نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر21)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر21)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

جرمنی میں واقفین نو بچوں کی کلاس
(منعقدہ 8 جون 2014ء بمقام بیت السبوح جرمنی)

واقفین نو بچوں کی اس کلاس کا موضوع ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘ رکھا گیا تھا۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اس کے اردو ترجمہ سے ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں پر مشتمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مع اردو ترجمہ پیش کی گئی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ صفات کے تراجم میں سے بعض ایسے ہیں جن کی ان بچوں کو سمجھ ہی نہیں آسکتی۔ ان کو جرمن میں بتاتے تو زیادہ سمجھ آتی۔ اردو سکھانی ہے تو چھوٹی چھوٹی باتوں سے سکھائیں اور جو مشکل باتیں ہیں وہ ان کو ان کی زبان میں سکھائیں۔
بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا گیا:
’’آؤ! مَیں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ علیم ہے کیونکہ مَیں ایک انسان ہونے کی وجہ سے علم کامل نہیں رکھتا لیکن خدا مجھے کہتا ہے کہ یہ چیز یوں ظاہر ہوگی اور پھر باوجود ہزاروں پردوں کے پیچھے مستور ہونے کے بالآخر وہ چیز اسی طرح ظاہر ہوتی ہے جس طرح خدا نے کہا تھا۔ آؤ اور اس کا امتحان کر لو۔ مَیں تمہیں دکھاتا ہوںکہ خُدا ہے اور وہ قدیر ہے۔ کیونکہ مَیں بوجہ بشر ہونے کے قدرتِ کاملہ نہیں رکھتا لیکن خدا مجھے کہتا ہے کہ مَیں فلاں کام اس اس طرح پر کروں گا۔ اور وہ کام انسانی طاقت سے اس طرح پر نہیں ہوسکتا اور اس کے رستہ میں ہزاروں روکیں حائل ہوتی ہیں مگر پھر بھی وہ اسی طرح ہوجاتا ہے جس طرح خدا فرماتا ہے۔ آؤ اور اس کا امتحان کر لو۔ مَیں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ سمیع ہے اور اپنے بندوں کی دُعاؤں کو سُنتا ہے۔ کیونکہ مَیں خدا سے ایسے کاموں کے متعلق دُعا مانگتا ہوں جو ظاہر میں بالکل اَنْہو نے نظر آتے ہیں مگر خدا میری دُعا سے ان کاموں کو پورا کردیتا ہے۔ آؤ اور اس کا امتحان کر لو۔ مَیں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ نصیر ہے کیونکہ جب اس کے نیک بندے چاروں طرف سے مصائب اور عداوت کی آگ میں گِھر جاتے ہیں تو وہ اپنی نصرت سے خود اُن کے لئے مخلصی کا رستہ کھولتا ہے۔ آؤ اور اس کا امتحان کر لو۔ مَیں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ خالق ہے کیونکہ مَیں بوجہ بشر ہونے کے خلق کی طاقت نہیں رکھتا مگر وہ میرے ذریعہ اپنی خالقیت کے جلوے دکھاتا ہے جیسا کہ اس نے بغیر کسی مادہ کے اور بغیر کسی آلہ کے میرے کُرتے پر اپنی روشنائی کے چھینٹے ڈالے۔ آؤ اور اس کا امتحان کر لو۔ مَیں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ مکلّم ہے اور اپنے خاص بندوں سے محبت اور شفقت کا کلام کرتا ہے جیسا کہ اُس نے مجھ سے کیا۔ آؤ اور اس کا امتحان کر لو۔ مَیں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ ربّ العالمین ہے اور کوئی چیز اس کی ربوبیّت سے باہر نہیں۔ کیونکہ جب وہ کسی چیز کی ربوبیّت کو چھوڑتا ہے تو پھر وہ چیز خواہ وہ کوئی ہو قائم نہیں رہ سکتی۔ آؤ اور اس کا امتحان کر لو۔ پھر مَیں تمہیں دکھاتا ہوں کہ خُدا ہے اور وہ مالک ہے۔ کیونکہ مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کی حکم عدولی نہیں کر سکتی۔ اور وہ جس چیز پر جو تصرّف بھی کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ پس آؤ کہ مَیں تمہیں آسمان پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ مَیں تمہیں زمین پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ مَیں تمہیں ہوا پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ میں تمہیں پانیوں پر اُس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ مَیں تمہیں پہاڑوں پر اُس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ مَیں تمہیں قوموں پر اُس کے تصرفات دکھاؤں۔ اور آؤ کہ میں تمہیں حکومتوں پر اس کے تصرفات دکھاؤں اور آؤ کہ مَیں تمہیں دلوں پر اس کے تصرفات دکھاؤں۔ پس آؤ اور امتحان کر لو‘‘۔ (بحوالہ ’’ہمارا خدا‘‘ صفحہ 250)
بعد ازاں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ کا درج ذیل منظوم کلام پڑھا گیا:

مجھے دیکھ طالبِ منتظر ، مجھے دیکھ شکل مجاز میں
جو خلوص دل کی رَمق بھی ہے ، ترے اِدّعائے نیاز میں

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کلاس میں شامل بچوں کی تعداد اور عمر کے حوالہ سے دریافت فرمایا جس پر سیکرٹری وقف نو نے عرض کیا کہ جرمنی بھر سے بارہ تا پندرہ سال کی عمر کے تقریباً تین صد واقفین نو بچے اس کلاس میں شامل ہیں۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ جن کی جامعہ احمدیہ میں جانے کی خواہش ہے وہ ہاتھ کھڑا کریں تو اس پر بڑی تعداد میں بچوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے اور جامعہ احمدیہ میں جانے کے عزم کا اظہار کیا۔ تو اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ پوری کلاس چلی جائے گی تو پھر جامعہ والوں کو ایک اور بلاک کھولنا پڑے گا۔ اچھی بات ہے ماشاء اللہ، اپنے اس عزم کو قائم رکھیں۔ یہ نہ ہو کہ جب سیکنڈری سکول کرلو، جمنازیم کے بعد Abitur کرلو تو کہہ دو کہ ہماری نیت بدل گئی ہے۔ اب ہمارا ارادہ ہے کہ ہم فلاں فیلڈ میں چلے جائیں۔ اس لئے وقف کرنا ہے ساروں نے اور پھر جامعہ میں جانا ہے تو وقف کا مطلب ہے کہ پھر تم لوگوں کو جرمنی چھوڑ کر کہیں اَور بھی جانا پڑے تو جانے کے لئے تیار ہو۔
اس پر طلباء نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم ہر جگہ جانے کے لئے تیار ہیں۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ کیا Riel Schule کرنے کے بعد ہم جامعہ میں داخلہ لے سکتے ہیں کہ نہیں۔ یہ دسویں کلاس کے برابر ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دسویں کلاس کے بعد اگر تم کوالیفائی کرلو اور جامعہ نے داخلہ کا جو معیار رکھا ہوا ہے تم اس پر پورا اترتے ہو۔ اگر تمہاری اردو ٹھیک ہے۔ تمہیں قرآن شریف پڑھنا آتا ہے، تمہیں عربی آتی ہے، تمہیں نماز آتی ہے، تمہیں ترجمہ آتا ہے اور جامعہ کے ٹیسٹ کوالیفائی کرلیتے ہو تو ٹھیک ہے۔ لیکن یہاں والوں کو جرمن زبان بھی آنی چاہئے۔ اگر تم آبی ٹور وغیرہ کرلو تو جرمن زبان تمہاری اچھی ہوجاتی ہے اس لئے جامعہ والے ابی ٹور (Abitur) کو پریفر (Prefer) کرتے ہیں۔ لیکن اگر تم پڑھائی میں اچھے ہو تو دوسری زبانیں بھی تو سکھائی جاسکتی ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ جتنے ہاتھ کھڑے ہوئے ہیں یہ سارے مبلغ جرمنی کو دیے جائیں۔ دوسرے ملکوں میں بھی جانے ہیں۔ ان کو فرنچ بھی سکھانی ہے اور فلیمش بھی سکھانی ہے اور انگلش بھی سکھانی ہے اور دوسری زبانیں بھی سکھانی ہیں۔ اس لئے اگر کوالیفائی کرلو تو جامعہ میں جاسکتے ہو۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ جب آدمی گھر کے اندر باجماعت نماز پڑھا رہا ہو اور اس کے پیچھے عورتیں ہوں تو پھر آدمی نے ہی کیوں تکبیر کہنی ہوتی ہے۔ عورت کیوں نہیں کہہ سکتی؟
اس سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر مرد امام کے پیچھے صرف گھر کی عورتیں ہیں تو وہ تکبیر کہہ سکتی ہیں۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ رمضان کے روزے رکھنے کی عمر کتنی ہوتی ہے یا کب سے روزے رکھنے کی اجازت ہوتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اگر تو صحتمند جسم ہے تمہاری طرح کا تو تم روزے رکھ سکتے ہو۔ جب برداشت کرسکتے ہو تو رکھ لو۔ لیکن یہ جو گرمیوں کے روزے ہیں لمبے ہوتے ہیں ان میں طلباء کو احتیاط کرنی چاہئے۔ ہاں ایک دو روزے رکھ کر عادت ڈال لینی چاہیے۔ اگر برداشت کرسکتے ہو تو تھوڑے تھوڑے روزے رکھ کر عادت ڈال لینی چاہئے اور اگر امتحان وغیرہ ہو رہے ہیں تو ان میں بہرحال ایک بوجھ پڑ رہا ہوتا ہے اس لئے ان دنوں میں پھر نہ رکھو۔ لیکن جب تم جوان ہوگئے، سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں بالغ ہوگئے تو پھر تمہارے اوپر فرض بن ہی جاتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ کوئی معین عمر تو کہیں نہیں لکھی ہوئی لیکن بہرحال عادت ڈال لینی چاہئے۔ بچپن میں، بالکل چھوٹی عمر میں بچوں کو نہیں کہنا چاہئے کہ روزہ رکھیں۔بعض مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ کم عمر بچوں کو روزہ رکھوادیتے ہیں۔ لمبے دن ہوتے ہیں۔ بچہ پیاس سے تڑپ رہا ہوتا ہے اس کو کمرے میں بند کردیتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں کئی واقعات ہوتے ہیں کہ بند کردیتے ہیں اور شام کو جب دروازہ کھولتے ہیں تو بچہ مرا پڑا ہوتا ہے تو یہ بھی ظلم ہے اس کی قطعاً اجازت نہیں۔ اس لئے جب تک تمہیں برداشت ہو رکھ لو۔ ایک آدھ روزہ رکھ سکتے ہو۔ جس دن موسم ٹھنڈا ہو اُس دن رکھ لیا کرو۔ آجکل تمہاری عمر کسی بھی روزے کے فرض ہونے کی نہیں ہے۔
٭ ایک واقف نو بچے نے دعا کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا کہ میرے کان کے چار آپریشن ہوچکے ہیں۔ بائیں کان سے سنتا ہوں۔ جو دایاں کان ہے یہ اب تک صحیح نہیں ہوسکا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل کرے۔
٭ ایک واقف نو بچے نے سوال کیا کہ قرآن مجید میں سورۃ رحمن میں جنّ و انس کا ذکر ہے۔ انس سے مراد انسان اور جنّوں سے مراد کیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: جنّوں سے مراد بہت ساری چیزیں ہوسکتی ہیں۔ کوئی بھی چھپی ہوئی چیز جو ہے اسے جنّ کہتے ہیں۔ اس لئے حدیث میں بیکٹیریا کے لئے بھی جنّ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور حدیث میں ذکر ہے کہ اگر تمہیں باہر جنگل میں رفع حاجت کے بعد صفائی کرنی پڑے تو اگر کوئی ہڈی مل جائے تو اس کے ساتھ نہ کرو کیونکہ اس میں جراثیم ہوتے ہیں۔ چھپی ہوئی چیزیں ہوتی ہیں۔ اس لئے اس کی بجائے پتھر استعمال کرو۔
حضور انور نے فرمایا: اسی طرح پہاڑوں میں چھپے ہوئے لوگوں کو بھی جنّ کہتے ہیں۔ بڑے لوگ جو دنیا میں سامنے نہیں آتے وہ بھی جنّ ہیں تو اس طرح بعض انسان، جنّ اس لحاظ سے بھی ہوتے ہیں کہ وہ عام انسانوں سے اپنے آپ کو ذرا اوپر سمجھتے ہیں۔ تو اس طرح مختلف قسم کی کیٹیگریز ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہر چھپی ہوئی چیز یا اپنے آپ کو دوسرے سے علیحدہ رکھنے والے جو لوگ ہیں ان کے لئے جنّ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ جس دن آپ حضور بنے تھے اس دن آپ کو کیسا محسوس ہو رہا تھا۔ یہ تو بڑی ذمّہ داری ہے۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تم اُس دن کی ویڈیو دیکھ لینا۔ تمہیں پتہ لگ جائے گا۔ کئی جگہ MTA والوں نے تصویریں لی ہوئی ہیں ان کو کہنا کہ تمہیں دکھادیں۔ تمہیں میری شکل نظر آجائے گی کہ کیسا لگ رہا تھا۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ خلافت سے پہلے حضور Riding کرتے تھے تو کیا اب بھی حضورکو Riding کے لئے وقت ملتا ہے؟
اس کے جوا ب میں حضور انور نے فرمایا: Riding تو مَیں پہلے بھی باقاعدہ نہیں کرتا تھا۔ ہاں جب مَیں پڑھتا تھا تو اس وقت Riding کیا کرتا تھا۔ لیکن اب تو وقت نہیں ملتا۔ لیکن کبھی کبھی دو چار مہینے بعد اسلام آباد جاکر وہاں Riding کرتے ہوئے دیکھ لیتا ہوں۔ اسلام آباد میں جماعت نے وہاں گھوڑے رکھے ہوئے ہیں۔ وہاں جامعہ کے لڑکے Riding کرنے جاتے ہیں۔ بچے، اطفال Riding کرتے ہیں تو کبھی کبھی جب موقع ملے تو جا کر دیکھ لیتا ہوں۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ وقف نو کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ وقف نو کامطلب ہے نیا وقف۔ یعنی جو ایک نئی سکیم بچوں کو وقف کرنے کی نکلی ہے جس میں ماں باپ اپنے بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے وقف کر دیتے ہیں اور جب بچہ بڑا ہو جائے، ہوش میں آ جائے۔ پھر وہ دوبارہ بانڈ (Bond) لکھے کہ میں اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہوں۔ ایک وقف اولاد ہوتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہو گیا۔ اس وقت دو چار چھ سال کا ہو گیا اس وقت ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے بچوں کو وقف کر دیں تو وہ وقف، وقف اولاد میں شمار ہوتا ہے اور یہ پہلے سے ایک سکیم جاری ہے۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ ہماری ایک اسلامی نمائش ہوئی تھی اس میں ایک عیسائی دوست نے ہم سے پوچھا تھا کہ سورۃالمائدہ میں خدا تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے اپنی قوم کو یہ ہدایت دی تھی کہ آپ کی قوم آپ کی اور آپ کی ماں کی عبادت کریں؟ تو عیسائی بعد میں یہ کہتے ہیں کہ ہم تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں کی عبادت کرتے ہی نہیں۔جب کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ کرتے ہیں تو اس طرح وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نعوذ باللہ قرآن کریم غلط ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: پہلے تو آیت نکالو اور آیت پڑھو اور ترجمہ پڑھو اور پھر سوال کرو۔جب سوال قرآن شریف کی ایک آیت کے حوالہ سے کر رہے ہیں تو آیت پڑھ کے سوال کیا کرتے ہیں پھر اس کا ترجمہ کرتے ہیں تا کہ صحیح طرح سمجھ آئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: عبادت کیوں نہیں کرتے۔ حضرت عیسیٰ کوآسمان پر بٹھایا ہوا مانتے ہیں کہ نہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر چلے گئے۔پھروہ کہتے ہیںکہ تین خدا ہیں۔ تین خدا مانتے ہیں ، باپ، بیٹا اور روح القدس۔ جب تین خدا آ گئے تو پھر عبادت تو خدا کی کی جاتی ہے، پوجا جاتا ہے۔جب مانگتے ہیں تو عیسیٰ کے نام سے مانگتے ہیں۔ وہ خدا کے لئے ہاتھ اٹھانے کی بجائے یوں یوں کراس لگاتے ہیں۔ تو پھر یہی چیزیں عبادت ہیں اور کیا عبادت ہے؟ ہر چیز جو مانگتے ہیں وہ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ نے ہمیں دے دی۔ اب ان سے کہو کہ اب یہ بات چھوڑو، اپنے نظریات اور باتیں بدلتے رہتے ہو، اب تو ویٹیکن والوں نے بھی یہ اعلان کر دیا تھا کہ جو عیسیٰ نے آنا تھا وہ کوئی نہیں آنا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے فرمایا: اب عیسائیوں میں بھی بہت سارے فرقے ہیں جن کے مختلف نظریات ہیں۔ اور پھر بہت ساری بائبل کی ایسی آیتیں ہیں جن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعتراض کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بعد ان کو بائبل سے نکال دیا گیا۔ تو یہ تو خود ایسی چیزیں ہیں جس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کو شک پڑتا رہتا ہے۔ اب جیسا کہ میں بتا رہا ہوں کہ ویٹیکن والوں نے کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے جو کہا تھا کہ میں نے دنیا میںآنا ہے۔ وہ دنیا میں نہیں آنا۔ اس وقت انہوں نے شراب شاید پی ہو گی اور شراب کے نشہ میں یہ بات کہہ دی تھی کہ میں نے آنا ہے۔ یہ لکھا ہوا آجکل انٹرنیٹ پر بھی available ہے۔ تم بے شک پڑھ لو۔ جرمن میں بھی انگلش میں بھی ہر جگہ ویٹیکن والوں کے پادریوں کا یہ بیان ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کوئی اور کام سپرد کر دیا ہے جس کو کرنے کے لئے وہ کچھ اور کر رہے ہیں۔ دنیا کی اصلاح تو ہوئی نہیں کسی اور دنیا کی اصلاح کے لئے اب عیسیٰ کو بھیج دیا ہے۔ تو ان کی تویہ باتیں ہیں۔ قرآن شریف جو کہتا ہے سچ کہتا ہے صحیح کہتا ہے۔ جویہ کہتے ہیں وہ بدلتے رہتے ہیں جس طرح کہ میں نے بتایا کہ بائبل کی بہت ساری ایسی آیتیں ہیں جب ان پر اعتراض کرو تو جو نئی نئی پرنٹ کرتے ہیں ان میں وہ بدلنے لگ جاتے ہیں اور پھر بائبل بھی ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مختلف قسم کے ورژن ہیں۔ تو انہوں نے اللہ کے علاوہ اور معبود بنائے ہوئے ہیں اور ان کو شریک ٹھہرایا ہوا ہے۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ یہ جنت ہر ماں کے قدموں کے نیچے ہے یا صرف مسلمان ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:جنت ماں کے قدموں کے نیچے سے مراد یہ ہے کہ ماں اگر اچھی تربیت کرتی ہے اور بچہ نیک ہوتا ہے۔ نیک کام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو وہ بچہ نیک کاموں کی وجہ سے جنت میں جائے گا۔ اور اگر کوئی بھی ماں ہو وہ اگر اپنے بچے کی تربیت ایسے کر دے کہ خدا کو پہچاننے والے ہوں اور اس تلاش میں ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں ان کو ہم مانیں تو وہ جنت میں لے جانے والی ہے۔ اب حضرت موسیٰ نے بھی اپنے بعد آنے والے نبی کی خبریں دیں۔ حضرت عیسیٰ نے بھی خبر دی تو یہ سب جو پرانے نبی ہیں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دی۔ اگر وہ ان کو نہیں مانتے تو وہ مومن نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کہا ہے کہ جو عیسائی ہے یہودی ہے مجوسی ہے وہ بخشا جائے گا۔ یعنی وہ مومن ہو تو جنت میں جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ لوگ اپنی اس نیکی کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں آ جائیں گے ان کو مان لیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ سے جزا پائیں گے۔ باقی جنت یا دوزخ کا فیصلہ کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ یہ انسانوں کا کام نہیں۔ اس سے مراد یہی ہے کہ ایک مومن عورت مسلم عورت اگر اپنے بچے کی نیک تربیت کرتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر چلنے والا بناتی ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بناتی ہے اور نیک کام کرنے والا بچہ ہے نیکیوں کو پھیلانے والا بچہ ہے تو وہ جنت میں جائے گا۔ باقی یہ کہنا کہ دوسری مائیںجو مسلمان نہیں ہیں وہ اپنے بچوں کی تربیت بھی کریں تو جنت میں نہیں جائیں گی، ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ بہت سارے اعلیٰ اخلاق ہیں اوراللہ تعالیٰ تو بخشنے والا ہے کسی کو بھی کسی نیکی کے اوپر جنت میں بھیج سکتا ہے۔ دو آدمیوں کی بحث ہو گئی۔ ایک نے کہا کہ تم ایسے ایسے برے کام کرتے ہو تم جنت میں نہیں جاسکتے۔ میں دیکھو کتنے نیک کام کرتا ہوں، میں عبادت کرتا ہوں اور میرا بڑا اونچا مقام ہے۔ خیر مرنے کے بعد دونوں اللہ کے حضور پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے کہا تم کون ہوتے ہو جنت یا دوزخ کا فیصلہ کرنے والے۔ مَیں ہوں جس نے جنت اور دوزخ میں ڈالنا ہے۔ جس کو تم کہتے ہوکہ تم جنت میں نہیں جاؤ گے۔ تم دوزخ میں جاؤ گے اس کو میں جنت میں بھیج رہا ہوں اور تم کوجو تکبر پیدا ہو گیا تھا کہ میں بڑا ہی عبادت گزار ہوں، نیک کام کرتا ہوں تمہیں دوزخ میں ڈالتا ہوں۔ یہ فیصلے اللہ نے کرنے ہیں۔ باقی اس سے مراد یہ ہے کہ اگر ماں اچھی نیک تربیت کرتی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی مسلمان مومن ماں کے بچے جو ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ جنت میں جانے والے ہوں گے ان نیک کاموں کی وجہ سے جو وہ اچھی تربیت کی وجہ سے کریں گے۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ جماعت کی طرف سے جو کیلنڈرملتے ہیں ان پر آیات لکھی ہوتی ہیں یا خلفاء کی تصاویر بنی ہوتی ہیں۔ جب سال گزر جاتا ہے تو اس کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ اس کواگر سٹور نہیں کر سکتے توجلادیا کرویا shredکر دیا کرو۔ یہاں شریڈر (Shreder) ملتے ہیں ان میںڈال دو۔ ہر گھر میں تو شریڈر نہیں ہوتا اس لئے تم جلا دیا کرو۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ جماعت احمدیہ کا جو نام ہے یہ کس نے رکھا ہے اور کیسے رکھا گیا؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی رکھا ہے اور1901ء میں جب مردم شماری ہوئی۔ یہاں جرمن میں مردم شماری کو Volkszählung کہتے ہیں۔ مردم شماری حکومت کرتی ہے کہ ہماری آبادی ملک کی کتنی ہے۔ کتنے مرد ہیں، کتنی عورتیں ہیں، کتنے بچے ہیں۔ کس کس مذہب کے لوگ رہنے والے ہیں۔ہر دس سال کے بعد کرتے ہیں۔ تو انڈیا میں 1901ء میں جو مردم شماری ہوئی تھی اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ والسلام نے اپنی جماعت کے افراد کو کہا کہ ہمیں دوسرے مسلمانوں سے ممتاز کرنے کے لئے علیحدہ رکھنے کے لئے یہ بتانے کے لئے کہ ہم احمدی ہیں، احمدی مسلمان ہیں جنہوں نے مسیح موعود کو مانا ہے توتم اپنے ساتھ احمدی مسلمان لکھنا۔ اس مردم شماری کے جب فارم آئے تو اس میں احمدی مسلمان لکھنا تا کہ پتا لگ جائے کہ ہم احمدی ہیں اور ملک کو بھی پتا لگ جائے کہ ہماری کتنی تعداد ہے؟ اس لئے احمدی نام رکھا گیا اوراس وقت سے رکھا گیا۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ پرانے زمانے میں لوگوں کو پتہ کیسے چلتا تھا کہ فلاں ایک نبی ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا نئے زمانے میں کس طرح پتہ لگتا ہے؟ کسی ٹیلی ویژن پر اناؤنسمنٹ ہوتی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود اور مہدی موعود تشریف لائے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ کا نام دیا۔ اور وہ نبی تھے۔ تو اس زمانے میں بھی کوئی ٹیلی ویژن یا ریڈیو یا کہیں اور اناؤنسمنٹیں تو نہیں ہوئیں۔ پریس اس وقت جاری ہو گئے تھے لیکن آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا کہ میں نبی ہوں پھر آہستہ آہستہ دنیا کو پتا لگنا شروع ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو پریس وغیرہ نہیں تھے۔ پھر اسی لئے آپ نے دنیا کے مختلف جو بادشاہ تھے ان کوتبلیغ کے خط لکھے کہ تمہاری مختلف مذاہب کے نبیوں کی پیشگوئیوں کے مطابق جو نبی آخری شریعت لے کے آنے والا تھا وہ آگیا ہے اور وہ میں ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں کو خط لکھے۔ تو اس طرح ان بادشاہوں تک پیغام پہنچا۔ پھر جو مسلمان تھے صحابہ تھے وہ مختلف جگہوں پر گئے اورجب تبلیغ کی تو بتایا کہ نبی آ گیا ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جنگوں کے ذریعہ اسلام پھیل گیا۔ جنگوں سے نہیں پھیلا۔ اب چین کے ساتھ تو عربوں کی کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ لیکن چین میں بھی کروڑوں مسلمان ہیں۔ اس زمانے میں صحابہ وہاں گئے تھے جنہوں نے وہاں تبلیغ کی اور چینی مسلمان ہو گئے۔ اسی طرح دنیا کے مختلف جگہوں پر مسلمان ہوئے۔ تو اس طرح تبلیغ کر کے یہ پیغام پہنچایا کہ جس نبی نے آنا تھا وہ آ گیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لئے نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ اعلان کر دو کہ میں تمام دنیا کے انسانوں کے لئے نبی ہوں۔ اس لئے آپ نے ساری دنیا کو پیغام بھیجا اور آپ کا پیغام دنیا میں پہنچا۔ پہلے جو نبی آتے تھے وہ اپنے اپنے علاقوں کے لئے ہوتے تھے۔ تھوڑے تھوڑے علاقوں کیلئے ہوتے تھے۔ مثلاً کسی کی قوم ایک لاکھ ہے کسی کی دو لاکھ یا کسی کا تھوڑا سا علاقہ ہے۔ ان علاقوں میں وہ نبی تھے۔ ایک وقت میں دو دو نبی بھی ہوتے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں حضرت ابراہیمؑ بھی نبی تھے۔ ساتھ دوسرا علاقہ تھا جہاں پیغام دینے والے حضرت لوطؑ کی قوم کیلئے پیغام لے کر پہنچے۔ حضرت لوطؑ بھی نبی تھے۔ تو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تھے وہ اپنے علاقوں میں لوگوں کو بتایا کرتے تھے کہ ہم نبی ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دے کر بھیجا ہے۔
٭ ایک واقف نو طالبعلم نے سوال کیا کہ پہلے تو جرمنی میں جامعہ نہیں تھا لندن میں تھا تو اب جرمنی میں بھی بن گیا ہے تو اب اگر کوئی لندن جامعہ میں جانا چاہے تو کیا وہ جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بڑی اچھی بات ہے تم آنا چاہو میں تمہیں بُلالوں گا۔ اگر تم یہاں جرمنی سے لندن آ کے جامعہ میں پڑھنا چاہتے ہوتو تمہیں اجازت ہے۔ بشرطیکہ ان کے پاس سیٹیں ہوں۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ شرک کا معنی کیا ہے؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ِ کہ شرک کا معنی یہ ہے کہ شریک ٹھہرانا۔ اللہ تعالیٰ کے برابر کسی کو لے کے آنا۔ مثلاً اب تم یہ کہو کہ میں وہاں جاؤں گا اور فلاں شخص میری ضرورت پوری کر سکتا ہے جو مجھے پیسے دے سکتا ہے۔ اور تم اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہو تو اس کا مطلب ہے تم نے شرک کیا۔ ہمیشہ کہو کہ فلاں جگہ جاؤں گا تو انشاءاللہ تعالیٰ میں اسے وصول کرلوں گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کوئی کام کرنے سے پہلے تم انشاء اللہ کہا کرو۔ جب انشاء اللہ کہا کرو گے تو اس کا مطلب ہے کہ جو اللہ چاہے تو یہ کام اللہ تعالیٰ کر دے گا، یہ کام ہو جائے گا۔ تو اس طرح تمہارے بچپن سے ہی تمہارے ذہن میں شرک کے خلاف بات آنی چاہئے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی تم نے اللہ تعالیٰ کو پہلے رکھنا ہے۔ انشاء اللہ کہو پھر کام کرو کہ انشاء اللہ میں یہ کام کر لوں گا۔ اللہ چاہے گا تو میں کام کرلوں گا کسی دوسرے میں طاقت نہیں ہے کہ وہ میرے کام کر سکے۔ پھر بعض لوگ جو بتوں کو پوجتے ہیں۔ اور بت سامنے رکھے ہوتے ہیں ان سے جا کے مانگتے ہیں۔ وہ بھی شرک ہے۔ حالانکہ مانگنا صرف اللہ سے چاہئے۔ کسی کو اللہ کے مقابلے پر لا کر کھڑا کرنا یا اللہ کے برابر سمجھنا وہ شرک ہے۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ میں نے تین شعر نظم کے سنانے تھے میں نے اپنی امی سے وعدہ کیا تھا کہ میں سناؤں گا۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ صرف دو شعر سنا دو۔ چنانچہ اس طفل نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام ’’حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی‘‘ سے دو شعر سنائے۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ جو لوگ رمضان میں اعتکاف بیٹھتے ہیں۔ وہ کیوں بیٹھتے ہیں۔ ویسے تو دوسرے لوگ بھی قرآن پڑھتے ہیں اور مکمل کرتے ہیں۔
اس پر حضورا نور نے فرمایا کہ اعتکاف بیٹھنا ضروری تو نہیں ہوتا۔ تمہاری مرضی ہے بیٹھو نہ بیٹھو۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت تھی۔ آپ رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے اوراعتکاف بیٹھنے والا پھر دس دن کے لئے دنیا سے اس لحاظ سے علیحدہ ہو جاتا ہے کہ گھر کاروبار کی کوئی فکر نہیں رہتی۔اعتکاف اس لئے بیٹھتے ہیں تا کہ ان ایام میں صبح سے لے کے شام تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ دوسرے لوگ جوروزے رکھتے ہیں تووہ ساتھ ساتھ اپنے کام بھی کرتے ہیں۔ روزہ رکھ کے دفتر بھی چلے جاتے ہیں۔ شام تک چار بجے تک دفتر رہتے ہیں۔ وقت ملے تو شام کو آ کے آدھا رکوع ایک رکوع یاایک سپارہ یا آدھا سپارہ تھوڑا سا قرآن شریف پڑھ لیتے ہیں۔ نمازیں کام کی وجہ سے مختصر کر کے پڑھتے ہیں۔ اعتکاف میں بیٹھنے والا جو نوافل کے وقت ہیں ان میں نفل بھی پڑھ سکتا ہے۔ ظہر سے پہلے تک۔ اور ظہر کے بعد، پھر مغرب کے بعد، عشاء کے بعدنوافل پڑھ سکتے ہیں۔ پھر قرآن کریم پڑھ سکتا ہے۔ حدیث پڑھ سکتا ہے۔ دین کاعلم بڑھا سکتا ہے۔ دعائیں کر سکتا ہے۔ مکمل چوبیس گھنٹے اس کے پاس ہیں۔ اس کی توجہ ان دس دنوں میں روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر رہتی ہے اور یہ ایک زائد کام ہے جو وہ کر رہا ہوتا ہے۔ اور وہ جو لوگ افورڈ (afford) کر سکتے ہیں وہ اعتکاف بیٹھ سکتے ہیں بشرطیکہ مسجد میں بیٹھنے کی گنجائش بھی ہو۔ پس یہ سنت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اس سنت کی پیروی میں لوگ بیٹھتے ہیں۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیاکہ جہاد سے کیا مراد ہے؟حضور انور کے دریافت فرمانے پر بچے نے بتا یا کہ مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ غلط چیز ہے۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ایک پہلی بات یہ بتا دوں کہ جہاد یا جنگ جب بھی مسلمانوں نے کی ہے تو مسلمانوں نے کبھی پہل نہیں کی۔ ہمیشہ ان پر حملہ ہوا یا ان کو تنگ کیا گیا تو مسلمانوں نے جواب دیا۔ ایک جہاد سے، جنگ سے واپس آرہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آ رہے ہیں۔ اور بڑا جہاد یہ ہے کہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرو۔یعنی اپنے دل کی جو برائیاں ہیں ان کو دور کرو یہ بھی جہاد ہے۔ تبلیغ اسلام کرو یہ بھی جہاد ہے۔ قرآن کریم کے ذریعہ سے تبلیغ کرنا یہ بھی جہاد ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے قرآن کریم کے ذریعہ سے پیغام پہنچانا یہ بھی جہاد ہے۔ جہاد کو شش کرنے کوکہتے ہیں۔ کوئی بھی کوشش کسی کام کے کرنے کے لئے جو تم کرتے ہو وہ جہاد ہے۔ اور اگر تم اپنے نیک کام کرنے کے لئے کوشش کرتے ہوتو تم جہاد کر رہے ہو۔ تمہارے اندر کوئی برائیاں ہیں تو ان کو دور کرنے کے لئے تم کوشش کرو تو یہ تمہارا جہاد ہے۔ اگر تم تبلیغ کرتے ہواوریہاں جرمنوں کولٹریچر پمفلٹ تقسیم کرتے ہو تویہ بھی جہاد ہے۔
حضورا نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ تم پوری توجہ سے قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوتویہ بھی تمہارا علم بڑھانے کے لئے ایک جہاد ہے۔ تو صرف تلوار چلانا جہاد نہیں ہے۔ اس کو مسلمانوں نے غلط لے لیا ہے۔ یا مسلمانوں کی طرف منسوب کر دیا گیا۔ اور ویسے آجکل کے عمل تو مسلمانوں کے یہی ہیں۔ اس لئے میں نے اس پر کافی سارے لیکچر دئیے ہوئے ہیں۔ تم ابھی اتنے بڑے ہو گئے ہو۔ سولہ سترہ سال کے ہو تو میرے لیکچرپڑھ لو تمہیں جہاد کی سمجھ آ جائے گی۔
٭ ایک طالبعلم نے سوال کیاکہ جب اپنے آپ کو وقف کرنے کا وقت آتا ہے تووقف کرتے ہوئے اپنی پسند کی فیلڈ میں جاسکتے ہیں؟مثلااگر کسی نے پائلٹ بنناہے تو کیا وہ بن سکتا ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ وقف نو ہو آپ نے پائلٹ بننا ہے تو آپ پہلے پوچھیں کہ میری بہت زیادہ خواہش پائلٹ بننے کی ہے۔ میں صرف پائلٹ ہی بن سکتا ہوں کچھ اور نہیں بن سکتا۔ تو پھر آپ کو جماعت بتا دے گی یا خلیفہ وقت بتا دے گا کہ آپ پائلٹ بن سکتے ہیں کہ نہیں بن سکتے۔ اگر آپ کو اجازت مل جائے تو بن جائیں۔ یا پھر یہ ہے کہ آپ اجازت لے کے یہ کہہ دیں کہ میں وقف نو سے باہر نکلنا چاہتا ہوں۔ میرے اماں ابا نے تو مجھے وقف کیا تھا۔ اگر جماعت کو ضرورت نہیں تو میری دلچسپی یہ ہے۔ مجھے اجازت دی جائے کہ میں یہ کام کر لوں۔ پھر کسی وقت کسی اور طریقے سے میں جماعت کی خدمت کرلوں گا۔ لیکن اس وقت وقف نو کی فہرست میں سے مجھے کاٹ دیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: وقف نو کیلئے میں نے ہدایت دی ہوئی ہے کہ جماعت کی طرف سے گائیڈنس اور کونسلنگ پوری مکمل ہونی چاہئے۔ جن کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے وہ ڈاکٹرز ہیں ٹیچرز ہیں۔ ٹرانسلیشن کرنے والے ہیں۔ زبانوں کے ماہر ہیں۔ انجنیئرز ہیں، آرکیٹیکٹ ہیں اور بعض شعبہ ایسے ہیں بعض دفعہ وکیلوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔جو مختلفs skill ہیں اگر جوطلباء زیادہ نہ پڑھ سکیں تودوسرے مختلف فیلڈز میں بھی ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ پوچھ لو یا کچھ وقت کے لئے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں اچھا ہماری یہ دلچسپی ہے ہمیں کم از کم دو سال، چار سال، چھ سال اجازت دیں کہ ہم وہ کام کر لیں۔ تو ان کو اجازت مل جاتی ہے۔ لیکن وقف اصل یہی ہے کہ وہ چیز کرو جس کی جماعت کو ضرورت ہے۔
٭ ایک واقف نو نے سوال کیاکہ ہم کو فیس بُک (facebook) استعمال کرنے سے کیوں منع کر دیا گیاہے؟
اس پر حضورانو ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کوئی حرام نہیں قرار دیا گیا۔ بند اس لئے کیا ہے کہ اس میں بہت ساری برائیاں سامنے آ جاتی ہیں۔ تم لوگ ابھی بچے ہو چھوٹے ہو تم لوگوں کو پتا ہی نہیں لگتا کہ دوسرے لوگ تمہیں آہستہ آہستہ trap کر لیتے ہیں۔ اب جب تک تمہارا علم پورا نہ ہو جب تک تمہاری سوچ matureنہ ہو اس وقت تک تم استعمال نہ کرو۔ جماعت احمدیہ کا جو alislam.org ہے۔ اس میں فیس بُک بھی ہے۔ ہمارے پریس والوں نے ایک فیس بک بنائی ہوئی ہے۔ تم اس سے فائدہ اٹھائو۔ پرسنل فیس بک سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو پورا علم نہیں ہے بعض دفعہ تم لوگ غلط ہاتھوں میں ٹریپ ہو جاتے ہو۔ اب دنیا میں بہت سارے فیس بک اکاؤنٹ ہیں۔ دنیا کو بھی realize ہو رہا ہے ان کو اب سمجھ آ رہی ہے کہ فیس بک میں بعض دفعہ برائیاں زیادہ ہیں اس لئے امریکہ میں ہی گزشتہ دنوں میں قریباً کوئی چھ لاکھ اکاؤنٹس انہوں نے بند کر دئیے یہ کہہ کے کہ ہمیں فیس بک نے نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ان لوگوں کو سمجھ آ گئی ہے جو دنیادار ہیں تو ہم دینداروں کو زیادہ جلدی سمجھ آنی چاہئے۔ ہاں اگر تمہیں تبلیغ کے لئے کرنا ہے تو alislam والی فیس بک استعمال کرلو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں