میرے والد محترم حضرت مرزا عبدالحق صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍جنوری2007ء میں محترمہ م۔ سمیع صاحبہ نے اپنے والد حضرت مرزا عبدالحق صاحب کے بعض اوصاف کا تذکرہ کیا ہے۔
حضرت ابا جان نے اپنے ربّ کی محبت اور عشق میں سرشار زندگی بسر کی۔ آپ کی زندگی یوں تو ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اور اپنے پرائے سبھی ان کی اعلیٰ اقدار کے معترف ہیں لیکن بعض پہلو حسن معاشرت کے ایسے ہوتے ہیں جن سے گھر کے افراد زیادہ حصہ پاتے ہیں۔ دو بیویوں سے اور ان کی اولاد کے ساتھ آپ نے جس انصاف کا ثبوت ابتداء سے انتہا تک دیا اس کی مثال شاذ ہی ملتی ہے۔ بڑی فراخدلی سے بچوں کے اخراجات پورے فرماتے۔ خداتعالیٰ نے زندگی میں ہر قدم پر ان کو اپنی نوازشات سے نوازا۔ نہایت دعاگو تھے۔
امی جان کی اکتوبر1987ء میں وفات کے بعد عرصہ دراز تک خاکسارہ کو آپ کی خدمت کی توفیق ملی۔ آخری ایام میں کافی کمزور ہوچکے تھے لیکن ان کی زبردست قوت ارادی نے آخری لمحہ تک ان کا ساتھ دیا۔ اتنے سکون میں شب وروز بسر کرتے کہ حیرت ہوتی تھی۔ کبھی شکوہ نہیں۔ بیزاری کی کیفیت نہیں۔ اپنے ربّ کی یادمیں محو۔ آخری وقت میں شنوائی اور بینائی کمزور ہو چکی تھیں۔ میں انہیں اخبار وغیرہ پڑھ کر سناتی۔ قرآن مجید کا بہت سا حصہ زبانی یاد تھا میں دوہرائی کرواتی۔ کبھی فرماتے مجھے سناؤ۔ جس روز بھی طبیعت میں زیادہ کمزوری محسوس کرتے سورۃ یٰسین تلاوت کر لیتے ۔ نمازیں اول وقت میں ادا فرماتے۔ معمولی خدمت پر خوشنودی کا اظہار فرماتے۔ سہارے کے بغیر چلنا پھرنا پسند فرماتے۔ جماعتی امور کو آخری لمحوں تک نبھایا ۔ حافظہ بہت غضب کا تھا۔ آخر وقت تک یادداشت اور پہچان بھی بالکل ٹھیک تھی۔
صاحب کشف و رؤیا تھے۔ وفات سے قریباً ایک ماہ قبل کشفاً دیکھا کہ ’’سامنے دیوار پر تقریباً چار فٹ چوڑی اور چار فٹ اونچی جگہ ہے جس کے اندر نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے رنگ جو بالکل بیان سے باہر ہیں اور اس میں نچلی طرف مختلف رنگ ایسے چمک رہے ہیں کہ دنیا میں ایسی چمک بالکل ممکن نہیں ۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ نچلا حصہ جو مختلف رنگ کا ہے روح القدس ہے ۔ یہ نظارہ کئی دنوں تک رہا۔ اور روح کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ میں ایسے سیراب ہو گیا، ایسی لذت اندر اتر گئی ہے ‘‘۔ پھر ایک روز فرمایا: ’’آج میں نے ایک نہایت سریلی آواز گانے کی سنی ہے کہ ایسی کبھی زندگی میں نہیں سنی۔ گویا وہ اکیلا ہے اور مجھے بلا رہا ہے اور میں اس کی طرف چل پڑتا ہوں‘‘۔
آپ نفس مطمئنہ کا ایک زندہ نمونہ تھے۔ یہ بھی خدا کا خاص فضل تھاکہ آخر تک عام جسمانی کمزوری کے علاوہ کوئی خاص بیماری نہ تھی۔ آخری رات کچھ بخار ہوا۔ خاکسارہ نے رات گیارہ بجے آخری دوائی دی۔ بخار کم ہونے پر ہلکی نیند لی لیکن بیقراری بہت رہی۔ نماز فجر لیٹے لیٹے ادا کی۔ صبح نو بجے دل کی کچھ دھڑکن بتائی۔ ساڑھے نو بجے دودھ کا ایک کپ میں نے پلایا۔ پونے دس بجے کے قریب اپنے دائیں کروٹ لیٹ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے اور زیرلب کچھ دعائیں پڑھیں۔ اور کچھ دیر بعد اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ یہ 26اگست 2006ء کی صبح تھی۔ اطلاع ملتے ہی ربوہ سے مکرم و محترم ناظراعلیٰ صاحب مع دیگر احباب تشریف لائے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تعزیت کی فیکس موصول ہوئی اور آئندہ خطبہ جمعہ میں قریباً نصف گھنٹہ تک حضور انور نے آپ کا ذکر خیر فرمایا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ نے ضمیمہ بھی شائع کیا۔ سرگودھا میں نماز جنازہ کے بعد میت ربوہ لے جائی گئی۔ مسجد مبارک میں نماز جنازہ میں دس ہزار سے زائد افراد شامل ہوئے۔ اگرچہ اُس روز گرمی بہت تھی لیکن جنازہ اٹھاتے ہی ابرکرم کی چھینٹیں گریں اور تدفین کے بعد تو زوردار بارش ہوئی۔
قرآن کریم کی تعلیم کا اتنا شوق تھا کہ دنیاوی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی آپ نے قرآن مجید کو سیکھنے کی طرف بھر پور توجہ دی اور دس سال تک چار گھنٹہ روزانہ کلام الٰہی کو سیکھنے میں صرف کئے۔ اس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے درس قرآن بھی شامل ہیں جن میں انہوں نے رمضان المبارک میں قادیان جاکر شمولیت کی اور نوٹس لئے۔ آپ نے اپنے قرآن مجید کے ایک صفحہ کے ساتھ دو خالی کاغذ لگوائے ہوئے تھے جن پر ہر آیت کی حلّ لغات حضرت مسیح موعودؑ، حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ اور حضرت مصلح موعودؓ کی تفاسیر سے اخذ کرکے لکھی ہیں۔ اوامرونواہی کی آیات کو سرخ اور نیلے رنگ کی پنسل سے انڈر لائن کیا تاکہ ہروقت قرآنی احکامات نظروں کے سامنے رہیں۔ ساری عمر قرآن مجید کے درس کا سلسلہ جاری رہا۔ چند سال قبل حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر درس قرآن مجید ریکارڈ کروایا جو بائیس پارے تک مکمل ہوسکا۔
آپ کو نمازیں قائم کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ گھر پر مسجد تعمیر کروائی جہاں پنجوقتہ نمازوں کا التزام تھا۔ بچے بڑے سبھی وقت مقررہ پر باجماعت نماز پڑ ھتے ورنہ جواب طلبی ہوتی۔ تہجد کی ادائیگی ان کی زندگی میں بہت اہمیت کی حامل تھی۔ رات جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا ان کا معمول تھا۔ تہجد میں تقریباً تین گھنٹہ قیام فرماتے۔ اس میں بہت گریہ وزاری فرماتے۔ بعض دفعہ فرماتے کہ ایک نماز کی قیمت ساری جائیداد ساری اولاد سے بڑھ کر ہے۔ ذکر واذکار ہر وقت زبان پر جاری رہتے۔ درود شریف بہت انہماک سے پڑھتے ۔ دوران سفر گفتگو ناپسند فرماتے اور ذکر میں مصروف رہتے۔
خلافت احمدیہ سے عاشقانہ وابستگی تھی۔ آپ نے بار بار زندگی وقف کرنا چاہی جس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ آپ کی زندگی وقف ہی ہے۔ بہت سی کتابوں کے مصنف تھے جس میں صداقت مسیح موعود کی قبولیت کی جناب الٰہی سے بشارت ملی۔
دعوت الی اللہ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ بہت سوں نے آپ کی تحریرات ، تقاریر اور دعوت کے ذریعہ صداقت کی راہ کو اپنایا۔ چندے اولین وقت پر ادا فرماتے۔ اپنی وفات سے چند روز قبل میرے میاں کے سپرد تیس ہزار روپے کئے کہ اگر میں فوت ہوجائوں تو تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتے ہی میری پہلی رسید (معمول کے مطابق) کٹوادینا۔ جائیداد کا حصہ وصیت پہلے ادا فرماکر پھر جائیداد بچوں میں تقسیم فرمائی۔ اس بات کا بہت فکر تھاکہ میری ساری اولاد نظام وصیت میں شامل ہو۔
بہت دعاگو تھے اور خداکے فضل سے ان کی دعاؤں کوشرف قبولیت حاصل تھا۔ خود بھی دعا کرتے اور ہمیں بھی اس کی تلقین فرماتے۔ خاکسارہ کی زندگی میں کوئی ایسی تکلیف نہیں آئی جو ان کی دعائوں سے دور نہ ہوئی ہو۔ لیکن اگر خداتعالیٰ کی طرف سے تقدیر مبرم کی صور ت میں ظاہر ہوتی تو نہایت درجہ صبرو استقلال کا مظاہرہ فرماتے۔ اپنے پانچ بچوں کی وفات کو نہایت صبرو حوصلہ سے برداشت کیا۔ میری جوان سال بچی کی حادثاتی موت پر مجھے صبر جمیل کی تلقین فرمائی۔ خداتعالیٰ کی نعماء کے لئے حد درجہ شکرگزاری کا اظہار فرماتے۔
یتامیٰ کی کفالت کے وصف میں بھی اپنے پرائے سبھی فیضیاب ہوئے۔ ایک غیر از جماعت خاتون نے بتایا کہ وہ جوانی میں بیوہ ہوئی تو اپنوں نے ساتھ نہ دیا۔ کسی نے آپ کے پاس جانے کو کہا۔ آپ نے نہ صرف رہائش دی بلکہ کفالت بھی فرمائی۔ اب اس کے بچے برسرروزگار ہیں۔ غریب پرور تھے۔ آپ کی وفات پر بہت سوں نے کہاکہ ہمارے ساتھ احسان کرنے والا چلا گیا۔
مریضوں کی عیادت اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر فرماتے۔ پڑوسیوں سے حسن سلوک کا معاملہ تھا۔ طبیعت میں بہت عاجزی اور انکساری تھی۔ عرصہ کی بات ہے Reader’s Digestوالوں نے دو مرتبہ لکھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آ پ کی زندگی میں بہت سیAchievementsہیں۔ آپ ہمیں لکھ کر بھیجیں ہم انہیں چھاپیں گے۔ فرمایا مجھے دنیا کی تعریفوں سے کیاغرض۔
توکل علی اللہ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ 1974ء میں جب آپ کے گھر بار کو شدید نقصان پہنچایا گیا تو بڑے صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ فرماتے تھے جب حملہ آوروں نے لائبریری کی طرف قدم بڑھائے تو میں نے سمجھا اگر انہوں نے اس کو بھی آگ لگادی تومیں زندہ نہ رہ سکوں گا۔ پھر خداتعالیٰ کا فضل ہواان لوگوں کو اس کی توفیق نہ ملی۔ صرف قانون کی کتابیں تلف ہوئیں ۔ جب حکومت وقت نے اپنے نمائندہ کے ہاتھ نقصان پورا کرنے کا پیغام بھجوایا تو آپ نے جواب دیاکہ جن احمدیوں کی جائیدادیں تباہ ہوئی ہیں اسے پورا کردیں مجھے آپ کی کسی مدد کی ضرورت نہیں ۔ جماعتی طور پر بھی کچھ نہیں لیا۔ پھر خداتعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے سبھی کچھ عطا فرما دیا۔
جنرل ضیاء الحق صدرپاکستان کی طرف سے آپ کو مشیر برائے اقلیتی امور مقرر کیے جانے کی پیشکش ہوئی جو ایک مرکزی وزیر کے برابر عہدہ تھا۔ تو آپ نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا۔ اس پر حکومت کی طرف سے دھمکی آمیز خط ملے کہ کیوں نہ آ پ کی ساری جائیداد ضبط کرلی جائے لیکن آپ با لکل مرعوب نہ ہوئے اور خداتعالیٰ نے محض اپنے فضل سے محفوظ رکھا۔
اسی طرح تقسیم ہند کے وقت آپ چند ماہ حضورؓ کے حکم پر قادیان میں ٹھہرے۔ جب لاہور پہنچے تو یہاں آپ کے ایک دوست جسٹس کیانی مرحوم لیگل ریممبرنس تھے۔ آپ نے انہیں کہا کہ ماضی میں آپ نے مجھے سرکاری وکیل لگوانے کی بات کی تھی تب میں نے قبول نہ کیا۔ اگر آپ کے پاس یہ ملازمت ہے تو اب مجھے اس کی ضرورت ہے ۔ ان کے یہ کہنے پر کہ آپ لیٹ ہوگئے ہیں ایک وزیر کی سفارش آچکی ہے، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے جس خدا کی خاطر میں لیٹ ہوا ہوں وہ خود میرا کام کر ے گا۔ چند دنوں کے بعد ان کی طرف سے نہ صرف ملازمت کا خط مل گیا بلکہ آپ کی اپنی پسند پر سرگودھا میں سرکاری وکیل کے عہدہ پر آپ پانچ سال رہے۔ پھر شدید مخالفت ہونے پر آپ کی ٹرانسفر کر دی گئی تو استعفیٰ دیدیا اور پرائیویٹ پریکٹس شروع کی جو خداکے فضل سے کامیاب رہی۔
رہائش کے لئے جو کوٹھی ملی اس میں اس کے مالک ہندو وکیل کا بے شمار سامان بھرا ہوا تھا ۔ آپ نے سیٹلمنٹ کمشنر کو کہلا بھیجا کہ سامان اٹھوالیں مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔ وہ بعد میں کلب میں اکثر اس بات کا ذکر کرتا رہا کہ میں نے ایسا ایماندار شخص اپنی ملازمت کے دوران کبھی نہیں دیکھا اور ابا جان کی بہت عزت کرتا تھا۔ پھر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ خود تشریف لائے یہ دیکھنے کے لئے کہ رہائش کا ٹھیک انتظام ہوگیا۔ یہ محض ان کی ذرّہ نوازی تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے وقت میں انگلستان یا قادیان تشریف لے گئے تو حضورؒ نے ان کی رہائش کا انتظام ذاتی دلچسپی سے فرمایا۔ مرکز میں ’’سرائے محبت‘‘ کی تعمیر ہوئی تو آپ کے لئے ایک کمرہ تاحیات مختص رہا۔
آپ اپنے خالق کی محبت میں سرشار تھے۔ ایسا رعب و دبدبہ تھا کہ اپنے خاندان میں سبھی ان کے نہایت درجہ فرمانبردار رہے۔ طبعیت میں بے تکلفی اور سادگی تھی ۔ نہایت درجہ صفائی پسند۔ اپنی اشیاء کو بہت ترتیب سے رکھتے ۔ بچوں اور ان کی اولادوں کی تربیت محبت اور پیار سے فرمائی۔ کئی بہن بھائی اپنی فیملی کے ساتھ آپ کے قریب رہے اور ہر ایک سے شفقت فرمائی۔
لطیف ذوق پایا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے بیشمار اشعار زبانی یاد تھے جنہیں اکثر پڑھتے۔ صحابہؓ کی پاکیزہ صحبت سے فیض پانے کیلئے ابتدائی ایام میں بہت تگ و دو کی اور اسی رنگ میں اپنے آپ کو رنگین کر لیا۔ خوش طبع تھے اور پاکیزہ مزاح پسند فرماتے تھے۔
قدرت نے نورفراست اور ذہانت سے نوازا تھا۔ دو مرتبہ کوئی چیز پڑھ لیتے تو حافظہ میں محفوظ ہو جاتی تھی۔ نہایت درجہ مصروف الاوقات تھے۔ آپ کی وقت کی پابندی ضرب المثل تھی۔ عرصہ دراز تک صدر قضاء بورڈ کے عہدہ پر فائز رہے۔بعض دفعہ اپنے عزیز دوستوں کے خلاف بھی فیصلہ دینا پڑا اور اس امتحان میں پورااترے۔ تحفہ قبول کرتے ہوئے خاص احتیاط فرماتے کہ متعلقہ شخص کا میرے پاس کو ئی مقدمہ تو نہیں۔ ایسا ہوتا تو واپس لوٹا دیتے۔ کبھی یکطرفہ بات سننا پسند نہ فرماتے اور منع فرما دیتے کہ اس طرح فیصلہ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عام زندگی میں بہت سادہ مزاج تھے۔ تحریک جدید کے مطالبات کے مطابق گھر میں سادہ غذا کو رواج دلوایا سوائے ان دعوتوں کے جو افسران ضلع کے اعزاز میں دی جاتیں ۔ اثر و رسوخ کے باوجود کبھی اپنے یا اپنی اولاد کے لئے کوئی دنیوی فائدہ حاصل نہ کیا۔ ہر کام میں سلسلہ کا مفاد مقدم رکھا۔ خدا کے فضل سے اچھی صحت کے مالک تھے۔ٹینس کی گیم 71برس کی عمر تک کھیلاور کبھی کسی کو جیتنے نہ دیا۔ بعد میں نظر کی کمزوری آڑے آئی (موتیاکی وجہ سے)۔
نہ صرف حضرت مرزا صاحب خود صاحب رؤیا و کشوف تھے بلکہ آپ کے بارہ میں دوسروں کو بھی کثرت سے خواب دکھائے گئے۔ تقسیم ہند سے قبل آپ کو آپ کے گھرانے کی حفاظت کی خوشخبری دی گئی۔ اسی طرح جب آپ گورداسپور میں تھے ایک صاحب نے آپ کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے کشفاً سامنے کی دیوار پر الیس اللہ کا الہام لکھا پایا۔ گورداسپور کے کئی ہندوؤں اور سکھوں نے آپ کو اپنی خوابوں میں اپنے اوتار کے روپ میں دیکھا اس وجہ سے وہ آپ کی بے حد عزت کرتے تھے۔
کئی لوگوں نے دیکھا کہ آپ کو بعض ماموروں والی صفات دی گئی ہیں ۔ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ نے کشف دیکھا کہ آپ کا چہرہ بہت بڑا اور نہایت روشن اور خوبصورت ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ترقیات دی ہیں اور وہ اس پر حیران ہو رہے ہیں ۔
آپ کو ایک بار خلافت کے ساتھ وابستگان ایک تصویر میں دکھائے گئے تو خلیفہ وقت کے قدموں کے ساتھ لگے ہوئے پہلے آدمی آپ ہی تھے۔
آپ کے ایک دوست لکھتے ہیں کل رات عجیب لطیف خواب کا نظارہ ہوا دیکھا کہ ’’آنجناب اللہ تعالیٰ سے مصروف کلام ہیں ۔ آپ کوئی گزارشات کرتے ہیں اور رب رحمان اس کا جواب دیتا ہے۔کافی دیر تک یہ سلسلہ رہا۔ بالآخر اللہ فرماتا ہے اب بس۔ اس پر عاجز بیدار ہوا ‘‘۔
حضرت والد صاحب وفات سے چند ماہ قبل سانس کی تکلیف سے بیمار ہوئے تو ایک صاحب نے خواب دیکھا کہ ’’ہماری کوٹھی کا پلاٹ لمبے قد کے فرشتوں سے بھرا ہوا ہے اور سامنے ایک تابوت رکھا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لاتے ہیں لیکن تابوت خالی ہے۔ آپؒ نے فرمایا: ابھی نہیں اور واپس تشریف لے گئے ۔ پھر خداتعالیٰ نے آپ کو شفاء دیدی۔ ایسی بیسیوں خوابیں آپ کی ڈائری میں بھی ملتی ہیں جو آپ نے یا کسی دوسرے نے آپ کے بارہ میں دیکھیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے آپ کو دلی تعلق تھا اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں اکثر و بیشتر راتیں خوابوں میں ان کے ساتھ گزارتے اور احمدیت کی ترقی کے نظارے دیکھتے ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں