نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر17)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر17)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

سڈنی (آسٹریلیا) کے واقفین نو کے ساتھ کلاس
(مؤرخہ 7؍ اکتوبر 2013ء بمقام مسجد بیت الہدیٰ سڈنی)

کلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اس کے اردو ترجمہ سے ہوا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی درج ذیل حدیث ِ مبارکہ پیش کی گئی:

’’اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ وَ أَحْسِنُوْا أدَبَھُمْ‘‘ (ابن ماجہ ،ابواب الأدب، باب برّالوالدین)

کہ اپنے بچوں سے عزّت کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو۔
بعد ازاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا گیا:
’’ انسان جب اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اور ساری راحت اور لذّت اللہ تعالیٰ ہی کی رضا میں پاتا ہے تو کچھ شک نہیں دنیا بھی اُس کے پاس آجاتی ہے۔ مگر راحت کے طریق اور ہو جائیں گے وہ دنیا اور اُس کی راحتوں میں کوئی لذّت اور راحت نہیں پاتا۔ اسی طرح پر انبیاء اور اولیاء کے قدموں پر دنیا کو لا کر ڈال دیا گیا ہے۔ مگر ان کو دنیا کا کوئی مزا نہیں آیا۔ کیونکہ ان کا رُخ اَور طرف تھا۔ یہی قانون قدرت ہے۔ جب انسان دنیا کی لذّت چاہتا ہے تو وہ لذّت کو چھوڑتا ہے اور اُس کی آرزو اور خواہش باقی نہیں رہتی تو دنیا ملتی ہے مگر اس کی لذّت باقی نہیں رہتی۔ یہ ایک مستحکم اصول ہے اس کو بھولنا نہیں چاہیے۔ خدا یا بی کے ساتھ دنیا یابی وابستہ ہے۔ خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے گا اُسے تمام مشکلات سے نجات ملے گی اور ایسے طور سے اسے رزق دے گا کہ اُسے علم بھی نہ ہو گا۔ یہ کس قدر برکت اور نعمت ہے کہ ہر قسم کی تنگی اور مشکل سے آدمی نجات پا جاوے اور اللہ تعالیٰ اُس کے رزق کا کفیل ہو۔ لیکن یہ بات جیسا کہ خود اُس نے فرمایا تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہے اور کوئی امر اِس کے ساتھ نہیں بتایا کہ دنیوی مکر و فریب سے یہ باتیں حاصل ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں کی علامات میں سے یہ بھی ایک علامت ہے کہ وہ دنیا سے طبعی نفرت کرتے ہیں۔ پس جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس سے خوش ہو جاوے اور دنیا اور آخرت کی راحت اُسے مل جاوے وہ یہ راہ اختیار کرے۔ اگر اُس راہ کو تو چھوڑتا ہے اور اَور راہیں اختیار کرتا ہے تو پھر ٹکریں مار کر دیکھ لے کہ کچھ بھی حاصل نہیں ہونا۔ بہت سے لوگ ہوں گے جن کو نصیحت بُری لگے گی اور وہ ہنسی کریں گے لیکن وہ یاد رکھیں کہ آخر ایک وقت آجائے گا کہ وہ ان باتوں کی حقیقت کو سمجھیں گے اور پھر بو ل اٹھیں گے کہ افسوس ہم نے یونہی عمر ضائع کی لیکن اُس وقت کا افسوس کچھ کام نہ دے گا۔ اصل موقعہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور پیغام موت آجائے گا۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 7صفحہ 195)
اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا درج ذیل منظوم کلام خوش الحانی کے ساتھ پیش کیا گیا : ؎

اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے

مجلس سوال و جواب

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے واقف نوبچوں اور خدام نے سوالات کئے۔
٭… ایک واقف نو نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے Drugs حرام کئے ہیں تو پھر سگریٹ کیوں حرام نہیں کی؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ شراب حرام ہے۔ قرآن کریم میں اس کے حرام ہونے کا ذکر ہے اور یہ اس لئے حرام ہے کہ اس کا نقصان زیادہ ہے اور فائدہ کم ہے۔ جب انسان نشہ کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کے ہوش و حواس قائم نہیں رہتے۔
حضور انور نے فرمایا: جب ابھی شراب حرام نہیں ہوئی تھی تو ایک صحابی جو حالت نشہ میں تھے کسی بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو نا مناسب جواب دیا تھا۔ تو حالت نشہ میں انسان سے ناپسندیدہ افعال سر زد ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ باقی جہاں تک سگریٹ اور تمباکو کا تعلق ہے اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں اس کو حرام تو نہیں کہتا لیکن یہ بُری چیز ہے، مَیں اس کو ناپسند کرتا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے ضرور حرام قرار دے دیتے۔
حضور انور نے فرمایا: ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سفر میں گئے۔ جہاں قیام کیا وہاں لوگ حقّہ پیتے تھے۔ حقّہ کی وجہ سے وہاں آگ لگ گئی۔ جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بیہودگی ہے اور بُری چیز ہے۔ تو یہ سن کر اُن صحابہ نے جو حقّہ کا استعمال کرتے تھے اپنے حقّے توڑ دیئے۔ پس ہر نشہ کی چیز بُری چیز ہے۔ لیکن سگریٹ، تمباکو وغیرہ کا نشہ شراب کے نشے کی طرح نہیں ہوتا۔ ہاں تمباکو کے استعمال سے لوگ اپنے آپ کو بیمار کر لیتے ہیں جو نئی ریسرچ ہوئی ہے اُس سے معلوم ہوا ہے کہ تمباکو کے استعمال سے پھیپھڑوں کا کینسر بھی ہو جاتا ہے۔
٭… ایک سوال یہ کیا گیا کہ کوئی ہندو ، عیسائی جو اپنے مذہب پر کامل یقین رکھتا ہے اور جو دعا کرتا ہے وہ پوری ہوجاتی ہے تو اس کو کس طرح اسلام کی طرف، خدائے واحد کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: خدا تعالیٰ تو سب کا ایک ہے خواہ اس کا نام بھگوان رکھیں، پرمیشر رکھیں، خدایک ہی ہے۔ باقی ہندوؤں نے اپنے مختلف بت بنائے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بُت ان کو خداتعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کام کر رہی ہوتی ہے اور اس کے طفیل ہر مذہب والا ہندو ہو یا عیسائی ہو یا کوئی اور ہو، اس کو خدا تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی پرورش کا ذمّہ لیا ہوا ہے اس لئے وہ اپنی صفت رحمانیت کے تحت اپنی مخلوق کی پرورش کی ضروریات پوری کرتا ہے۔
حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو کشتی بحری جہاز میں سفر کرنے والے لوگ مجھ سے مدد مانگتے ہیں تو میں ان کی پکار کو سن کر ان کو بچا لیتا ہوں تو زمین پر پھر وہ باغی ہو جاتے ہیں۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اتنی قدرت رکھتا ہوں کہ زمین پر بھی ان کو پکڑ سکتا ہوں۔ پس خدا تعالیٰ کی رحمانیت غالب آکر، خدا تعالیٰ خود ہی فضل کر رہا ہوتا ہے۔
اب جو دہریہ خدا تعالیٰ کو مانتا ہی نہیں تو اس نے خدا تعالیٰ سے کیا مانگنا ہے؟لیکن بغیر مانگے بھی خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت اس کو عطا کر رہی ہے اور اُس کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: ایک عورت نے ایک دوسری لڑکی سے جو خدا کی قائل نہیں تھی یہ کہا کہ اگر تم نے یونیورسٹی میں جا کر امتحان دینا ہو اور تم امتحان کے لئے جا رہی ہو۔راستہ میں کوئی روک پڑ جائے، تاخیر ہو رہی ہو اور وقت پر پہنچنا مشکل لگ رہا ہو تو پھر ایسی صورت میں تم کیا کرو گی۔ اس پر اُس لڑکی نے جواب دیا کہ میں Hope رکھوں گی۔ تو اس پر بچی نے اُسے جواب دیا آخر تم کسی نہ کسی وجود سے ہی Hope رکھو گی۔ پس جس سے تم Hope رکھو گی وہی خدا ہے۔
حضور انور نے فرمایا: خدا تعالیٰ اپنی قدرت دکھانے کے لئے لوگوں کی دعائیں سنتا ہے۔ ایسے لوگ جو دور دراز کے جزائر میں رہتے ہیں اور ابھی وہاں اسلام کا نام نہیں پہنچا تو خدا تعالیٰ اپنی قدرت کے اظہار کے لئے ان لوگوں کی بھی دعائیں سنتا ہے۔
خدا تعالیٰ نے فرمایا: میں ربّ العالمین ہوں۔ سب کا رب ہوں اور ہر ایک کی پرورش کرتا ہوں۔ خواہ کوئی ہندو ہو، عیسائی ہو، بدھ ہو، پارسی ہو سب کو دیتا ہوں۔ تو یہ نہیں کہ ان کی دعائیں قبول ہو رہی ہوتی ہیںاور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو رہا ہوتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت کام کر رہی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں مل رہا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے سب کو پالنا ہے اور وہ پال رہا ہے اور پالنے میں جو مشکلات پیش آرہی ہوتی ہیں خداتعالیٰ اُسے بھی دُور کرتا ہے۔
حضور انور نے فرمایا: یہ جو دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں ان پر حجّت تمام کرنے کے لئے قبولیت دعا ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ سے اتنا تعلق پیدا کر لینا چاہئے کہ دوسروں کو بتا سکو کہ کس کی دعا قبول ہوتی ہے اور اگر مقابلہ میں آؤ تو خدا تعالیٰ ہماری دعا قبول کرے گا۔ دوسروں کو بتاؤ کہ اگر خداتعالیٰ تم پر رحم کر رہا ہے تو وہ اُس کے ایک جنرل اصول کے تحت ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کو اپنی مخلوق پسند ہے۔
حضور انور نے فرمایا: ہر مذہب خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور سچّا مذہب ہے۔ بعد میں اُس کے ماننے والوں نے اُسے بگاڑ دیا اور اس کی تعلیمات بگاڑ دیں۔ جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیا اور انسان ترقی کرتا گیا تو اللہ تعالیٰ انسان کے لئے علم کو بھی وسیع کرتا گیا اور انسان کی سوچوں کو بھی اور علم کی وسعت کا احاطہ کرنے کے لئے اس کی صلاحیت اور قابلیت کو بھی بڑھاتا چلا گیا۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے مختلف ادوار میں آہستہ آہستہ انسان کی صلاحیت اور قابلیت کوبھی بڑھایا اور علم میں بھی وسعت دی اور پھر اس دور میں اپنے کمال تک پہنچایا۔ اب صرف قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس نے دنیا کا ہر علم کا احاطہ کیا ہوا ہے اور ہر علم کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے۔ اب جو کامل دین ہے وہ صرف قرآن کریم ہی پیش کرتا ہے۔ دوسرے سب مذاہب کی تعلیمات بگڑ چکی ہیںجس کی وجہ سے اب یہ کامل مذہب نہیں رہے۔ کامل مذہب صرف اسلام ہی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مسلمانوں نے بھی یہی باتیں اور غلط تعلیمات اسلام میں داخل کر دی تھیں۔ اس لئے اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیحؑ اور مہدی ؑ کو مبعوث فرمایا۔ آپؑ نے اسلام کی اصل، حقیقی اور سچّی تعلیم پہنچائی اور اسلام کا اصل اور حقیقی چہرہ دنیا کو دکھایا۔
باقی دوسرے مذاہب والوں کو آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ تمہارا مذہب اگر صحیح بھی ہو لیکن تم نے اس کی اصل تعلیمات کو بگاڑ دیا ہے اور اب تم بگڑی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔
حضور انور نے فرمایا : پس اگر آپ نے دوسروں کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو۔ نمازی بنو اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرو اور پھر قبولیت دعا کے نشان خود بھی دیکھو اور دوسروں کو بھی دکھاؤ۔
٭… ایک طالبعلم نے سوال کیاکہ ہم خواتین سے ہاتھ نہیں ملاتے ۔ لیکن اگر کسی پروگرام میں کوئی خاتون اچانک ہاتھ آگے کر دے تو کیا کیا جائے؟
اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: پروگراموں سے پہلے واقفیت ہوتی ہے تبھی تو ان کو مدعو کیا جاتا ہے تو پہلے بتا دینا چاہیے کہ ہم ہاتھ نہیں ملاتے ۔
حضور انور نے فرمایا: میں جہاں بھی جاتا ہوں انتظامیہ کو توجہ دلا دیتا ہوں کہ ادب کے ساتھ بتا دیں کہ ہاتھ نہیں ملانا۔ چنانچہ اس طرح ہر ایک کو علم ہوتا ہے کہ ہاتھ نہیں ملانا۔ اس لئے پہلے ہی بتا دینا چاہیے تاکہ بعد میں جب کوئی عورت اپنا ہاتھ سلام کے لئے آگے کردے تو پھر شرمندگی نہ ہو۔
ہاں اگر کوئی انتہائی مجبوری کی صورت آجائے، خاتون کو بھی علم نہ ہو اور وہ اپنا ہاتھ آگے کر دے تو ایسی کیفیت میں دوسرے کو شرمندگی سے بچانے کے لئے آپ سلام کرلیں۔ مجبوری ہے۔
٭… ایک واقف نَو نوجوان نے عرض کیا کہ بزنس میں ماسٹر کیا ہے۔ حضور انور نے فرمایا: لکھ کر پوچھیں کہ اب کیا کرنا ہے۔ اگر ماسٹر کرنے کے بعد آگے مزید پڑھ کر بہتر کوالیفائی کر سکتے ہیں تو آپ کو کرلینا چاہیے۔
٭… ایک نو جوان نے سوال کیا کہ تعلیم کے حصول کے لئے ہم نے جو یونیورسٹی کا قرض حاصل کیا ہوا ہے، کیا جماعت کی خدمت میں آنے سے قبل اس قرض کے اتارنے کی اجازت ہوگی؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: ہر کیس کا ذاتی طور پر فیصلہ ہو گا اس لئے آپ لکھ کر دیں۔ اگر جماعت کو خدمت کی ضرورت ہوگی تو پھر جماعت قرض اتارنے کی ذمّہ داری لے گی اور اگر ضرورت نہیں ہوگی تو پھر آپ کو کہا جائے گا کہ اپنی Job کرو اور قرض اتارو۔
٭… اس سوال کے جواب پر کہ جنّت میں جانے کے لئے کوئی پابندیاں بھی ہیں؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہی جائیں گے جو کوالیفائی ہو کر جائیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جہنم خالی ہو جائے گی اور جنّت بھر جائے گی۔ پس تم نیکیاں کرو اور جنت میں جاؤ۔
٭… ایک نو جوان نے پوچھا کہ میں نے انجینئرنگ کی ہے اب آگے کسی لائن میں جانا ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: آرکیٹکچر میں کریں، ڈیزائننگ میں۔
٭… ایک نو جوان نے عرض کیا کہ میرا نام عبد الرحمٰن ہے، لوگ مجھے صرف رحمٰن کہہ کر پکارتے ہیں تو کیا یہ صحیح ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ رحمٰن تم نے غلط کام کیا ہے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ عبدالرحمن تم نے یہ برا کام کیا ہے تو یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ رحمن کا بندہ ہو کر بُرے کام تو نہیں کرنے۔ بہرحال عبدالرحمن کہنا چاہیے۔
٭… ایک واقف نو نے سوال کیا کہ پاکستان میں مولوی ٹخنوں سے اوپر شلوار پہنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ٹخنوں سے نیچے شلوار ہو تو نماز نہیں ہوتی۔
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بعض لوگ لمبے لباس،جُبّے پہنتے تھے جو ٹخنوں سے نیچے تک آگئے تھے اور وہ ایسا فخر کے اظہار کے لئے کرتے تھے۔ تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ صرف فخر اور تکبّر اور ریا کاری کے لئے لمبا لباس پہننا ٹھیک نہیں ہے۔
بعض صحابہ کے لباس بھی لمبے ہوتے تھے چونکہ ان میں کسی قسم کی فخر اور تکبّر کی علامت نہیں تھی اس لئے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا لباس پہننے سے منع نہیں فرمایا۔ صحابہ ٹخنوں سے نیچے تک لباس پہنتے تھے۔ پس یہ مولویوں نے اپنے فقہی مسئلے بنائے ہوئے ہیں۔
٭… اس سوال کے جواب میں کہ اگر کوئی بچہ چھوٹی عمر کا ہو تو کیا اُس کی بیعت لے لینی چاہیے؟ حضور انور نے فرمایا جب بچہ بڑا ہو جائے بالغ ہو جائے اور خود مختار ہو تو پھر بیعت کرے تو اس وقت پتہ چل جائے گا کہ کیا وہ سوچ بچار کے بعد شرح صدر سے بیعت کر رہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں