یہ بچ گیا تو ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔ چنانچہ اُن سب نے مل کر اس کا گلا دبانا شروع کیا اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کی موت کا یقین نہیں ہو گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں