نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر1)

(مطبوعہ رسالہ اسماعیل اپریل تا جون 2012ء)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر1)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراءاور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضور انور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

ناروے کے واقفینِ نَو کے ساتھ کلاس

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے تشریف لانے پر پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ جس کے بعد یہ حدیث پیش کی گئی:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزر رہی ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ بار نہائے تو اس کے جسم پر کوئی میل رہ جائے گی؟ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کوئی میل نہیں رہے گی۔ آپؐ نے فرمایا: یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ اُن کے ذریعے گناہ معاف کرتا ہے اور کمزوریاں دُور کردیتا ہے۔
اس کے بعد نماز کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا درج ذیل اقتباس پیش پڑھا گیا:
’’نماز کیا چیز ہے۔ نماز اصل میں ربّ العزّت سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی۔ اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذّت اور ذوق آنے لگے گا۔ جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے میں مزہ آتا ہے۔ اسی طرح پھر گریہ اور پکار کی لذّت آئے گی۔ اور یہ حالت جو نمازی کی ہے پیدا ہوجائے گی۔ اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تاکہ صحت حاصل ہو اسی طرح اس بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہے۔ اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کرکے کہ اس سے لذّت اور ذوق پیدا ہو یہ دعا کرے کہ: ’’اے اللہ! تُو مجھے دیکھتا ہے کہ مَیں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور مَیں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں ۔ مَیں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو مَیں تیری طرف آجاؤں گا ، اُس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے۔ تُو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا اُنس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے ۔ تُو ایسا فضل کر کہ مَیں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جاملوں‘‘۔ ’’جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقّت پیدا کردے گی۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم۔ صفحہ 321-322)
بعدازاں بچوں کے ایک گروپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عربی قصیدہ سے چند اشعار پیش کئے

یَا عَیْنَ فَیضِ اللہ وَالْعِرْفَانٖ
یَسْعٰی اِلَیْکَ الْخَلْق کَالظَّمْاٰنٖ

اس کے بعد نماز کے قیام اور اس کی اہمیت کے بارہ میں ایک تقریر ہوئی۔
پھر ایک مضمون بعنوان ’’ہم احمدی مسلمان کیوں ہیں؟‘‘ پیش کیا گیا جسے حضور انور نے بھی پسند فرمایا۔ چنانچہ یہ مضمون ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
ہم احمدی مسلمان کیوں ہیں؟
حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر جہاں امّت مسلمہ کے عروج کے بارے میں عظیم الشان پیش خبریاں دی تھیں وہاں آخری زمانہ میں امّت مسلمہ پر آنے والے تنزّل کی بھی بڑے واضح الفاظ میں پیشگوئی فرمائی تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امّت پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ اسلام صرف نام کا رہ جائے گا اور قرآن صرف الفاظ میں رہ جائے گا۔ ان کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماءآسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔
(مشکوٰۃ کتاب العلم، فصل الثالث صفحہ 38)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آخری زمانہ میں عابد جاہل ہوں گے اور قاری فاسق ہوں گے۔ مسجدوں میں شور ہوگا۔ عالم اس لئے علم سیکھیں گے کہ روپیہ کماسکیں۔ قرآن کو تجارت ٹھہراویں گے۔ لوگ مسجدوں میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کریں گے۔ خطباءبہت ہوں گے۔ امر بالمعروف کم ہوں گے، بے گناہ قتل ہوں گے‘‘۔ (اقتراب الساعۃ صفحہ 38)
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں امّت کے تنزّل کی پیشگوئی فرمائی تھی وہاں آپؐ نے امّت مسلمہ کو یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ اس تنزّل کے بعد پھر میری امّت پر بہار کا زمانہ آئے گا اور اسلام اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو پھر حاصل کرے گا۔ فرمایا:

’’کَیْفَ تَھْلِکُ اُمَّۃٌ اَنَا اَوَّلُھَا وَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ اٰخِرُھَا‘‘۔ (کنزالعمال جلد 7 صفحہ 203)

کہ میری امّت کبھی تباہ نہیں ہوسکتی جس کے اوّل میں خدا نے مجھے بھیجا اور جس کی حفاظت اور حمایت کے لئے آخر میں مسیح ابن مریم آئے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے یہ بھی واضح ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا آنا ایسے زمانہ میں مقدّر تھا جو امّت محمدیہ کے لئے انتہائی خطرناک زمانہ تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انذاری پیشگوئی کے مطابق تمام علامات ظاہر ہوچکی ہیں اور ان ہی ایام میں مسیح موعود کے ظہور کی خبر رسول کریم ﷺ نے دی تھی۔ چنانچہ 23 مارچ 1889ءمیں حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد رکھی اور اللہ تعالیٰ سے اذن پاکر اعلان کیا کہ اس آخری زمانہ میں آنے والا مسیح اور مہدی مَیں ہی ہوں اور مَیں ہی وہی مسیح اور مہدی ہوں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پاکر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا‘‘۔ (تذکرۃالشہادین۔ صفحہ1)
پس آج ہم اسی لئے احمدی ہیں کہ اس آخری زمانہ میں آنے والے مسیح موعود علیہ السلام کو ہم نے پہچانا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہمارے آباؤاجداد کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کو پہچاننے کی توفیق دی اور انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام آپؐ کے روحانی فرزند مہدی علیہ السلام تک پہنچایا اور آج دنیا کے سارے احمدی مشرق اور مغرب میں رہنے والے، شمال اور جنوب میں رہنے والے تمام کے تمام دن رات اس کوشش میں مصروف ہیں کہ ساری دنیا کو بتایا جائے کہ ہم احمدی کیوں ہیںا ور احمدیت کیا چیز ہے۔ تا لوگ اپنی نجات کا راستہ تلاش کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو آپؐ کا سلام پہنچائیں اور آخرین کی جماعت میں شامل ہوکر

اللہُ اَکْبَرْ اور لَآ اِلٰہَ اِلّااللہ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہ

کے نعروں سے اس زمین پر ارتعاش پیدا کردیں۔
ہم احمدی اس لئے ہیں کہ ہم نے احمدی ہوکر زندہ خدا کو پایا۔ ہم نے اتحاد و یگانگت کا درس سیکھا۔ ہم نے اللہ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کیا۔ ہم نے عبادت کے گُر سیکھے، ہم نے محبت کرنا سیکھا۔ ہم نے خلافت کی عظیم الشان نعمت کو پایا اور دنیا کو درس دیا کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں۔ ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ

’’کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ‘‘ (آل عمران:111)

پس ہم احمدی کیوں ہیں!؟ ہم احمدی اس لئے ہیں کہ ہم نے تمام دنیا کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے۔ ہم نے زمین کے چپّہ چپّہ پر انسانوں کو باخدا انسان بنانا ہے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لانا ہے۔ یہ ہے ہمارا کام۔ اسی لئے ہم احمدی ہیں کہ ہم نے ظلم و استبداد کو ختم کرکے ہر طرف امن پیار محبت کے نعرے بلند کرنے ہیں۔ پس آج روئے زمین پر جماعت احمدیہ ہی ایک ایسی جماعت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت موجود ہے جس کی برکت سے اتحاد و یکجہتی کی عظیم نعمت ہم احمدیوں کو حاصل ہے اور ہم احمدی ہی ہیں جو ساری دنیا میں خلافت کے سائے تلے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے چلے جارہے ہیں۔ اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ناکام نہیں کرسکتی کیونکہ ہم احمدیوں کی تمام ترقیات ، تمام عزتیں اور ہمارا جینا مرنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا غرض کہ ہماری ہر حرکت خلافت احمدیہ سے وابستہ ہے۔ ہم احمدیوں کو خدا نے ایک آقا عطا فرمایا ہے جو خدا کا محبوب خلیفہ ہے۔ ہم احمدیوں کو اپنی جان سے زیادہ پیارے خلیفہ کے ساتھ ایسا گہرا تعلق ہے کہ ہم اپنے آقا کے ایک ادنیٰ اشارے پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہماری ہر تکلیف ہر دکھ میں ہمارے حضور ہمارے ساتھ ہوتے ہیں، ہمارے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ ہمیں جب کوئی مصیبت ہو، پریشانی ہو، ہم اسی وقت پیارے آقا کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے لکھتے ہیں اور پھر ہمیں اللہ کی طرف سے ایک سکون نصیب ہوتا ہے اور ہماری تمام پریشانیاں دُور ہوجاتی ہیں کیونکہ پیارے آقا ہر احمدی کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا ہے اور تمہاری محبت رکھنے والا اور تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا اور تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا اور تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔ تمہارا اُسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا ہے‘‘۔ (برکات خلافت)
اس تقریر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منظوم کلام

اک نہ اک دن پیش ہوگا تُو فنا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے

خوش الحانی سے پیش کیا گیا۔ جس کے بعد دو بچوں نے مل کر ناروے کے شمالی علاقہ Nordkapp پر ایک معلوماتی مضمون پیش کیا۔
واقفینِ نَو بچوں کو حضور انور کی نصائح
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نَو بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:
آپ لوگوں نے بڑے اچھے عناوین چنے ہیں۔ پہلے نماز کی اہمیت کے بارہ میں مضمون تھا۔ لیکن مَیں نے جائزہ لیا ہے مضمون تو پڑھ لیتے ہیں لیکن جب پوچھا جائے کہ پانچ نمازیں کس کس نے پڑھی ہیں تو بہت کم ہوتے ہیں پڑھنے والے۔ نمازوں میں سستی کرتے ہیں۔ صرف مضمون پڑھنے سے فرض پورا نہیں ہوجاتا۔
حضور انور نے فرمایا کہ واقفین نَو کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ سونے سے قبل اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم نے پانچ نمازیں ادا کرلی ہیں۔ اس طرح آپ کو خود پتہ لگ جائے گا کہ ہم کس حد تک پابندی کررہے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: نماز برائی سے روکتی ہے لیکن بہت سے نمازیں پڑھنے والے ایسے لوگ ہیں، مسلمانوں کے بچے ہیں جو آکر مسجد پر پتھر، گند اور گندے پمفلٹ وغیرہ پھینک جاتے ہیں۔ اب ان کو نماز برائی سے نہیں روک رہی۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ خالص ہوکر میرے پاس آؤ۔ مَیں تمہارا ہر کام، ہر فعل دیکھ رہا ہوں۔ ہر حرکت دیکھ رہا ہوں۔ تو صاف دل اور خلوص نیت کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازیں برائیوں سے روکتی ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: جن کاموں سے منع کیا ہے اُن سے رُک جاؤ تو تب فائدہ ہوگا۔ کسی کی تقریر کرنے، یا ایک سال بعد مضمون پڑھنے پر فائدہ نہیں ہوگا۔
حضور انور نے فرمایا: جو دس سال سے اوپر ہیں ان سب پر نماز فرض ہے۔ اگر وہ نماز نہیں پڑھتے اور ان کے ماں باپ ان کو جگاتے ہیں اور یہ آگے سے ہُوں ہاں کرکے سو جاتے ہیں تو یہ غلط چیز ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنے رحمدل تھے کہ آپ سے کسی کی کوئی تکلیف برداشت نہ ہوتی تھی تو آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ جو لوگ نمازوں پر نہیں آتے، میرا دل چاہتا ہے کہ لکڑیوں کا ایک گٹھا لوں اور اُن کے گھروں کو آگ لگادوں۔ اُس زمانہ میں بھی بعض لوگ مسجد میں نہیں آتے تھے۔ مجلسیں لگاتے تھے تو نمازیں رہ جاتی تھیں۔ آج کل بھی TV ہے، ڈرامے ہیں، انٹرنیٹ ہے، رات دیر تک یہ چیزیں دیکھتے رہتے ہیں اور پھر فجر پر آنکھ نہیں کھلتی۔
حضور انور نے فرمایا کہ آپ سب کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ نے پیدائش سے قبل وقف کیا تھا تاکہ جماعت کو خوبصورت تحفہ پیش کریں جو جماعت کی خدمت کرنے والا ہو۔ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والا ہو۔ اگر یہ احساس آپ لوگوں میں پیدا نہیں ہوتا، اگر یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا تو وقف نَو کے ٹائٹل لگ جانے سے تو کوئی فائدہ نہیں۔
حضور انور نے فرمایا: دوسرا مضمون یہ پڑھا گیا ہے کہ ہم احمدی کیوں ہیں؟ اصل یہ ہے کہ آپ اپنے عملی نمونے دکھائیں۔ آپ کے باپ، دادا کو توفیق مل گئی، والدین کو توفیق مل گئی تو انہوں نے مان لیا، لیکن وقف نَو میں سے تو کوئی ایسا نہیں ہوسکتا جس نے قبول کیا ہو۔ پس یہ احسان جو ماں باپ، باپ داداکا ہے ہمیشہ یاد رکھیں کہ انہوں نے احمدیت قبول کی اور احمدیت پر قائم رہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہمیں ان نمونوں پر چلنا ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائے۔ عرب کے بگڑے ہوئے لوگ چور تھے، ڈاکو تھے، قاتل تھے، شرابی تھے لیکن وہ ایسے نیک بن گئے کہ ہر برائی چھوڑ دی اور سچائی کو ایسا اختیار کرلیا کہ ان کے ہر قول و فعل میں سچائی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو سچ نہیں بولتے اور جھوٹ بولتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو خدا پر یقین نہیں ہے۔ جھوٹ سے کام لینے والا شرک کرنے والا ہے، خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سارے گناہ بخش سکتا ہوں لیکن شرک نہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ وقف نَو والے گہرائی میں جاکر سوچیں کہ کس طرح ہم نے زندگی گزارنی ہے۔ کس طرح دین کا پیغام پہنچانا ہے۔ بہت سارے ایسے ہیں جو جامعہ میں نہیں جاسکیں گے اور دوسرے فیلڈز میں جائیں گے۔ آپ نے پڑھائی مکمل کرکے اپنے آپ کو جماعت کے لئے پیش کرنا ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے جماعت سے یہ پوچھنا ہے کہ ہم نے اپنی پڑھائی مکمل کرلی ہے، اب ہمارے لئے کیا ہدایت ہے، ہم اپنے آپ کو جماعت کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد مرکز آپ کو ہدایت دے گا کہ آپ نے آئندہ کیا کرنا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ مَیں نے پائلٹ بننا ہے تو جماعت کو تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی کو بہت شوق ہے تو باقاعدہ اجازت لے لے۔ جب جماعت کے جہاز ہوں گے تو ضرورت ہوگی لیکن اب ضرورت نہیں ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے بزنس کرنا ہے۔ لیکن اس کا فیصلہ خلیفۂ وقت کرے گا کہ آیا آپ نے جماعت کی خدمت کرنی ہے یا کوئی دوسرا کام کرنا ہے، کس کمپنی میں کام کرنا ہے۔
حضور انور نے فرمایا: ہر لیول پر آپ کو پوچھنا چاہئے کہ کیا کرنا ہے۔ جماعت کو ڈاکٹرز، ٹیچرز، انجینئرز، میڈیا اور مختلف زبانوں میں ٹرانسلیشن کے کام کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ آپ کو فائدہ اُسی تعلیم کا ہوگا جو جماعت کی مرضی سے آپ حاصل کریں گے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ناروے کے واقفین نَو یاد رکھیں کہ اگر ان کے ذہن میں ہے کہ ناروے کے واقفین، ناروے میں ہی رہیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔ جہاں جماعت کو ضرورت ہوگی وہاں بھیج دیا جائے گا۔ اس چیز کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں